نیب کے پر کاٹنے سے بہتر ہے اسے ختم ہی کر دیا جائے

رحمت علی رازی  اتوار 6 مارچ 2016

ہمارا اس بار نیب کے حوالے سے لکھنے ارادہ ہرگز نہیں تھا لیکن وزیر اعظم کی جانب سے نیب کو دی جانیوالی دھمکی نے ہمیں اس موضوع کا انتخاب کرنے پر مجبور کر دیا۔ آیندہ کالم میں ہماری کوشش ہو گی کہ نیب کو خود مختار اور مثالی ادارہ بنانے کے لیے ایسی ٹھوس اور قابلِ عمل تجاویز دیں جن پر عمل پیرا ہو کر نیب ایک قابلِ فخر ادارہ بن جائے اور کسی کو بھی اس پر تحفظات ظاہر کرنے کا موقع نہ مل سکے۔

پاکستان ہفت اقلیم کا واحد ملک ہے جہاں روئے زمین پر پائی جانیوالی ہر قبیح برائی کی مادر پدر آزادی ہے۔ ہم لوٹ مار کو متاعِ فخر سمجھتے ہیں اور احتساب کو گالی۔ ہمارا حکمران طبقہ اپنے حریفوں کا احتساب تو قانونی حق سمجھتا ہے اور جب احتساب کا بیل ان خود کو ٹکر مارنے کے لیے دوڑتا ہے تو وہ اس کا سر کاٹنے کے لیے تیز دھار آلے نکال لیتے ہیں۔ ان دنوں وزیراعظم کے قومی احتساب بیورو سے متعلق داغے گئے سلبی بیان پردیسی بدیسی میڈیا میں اخیر کا چرچا ہے۔

انھوں نے بہاولپور میں ایک عوامی اجتماع میں نیب کو ہدف ِتنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’یہ معصوم اور بیگناہ لوگوں کے گھروں اور دفتروں میں گھس کر انھیں ہراساں کرتے ہیں‘‘۔ حکمران جماعت کی طرف سے نیب کے خلاف اس طرح کے جذبات کا اظہار کوئی نئی بات نہیں، لیکن اس مرتبہ وزیر اعظم نے اس احتسابی ادارے کے خلاف قانونی اور آئینی اقدامات کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ یہ ساری کہانی صرف اتنی سی ہے کہ نیب نے ایک ممتاز بینکر اور صنعتکار سے غلطی سے لندن میں سرمائے کی منتقلی اور دیگر کاروبار کے مالی ذرائع کی بابت چند سوالات کر ڈالے تھے ۔

جس پر انھوں نے وزیر اعظم پاکستان کو ایک ہلکی پھلکی شکایت کی تھی‘ اس کے علاوہ بھی بڑے صنعتکاروں اور تاجروں نے وزیراعظم سے شکایت کی کہ نیب ان کو ہراساں کر رہا ہے اور وہ اپنا سرمایہ پاکستان سے باہر لے جانے پر غور کر رہے ہیں۔ آئیسکو کے کچھ ’’خاص‘‘ افسروں کی گریہ زاری اس کے سوا ہے۔

ان شکایات کے بعد وزیراعظم کا فرض تھا کہ وہ میڈیا پر بات کرنے کی بجائے چیئرمین نیب کے نام خط لکھ کر تاجروں اور صنعتکاروں کے تحفظات سے آگاہ کرتے تا کہ ان کو میڈیا اور سیاسی جماعتوں کے ردعمل کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم نے 5 جون 2013ء سے آج تک نیب سے آنکھیں کیوں بند رکھیں؟ نیب نے وزیراعظم کے بیان پر قدرے نرم ردعمل کا اظہار کیا ہے‘ البتہ چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان نے یہ عزم دہرایا ہے کہ احتساب بلاامتیاز جاری رہیگا۔ چیئرمین نیب کو آئینی تحفظ حاصل ہے‘ وہ اگر کرپشن کے خاتمے کے لیے ڈٹے رہیں تو حکمران اشرافیہ ان کا بال بیکا نہیں کر سکتی کیونکہ پاکستان کے عوام، عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی تمام ہمدردیاں نیب کے ساتھ ہیں۔

چیئرمین نیب کے عہدے کی مدت چار سال ہے‘ انھیں وقت سے پہلے وزیراعظم نہیں، صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی ہٹا سکتی ہے۔ نیب کے معاملے میں قانونی طور پر وزیر اعظم بے بس اور بے اختیار ہیں۔ شریف حکومت اختیارات کے معاملے میں اپنے ہاتھ باندھنے کے لیے تیار نہیں، ان کے ذہن میں بادشاہت کا خمار سمایا ہوا ہے‘ وہ پبلک سیکٹر اداروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اپنے من پسند افراد بٹھانا چاہتے ہیں۔ خادمِ اعلیٰ پنجاب ہر آئے روز سینہ ٹھوک کر کہتے ہیں کہ ایک پائی کی کرپشن ثابت ہو جائے تو سزا بھگتنے کو تیار ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ رشوت، کمیشن، بھتے ٹی وی چینلوں کو بلا کر نہیں لیے جاتے۔ افسر چھوٹا ہو یا بڑا‘ کارِ خاص کے بغیر نہیں چل سکتا۔ ٹھیکے، ٹینڈر کتنے ہی شفاف اور آن لائن ہو جائیں، رشوت پکڑی نہیں جا سکتی۔

ٹھیکیداروں کو چیکوں کی ادائیگی بعد میں ہوتی ہے، بھتہ پہلے وصول کیا جاتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ چاروں وزرائے اعلیٰ اور وزیر اعظم نیب سے بیزار دکھائی دے رہے ہیں یا نیب کی انگڑائی نے ان کی نیند میں خلل ڈال دیا ہے۔ اس وقت تحریک انصاف، مسلم لیگ ( ن) اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں نیب کے خلاف اپنے اپنے انداز میں شکوہ کناں نظر آتی ہیں‘ اس کے باوصف معاشرے کے ہر طبقۂ فکر میں اصحابِ طراز کا خیال ہے کہ محکموں، اداروں، افسروں اور اہلکاروں کو بے قاعدگی کی راہ پر چلنے سے روکنے کے لیے کوئی نہ کوئی موثر ادارہ ضرور ہونا چاہیے لیکن اس سے انتقام کی بو نہیں آنی چاہیے اور سیاستدانوں، دانشوروں اور اقتصادیات و سماجیات کے ماہرین کو مل بیٹھ کر اس نوع کے تمام امور کا جائزہ لینا اور ایسا مؤثر طریقہ کار وضع کرنا چاہیے جسے ایک طرف عوام کا بھرپور اعتماد حاصل ہو تو دوسری جانب یہ تاثر ختم ہو کہ ملک میں بدعنوانی کے باوجود بدعنوان عناصر احتساب سے بچے رہتے ہیں۔

مگر نیب کے خوابِ خرگوش سے جاگنے کے بعد ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اب قانون کے ہاتھ ایسی شخصیات کی طرف بھی بڑھنا شروع ہو گئے ہیں جن کا تعلق ایسے شعبوں سے ہے جنھیں ماضی میں نوگوایریاز سمجھا جاتا تھا۔ مبصرین کے مطابق پاکستانی معاشرے میں تمام شہریوں کے لیے قانون کے یکساں نفاذ کا سفر سست ہونے کے باوجود ایک منصفانہ معاشرے کے قیام کی طرف پیشرفت کا آغاز ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ ماضی میں پاک فوج کے کسی سربراہ کے خلاف کارروائی کا تصور کرنا بھی مشکل دکھائی دیتا تھا لیکن اب تو سابق آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی کے بھائی کو بھی ڈی ایچ اے کے ایک منصوبے میں بے ضابطگیوں کے ضمن میں تحقیقات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

اس سے پہلے سابق نیول چیف ایڈ مرل (ر) منصورالحق کو کرپشن کے الزامات میں سول قوانین کے تحت سزا دی جا چکی ہے۔ ایک تازہ واقعے میں سابق کورکمانڈر، سابق چیئرمین واپڈا اور سابق چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ لیفٹیننٹ جنرل (ر) زاہد علی اکبر نے اپنی کرپشن کا اقرارِ جرم کر کے قومی احتساب بیورو کو 20 کروڑ روپے واپس لوٹائے ہیں۔ احتساب کا یہ سلسلہ صرف ایک شعبے تک محدود نہیں ہے‘ قومی احتساب بیورو کئی سابق اور موجودہ وفاقی اور صوبائی وزراء کے خلاف بھی کرپشن کے جرم میں تحقیقات کر رہا ہے۔ قانون شکنی کے مرتکب ہونیوالے ایسے بااثر افراد کی فہرست کافی طویل ہے جنھیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کے لیے دباؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ معاشرے میں مقدس گائے کہلائی جانیوالی شخصیات کے خلاف بھی کارروائی کا آغاز انگڑائیاں لے رہا ہے۔ پاکستان میں امیر اور غریب کے لیے قانون کا نفاذ یکساں نہیں ہے‘ ہمارے معاشرے میں قانون کی حقیقی حکمرانی کو یقینی بنانے میں ابھی بہت وقت لگے گا۔ طاقتور اداروں نے اپنے احتساب کے لیے اپنے اپنے نظام بنا رکھے ہیں لیکن بیچارے پاکستانی سیاستدانوں کی حالت غریب کی جورو کی طرح کی ہے، جس کا احتساب ہر کوئی کر سکتا ہے۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ احتساب کے قوانین میں ترمیم اس وقت تک نہیں ہونی چاہیے جب تک عوام، وکلاء، صحافی جامع اور ٹھوس قابلِ عمل تجاویز نہ دیں اور جب تک ان تجاویز کی منظوری عدالت ِ عظمیٰ سے نہ لے لی جائے۔

دوسرا ان ترامیم کا مقصد صرف اور صرف یہ ہونا چاہیے کہ جو بھی نیب کے قوانین میں خامیاں ہیں، ان کو دُور کیا جائے اور نیب ایسا طاقتور ادارہ بن جائے کہ حکمران اس میں کسی قسم کی مداخلت کی جرأت نہ کر سکیں۔ ان ترامیم سے کسی کو تحفظ دینے کا تاثر اُجاگر نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے سخت قواعد و ضوابط وضع ہونے چاہئیں۔

جن سے یہ طے ہو کہ کن حالات میں کسی شخص کے خلاف کارروائی شروع کی جانی چاہیے۔ کرنے کو تو احتساب کی بات سب سیاسی پارٹیاں نیم دِلی کے ساتھ گاہے بہ گاہے کرتی رہتی ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ نیک نیتی سے کوئی جماعت بھی احتساب کے حق میں نہیں ہے۔ کچھ عرصہ قبل پیپلزپارٹی کی جانب سے نیب اور ایف آئی اے کی کارروائیوں پر بہت زیادہ واویلا کیا گیا تھا۔ دو ہفتے قبل وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی منظوری سے احتساب کے صوبائی ادارے کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) حامد خان کے اختیارات میں کمی لا کر انھیں گھر کی راہ دکھائی۔

نواز شریف نے بھی پی آئی اے کی ہڑتال کے وقت اور اب نیب کے خلاف جو باتیں کیں وہ ان کے اپنے اندازِ بیاں کے خلاف نظر آئیں، عام طور پر نواز شریف اس لہجہ میں بات نہیں کرتے لیکن پی آئی اے کی ہڑتال اور نیب کے حوالے سے ان کی طرف سے سخت لہجہ میں بات کی گئی۔ نواز شریف کی نیب سے ناراضی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پنجاب میں بہت سے پراجیکٹ چل رہے ہیں اور کافی نئے پراجیکٹس لگائے جا رہے ہیں۔

حکمرانوں کو ان منصوبوں میں نیب کی طرف سے ٹھوس شواہد کی بناء پر مداخلت کا خدشہ نظر آ رہا ہے۔ تماشہ یہ ہے کہ جب پیپلز پارٹی کے لوگوں پر ہاتھ پڑتا ہے تو وہ چیخیں مارتے ہیں اور جب مسلم لیگ (ن) کے بیوروکریٹس پر ہاتھ پڑتا ہے تو وہ آہ و بکا شروع کر دیتے ہیں۔ شریف برادران اور آصف زرداری پر الزامات کی بارش تو شروع دن سے رہی ہے لیکن یہ بارش انھیں کبھی گیلا نہ کر سکی۔ زرداری صدرِ مملکت بن گئے‘ شریف برادران پر بھی قدرت ہمیشہ مہربان دکھائی دی اور تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا تاج نواز شریف ہی پہن سکے ہیں۔ شہباز شریف نے بھی گورنر سندھ عشرت العباد کی طرح حکمرانی کی مدت کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔

نیب میں شریف خاندان کے زیرالتوا سنگین کیسز بھی موجود ہیں جنھیں ’’نادیدہ قوتیں‘‘ زندہ کرنے پر زور دے رہی ہیں‘ ادھر حکومت نیب کے قانون میں تبدیلی کر کے اسے ایک بے بس، لاغر، لاچار اور لاوارث ادارہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ کرپشن روکنے کے لیے پہلے بھی بیشمار قوانین بنائے گئے لیکن کرپشن پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی طرف سے نیب پر تنقید کی گئی ہو، کچھ عرصہ قبل وزیراطلاعات پرویز رشید اس وقت نیب پر گرجے تھے جب نیب کی طرف سے شریف فیملی کے خلاف مقدمات دوبارہ کھولنے کی خبریں آئی تھیں۔

سابق صدر پرویز مشرف کے زمانے میں وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے خلاف کرپشن کی تحقیقات شروع کی گئی تھیں، لیکن اب تک اس کا کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا، فیصلہ کرنے کے لیے اب ایک نئی تاریخ 31 مارچ 2016ء مقرر کی گئی ہے۔ شریف برادران کے علاوہ کرپشن کے بڑے کیسوں میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا نام بھی سامنے آیا تھا، نیب نے ان کے مقدمات نمٹانے کے لیے بھی ڈیڈلائن 29 فروری 2016ء مقرر کی تھی، جو گزر چکی ہے۔

اسحاق ڈار پر اختیارات کے ناجائز استعمال اور وسائل سے زیادہ اثاثے رکھنے کا الزام ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ فہرست پیش کیے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور نیب کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ 7 جولائی 2015ء کو نیب نے ملک میں بدعنوانی کے زیرتفتیش 150 مقدمات کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کروائی جسکے مطابق وزیراعظم نواز شریف سمیت چار سابق وزرائے اعظم کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ماضی میں شروع کی جانے والی تفتیش مختلف مراحل میں ہے۔ نیب کی طرف سے پنجاب کے حکمرانوں کے خلاف انکوائری بھی وزیر اعظم کی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے اور لگتا ہے کہ اس مرتبہ نیب کا پاوں شیر کی دُم پر پڑ گیا ہے۔

جب ایم کیو ایم کا احتساب ہو رہا تھا، اس وقت آصف علی زرداری خاموش رہے اور الطاف حسین تنہا ریاستی اداروں کو دھمکیاں دیتے رہے۔ پیپلز پارٹی نیب اور ایف آئی اے کے خلاف کافی عرصہ سے صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے‘ اس کے نزدیک ان دونوں اداروں کا ہدف پی پی پی ہے۔ پیپلز پارٹی کے احتجاج پر ن لیگ نے کان بند کیے رکھے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے مابین میثاق جمہوریت کا اہم نکتہ نیب کی اصلاح کرنا تھا لیکن اپنے اپنے ادوار حکومت میں دونوں جماعتیں اتنی مگن ہوئیں کہ میثاق جمہوریت کو بھول ہی گئیں‘ اب دونوں کو شامت آتی دکھائی دے رہی ہے تو پھر ہم نوائی کرنے لگی ہیں۔

عمران خان خیبرپختونخوا میں غیر جانبدار احتساب کمیشن بنانے اور شفاف احتساب کرانے کے بلند و بانگ دعوے کرتے رہے مگر اقتدار کی مصلحتوں نے خیبرپختونخوا حکومت کو احتساب کمیشن کو ’’کنٹرول‘‘ کرنے پر مجبور کر دیا۔ الطاف حسین، آصف زرداری اور اب نواز شریف کے بیانات کے بعد یہ حقیقت ایک بار پھر درست ثابت ہوئی ہے کہ پاکستان کے سیاستدان اور بیوروکریٹس صاف اور شفاف احتساب کے لیے تیار نہیں ہیں اور وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے بقول جب کرپٹ عناصر کی دم پر پاؤں رکھا جاتا ہے تو وہ چیخیں مارتے ہیں۔

آج جو صورتحال ہے اس میں تمام جماعتیں نیب سے نالاں نظر آتی ہیں، ان کا خیال ہے کہ یا تو نیب نے اپنے آپ کو درست ٹریک پر ڈال لیا ہے یا اس کی ڈوریں ’’مہربانوں‘‘ کی طرف سے ہلائی جا رہی ہیں۔ سیاستدانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے خلاف نیب کے متحرک ہونے کے پیچھے ’’نادیدہ طاقتوں‘‘ کا ہاتھ ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ نیب میں چیئرمین سمیت جو بھی اعلیٰ افسر تعینات ہیں ان میں سے اکثریت کی شہرت غیرمعمولی مثالی سمجھتی جاتی ہے اور ان میں بعض اعلیٰ افسروں کی غیرمعمولی کارکردگی کو عوام نے برملا سراہا ہے لیکن نیب میں کئی ایسے اعلیٰ افسر بھی موجود ہیں جنھیں سابق وزیراعظم نے زبردستی تعینات کروایا تھا تا کہ وہ مستقبل میں پیش آنیوالی مشکلات کے حل میں ان کی مدد کر سکیں‘ دلچسپ اور حیران کن بات تو یہ ہے کہ طاقتور میرٹ پر تعینات ہونے والے ان افسروں کو تمام تر کوششوں کے باوجود نیب سے ہٹایا نہیں جا سکا۔

اس کے علاوہ نیب کے بعض اعلیٰ افسران کے پاس تفتیش کا تجربہ تک نہیں ہے‘ جس کی وجہ سے جونیئر افسران ان کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی من مانی کرتے ہیں اور ایسی ناقص تفتیش کر جاتے ہیں جسکا فائدہ ملزمان کو ہی ملتا ہے۔ چیئرمین نیب کو وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے باہمی مشاورت کے ساتھ عہدے پر مقرر کیا تھا‘ جنھوں نے اب غیرمعمولی کردار ادا کرنا شروع کیا ہے تو سیاستدانوں کی طرف سے نیب پر تنقید کے دھارے اُبل پڑے ہیں۔

ابتدائی طو ر پر جب نیب نے سندھ میں کرپشن کی روک تھام کے لیے زبردست کارروائی کی تو سب سے پہلے پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس پر نقد و نذر کی تھی۔ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں نے مرکز میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو قصور وار قرار دیا کہ اس کی ایما پر نیب نے پیپلزپارٹی کی قیادت کے خلاف کارروائی شروع کی ہے لیکن حالیہ ہفتوں کے دوران مسلم لیگ (ن) نے بھی نیب پر اس وقت تنقید شروع کر دی جب نیب نے نواز لیگ کے رہنماؤں کے کرپشن کیسز دیکھنا شروع کیے اور بلاتفریق ڈی ایچ اے کیس میں نیب نے ملٹری حکام کو بھی گرفتار کیا ہے اور ساتھ ہی ایک ریٹائرڈ جرنیل اور سابق واپڈا چیئرمین کے خلاف بھی کارروائی کی ہے۔

اس سے اس تاثر نے تقویت پکڑی ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ عسکری قیادت، اعلیٰ عدلیہ اور سول سوسائٹی اب شدت سے چاہتی ہے کہ آئین اور قانون کے مطابق احتساب کے عمل کو تیز کیا جائے کیونکہ اگر فوج کرپشن پر خاموش تماشائی بنی رہی تو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عوام کے ساتھ افواجِ پاکستان کے ہزاروں جوانوں اور افسروں نے اپنی جانوں کی جو قربانی دی ہے وہ سب ضایع ہو جائے گی اس لیے ’’احتساب سب کا‘‘ کے نعرے سے رائے عامہ ہموار ہو سکتی ہے، عوام ہی ایسی بھرپور مہم چلائیں کہ احتساب سے کوئی بھی نہ بچ سکے، اگر حکومتی عہدیداروں کے خلاف کرپشن کا الزام ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ باعزت طریقے سے اپنے عہدے چھوڑ دیں اور اپنے آپ کو نیب سے کلیئر کروائیں وگرنہ عوام اب حکمرانوں اور ان کے حواریوں کو معاف کرنے پر تیار نظر نہیں آتے اس لیے حکمرانوں کو ہمارا مخلصانہ مشورہ ہے کہ انھیں بھی خود ہی احتساب کے لیے پیش ہو جانا چاہیے۔

اس سے ان کی ساکھ بہتر ہو سکتی ہے۔ ایک طرف جہاں میڈیا میں غوغا پیٹا جا رہا ہے کہ اگر سیاستدانوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو پھر صحافیوں، ججوں اور سابق جرنیلوں کا احتساب بھی مساوی بنیادوں پر ہونا چاہیے لیکن دوسری طرف جنرل مرزا اسلم بیگ کا کہنا ہے کہ کئی برسوں سے سینئر فوجی آفیسروں کا احتساب ہو رہا ہے تو اقتدار میں موجود سیاستدانوں کا کیوں نہیں ہو سکتا؟ ہم کہتے ہیں کہ احتساب تو اب سب کا ہو گا اور بلاتفریق ہو گا‘ کرپشن بھی دہشت گردی کی ایک شکل ہے اور ’’مہربانوں‘‘ نے اب یہ سوچ لیا ہے کہ ملک سے دہشت گردوں کا صفایا کرنے کے ساتھ ہی لگے ہاتھوں وطنِ عزیز کی باقی گندگیاں بھی صاف کر دی جائیں، تبھی فوج سرخرو ہو کر بیرکوں میں واپس جا سکتی ہے۔

کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ہمارے یہاں انقلاب آئیگا تو تبدیلی آئیگی لیکن اگر ہمارے یہاں انقلاب آیا تو ہو سکتا ہے ہم پاکستانی ایک قوم بن جائیں۔ کل تک حکومتی ارکان یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ حکومت اور فوج ایک پیچ پر ہیں، لیکن آج نظر آ رہا ہے کہ احتساب کے معاملے پر شاید دونوں کے صفحے بدل گئے ہیں اور حکومت میں خوف اور بے اعتمادی پیدا ہوئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کرپشن میں ملوث اشرافیہ یہ سمجھتی ہے کہ ان پر ملک کا قانون لاگو نہیں ہوتا کیونکہ ماضی میں ایسا ہوتا آیا ہے، اس کی مثال یہ ہے کہ چند ماہ پہلے آصف زرداری اس لیے ناراض ہوئے کہ ان کے معتمد لوگوں پر ہاتھ ڈالا گیا۔

اس پر انھوں نے فوج کو للکارا اور جب فوج نے للکارا تو وہ ملک سے فرار ہو گئے۔ اسی طرح جب میاں نوازشریف کی طرف اشارہ ہوا تو یہ کہا جانے لگا کہ ’’یہ عجیب بات ہے کہ عوام حکومت کو منتخب کرتے ہیں اور کوئی مطلق العنان شخص اسے چلتا کر دیتا ہے‘‘۔ لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ مخالفین کے احتساب پر زور دینے والی جماعتوں کی جب خود باری آنے لگتی ہے تو وہ نیب کے پر کاٹنے کی باتیں کرنے لگتی ہیں۔ احتساب کا پرندہ ن لیگ کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے اب تک سندھ اور خیبرپختونخوا کے آسمانوں پر پرواز کرتا رہا۔ احتساب پرندے نے پنجاب کی حدود میں اڑنے کی کوشش کی تو وزیر اعظم اسے تیر کمان دکھانے لگے۔ حکومتی اداروں میں کرپشن اور اقربا پروری کوئی نئی بات نہیں‘ ہر صاحب ِ اختیار ممکنہ حد تک اختیارات کا استعمال کرتا‘ فائدے سمیٹتا اور فائدے پہنچاتا ہے۔ ہماری رائے میں نیب کا تاریخی کردار بھی کافی افسوسناک ہی رہا ہے۔

1990ء کی دہائی میں چیئرمین سیف الرحمن نے احتساب بیورو کو سیاسی مخالفین کے خلاف اس ڈھٹائی سے استعمال کیا کہ ان کا نام بھی ’’احتساب الرحمن‘‘ پڑ گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے 1999ء میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کڑے احتساب کا آغاز کیا‘ جنرل امجد کو احتساب بیورو کا چیئرمین نامزد کیا‘ وہ نڈر اور دیانتدار جرنیل تھے‘ انھوں نے احتساب کا شکنجہ کسا تو جنرل مشرف کا اقتدار ڈولنے لگا اور انھوں نے اقتدار کی مصلحتوں کی خاطر جنرل امجد کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔ 2002ء کے انتخابات کے بعد احتساب بیورو کو ’’سیاسی ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کر کے ’’کنگ پارٹی‘‘ قائم کی گئی۔ 2015ء میں سپریم کورٹ نے جوڈیشل ایکٹوازم کا مظاہرہ کر کے نیب کو فعال اور متحرک کیا۔

سپہ سالار جنرل راحیل شریف نے بھی نیب کی حوصلہ افزائی کی اور سابق آرمی چیف کے بھائیوں کے خلاف انکوائری روکنے سے انکار کر دیا۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان بھی دباؤ کے باوجود ڈٹے رہے۔ اب نیب نے بلا تفریق احتساب کا آغاز کیا ہے تو سیاست کے مرکزی کھلاڑی خوفزدہ ہو گئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیب اور ایف آئی اے کو سیاسی انتقام اور ذاتی مفادات کے لیے بھی ماضی میں بھی استعمال کیا گیا اور اب بھی کیا جا رہا ہے لہٰذا لازم ہے کہ عوام میں ان اداروں کی ساکھ کو بحال رکھنے کے لیے آئین اور قانون سے انحراف نہ کیا جائے اور صاف، شفاف، یکساں اور مساوی احتساب کو یقینی بنایا جائے۔ اس وقت شکوک و شبہات کی بہت سی بیلیں سر نکالنے لگی ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جب حکومت اپنے ہی نگران ادارے کے پر کاٹنے کی بات کر رہی ہے۔ ملک میں بدعنوانی کا جو حال ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ نیب کی کارروائیوں سے بہت سے لوگوں کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں اور آمدہ ایام میں ابھی بہت سوں کی مزید ہونگی۔

ایسے حالات میں نیب کو احتیاط سے کام لینا چاہیے لیکن اس کے پر کسی قیمت پر بھی نہیں کترے جانے چاہئیں۔ جب چیف ایگزیکٹو کسی ادارے کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے تو اس کے وزیروں اور مشیروں کو بھی شہہ ملتی ہے۔ وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق اور پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے بھی نیب کے خلاف تند و تیز بیانات دینے شروع کر دیے ہیں‘ ان کے بلاجواز بیانات سے ریاستی اداروں کے درمیان محاذ آرائی اور کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ طاقتور ادارہ ہرگز نہیں چاہتا کہ جمہوری سسٹم تعطل کا شکار ہو۔ ہماری حکمران اشرافیہ کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ عوام کی توقعات کے مطابق ریاست کو خوش اسلوبی سے چلائے گی تبھی وہ اپنی آئینی مدت اطمینان بخش طور پر پوری کر سکے گی۔افسوس کہ ہمارے حکمران ریاست کو آئین و قانون کے مطابق چلانے کی بجائے ذاتی مرضی و ’’منشا‘‘ کے مطابق چلا رہے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ نے ایک رولنگ کے ذریعے وزیراعظم سے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ اجلاس منعقد بھی ہوا لیکن کوئی بھی اہم فیصلہ کیے بغیر ہی اسے ملتوی کر دیا گیا۔ سپریم کورٹ بار کے صدر نے بھی خبردار کیا تھا کہ اگر مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ بلایا گیا تو وزیراعظم کے خلاف آئینی بغاوت کا مقدمہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم خود آئین اور قانون پر عمل کرینگے تو ریاستی اداروں کو آئین کے مطابق چلانے کی ہدایت کر سکیں گے۔ حکمرانوں کو کسی کروٹ چین نہیں پڑ رہا اور اب شنید ہے کہ قومی اسمبلی میں قرار داد لا کر نیب کو زنجیروں میں کسنے کے لیے حکومت سنجیدگی سے ایک نگران کمیشن پر غور کر رہی ہے، یعنی نیب کے اوپر ایک ’’سپر نیب‘‘۔ نیب کے اوپر یہ نیب کمیٹی سیاستدانوں پر مشتمل ہو گی اور تمام سیاستدان اور سیاسی جماعتیں اس پر آمادہ نظر آ رہی ہیں۔

اگرچہ حکمرانوں نے اس کی تردید بھی کر دی ہے لیکن ان پر اپنے بدعنوان سیاستدانوں اور کاروباری شراکت داروں کا دباؤ بہت ہے ہو سکتا ہے‘ وہ ان کے آگے گھٹنے ٹیک دیں اور ایسی حماقت کر بیٹھیں جسکا خمیازہ پوری قوم کو ساری عمر بھگتنا پڑے‘ اس لیے حکمرانوں کو ایسی کوئی حماقت نہیں کرنی چاہیے جو عوام کی اُمنگوں کے مطابق نہ ہو۔ مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ جن کرپٹ اور لوٹ مار کرنیوالے سیاستدانوں کو نیب نے ہاتھ ڈالنا ہے وہی نیب کی نگرانی کرینگے۔

آصف زرداری اور نواز شریف دونوں ہی احتساب سے خوفزدہ ہیں لہٰذا وہ خود کو اور قریبی رفقاء کو بچانے کے لیے نئی قانون سازی پر آمادہ ہو جائینگے‘ ایسی صورتحال میں عوام کی سپریم کورٹ اور ’’مہربانوں‘‘ سے توقعات مزید بڑھ جائینگی۔ یہ دونوں طاقتور ادارے چاہیں تو نیب اور ایف آئی اے دونوں کسی دباؤ کے بغیر احتسابی عمل کو جاری رکھ سکتے ہیں۔

منتخب جمہوری حکومتوں کو توڑنے سے بہتر ہے کہ عوام، میڈیا اور طاقتور ادارے سیاسی حکومتوں کا قبلہ درست رکھیں اور ان کو احتساب کے راستے میں حائل نہ ہونے دیں۔ جن افراد کے اثاثے ان کی معروف آمدنی سے زیادہ ہیں، انھیں ہر صورت میں حساب آج نہیں تو کل دینا پڑیگا۔ جو سیاسی جماعتیں اس سپر نیب پر راضی برضا ہیں اور ہونگی، وہ اپنے مذموم مقصد میں کامیاب نہیں ہو پائیں گی‘ نون لیگ کے اس سیاسی و قومی گناہ میں جو جماعتیں شریکِ کار ہونگی، تاریخ بتائے گی کہ انھوں نے سیاسی خودکشی کی ہے کیونکہ پوری قوم کی نظریں اس وقت کرپشن اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے اہم اداروں پر لگی ہیں۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔