’’میں نے انھیں خون پیتے دیکھا‘‘

ندیم سبحان  اتوار 6 مارچ 2016
بوکو حرام کی قید میں کئی سال رہ کر آزادی پانے والی امیرہ کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

بوکو حرام کی قید میں کئی سال رہ کر آزادی پانے والی امیرہ کی کہانی ۔ فوٹو : فائل

’’ ان کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تأثر نظرآتا ہے۔۔۔۔۔۔ جیسے وہ کسی بھوت کے زیراثر ہوں۔‘‘ امیرہ مجھے تفصیلات سے آگاہ کررہی تھی۔ امیرہ کا تعلق نائجیریا سے ہے اور وہ بوکوحرام کی قید میں زندگی کے بدترین برس گزار چکی ہے۔

اس کے لب دوبارہ وا ہوئے،’’میں نے انھیں لوگوں کو قتل کرنے کے بعد ان کا خون پیتے ہوئے بھی دیکھا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ہاتھوں کا پیالہ بناکر لبوں تک لے آئی تھی اور اس کی آنکھوں سے خوف جھلکنے لگا تھا۔ مشقت بھری دیہی زندگی کا اثر اس ادھیڑ عمر عورت کے ہاتھوں اور پاؤں کی ظاہری حالت اور چہرے سے ہویدا تھا۔

وہ صاف ستھرا مگر پرانا لباس پہنے ہوئی تھی۔ داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے قائم کردہ کیمپ کے چھوٹے سے دفتر میں پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھی ہوئی وہ مجھے بتارہی تھی کہ کیسے بوکوحرام کے جنگ جوؤں نے، جن میں سے کچھ نوجوانی کو بھی نہیں پہنچے تھے، بستیوں کی بستیاں اُجاڑ دیں، ان گنت دوشیزاؤں کی عصمت دری کی، اور اتنے وسیع پیمانے پر قتل عام کیا جو خانہ جنگی کے بعد سے نائجیریا میں کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔

امیرہ شمالی ریاست Adamawa کے ایک گاؤں Michikaکی رہائشی تھی۔ اس علاقے میں بوکوحرام کے شدت پسندوں کا سب سے زیادہ زور ہے جو اب تک تیس ہزار سے زاید انسانوں کو قتل کرچکے ہیں۔ ان کی وحشیانہ کارروائیوں نے چھے سال کے دوران بائیس لاکھ لوگوں کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔ ایک رات بوکوحرام کے مسلح شدت پسندوں نے Michika پر ہلہ بول دیا۔ جان بچانے کے لیے گاؤں کے باسی ادھر اُدھر بھاگنے لگے۔ اس بھاگ دوڑ میں امیرہ اپنے تین بچوں سے بچھڑ گئی۔ اسے ڈر ہے کہ ایک بیٹا اُس رات شدت پسندوں کے حملے میں مارا گیا تھا۔ اسی بوکوحرام کے ہاتھوں وہ اپنے شوہر سے پہلے ہی محروم ہوچکی تھی۔

شب کی تاریکی میں جان بچانے کے لیے بھاگتی بھاگتی امیرہ قریبی جنگل میں جاگھسی۔ یہاں کچھ دور چلنے کے بعد اسے خاکی وردی میں ملبوس جوان نظر آئے۔ موت کے ہرکاروں سے پناہ کی متلاشی امیرہ ان کے پاس پہنچی تو انھوں نے اسے اپنے پیچھے آنے کے لیے کہا۔ ’’پہلے میں انھیں فوجی جوان ہی سمجھی تھی۔‘‘ امیرہ نے بتایا۔ تاہم چند ہی لمحوں بعد اسے اندازہ ہوگیا کہ وہ جن سے بچ کر بھاگی تھی، انھی کے چُنگل میں جا پھنسی ہے۔ شدت پسندوں نے امیرہ کو باقاعدہ گھیرے میں لے لیا تھا۔

اس دوران ایک نوجوان نے اس کے ہاتھ سے گٹھری چھیننے کی کوشش کی جس میں وہ افراتفری کے عالم میں نقدی اور زیور لپیٹ کر بھاگ نکلی تھی۔ امیرہ نے مزاحمت کرتے ہوئے اسے تھپڑ رسید کردیا۔ جواباً نوجوان نے اس کے سر پر کلاشنکوف سے ضرب لگائی جس کا ہلکا سا نشان آج بھی موجود ہے۔

امیرہ اور نوجوان کے درمیان ہاتھا پائی کا منظر دیکھ کر قریبی مچان سے ان کا ایک ساتھی اُتر آیا۔ اس نے نوجوان کو مارپیٹ کرنے سے روکا اور امیرہ کے ساتھ ہم دردی کا اظہار کرتے ہوئے اس کے زخم پر مرہم بھی لگایا۔ مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ انسانی ہم دردی کی بوکوحرام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ’’جس نے مجھ پر تشدد کیا تھا، وہ اس ہم درد شخص کو لے کر کچھ دور گیا اور میری آنکھوں کے سامنے اس پر گولیاں برسادیں۔‘‘ امیرہ کے لہجے میں اس نامعلوم ہم درد کے لیے دُکھ محسوس کیا جاسکتا تھا۔ امیرہ اس وقت بھی بے بس تھی جب موت کے انھی ہرکاروں نے بوکوحرام میں شمولیت سے انکار پر اس کے چھوٹے بھائی کی گردن اڑادی تھی۔

اگلے کئی برس تک امیرہ بوکوحرام کی قید میں رہی۔ شدت پسندوں کے درمیان پیغام رسانی کرنے کے ساتھ ساتھ اسے ان کے کیمپوں کی دیکھ بھال میں معاونت کی ’ ذمہ داری‘ سونپی گئی تھی۔ اس دوران وہ شدت پسندوں کے ساتھ ملک بھر میں گھومتی رہی جو فوج کی جوابی کارروائیوں کی وجہ سے اپنی جگہیں بدلنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔

بوکوحرام نے شمالی مشرقی نائجیریا میں خاص طور پر دہشت پھیلا رکھی تھی۔ امیرہ گاؤں دیہات پر حملوں کے دوران ان وحشیوں کے ہاتھوں سیکڑوں لوگوں کی ہلاکت کی چشم دید گواہ تھی۔ بیشتر لوگوں کی گردن اڑا دی گئی تھی۔ امیرہ ان ہزاروں عورتوں میں سے ایک تھی جنھیں بوکوحرام نے قیدی بنالیا تھا۔ ادھیڑ عمر ہونے کے باعث وہ کسی کی ’ بیوی‘ بننے کے قابل نہیں تھی، مگر متعدد کم عمر خواتین اور لڑکیاں نام نہاد بیویوں کے طور پر جنگ جوؤں کے حوالے کردی گئیں جنھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔

امیرہ کے مطابق بوکوحرام نے نوے سے زاید واقعات میں لڑکیوں اور عورتوں کو خودکش بم باروں کے طور پر استعمال کیا۔ تاریخ میں کسی باغی گروپ نے عورتوں پر اتنا انحصار نہیں کیا۔ اگرچہ نائجیریا کے صدر محمد بخاری نے گذشتہ دسمبر میں اعلان کیا تھا کہ بوکوحرام کو ’تیکنیکی‘ طور پر شکست دی جاچکی ہے لیکن پُرتشدد کارروائیوں کا سلسلہ اسی طرح جاری ہے، نیز اس دہشت گرد گروپ کے چُنگل سے نجات پانے والی امیرہ جیسی خواتین کو بھی عام زندگی کی طرف لوٹنے میں برسوں لگ جائیں گے۔

نائجیریا کے مرد بوکوحرام میں شمولیت کیوں اختیار کرتے ہیں؟ اس بارے میں یولا میں قائم مدبّو آدم یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی کے مرکز برائے امن و تحفظ کے سربراہ کیاری محمد کہتے ہیں،’’کچھ مَردوں کی بوکوحرام میں شمولیت کی وجہ طاقت اور عورتوں کا حصول ہے۔ تنظیم کا حصہ بن جانے کے بعد ایک شخص کسی بھی عورت کو اپنی ملکیت میں لے سکتا ہے۔‘‘ کیاری محمد کے مطابق ایک ایسے خطے میں جہاں روزگار کے مواقع محدود ہونے کے باعث ایک نوجوان کے لیے شادی کرنا اور پھر خاندان کو پالنا مشکل ہے وہاں عورتوں تک آسان رسائی ان کے لیے خاص طور پر کشش رکھتی ہے۔

بوکوحرام کے زیرقبضہ علاقے میں چھے ماہ گزارنے والے ایک شخص کے بیان کے مطابق تنظیم میں عورتوں کی اکثریت ہے۔ اس بیان کی وجہ مذکورہ شخص کا یہ مشاہدہ ہے کہ بوکوحرام کے ہر سپاہی کی کئی کئی ’بیویاں‘ تھیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے گذشتہ برس جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق بوکوحرام نے کم از کم دو ہزار عورتیں اور لڑکیاں اغوا کر رکھی تھیں۔ حقیقی تعداد اس سے زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ جنسی تشدد کے حوالے سے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ زینب حوا بنگورہ نے پچھلے سال کہا تھا عورتوں کا اغوا اور ان کی عصمت دری بوکوحرام کی اپنا تسلط اور خوداستقراریت برقرار رکھنے کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

2013ء میں بوکوحرام کے ہتھے چڑھنے والی ایک لڑکی نے بعدازرہائی ہیومن رائٹس واچ کے محققین کو آپ بیتی سناتے ہوئے کہا،’’مجھے ایک جنگ جو کی بیوی قرار دینے کے بعد اس کے غار میں رہنے کا حکم دیا گیا۔ میں اس سے بچنے میں کام یاب ہوتی رہی۔ چند روز کے بعد وہ جسمانی تعلق قائم کرنے کے لیے مجھے خنجر دکھا کر ڈرانے دھمکانے لگا۔ میرے انکار پر وہ سخت طیش میں آگیا اور اپنی بندوق اٹھا لایا۔ پھر اس نے کہا اگر میں چِلّائی تو وہ مجھے گولی مار دے گا۔ پھر وہ روزانہ میری عصمت دری کرنے لگا۔ ‘‘ اس لڑکی کی عمر محض پندرہ سال تھی۔

ہیومن رائٹس واچ کے مطابق کچھ رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں پر مجرمانہ حملے کرنے سے قبل شدت پسند دعائیں کرتے ہیں کہ اس تعلق کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے حکومت کے خلاف جہاد جاری رکھیں۔ ستم یہ ہے کہ اگر ان بچوں کی مائیں خوش قسمتی سے بوکوحرام کے چُنگل سے فرار ہونے میں کام یاب ہوجائیں تو ان کے اہل خانہ اور قبائل انھیں قبول نہیں کرتے۔ یوں وہ دربدر ہوجاتی ہیں۔ امیرہ کے مطابق قیدی خواتین سے زبردستی پردہ کروایا جاتا ہے۔

انھیں صرف قرآنی تعلیم کے لیے بوکوحرام کے قائم کردہ مدرسوں تک جانے کی اجازت ہوتی ہے۔ کیمپ میں موجود ایک شخص نے بتایا اگر کوئی عورت بے پردہ ہوجائے تو اسے اور اس کے شوہر، دونوں کو سزا دی جاتی ہے۔ مذکورہ شخص کی پیٹھ پر کوڑوں کے نشانات موجود تھے۔

امیرہ کے مطابق قیدی عورتوں کو قرآن سیکھنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ بوکوحرام کی قید میں آنے کے چند روز بعد امیرہ اور دوسری عورتوں سے اسلام کے بنیادی ارکان پوچھے گئے، جو عورتیں جواب نہ دے پائیں ان میں سے بعض کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ امیرہ کا کہنا تھا کہ قیدی خواتین کو نوجوان لڑکیاں نظم وضبط پر کاربند رہنا سکھاتی ہیں جنھیں ’چیبوک لڑکیاں‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نام اسکول کی اُن دو سو سے زاید طالبات کی طرف اشارہ ہے جنھیں دو برس پہلے بوکوحرام نے چیبوک قصبے سے اغوا کیا تھا۔ اقوام عالم نے شدت پسند تنظیم کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

2015ء میں برطانوی نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا،’’دیہات پر حملوں کے بعد لوگوں کے ہاتھ پاؤں باندھ کر زمین پر لٹا دیا گیا، اور بعدازاں لڑکیوں نے اپنی کارروائی شروع کی۔۔۔۔۔۔ چیبوک لڑکیوں نے یکے بعد دیگرے انھیں ذبح کردیا۔‘‘ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں یہ بہیمانہ کارروائی کرنے والی لڑکیاں چیبوک سے اغوا کی گئی طالبات ہی تھیں۔ تاہم بوکوحرام کی جانب سے چیبوک کی طالبات کو سرد مہر قاتلوں کا رُوپ دینے کا دعویٰ اپنی نفسیاتی تشدد کی مہم کو بڑھاوا دینے کی کوشش ہے۔ امیرہ کے مطابق باغیوں کے کیمپوں میں موجود نام نہاد چیبوک لڑکیوں کو جنگی تربیت دی گئی تھی، اور انھیں اسلحہ بھی فراہم کیا گیا تھا۔ اپنی حکم عدولی پر انھیں کسی کو بھی قتل کردینے کا اختیار تھا۔

بوکوحرام جس پیمانے پر خواتین کو خودکش بم بار کے طور پر استعمال کررہی ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ سری لنکا کا تمل ٹائیگرز نامی عسکریت پسند گروپ جو لڑاکا خواتین کے لیے جانا جاتا تھا، اس نے90ء کے عشرے میں 46 خود کش حملے کیے۔ بوکوحرام نے دو برس سے بھی کم عرصے کے دوران 90 سے زاید خود کش بم دھماکے کر ڈالے ہیں۔

ان میں سے بیشتر آسان اہداف کے خلاف تھے مثلاً عام شہریوں سے بھرے بازار وغیرہ۔ امیرہ سے جب پوچھا گیا کہ کیا اس کے سامنے کسی نوجوان لڑکی کو خود کش بم بار کے طور استعمال کیا گیا تو ایک بار پھر اس نے دھیرے سے سَر ہلایا۔ ممکن ہے کہ کچھ لڑاکا خواتین نے تقدیر سے سمجھوتا کرتے ہوئے بوکوحرام کے مقصد کو اپنا مقصد بنالیا ہو مگر امیرہ اور بوکوحرام کی قید سے چھٹکاراپانے والی دوسری عورتوں کے بیانات کی روشنی میں خود کش بم باروں کی اکثریت کم سِن لڑکیوں پر مشتمل ہے، جنھیں دوسرے کم عمر سپاہیوں کی طرح مجبور ہی خیال کیا جائے گا۔

شمالی نائجیریا کے بیشتر لوگ سمجھتے ہیں کہ خود کش بم بار لڑکیاں اس بات سے لاعلم ہوتی ہیں کہ ان کے جسم پر دھماکا خیز مواد بندھا ہوا ہے۔ امیرہ کا کہنا ہے بوکوحرام کی قید میں گزاری گئی مدت کا درست تعین کرنا اس کے لیے ممکن نہیں مگر وہ کئی برس ان کی قیدی رہی۔ سب سے پہلے اسے Michika کے قریب واقع ایک جیل میں رکھا گیا جس پر بوکوحرام کے جنگ جوؤں نے قبضہ کرلیا تھا۔

بعدازاں اس نے کچھ عرصہ سمبیا کے جنگل میں بنے ہوئے زیرزمین بنکروں میں اپنے اغواکاروں کے ساتھ گزارا۔ اس تمام عرصے کے دوران قید سے فرار اور آزاد فضا میں سانس لینا امیرہ کا اولین مقصد رہا مگر پکڑے جانے کی صورت میںدردناک موت اس کا مقدر بنتی۔ امیرہ کو یاد ہے کہ بوکوحرام کے پیادہ فوجی فرار ہونے والوں کا تعاقب کرتے اور انھیں موت کے گھاٹ اتار دیتے تھے۔

جس موقع کی اسے برسوں سے تلاش تھی وہ بالآخر گذشتہ سال اسے میسر آگیا۔ نائجیریائی فوج کی آمد پر جنگل میں قائم زیرزمین کیمپ میں کھلبلی مچ گئی تھی۔ اسی افراتفری میں اسے فرار کا موقع مل گیا۔ وہ کسی نہ کسی طرح بچتی بچاتی فوج تک پہنچنے میں کام یاب ہوئی۔ پھر اس کی راہ نمائی میں کارروائی کرتے ہوئے فوج نے دوسرے قیدیوں کو بھی آزاد کروالیا۔ ان دنوں امیرہ یولا میں داخلی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے لیے قائم کردہ کیمپ کی مکین ہے۔ یہاں مردوں کے مقابلے میں عورتوں اور بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔

امیرہ اور دیگر عورتیں اگر کیمپ کو خیرباد کہنا چاہیں تو انھیں ان گنت مسائل سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔ ممکن ہے ان کے گھر لوٹ لیے گئے ہوں یا پھر بوکوحرام اور فوج کی لڑائی میں تباہ ہوگئے ہوں۔ بوکوحرام کا نشانہ بننے سے قبل روایتی طور پر تمام عورتوں کی گزربسر کاشت کاری پر تھی۔ اس کام میں وہ اپنے مردوں کا ہاتھ بٹایا کرتی تھیں۔

لیکن اب مردوں کے ساتھ سے محروم ان عورتوں کے لیے کھیتی باڑی کرنا کارمحال ہوگا۔ بدقسمتی سے ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ لاچار عورتوں کی زمین و جائیداد پر بااثر لوگوں نے قبضہ کرلیا، اور بیوہ ہونے کی وجہ سے انھیں برادری سے بھی باہر نکال دیا گیا۔ بوکوحرام کے جنگ جوؤں کی بربریت کے نتیجے میں حاملہ ہونے والی بدقسمت خواتین کے لیے ان کے قبیلے میں کوئی جگہ نہیں ہوتی، اور نہ ہی ان عورتوں سے تعلق رکھا جاتا ہے جن کے مردوں کو بوکوحرام کا ہم درد خیال کیا جاتا ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔