دل سوز سے خالی ہے

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 7 مارچ 2016
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

میرے نہایت محترم استاد ڈاکٹر طاہر مسعود نے گزشتہ ماہ فروری میں اپنی تازہ کتاب ’’دل سوز سے خالی ہے‘‘ لاکر مجھے دی اور ساتھ ہی نصیحت کے انداز میں کہا ’’اس کتاب کو پڑھیے گا ضرور‘‘۔

ویسے تو راقم کو بھی مطالعہ کا بہت شوق ہے لیکن اپنے استاد کے علمی معیار کو دیکھتے ہوئے میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس کتاب کو بہت احتیاط اور غور سے پڑھنا اور سمجھنا پڑے گا۔ یہ کتاب ان کے مختلف کالموں کا مجموعہ ہے، جو مختلف اخبارات کی زینت بنتے رہے ہیں۔ کتاب کا جب مطالعہ کیا تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کی تحریر ایک عام قاری کے لیے بہت آسان، دلچسپ پیرائے اور عام لوگوں کے مسائل پر مبنی ہے، اور اکثر جگہوں پر یہ محسوس ہوا کہ یہ تو میرے ہی دل کی آواز ہے۔

یقیناً بعض لوگوں کو ان سے نظریاتی اختلافات ہوں گے، میرے بھی ہوں گے لیکن یہ بات بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے دل میں ایک عام انسان کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، ان کی نیک نیتی پر شبہ نہیں کیا جاسکتا، بس اس بنیاد پر میرے دل میں ان کا احترام بڑھتا جاتا ہے جیسے جیسے میں ان کی تحریریں پڑھتا جاتا ہوں۔ بہرکیف میں ان کی تازہ کتاب سے دو عدد کالموں کے اقتباس پیش کرنے کی جسارت کررہا ہوں۔

پہلا اقتباس ’شہناز کے آنسو‘ سے ہے، جس میں وہ شوہر کے ہاتھوں تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کے مسئلے پر رقم طراز ہیں۔

’’اب جو بھی ہو، ہمارا ایک ساتھ گزارا نہیں ہوسکتا۔ وہ بدتمیز ہے، بد زبان ہے، شکی ہے، میرا سکون لٹ گیا ہے، ہر طریقہ آزما چکا ہوں، پٹائی بھی کرچکا ہوں، لیکن سدھرتی ہی نہیں۔‘‘ پٹائی؟ میں نے ششدر ہو کر کہا، کیا تم اپنی بیوی کو مارتے ہو؟ ’’ہاں! اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟ بیوی کو مارنے کی اجازت تو ہمارے مذہب نے بھی دی ہے‘‘ اس نے بے پروائی سے کہا۔ ’’بہت خوب، زندگی کے کسی اور معاملے میں تمہیں مذہبی احکام یاد نہیں آتے لیکن پٹائی کا حکم تم نے خوب یاد رکھا ہے‘‘ ’’جیسا مرض ہوگا ویسا ہی علاج ہوگا‘‘ ’’ تم میں اور میری ماسی کے شوہر میں کیا فرق ہے؟

وہ بھی اپنی بیوی کو مارتا ہے، فرق یہ ہے کہ وہ نشہ کرکے اپنی بیوی کو مارتا ہے اور تم بغیر نشے کے مارتے ہو، وہ بغیر کسی سبب مارتا ہے اور تم کوئی وجہ تلاش کرکے زدوکوب کرتے ہو، تو تم دونوں ایک ہی جیسے ہو، تمہاری تعلیم اور اس کی حالت میں بھلا کیا فرق ہے۔‘‘ ’’تم نہیں جانتے؟‘‘ اس نے کہا ’’جب مارنا چھوڑ دیتا ہوں تو شکایت ہے کہ مارتا کیوں نہیں؟‘‘ ’’اچھا؟‘‘ میں چکرا گیا، لیکن پھر میں نے کہا ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تمھارے خراب سلوک نے اسے ذہنی مریضہ بنا دیا ہے، تمھیں تو اسے کسی ماہر نفسیات کو دکھانا چاہیے‘‘ وہ میری بات کو سنتا رہا اور پھر تھوڑی دیر بعد ہم جدا ہوگئے، رات میں دیر تک لان میں کرسی پر بیٹھا رہا، بیوی نے پوچھا ’’خیریت تو ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’سمجھ میں نہیں آتا، مرد کمزور عورتوں پر ہاتھ کیسے اٹھا لیتے ہیں؟‘‘ ’’سارے مرد نہیں‘‘ بیوی نے اطمینان سے کہا ’’صرف وہ مرد جو عورتوں سے بھی کمزور ہوتے ہیں۔‘‘

دوسرا اقتباس راقم نے ان کے کالم ’’طلاق کے بعد… بیوی کا شوہر کے نام خط‘‘ سے لیا ہے۔

’’سرتاج! ہر چند کہ اب یہ کہنے کا مجھے حق نہیں رہا، لیکن میرے دل میں آپ کا یہی مقام ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ میری حماقت سے جو رشتہ ٹوٹ چکا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اب وہ کبھی نہیں جڑے گا لیکن یہ خط میں اس لیے لکھ رہی ہوں کہ اپنی ان جذباتی غلطیوں کا آپ کے سامنے اعتراف کروں جس کا احساس مجھے پہلے کبھی نہ ہوسکا۔

ﷲ تعالیٰ نے انسان کو کمزور پیدا کیا ہے لیکن عورت تو اس کی کمزور ترین مخلوق ہے۔ محض جذبات کی پتلی۔ عورت جذبات سے سوچتی ہے، مرد عقل سے سوچتا ہے، اسی لیے اﷲ نے عورت کو طلاق کا اختیار نہیں دیا لیکن نئے قانون میں عورت کے نام نہاد حمایتیوں نے یہ اختیار عورت کو دلادیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مجھ جیسی عورتوں نے بلا سوچے سمجھے اس اختیار کو استعمال کرکے اپنی زندگی تاریک کرلی۔… صدمہ اس بات کا ہے کہ ہمارے اختلاف کی خلیج اتنی وسیع نہ تھی جو پاٹی نہ جاسکتی تھی لیکن مجھے سمجھانے والوں نے بھی میرے ساتھ اچھا نہ کیا۔

وہ یہی کہتے رہے کہ تم اپنا راستہ الگ کرلو۔ ایسے شخص کے ساتھ تم اپنے کو کیوں ضایع کر رہی ہو جسے تمھارا ذرا بھی خیال نہیںہے۔ جو بات بات پر تم پہ غصہ کرتا ہے اور تمھیں اذیتیں دیتا ہے۔ ان باتوں کا اثر قبول کرکے میں سمجھنے لگی تھی کہ آپ سے علیحدہ ہوکر ساری اذیتوں سے آزاد ہوجاؤں گی لیکن جلد ہی اندازہ ہوگیا کہ زندگی کانٹوں کی سیج ہے اور اذیتوں سے مکمل نجات کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ اب آپ کی خوبیاں اور محبتیں یاد آتی ہیں جو لڑائی جھگڑے اور تنازعات کی دھند میں چھپ گئی تھیں۔ یہ سچ ہے کہ عورت اپنے شوہر کے گھر سے نکل کر کہیں سکھ چین سے نہیں رہ سکتی۔

گھر کی اذیت بہت کم ہے، اس اذیت سے جو گھر سے نکل کر ہوتی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جب عورت کو طلاق دینے کے حق کی تجویز آئی تھی تو میں بہت خوش ہوئی اور جب قانون بنا تھا تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ مظلوم عورتوں کو ان کا دیرینہ حق مل گیا لیکن اس قانون کے نتائج جو کچھ میری زندگی میں اور میرے حق میں ظاہر ہوئے، اس سے میں اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ یہ تجویز پیش کرنے والے مغربی نظام کے پروردہ تھے، مغرب کے اندھے مقلد۔ مغرب میں جس طرح معمولی معولی باتوں پر بنے بنائے گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔

مغرب کی اس کوری تقلید نے ہمارے مضبوط گھروں اور مضبوط خاندانوں کو نحیف و کمزور بنادیا، اسلام نے عورت کو خلع کا حق دیا ہے اور یہ حق اس کے سارے حقوق کے تحفظ کے لیے بہت کافی ہے۔ اس سے آگے بڑھ کر اسے طلاق کا حق دینا خود عورت کے ساتھ زیادتی اور ناانصافی ہے۔ اس لیے کہ عور ت جذباتی ہوتی ہے اور ذرا ذرا سی بات کی انتہا پہ چلی جاتی ہے۔ مرد، ماسوائے چند نالائق مردوں کے ایسے معاملات میں عجلت سے کام نہیں لیتا اور ایسے مواقع پر وہ سوچ سمجھ کر قدم اٹھا تا ہے۔ افسوس ایک احمقانہ قانون نے ہماری زندگی برباد کردی۔‘‘

یہ کالم 19 نومبر 2008 کو شایع ہوا تھا۔ میرے محترم استاد ایک جہاندیدہ انسان ہیں، صدارتی ایوارڈ یافتہ ہیں، آیئے ان کی باتوں پر کچھ دیر کے لیے غور کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔