کمال ہے

جاوید قاضی  ہفتہ 5 مارچ 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

خیر سے مصطفیٰ کمال آ ہی گئے۔ شہر میں ہر شخص کی زباں پر ان کا ہی چرچا تھا، مگر کیا ہوا، جس نے بھٹو کو چھوڑا وہ ان کا نعم البدل نہ بن سکا اور جو الطاف حسین سے گیا وہ کوچہ و بازار سے گیا۔ الطاف حسین مگر فانی ہے، اس کے وارث بھٹوؤں کی طرح اولاد یا موروثی نہیں تو بالآخر کون بیٹھے گا تخت پر یا پھرتختہ دار پر،کون ہے پیر سائیں کا جانشیں؟ کیونکہ آپ کے چلن وکاروبار کے حساب موروثی طرزکے تھے۔ جمہوریت نام کی کوئی چیزان کی پارٹی میں نہ تھی۔

’’جو قائدکا غدار تھا وہ موت کا حقدار تھا۔‘‘ شہر ماتم کدہ تھا، بوریوں سے بھری لاشیں ملتی تھیں۔بالآخر خبر نے ترقی پا کے درجہ حرارت کی طرح کچھ اس طرح سے بناوٹ بنائی کہ ’’آج شہر قائد میں پندرہ لاشیں گریں۔‘‘ کون سا قائد؟ قائداعظم یا قائد تحریک، قائد ملت یا قائد عوام؟ قائد تو شہر کے بہت تھے مگر شہر قاعدے پر نہ تھا۔ جو آیا سیاست میں اس کے لیے کلاشنکوف رکھنا لازم تھا۔کٹی پہاڑی سے لے کر لیاری تک، کورنگی ہو یا اورنگی ہو، لیاقت آباد ہو یا قائد آباد ہو۔شہر میں ہوکا عالم تھا یا دیوکا سایہ تھا۔

اور ادھرتھے ارباب رحیم یا قائم علی شاہ ، مال بناؤ، جان بناؤ، لوٹوکھسوٹو یہ لو وہ دو۔ بھتہ خوری سے لے کر اغوا برائے تاوان اور اس میں کوئی اور نہیں خود وہ ادارہ بھی ملوث جس کا کام اغوا کی خبر رکھنا اور شہریوں کی طرف سے پولیس سے رابطے میں رہنا تھا۔ کئی پولیس والے معتوب ٹھہرے۔

مگر شہر چلتا رہا، اس میں اتنی طاقت تھی کہ پورے پاکستان کو اپنے وجود پہ پالتا رہا۔ سب کے لیے دروازے کھول کے رکھے، ساؤتھ ایشیا کا واحد شہر جس میں جتنی زبانوں کے لوگ رہتے ہیں کہ شاید کسی اور شہر میں رہتے ہوں گے اور پھر مذہبی تضادات سے بھی گھرا ہوا، مدرسے حرکت میں آگئے،عربوں سے فنڈز نے اپنا کام کردکھایا، القاعدہ، داعش، لشکر جھنگوی غرض یہ کہ طرح طرح کے نشتر تھے پھر بھی شہر چلتا رہا۔ جو بات خوب کہی اور سمجھنے کی تھی وہ تھی  رحمان ملک کی،  الطاف حسین سے گہری یاری اور آصف زرداری کے وہ ترجمان تھے۔

یہی رحمان ملک جن کی وجہ سے مرزا ذوالفقار اپنے بچپن کے یار آصف زرداری کو چھوڑ بیٹھے کہ اوپر وزیر داخلہ رحمان ملک تھے تو نیچے وزیرداخلہ ذوالفقار مرزا تھے۔ رحمان ملک متحدہ کے سارے کام ہونے دیتے تھے اور اس طرح سے وہ مضبوط متحدہ پیپلز پارٹی کی حکومت کوکراچی میں چلنے دیتی تھی۔

اور پھر لوکل باڈیز حکومت ختم ہوئی، صرف گورنر کے ذریعے وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرپاتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ جنرل شجاع پاشا آئے، مرزا نے اپنی آواز سے پہرے ہٹا دیے، اس سے پہلے ڈاکٹر عمران فاروق کا لندن جیسے شہر میں قتل، کرتے کرتے پوری سلطنت عالیہ الطاف بھائی کی ہل گئی۔ جنھوں نے بنایا انھوں نے برباد بھی کیا اورآپ چلے دنیا میں یہ باورکرانے کہ کراچی ان کی مٹھی میں ہے پاکستان ناکام ریاست ہے اس لیے مجھ سے بات چیت رکھی جائے۔

برطانیہ کے خفیہ ادارے ہوں یا امریکا کے یا خود ’ را‘  ہو یا موساد ہو، خود ہمارے خفیہ ادارے ہوں سب سے ان کی علیک سلیک تھی۔لیکن یہ بات کا ہوا ایک زاویہ۔  آپ کے پاس کچھ بھی ہو کراچی کی اکثریت کا مینڈیٹ ہے وہ مینڈیٹ جس پر عمران خان 2013 کے انتخابات میں ڈینٹ مارنے میں کامیاب تو ہو گئے مگر ڈینٹ کا اثر زائل ہوا ، مستقل مزاجی رکھ نہ پائے اور پیچھے بلدیہ چناؤ میں اتنی کامیابی حاصل نہ کرپائے۔

تو کیا یہ خلا مصطفیٰ کمال بھر پائیں گے؟ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے کہ مصطفی کمال کراچی کے شہریوں کے دل میں جگہ کرپائیں گے۔ یہ بھی سننے میں آرہا ہے کہ ان کے پیچھے سندھ کے گورنر ہیں اور ان کے پیچھے جنرل مشرف ہیں۔ مجھے نہیں لگتا وہ پھر بھی اہل کراچی یا مہاجروں کے دلوں پر راج کرسکیں گے۔

متحدہ ایک خاص زماں و مکاں میں ابھری جب پورے سندھ میں بے نظیرکا سکہ چلتا تھا۔ حیدرآباد میں 30 ستمبر کا واقعہ کرایا گیا،کراچی میں سندھی مہاجر فسادات برپا ہوئے اور اس طرح دیہی سندھ و شہری سندھ کا تضاد تیز ہوا کہ جمہوری قوتوں کو کمزورکیا جائے اور خود سندھ کبھی بھی اپنی  ایک رائے  سے حقوق کا تحفظ نہ کرسکا۔ وہ چاہے کالا باغ ڈیم ہو این ایف سی میں حصہ ہو یا شفاف مردم شماری ہو۔

ستر سال ہوگئے اب بھی میرے یہ بھائی اپنے آپ کو مہاجر سمجھتے ہیں۔ وہ سندھ یا سندھ کا حصہ نہ بن سکے اور اس ساز میں اور نکھار ڈالنے آئے ہیں مصطفی کمال۔ آپ نئے صوبوں کی بات کرتے ہیں۔ آپ پھر اچانک پاکستان کا جھنڈا اٹھا کے کہتے ہیں کہ آپ کی پارٹی پاکستان ہے آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔

آپ یہ بھی تو ہمیں بتائیں کہ  ناظم شہرکراچی کیسے بنے؟ جہاں تک مجھے علم ہے تو جوالطاف حسین کی تائید حاصل کرلیے، یہ مقام اسے تب ہی ملتا ہے۔ میرے حساب سے اب بہت ہو گیا، آپ سندھ کے مجموعی دھارے پر آہی جائیں اور سندھ کے مجموعی مظلوموں کی قیادت کریں ان کو وڈیرا شاہی کے طوق سے آزاد کرائیں نہ کہ انھیں وڈیروں سے حکومت میں حصہ لیں اورکراچی میں سب رہنے والوں کی قیادت کریں۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے اندر سب سے زیادہ اگرکہیں شناخت کا بحران ہے تو وہ مہاجروں میں ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈیموگرافی اگر کسی شہرکی تبدیل بھی ہوئی ہے تو وہ کراچی کی ہوئی ہے۔ضرورت اب اس بات کی ہے کہ کراچی والوں کو اپنے آپ کو سندھ کی تاریخ سے جوڑنا ہوگا، اس کی تہذیب و تمدن میں وراثت پیدا کرنی ہوگی۔ یہ ہے وہ سندھ جس نے سب کو اپنی آغوش میں لیا جب دوسروں  نے ان کا اس طرح استقبال نہیں کیا۔ کب تک آپ اپنے آپ کو لکھنوکے دلی کے دکن کے راجاؤں و مہاراجاؤں سے جوڑ کے رکھیں گے اور بھٹائی کو پہچاننے سے انکارکریں گے۔

میری ان سندھیوں کے لیے بھی عرض ہے کہ یہ پاکستان ہمارا دیس ہے اور یہ آئین ہمیں اس پاکستان میں بہت تحفظ دیتا ہے، اتنا وفاق پرست آئین تو خود ہندوستان کا بھی نہیں۔ ہمیں اس پاکستان میں رہنا ہے اور یہی ہمارا اوڑھنا اور بچھونا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کوکبھی چلنے نہیں دیا گیا۔ آئیے ہم سب پاکستان کو صحیح معنی میں پاکستان بنائیں۔ انصاف بھرا پاکستان، تمہارا اورمیرا… سب کا پاکستان۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔