سرکلر ریلوے، گرین لائن منصوبہ اور امیدِ بہار

شاہد سردار  اتوار 6 مارچ 2016

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی مسائل سے گھرا اور بھرا ہوا شہر ہے۔ پچھلے 13 برسوں سے عشرت العباد اس شہر کے گورنر، گزشتہ ساڑھے سات سال سے قائم علی شاہ یہاں کے وزیراعلیٰ چلے آرہے ہیں۔

اس پورے عرصے میں دنیا کے بڑے شہروں میں شامل کراچی کے ساتھ زیادتیوں کے پہاڑ توڑے گئے، کچرے کے ڈھیر، بہتے ابلتے ہوئے گٹر اور بسوں کی چھتوں پر سفر کرتے بے بس عوام کراچی کی پہچان بن گئے ہیں۔ ماضی میں کراچی میں ریلوے کا ایک مربوط اور موثر نظام ’’سرکلر ریلوے‘‘ موجود تھا اور روزانہ کی بنیاد پر 104 ٹرینیں چلائی جاتی تھیں جس سے لاکھوں افراد مستفید ہوتے تھے لیکن 1992 میں یہ ٹرینیں بند کردی گئیں۔

اس منصوبے کو بحال کرنے کے لیے کئی بار فزیبلٹی رپورٹ تیار کی گئی مگر منصوبے کو دوبارہ شروع نہ کیا جاسکا۔ جون 2013 میں وزیراعلیٰ سندھ نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے لیے 2.6 ملین ڈالر کے ایک منصوبے کی منظوری بھی دی تھی لیکن اس کے باوجود یہ منصوبہ کھٹائی میں پڑگیا یا سرخ فیتے کی زد میں آگیا۔ موجودہ صورتحال سفر کے حوالے سے انتہائی ناگفتہ ہوچکی ہے اور تادیر اس کا حل دور دور تک نظر نہیں آرہا۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ دنیا کا محفوظ ترین سفری ذریعہ ’’ریل‘‘ کو کہا جاتا ہے۔ کسی بھی یورپی اور ترقی یافتہ شہروں میں برق رفتار ٹیوب ٹرین کے بغیر ترقی کا تصور بھی محال ہے اور ترقی یافتہ ملکوں میں پورے خطے کے درجنوں ممالک آپس میں تیز رفتار بلٹ ٹرینوں کے ذریعے جڑے ہوئے ہیں اور لاکھوں لوگ روزانہ ٹرینوں میں سفر کرتے ہیں بلکہ فرانس اور برطانیہ کے درمیان چونکہ سمندر حائل تھا تو وہاں کے انجینئروں نے زیر سمندر ریل کی پٹری سرنگ کے ذریعے بچھا کر ان ملکوں کو ٹرین کے ذریعے ملا کر ایک عجوبہ بنادیا۔ ان ملکوں میں ریل میں سفر کے دوران جدید سہولتوں کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید ہم کسی شاہی سواری میں سفر کررہے ہوں، مگر افسوس صد افسوس کہ ہم اپنے عوام کو آج 68 سال بعد بھی محفوظ ترین سفری سہولت میسر نہ کرسکے۔

1960 سے 1980 کی دہائیوں تک کراچی کے لاکھوں لوگ روزانہ کراچی سرکلر ریل کے ذریعے سفر کرتے تھے، لیکن پھر آہستہ آہستہ ریلوے افسران کی نااہلی اور مختلف حکومتوں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے کراچی سرکلر ریلوے بند ہوگئی۔ کروڑوں کی مالیت کی پٹریاں بیچ دی گئیں، اربوں کی مالیت کی زمینیں اپنے من پسند افراد کو کوڑیوں کے دام پر الاٹ کردی گئیں یا پھر لینڈ مافیا نے ان پر قبضہ کرکے کالونیاں بنادیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ سندھ حکومت کی ہمیشہ سے عدم دلچسپی کا شکار چلا آرہا ہے۔ ہزاروں افراد تادم تحریر سرکلر ریلوے کی زمین پر قابض ہیں لیکن انھیں ہٹانے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں ہوئے۔ اس حوالے سے جاپانی سرکاری حکام نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کا دو ارب ڈالر مالیت کا منصوبہ جاپانی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ سندھ حکومت کی لاپرواہی کے سبب تاخیر کا شکار ہے۔ لینڈ مافیا کے قبضے سے نہ تو یہ زمین واگزار کرائی جاسکی ہے اور نہ ہی متبادل زمین کی فراہمی کے لیے سندھ حکومت نے آج تک قابل عمل کام کیے۔

حالانکہ اگر حکومت چاہے تو چند ہفتوں میں نہ صرف قابضین کو ریلوے کی زمین سے ہٹایا جاسکتا ہے بلکہ انھیں متبادل مقام پر رہائش بھی فراہم کی جاسکتی ہے لیکن اس کا فیصلہ سندھ حکومت کو کرنا ہے جاپان کو نہیں۔ جاپانی حکام کے مطابق جاپان حکومت نے تو خود بارہ سال قبل حکومت پاکستان کو کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ پیش کیا تھا جس کے لیے فنڈ بھی جاپان کی جانب سے فراہم کیا جانا تھا تو پھر جاپان کیوں اس منصوبے میں تاخیر چاہے گا، جب کہ اس دوران جاپان نے بھارت کے دارالحکومت دہلی میں جدید ترین میٹروٹرین کا منصوبہ شروع کرکے مکمل بھی کردیا ہے۔

جب کہ دہلی جیسے شہر میں ٹریفک کے مسئلے پر بڑی حد تک قابو بھی پالیا گیا ہے۔یہ بات کتنے شرم اور کتنے دکھ کی ہے کہ جاپانی حکومت نے سندھ حکومت کو ’’جائیکا‘‘ نامی کمپنی کے ذریعے سرکلر ریل چلانے کے لیے جو اربوں روپے کا قرضہ دیا تھا وہ دو سال قبل یعنی 2014 میں یہ کہہ کر واپس لے لیا کہ ناجائز قابضین کی طرف سے جاپانی کمپنی پر کیس کرنے اور حکومت کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ منصوبہ ختم کیا جارہا ہے۔

ہمارے ارباب اختیار کی ناقص حکمت عملی دیکھیں کہ انھوں نے اربوں روپے انڈرپاسز، فلائی اوورز اور سگنل فری کوریڈور کی طرف ساری توجہ مبذول رکھی، عوام کے سفر کے لیے بسوں اور دیگر متبادل سواری کی طرف نگاہ نہ کی، بلکہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ٹرانسپورٹ مافیا کی جانب پھر سے چشم پوشی اختیار کرلی۔ سٹی گورنمنٹ نے ایک بار گرین بسوں کا سلسلہ شروع کیا لیکن ٹرانسپورٹ مافیا کے شکنجے نے اس کا کام بھی تمام کردیا۔ قانون کی لاچاری یا مصلحت پسندی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی میں جہاں دیگر مافیاز عوام کی جان کے درپے ہیں، ٹرانسپورٹ مافیا بھی عوام کا خون چوسنے اور عوام کو سہولت فراہم کرنے کے بجائے شہریوں کے استحصال کرنے میں پیش پیش ہے۔

موجودہ ٹرانسپورٹر انسانی زندگیوں سے کھیلنے کے لیے آزاد ہیں اور وہ یہ کام دھڑلے سے کرنے میں مصروف ہیں، ان کے پاس نہ گاڑی کا فٹنس سرٹیفکیٹ ہوتا ہے اور نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس۔ٹرانسپورٹ مافیا کی دیدہ دلیری یا ڈھٹائی کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پٹرول اور گیس کی قیمتوں کی کمی کی صورت میں ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی یوں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عوام تک منتقل نہیں ہوپاتا۔

شہر قائد میں چالان اور بھتے کی مد میں پبلک ٹرانسپورٹ سے یومیہ ایک کروڑ 48 لاکھ روپے وصول کیا جاتا ہے، 25 ہزار بسوں، کوچز اور ویگنوں سے یومیہ 2 سو سے 3 سو روپے اپنی جیب خاص میں ڈالتے ہیں۔ 4 ہزار چنگ چی، 20 ہزار آٹو رکشہ اور 7 ہزار ٹیکسیاں بھی یومیہ 40 روپے فی گاڑی سے غنڈہ ٹیکس لیا جاتا ہے۔

وزیراعظم نے حال ہی میں جس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا ہے اور صوبائی حکومت نے سرکلر ریلوے کی بحالی کا جو دوبارہ اعلان کیا ہے اس کے ثمرات یا فوائد سے کسی طور انکار ممکن نہیں لیکن سرخ فیتہ، مافیا یا طاقتور شکنجے یہ سب کے سب وفاقی اور صوبائی حکومت کے ’’پرانے بھائی بند‘‘ ہی تو ہیں، کون سی آسمان سے اترنے والی حکومت ان کے لیے سزا کا سبب بنے گی، کوئی نہیں بتا سکتا؟ کون نہیں جان جانتا کسے نہیں معلوم کہ اندھیرے کو مٹانے کے لیے دیے کو ہمیشہ اپنے سر میں آگ لگانی پڑتی ہے۔ ہم ایسے دیے کے منتظر ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔