حقوق نسواں

عابد محمود عزام  جمعرات 3 مارچ 2016

دنیا بھر میں عورت کے ساتھ ہونے والا برتاؤ مختلف معاشروں اورتہذیبوں میں ہمیشہ سے زیر بحث رہا ہے۔ دنیا کی نصف آبادی عورتوں پر مشتمل ہے، اس لیے انسانی زندگی کا دارومدار جتنا مردوں پر ہے، اتنا ہی عورتوں پر بھی ہے۔ عورت معاشرے کی بنیاد ہے، بنیاد جتنی مضبوط ہوگی، معاشرہ بھی اتنا ہی مضبوط و طاقتورہوگا۔کسی دانا کا کہنا ہے ’’اگرکسی معاشرے کا تجزیہ کرنا مقصود ہو تو اس معاشرے میں عورت کی سماجی حیثیت دیکھ لو۔‘‘یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ تمام تر اہمیت کے باوجود عورت کو وہ مقام و مرتبہ نہیں دیا گیا، جس کی وہ حق دار ہے۔ پوری دنیا میں عورتوں کا استحصال اور ان پر ظلم و تشدد کیا جاتا ہے۔

دنیا کی ہر تیسری عورت تشددکا شکار ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں عورتوں سے جنسی زیادتی کے ڈھائی لاکھ واقعات پیش آتے ہیں، ہر سال 40 لاکھ خواتین کو عصمت فروشی پر مجبورکیا جاتا ہے۔ جاگیردارانہ نظام میں خواتین کو وراثت کا حق دینے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ شادی بیاہ کے فیصلوں میں عموماً ان سے نہیں پوچھا جاتا۔ نام نہاد غیرت کے نام پر ہر سال ہزاروں خواتین کو موت کے گھاٹ اتاردیا جاتا ہے۔

کاروکاری، چھوٹی بچیوں کی بوڑھوں سے شادی، جائیداد خاندان سے باہر جانے کے خوف سے عورتوں کی شادی نہ کرنا، انھیں جائیداد کا حصہ نہ دینا، عورت کے چہرے پر تیزاب پھینکنا، بلاوجہ طلاق، شکوک و شبہات کی پاداش میں عورت کو قتل کردینا، جہیز نہ لانے یاکم جہیز لانے پر اسے ظلم کا نشانہ بنانا، چھوٹی چھوٹی رنجشوں یا غلطیوں پر عورتوں کی پٹائی کرنا اور جہالت پر مبنی اسی قسم کے بہت سے واقعات ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں، جو آج کے  ترقی یافتہ انسان کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ عورتوں کے ساتھ روا رکھا جانے والا یہ بھیانک رویہ نہ صرف انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں، بلکہ مذہب اسلام کی اصل روح ، روایات اور تعلیمات کے بھی سراسر خلاف ہے۔ ایسے مکروہ رویوں کو تعلیم کے فروغ کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔

عورت کی حیثیت واہمیت کے حوالے سے ہمارا معاشرہ دو طبقوں میں تقسیم ہے۔ اسلامی تعلیم سے محروم ایک طبقے نے عورت کو دوسرے درجے کے شہری جتنی حیثیت دی، جب کہ دوسرے طبقے کے نزدیک عورت کا آزادانہ اختلاط پر مبنی معاشرہ ہی اصل معیار ہے۔ دونوں طبقات کے نظریات عورت کے حقوق کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ایک طرف پسماندہ ممالک میںجاہلانہ رسوم و روایات اور مردانگی کے مخصوص منفی تصورات کی بنا پر عورتوں پر جسمانی و نفسیاتی تشدد عام ہے، جب کہ دوسری جانب خود کو انتہائی مہذب اور تعلیم یافتہ کہلانے والے مغربی معاشروں میں عورت کا استحصال اپنی بد ترین شکل میںموجود ہے۔

مغرب نے عورت کو مردانہ خواہشات پر مبنی معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا، جس کے بعد عورت کی حیثیت ’’ بازاری جنس‘‘ کی ہوکر رہ گئی ہے۔ عورت کے حوالے سے دونوں رویے افراط وتفریط کا شکار ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے معتدل نظریہ اسلام کا ہے۔ اسلام کی نظر میں مرد و زن برابر ہیں۔ البتہ جہاں ان دونوں صنفوں کے درمیان حیاتیاتی فرق ہے، وہاں دین نے دونوں کے درمیان انصاف کے ذریعے ان کے حقوق وفرائض کو متوازن کردیا ہے۔

علامہ محمد اقبال کہتے ہیں ’’عورت کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہیں، جو مرد کو حاصل ہیں، لیکن دونوں کا دائرہ عمل الگ الگ ہے دونوں اپنی اپنی استعداد کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون عمل کرکے تمدن کی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔‘‘ اسلام نے خواتین کو انتہائی زیادہ عزت بخشی ہے۔ فرمانِ نبوی ﷺ  کا مفہوم ہے ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ بھلا سلوک کرے ۔‘‘ اسلام کی نظر میں اگر عورت ماں ہے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے۔اگر بیٹی ہے تو اس کی بہترین پرورش کے عوض جنت کی بشارت ہے۔ اگر بہن ہے تو اس کے باعث صدقہ وجہاد کا ثواب حاصل ہوگا اور اگر بیوی ہے تو یہ شوہرکا لباس ہے۔

اسلام نے زندگی کے کسی موڑ پر بھی عورت کو تنہا نہیں چھوڑا، بلکہ قدم قدم پر اس کی حفاظت و عزت کا انتظام کیا ہے، جو لوگ عورت کو اس کا اصل مقام نہیں دیتے وہ اسلامی تعلیمات سے نابلد اور سراسر غلطی پر ہیں۔ عورت کو جو مقام اسلام نے دیا ہے، دنیا کے کسی معاشرے میں اس کی مثال نہیں ملتی، لیکن مغرب سے مرعوب بہت سے لوگ عورت کی حفاظت و عزت پر مبنی اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر عورت کے حوالے سے مغرب کی غیرمحفوظ ثقافت کے نفاذ کے لیے کوشاں ہیں، جو نہ صرف معاشرے کے لیے مضر ہے، بلکہ ان کے نفاذ سے خود مشرق کی عورت بھی مغرب کی عورت کی طرح غیر محفوظ ہوجائے گی۔

آج  مغرب میں ہمارے ہاں سے زیادہ عورت کا استحصال کیا جاتا ہے۔ یورپ میں عورت جتنی غیر محفوظ ہے، دنیا کے کسی معاشرے میں اتنی غیر محفوظ نہیں ہوگی۔ اپنی زندگی گزارنے کے لیے یورپ کی ساٹھ سے ستر فیصد عورتیں جسم فروشی کو اپنا ذریعہ معاش بناتی ہیں۔ امریکا میں خواتین کے حقوق اور انسانی حقوق کی کوئی تنظیم ایسی نہیں جس کی رپورٹوں کے مطابق ہر سال 60 سے 70 فیصد خواتین اپنے باس یا سینئر کے ہاتھوں جنسی بلیک میلنگ اور بعض اوقات جنسی تشدد کا شکار نہیں ہوتیں۔ ہمارے معاشرے میں اگرچہ کئی حوالوں سے عورت کا استحصال کیا جاتا ہے، لیکن مغرب کے مقابلے میں یہاں کی عورت کئی درجے زیادہ محفوظ ہے۔ بحیثیت مجموعی یورپ کی عورت اور پاکستان کی عورت کے سماجی کردار میں واضح فرق پایا جاتاہے۔

پاکستانی عورت کو مغرب کی ڈگر پر چلانے کی کوشش کرنا سراسر ناانصافی ہے۔ عورت کو آزاد نہیں، محفوظ بنانے کی فکر کرنی چاہیے۔  جو لوگ آزادی کے پردے میں عائلی زندگی میں مغرب کی تقلید کے حامی ہیں، وہ سراسر غلطی پر ہیں، کیونکہ جس طرح یورپی اور پاکستانی طرزِ معاشرت ، فکر و نفسیات میں زمین وآسمان کا فرق ہے، اسی طرح ہر معاشرے کے اپنے طورطریقے ، نظامِ حیات اور سماجی رحجانات ہوتے ہیں۔

اس لیے اگر مشرقی معاشرے میں مغربی معاشرے کی طرزکے قوانین بنائے جائیں گے تو اس سے خاندان سنوریں گے نہیں، بلکہ اسی طرح بگڑیں گے، جس طرح یورپ میں بگڑ چکے ہیں۔ یورپ میں مادر پدر آزادی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکا میں طلاق کی شرح 53 فیصد، اسپین، پرتگال اور ہنگری جیسے یورپی ممالک میں ساٹھ فیصد ہے۔ وہاں خاندانی نظام تباہ ہوچکے ہیں۔ یورپ کی ترقی تو قابل تقلید ہے، لیکن عائلی زندگی قابل تقلید نہیں ہے، بلکہ عائلی زندگی کے حوالے سے بحیثیتِ مجموعی پاکستان مغرب سے بدرجہا بہتر ہے۔

عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے لیے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہیں۔

دونوں ایک گاڑی کے دو پیہوں کی مانند ہیں، دونوں کو زندگی کا سفر بالکل متوازی انداز میں کرنا ہوتا ہے، اگر ان میں سے کسی ایک بھی پیہے میں خرابی پیدا ہوجائے تو زندگی کی یہ گاڑی نہیں چل سکتی۔ اسلام نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ اپنے معاملات کو سلجھانے کی  دونوں خودکوشش کریں۔ اگر ضرورت پڑے تو اپنے معاملے کو تیسرے سمجھدار، معاملہ فہم اور خیرخواہ فریق کے پاس بھی لے جایا جاسکتا ہے، تاکہ عائلی زندگی بگاڑ سے محفوظ رہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ملک میں مردوزن کے حقوق و فرائض کے حوالے سے اسلامی تعلیمات سے آگہی و شعور کو فروغ دے، تاکہ معاشرہ میاں بیوی فریق کے بجائے رفیق بن کر زندگی گزار سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔