اوباما دوسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس پہنچ گئے

اے ایف پی / بی بی سی  جمعـء 9 نومبر 2012
امریکی صدر کو معاشی خسارہ کم کرنے کیلیے چیلنجز کا سامنا ہے، ر پبلکن پارٹی کو ساتھ لیکرچلنا ہوگا  فوٹو: اے ایف پی

امریکی صدر کو معاشی خسارہ کم کرنے کیلیے چیلنجز کا سامنا ہے، ر پبلکن پارٹی کو ساتھ لیکرچلنا ہوگا فوٹو: اے ایف پی

واشنگٹن: بارک اوباما دوسری مرتبہ امریکہ کا صدر منتخب ہونے کے بعد وائٹ ہاؤس پہنچ گئے ہیں۔

انھیں ملک میں معاشی خسارے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے چیلنجز کا سامنا ہے اور معیشت کو دوبارہ مستحکم کرنے کے لیے انھیں کانگریس میں رپبلکن پارٹی کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ بارک اوباما کو رپبلکن پارٹی کے ساتھ مل کر یہ اہم فیصلہ کرنا ہوگا کہ خسارے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے اخراجات میں کمی کی جائے یا ٹیکسکی شرح میں اضافہ کیا جائے۔ امریکہ کے نائب صدر جو بائڈن نے صحافیوں کو بتایا کہ ابھی بہت کام کرنا باقی ہے، مجھے امید ہے کہ ہم صحیح وقت پر صحیح کام کریں گے۔ علاوہ ازیں بارک اوباما اپنی کابینہ میں بھی تبدیلیاں کرینگے، وزیر خزانہ ٹم گیتھنر، وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن اور وزیر دفاع لیون پنیٹا حکومت سے الگ ہوسکتے ہیں، اقوام متحدہ میںسفیر سوزان رائس یا جان کیری نئے وزیرخارجہ ہوسکتے ہیں۔ دریں اثناء بارک اوباما کی جیت اس بار بھی سنہ2008 جیسی ہی تھی یعنی ان کو ووٹ دیے خواتین نے، نوجوانوں، افریقی امریکن اور لاطینیوں نے۔ مجموعی طور پر اوباما کو 55 فیصد خواتین نے جبکہ 44 فیصد خوتین نے مٹ رومنی کو ووٹ دیے۔

مردوں میں52 فیصد رومنی کے حق میں تھے جبکہ 45 فیصد اوباما کے۔ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ خواتین میں بھی تفریق رہی۔ مٹ رومنی کو 53 فیصد شادی شدہ خواتین نے ووٹ دیے۔ غیر شادی شدہ خواتین میں سے 67 فیصد نے اوباما کو ووٹ دیا۔ اس بار اوباما کو 93 فیصد سیاہ فام امریکیوں نے ووٹ دیے۔ اس کے علاوہ71 فیصد لاطینی ووٹرز نے ڈیموکریٹ جماعت کو ووٹ دیے۔ اوباما کو سفید فاموں کے 39 فیصد ملے۔ 18 سے 29 سال کے ووٹرز کے 60 فیصد ووٹ اوباما کے حق میں پڑے ۔ 30 سے 44 سال کے ووٹرز بٹے رہے اور ان میں سے 52 فیصد نے اوباما جبکہ 45 فیصد نے رومنی کو ووٹ دیے۔ یہودی ووٹرز سمیت مختلف مذاہب کے 70 فیصد ووٹ اوباما ہی کو ملے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔