استعمال شدہ کارتوس

قادر خان  بدھ 9 مارچ 2016
qakhs1@gmail.com

[email protected]

حامدکرزئی پھر بول اٹھے، بول کیا اٹھے وہ خاموش کب ہوئے تھے، بھارت نواز پالیسیوں ’’ہم پیالہ ہم نوالہ‘‘ سابق صدر حامدکرزئی بھارت کے چرن چھوتے ہوئے دوبارہ کہتے ہیں کہ ’’پاکستان کو افغان، بھارت تعلقات برداشت نہیں۔‘‘ بھارتی اخبار کو دیے جانے والے انٹرویو میں حامدکرزئی نے ہرزہ سرائی کی کہ پاکستان کو افغان، بھارت تعلقات سے چڑ ہے، انھوں نے الزام عائد کیا کہ بھارتی قونصل خانے کے قریب بم دھماکے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

پاکستان کے خلاف حامدکرزئی کے یہ الزامات کوئی نئے نہیں۔ افغانستان میں کئی عشروں سے جاری بدامنی کی وجہ سے پاکستان متاثر ہوا ، کلاشنکوف کلچر سے لے کر نوجوانوں میں ہیروئین جیسا خطرناک اور جان لیوا نشہ پروان چڑھا، افغانستان کے عوام کی میزبانی کا گناہ اپنے سر اس طرح لیا کہ آج ان کی وجہ سے پاکستان میں پختون قوم کو پریشانیوں کا سامنا ہے۔

پوری دنیا میں پختون قوم کا امیج حامدکرزئی جیسے افغانوں کی وجہ سے برباد ہوا۔ بھارت ان کا اتنا ہی خیر خواہ ہے تو پاکستان میں موجود تمام افغانوں کو ممبئی شہر میں جگہ دے دے، تا کہ بھارت کے معاشی ہب پر جب غیرملکی براجمان ہو جائیں تو مقامی آبادی کا کیا حال ہوتا ہے اس کا اندازہ انھیں چند دنوں میں ہی ہو جائے گا۔ دراصل حامدکرزئی کو پاکستان فوبیا ہو گیا ہے۔

موجودہ صدر اشرف غنی سے بھی کابل سنبھالا نہیں جا رہا، مختلف افغان جنگجوؤں کو افغان طالبان کے ساتھ خانہ جنگی میں مصروف رکھ کر امریکا کی موجودگی کا جواز فراہم کر رہا ہے تو دوسری جانب انتہاپسند ہندو ملک بھارت داعش کو اسلحہ فراہم کرنے والے دنیا کا دوسرا ملک بن کر بے نقاب ہو چکا ہے۔ امریکی ذرایع ابلاغ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسلام کے نام پر گلے کاٹنے والوں کی پشت پر کون ہے۔ روس تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ گریٹ 8 ممالک داعش کی مالی سرپرستی کرتے ہیں۔

اب داعش کے لیے شام میں تباہی مچانے والے بیشتر ہتھیار بھارتی کمپنیوں کے تیارکردہ نکلے۔ شام میں داعش جنگجو تباہی پھیلانے کے لیے بڑی تعداد میں بھارتی انتہا پسندوں سے ہتھیار اور بارودی مواد استعمال کر رہے ہیں، پٹرولیم مصنوعات مغربی استعمار خرید رہا ہے تو ہتھیار بھارت فراہم کر رہا ہے اور یہود، ہنود و نصاری کبھی اسلام کے خیر خواہ نہیں بن سکتے یہ بات نہ جانے کتنی بار ثابت ہو چکی ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں ترکی کا نام بھی لیا گیا ہے۔

تحقیقات کے مطابق داعش کی جانب سے استعمال ہونے والے ڈیٹونیٹر، سیفٹی فیوز اور دیگر تباہ کن ہتھیار بھارتی کمپنیوں کے تیارکردہ ہیں، داعش جنگجو شام میں 20 ممالک کی51 کمپنیوں کے ہتھیار اور دیگر ساز و سامان استعمال کر رہے ہیں، ان ممالک میں امریکا، روس، چین، برازیل، ایران، بیلجیئم، نیدرلینڈز اور جاپان شامل ہیں، جب کہ داعش کے جنگوؤں میں13 ترک و 7 بھارتی کمپنیاں، جنگی آلات، دھماکا خیز مواد اور دیگر سامان سپلائی کر رہی ہیں۔

تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارتی کمپنیاں اسلحہ اور بارود ترکی اور لبنان بھجواتی ہیں، جہاں موجود کمپنیاں یہ سامان شام میں داعش جنگجوؤں کو سپلائی کرتی ہیں۔ یہاں بات ختم نہیں ہوتی بلکہ افغانستان میں خاص طور پر ایران ساختہ اور بھارت ساختہ اسلحہ بھی درآمد ہوا ہے۔

اب تو گھر کے بھیدی بھی لنکا ڈھا رہے ہیں کہ کراچی سمیت پاکستان کا امن و سکون برباد کرنے کے لیے انھیں بھارت کی خفیہ دہشت گرد تنظیم ’را‘ نے استعمال کیا، آج تو واضح طور پر کہا جا رہا ہے کہ اگر 15 ہزار کارکنوں کو مروانے کے بجائے کچرا اٹھا لیتے تو آج کراچی کی یہ حالت نہیں ہوتی۔ ’’را‘‘ پاکستان میں کیا کیا کرتی رہی اس سے سب واقف ہونے کے باوجود خاموش رہے کیونکہ مفاہمتی پالیسی جو تھی۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے ہزاروں امریکیوں کو قانونی طریقے سے ویزے جاری کیے گئے.

ہزاروں امریکی آئے اور ریمنڈ ڈیوس کی طرح کتنے چلے گئے، اس کا تو حساب ہی نہیں ہے، لیکن یہ امریکی پاکستان کرنے کیا آئے تھے، انھوں نے کون سی سرمایہ کاری کی، کون سے کارخانے لگائے، بنگلہ دیش جیسی کرکٹ ٹیم کی تو ٹانگیں کانپتی ہیں کہ پاکستان میں آ کر کرکٹ کھیلے، لیکن یہ امریکن کیا کرنے آئے تھے، یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ بلیک واٹر کے روپ میں بلیک کلر کی گاڑیوں میں بغیر نمبر پلیٹ، امریکی پاکستانیوں کو پیسوں کا لالچ دیکر اپنا بنا رہے تھے، کچھ حسین حقانی بن رہے تھے، امریکا نے پاکستان بھر میں بلیک واٹر کے دفاتر کھول کر نوجوانوں کو داعش کی طرز پر بھرتی کیا۔

افغانستان نے پاکستان دشمنوں کو اپنے گھر میں پناہ دی، جب کہ ہم نے افغان مظلوموں کو پاکستان میں پناہ دی۔ وہ ہمارے گھر آ کر ہمارے گھر جلاتے رہے ہم افغانوں کے گھروں کے چولہے جلاتے رہے اور اس کا صلا کیا ملا، سوائے پاکستان پر الزام تراشیوں، بدنامی و رسوائی اور بھارت کے ساتھ مل کر ہم مسلمانوں کو اسلام کے نام پر ذبحہ کرنا۔

افغانستان میں رہنے والے جری بہادر اور نڈر ہیں، لیکن ہر قوم میں میر جعفر و میر صادق پیدا ہوتے رہتے ہیں، افغانستان کی تاریخ بھی ان غداروں سے خالی نہیں ہے کہ جس کی تھالی میں کھاتے ہیں اس کی ہی تھالی میں چھید بھی کرتے ہیں۔ یہ تو پاکستان میں رہنے والے پختون اور افغانستان کے باشعور پختون ہیں جو ان کے فریب میں نہیں آتے ورنہ پاکستان میں موجود ان کے ایجنٹوں کی بڑی تعداد ہر وقت پاکستان توڑنے کے لیے ’’مکتی باہنی‘‘ کا کردار ادا کرنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہے۔

اپنے اجلاسوں میں ایک قوم، ایک ملک ، ایک زمین کے نعرے بلند کرتے ہیں لیکن غیرت مند قوم نے کبھی امریکا اور بھارت کے زرخرید غلاموں کا ساتھ نہیں دیا۔ ورنہ سندھ، بلوچستان سے قبل ہی شمالی مغربی سرحدی پٹی پاکستان کا حصہ نہیں ہوتی، لیکن انھوں نے ایف 16 کی بمباری برداشت کی، گھروں کو مٹی میں تبدیل ہوتے دیکھا، امریکی ڈرون حملوں کے نتیجے میں اپنے پیاروں کو مرتے جلتے سسکتے دیکھا، لیکن پاکستان سے غداری کا کبھی نعرہ نہیں لگایا۔

یہاں بات قوم پرستی کی نہیں، بلکہ حب الوطنی کی ہے، پاکستان میں اگر امت مسلمہ کی حب الوطنی دیکھنی ہو، اس طرح بھی دیکھی جا سکتی ہے کہ بھارت اور افغانستان، جہاں پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے، وہی دہشت گردی کرنے سے باز نہیں آتے، بلوچستان، کراچی، خیبرپختونخوا اور اندرون سندھ اپنی سازشوں میں مصروف ہیں وہاں باحیثیت قوم پختونوں کی استقامت و حب الوطنی کی داد دینا حق تو بنتا ہے۔ ورنہ یہاں تو صرف ایک سیاسی شخصیت کی ہلاکت پر پاکستان نہ کھپے کے نعرے بلند ہو جاتے ہیں، لیکن لاکھوں انسانوں کی قربانیوں کو اگر سلام پیش نہ کیا جائے تو یہ احسان فراموشی ہی کہلائے گی۔

بھارت اور افغانستان خطے میں جو کھیل کھیل رہے ہیں وہ اظہر من الشمس ہے، ان کے ایجنٹ بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں، ان کی سازشیں کھل کر سامنے آتی جا رہی ہیں، اب کوئی ابہام نہیں رہ گیا کہ کابل انتظامیہ کٹھ پتلی حکومت اور ہندو انتہا پسند ریاست کا مقصد صرف پاکستان کی عوام میں انتشار تفرقہ پیدا کر کے پاکستان کے وجود کو نقصان پہنچانا ہے۔ موجودہ کابل انتظامیہ کو کئی مرتبہ پاکستان کی آرمی چیف اور آئی ایس آئی نے خود جا کر بریفنگ دی۔

ان کے حساس اداروں کے درمیان جو غلط فہمیاں تھیں ان کا سدباب کیا، لیکن جب ’’میں نہ مانوں‘‘ والی ضد پر بات آ جائے تو اس کا علاج حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں۔ افغانستان میں وزارت داخلہ کی عمارت کے باہر خودکش دھماکے اور اس سے پہلے صوبہ کنٹر میں گورنر ہاوس کے سامنے سائیکل سوار کی جانب سے معصوم بے گناہ افراد پر خود کش حملہ الگ الگ واقعات تھے، لیکن کابل انتظامیہ نے انھیں افغان طالبان کے ساتھ جوڑ دیا، حالانکہ افغانستان میں افغان طالبان جس تیزی سے فتوحات حاصل کر رہے ہیں، اس نے کابل انتظامیہ کا جینا حرام کر دیا ہے، اس لیے وہ بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور مختلف الزامات کی سیاست میں مصروف ہو کر اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جو استعمال شدہ کارتوس ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔