غیرتمندی نہیں، بزدلی اور بے شرمی

تنویر قیصر شاہد  پير 7 مارچ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

فرزندِ اقبالؒ جسٹس (ر) ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی خود نوشت ’’اپنا گریباں چاک‘‘ میں ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں: ’’اس سانحہ کا تعلق بہاولپور سے ہے۔ اس کیس میں ملزم نے پہلے تو اپنے مخالف کو کسی کھیت میں بندوق کی گولیوں سے قتل کیا، پھر گھر واپس آ کر اپنی بارہ سالہ نابینا بیٹی کو اسی بندوق کی گولیوں سے مار کر ڈھیر کر دیا۔

بعدازاں بچی کی لاش کو اٹھا کر کھیت میں لے گیا اور اپنے مخالف کی لاش کے ساتھ اسے لٹا دیا تا کہ اپنے دفاع میں کہہ سکے کہ میں نے غیرت کی بنا پر دونوں کو قتل کر دیا ہے۔ مگر جب اس نے گھر آ کر اپنی بیٹی کو قتل کیا تو بندوق کی گولیاں ساتھ کھڑی اس کی بھینس کو بھی لگیں۔ اندھی بچی کی طرف توجہ دینے کے بجائے اسے اپنی بھینس کی زیادہ فکر تھی اور یوں چند گواہوں نے یہ سارا عمل دیکھ لیا۔ اس نے بچی کو اس لیے ٹھکانے لگایا کہ وہ اندھی ہونے کے سبب ایک بوجھ تھی، لہٰذا وہ اس کے اسی کام آ سکتی تھی۔ میں نے اپیل میں اس کی پھانسی کی سزا برقرار رکھی۔‘‘ (صفحہ 174)  وزیراعظم محمد نواز شریف نے وطنِ عزیز میں ’’غیرت کے نام پر‘‘ خواتین کے قتل کا سلسلہ ختم کرنے کے لیے جس عزم کا اظہار کیا ہے، فی الحقیقت یہی کرنے کا کام ہے۔

وزیراعظم محمد نواز شریف نے پچھلے روز اسلام آباد میں ایک شاندار تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’غیرت کے نام پر کسی کو قتل کر دینا غیرت نہیں، سنگین جرم ہے۔ اس قابلِ نفرت اقدام کو روکنے کے لیے ہماری حکومت سے جو ہو سکا، کریں گے۔ اسلام خواتین کے حقوق پر خاص توجہ دیتے ہوئے انھیں مردوں کے مساوی درجہ دیتا ہے۔ غیرت کے نام پر خواتین کے قتل ایسی دیگر روایات کو اسلام سمیت تمام مذاہب میں ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے۔ قائداعظم محمد علی جناح چاہتے تھے کہ پاکستان میں خواتین، مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں۔ اسی وژن کو مدِ نظر رکھتے ہوئے (ہماری) حکومت خواتین کو تمام حقوق دینے کے لیے بھرپور اقدامات کر رہی ہے۔‘‘

پاکستانی خواتین کے بارے میں جناب نواز شریف کا یہ اعلان مستحسن بھی ہے اور قابلِ تعریف بھی۔ یقینا اس حوالے سے انھیں پاکستان کے رجعت پسند طبقہ، جو قلیل سا ہے، کی طرف سے مزاحمت اور مخالفت کا سامنا بھی ہو گا لیکن واقعہ یہ ہے کہ نواز شریف نے پاکستان کے اکثریتی طبقے کی دلی آرزو کو طاقتور زبان دی ہے۔ چند ماہ پہلے بھی جب وزیراعظم نواز شریف نے یہ کہا تھا کہ پاکستانی عوام کا شاندار مستقبل جمہوریت کے استحکام اور لبرل ازم میں ہے تو بھی اسے وسیع پیمانے پر پسند کیا گیا تھا۔

اگرچہ بعض اطراف سے اس بیان کے بارے میں اختلافی آوازیں بھی اٹھی تھیں لیکن یہ قابلِ ذکر تھیں نہ قابلِ توجہ۔ اب پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے بہیمانہ قتل کے سلاسل کو قانون کے زبردست اور غالب ہاتھوں سے توڑنے کا اعلان کر کے نواز شریف نے بِلا شبہ ایک اہم قدم اٹھایا ہے۔ یہ اعلان ہمارے مذہب، اسلام، کی عظیم روح کی ترجمانی کرتا ہے۔ ہم اللہ کے آخری رسول، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، کے ماننے والے اور ان کے پاکیزہ نام پر اپنی جانیں نچھاور کرنے والے ہیں۔

سیرت پر لکھی جانے والی سبھی کتابیں اس امر پر متفق ہیں کہ پیغمبر آخر الزماںؐ ہمیشہ تمام خواتین کا احترام فرماتے تھے۔ کسی کو کبھی جھڑکا تک نہیں۔ سنتِ رسولؐ کی مبادیات کا تقاضا اور حکم ہے کہ ہم بھی خواتین کا احترام و اکرام کریں۔ اور وہ لوگ جو صنفِ نازک پر تشدد کرتے اور جھوٹی انا و غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کا سنگین جرم کرتے ہیں، دراصل اسلام اور اسلامی معاشرے کے بھی مجرم قرار پاتے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف نے بروقت فیصلہ کرتے ہوئے، صحیح تر اسلوب میں، خواتین کے خلاف ظلم و استحصال کا راستہ روکنے کی شاندار کاوش کی ہے۔

یہ ہماری اجتماعی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کا کوئی ایک بھی صوبہ ایسا نہیں بچا جہاں ’’غیرت کے نام پر‘‘ معصوم اور بے گناہ خواتین کے قتل کی بہیمانہ وارداتیں نہیں ہوتیں۔ یہ دراصل ایک سیاہ لعنت ہے۔ اگر ہم سندھ کی نامور دانشور اور ادیبہ محترمہ عطیہ داؤد کی معرکہ آرا کتاب ’’سندھ کی عورت: سپنے سے سچ تک‘‘ کا مطالعہ کریں تو ’’غیرت کے نام پر‘‘ خونی وارداتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہمارے سامنے آ جاتا ہے۔ عطیہ داؤد باکمال شاعرہ بھی ہیں۔ ان کی شاعری پاکستان کی مظلوم خواتین کے دکھوں کا محور ہیں۔

امریکا کی ایک معروف مصنفہ جین گُڈوِن (جس نے پاکستان و افغانستان کی اُن خواتین کے بارے میں تحقیقی کتاب The  Price  of  Honour لکھی ہے جنھیں غیرت کے نام پر قتل کر دیا گیا یا تیزاب پھینک کر بدہئیت کر ڈالا گیا) نے اپنی کتاب کا انتساب عطیہ داؤد کی ایک نظم کے نام کیا ہے۔ یہی عطیہ داؤد صاحبہ اپنی مذکورہ بالا کتاب کے باب ’’غیرت کا معاملہ‘‘ میں یوں رقم طراز ہیں: ’’اس کے بعد ہم کنڈیارو سب جیل میں گئے۔ وہاں مختیار کار سے ملاقات کی۔ انھوں نے بتایا کہ کاروکاری کیسز میں اب بہت اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ یہاں کے لوگ اس کو ’’غیرت کا کیس‘‘ کہتے ہیں اور بے قلم 302 کا کیس ہے۔

بہت سے کیس تو لوگ رجسٹر ہی نہیں کرواتے، خود ہی اپنا فیصلہ کرتے ہیں یا بدلہ لے لیتے ہیں۔ ان تمام کیسوں کے پیچھے اصل میں مردوں کی اپنی لڑائیاں ہوتی ہیں۔ خاص طور پر زمین، پانی، ملکیت وغیرہ یا پرانی دشمنیاں ہوتی ہیں۔ کنڈیارو میں ایک پڑھے لکھے نوجوان نے بس کے نیچے آ کر خود کشی کی تھی اور اس کی جیب سے ایک خط ملا تھا۔ اس میں لکھا گیا تھا کہ میں بے گناہ ہوں، میں نے فقط اپنے ماموں سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو انھوں نے مجھ پر پستول تان لیا اور کہا کہ میں ضرور اس کی بیٹی سے ناجائز تعلقات رکھتا ہوں۔

میں اتفاق سے بچ گیا اور وہاں سے بھاگ آیا۔ گھر جا کر اس نے اپنی بے گناہ معصوم بیٹی کو قتل کر دیا، ماں نے بیٹی کو بچانا چاہا تو اس نے بیوی کو بھی قتل کر دیا۔ میں چاہتا تو یہاں سے بھاگ بھی سکتا ہوں لیکن میں اس ذلیل الزام کے ساتھ زندہ رہنا نہیں چاہتا۔ اپنے ماموں کے ہاتھوں مرنے سے بہتر ہے کہ خود کشی کر لوں اور یہ میرا کاروکاری کی ظالم رسم کے خلاف ایک احتجاج بھی ہے۔‘‘ (صفحہ 68)

وزیراعظم جناب محمد نواز شریف نے پاکستان بھر کی تقریباً دس کروڑ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے جس عزم اور مقصد کا اعلان کیا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ دراصل پاکستان بھر کی ان تمام خواتین تنظیموں کی کوششوں کا شاندار اجتماعی نتیجہ ہے جو گزشتہ چھ عشروں سے اس ضمن میں مسلسل تگ و دَو کرتی چلی آ رہی ہیں۔ وزیراعظم کے اس اعلان میں دراصل ان کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف کی ذاتی کاوشوں اور کوششوں کا بھی گہرا عمل دخل ہے۔ یہ اعلان ہماری خواتین کی زندگیاں کس طرح محفوظ بنانے کا باعث بن جائے گا، اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے، بقول محقق زاہد حسین، کہ ہر سال پاکستان میں ایک ہزار خواتین ’’غیرت کے نام پر‘‘ موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔