اگر پاکستان ایٹمی طاقت نہ ہوتا

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 10 مارچ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

وطنِ عزیز کے نامور دانشور اور تجزیہ کار ہیں، تعلیم ان کا شعبہ اور فزکس ان کا عشق ہے۔ انگریزی اخبارات میں آپ کے آرٹیکلز بھی شایع ہوتے ہیں جن میں وہ دلائل کے ساتھ اپنے نقطہ نظر کی تشہیر بھی کرتے ہیں اور تبلیغ بھی۔ دنیا کا کوئی بھی ایٹمی ملک ہو، ان کا خیال ہے کہ ان سب کو یہ سارے جوہری ہتھیار تلف کردینے چاہئیں۔

چند روز قبل شمالی کوریا نے پہلے ہائیڈروجن بم کا ’’کامیاب‘‘ دھماکا کرنے کا اعلان کیا اور پھر بین البرِ اعظمی جوہری میزائل بنانے کا تجربہ بھی کیا۔انھوں  نے شمالی کوریا کے اسی جوہری تجربے کے پس منظر میں ایک انگریزی معاصر میں آرٹیکل تحریر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ شمالی کوریا میں بھوک، افلاس، بیماری کے دائرے بہت وسیع ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ  ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر میں اضافہ کیے جارہا ہے۔

لکھتے ہیں کہ اگر شمالی کوریا کے آمر صفت حکمران یہ مہنگے ہتھیار بنانے سے باز آجائیں تو وہاں کے غربت زدہ عوام خوشی اور خوشحالی کا منہ دیکھ سکیں گے۔ لکھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت بھی ایٹم بموں کے ذخیروں میں اضافہ کرنے سے باز نہیں آرہے۔ لاریب پروفیسر صاحب عالمی شہرت یافتہ اسکالر اور دانشور ہیں لیکن بصد احترام ان سے اختلاف کی جسارت کی جاسکتی ہے۔

یقینا یہ بھارت ہے جس نے جنوبی ایشیا میں جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز کیا۔ مجبوراً پاکستان کو بھی قدم آگے بڑھانا پڑا۔ ایٹم بم کا حصول اگرچہ پاکستان کی اقتصادی طاقت سے باہر تھا لیکن یہ عہد کر لیا گیا کہ اگر ہم نے عزت اور غیرت کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو پھر ’’پرمانُو‘‘ یعنی جوہری ہتھیار بنانا ناگزیر ہیں۔

وہ بھارت جو مشرقی پاکستان میں فوجی مداخلت کرکے پاکستان کا ایک بازو کاٹنے میں کامیاب ہوچکا تھا اور اس کی طرف سے (ایٹمی دھماکا کرنے کے بعد) دھمکیوں کا سلسلہ جاری تھا، اس سے کیسے یہ توقع رکھی جاسکتی تھی کہ وہ بقیہ پاکستان کو بھی تباہ کرنے سے باز رہے گا؟ چنانچہ پاکستان کے ایک حکمران، ذوالفقار علی بھٹو، نے ہر صورت میں ایٹم بم بنانے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔

اس بارے میں بھٹو صاحب کی طرف سے ملتان میں پاکستان بھر کے تجربہ کار سائنسدانوں کے بلائے گئے ایک خفیہ اجلاس نے مرکزی کردار ادا کیا۔ پھر یہ سلسلہ بغیر کسی وقفے کے آگے ہی آگے بڑھتا گیا۔ مصمم ارادے، رازداری کے فن اور شب و روز کی مسلسل محنت نے مئی98ء کا وہ دن دکھایا جب اللہ کے کمال فضل و کرم سے پاکستان نے چھ ایٹمی دھماکے کرکے عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس بے مثل اور عظیم کامیابی میں پاکستان کے دو حکمرانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ قوم نے بھوک اور بیماری اور تنگدستی کے جو عذاب سہے ہیں، وہ اس کے علاوہ ہیں۔

وطنِ عزیز کو ایٹمی طاقت بنانے کے حوالے سے پاکستان کے نامور دانشور اور عالمی شہرت کے حامل سفارتکار جناب جمشید مار کرنے اپنی تازہ کتاب (COVER  POINT) میں بھٹو، جنرل ضیاء الحق اور غلام اسحاق خان کی کوششوں اور کاوشوں کی جو اشاراتی کہانی لکھی ہے، پڑھ کر بے اختیار ان حکمرانوں کے سامنے تعظیم واحترام میں سر جھک جاتا ہے (ایٹم بم پھاڑنے اور میزائل ٹیکنالوجی حاصل کرنے میں جناب نواز شریف اور بی بی شہید کا کردار بھی کم نہیں ہے) جمشید مار کر نے لکھا ہے کہ ایٹم بم بنانے کے سلسلے میں امریکا اور مغربی طاقتوں کی طرف سے سب سے زیادہ دباؤ جنرل ضیاء الحق کو برداشت کرنا پڑا لیکن انھوں نے سر جھکانے اور کسی کو سچی بات بتانے سے انکار کردیا۔ حتیٰ کہ پاکستان ’’سرخ اشارے‘‘ کو عبور کرگیا۔ اب کوئی اس کی بساط لپیٹنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔

پاکستان نے ایٹم بم کے حصول کے لیے پریسلر، سمنگٹن اور سولارز ایسی ظالمانہ اور امتیازی امریکی ترمیمات کا جبر برداشت کیا۔ یہ کوئی معمولی بات تھی؟ جمشید مارکر نے اپنی مذکورہ تصنیف میں لکھا ہے: ’’ان اعصاب شکن دباؤ میں ایک بار طاقتور امریکی وفد اسلام آباد آ رہا تھا تاکہ جنرل ضیاء الحق کو ایٹم بم بنانے سے روکا جائے۔

اس وقت جنرل صاحب، جونیجو حکومت بھی فارغ کرچکے تھے۔ افغانستان سے سوویت روسی فوجوں کے انخلا کا معاہدہ بھی ہوچکا تھا۔ بھارت کی (پاکستان مخالف) براس ٹیکس فوجی مشقیں بھی جاری تھیں۔ ان سب کا دباؤ جنرل ضیاء الحق نے اکیلے برداشت کیا اور امریکی وفد سے ملاقات سے قبل ہمارے ساتھ ایک میٹنگ کی۔ انھوں نے میٹنگ میں موجود ہر شخص کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہایت سرد لہجے میں کہا: ہم تو ایٹم بم بالکل نہیں بنا رہے۔ ہمیں معلوم تھا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں لیکن ان کا جھوٹ ملک و ملت کے شاندار مفاد میں تھا۔‘‘

ہمارے دانشور پروفیسر صاحب ایٹمی ہتھیاروں کی بجا طور پر مخالفت کرتے ہیں لیکن اگر پاکستان کے پاس ایٹم بم نہ ہوتا تو یہ اخلاقی دروس دھرے کے دھرے رہ جاتے۔ بھارت، جس نے 98ء میں دوسری بار پانچ ایٹمی دھماکے کیے تھے، پاکستان کو ناقابلِ یقین اور ناقابلِ تصور نقصان پہنچا چکا ہوتا۔ امریکا بھی، نائن الیون کے بعد، پاکستان کو معاف نہ کرتا۔ جناب والا، یہ ہمارا ایٹم بم ہے جس نے ہمیں مشرق اور مغرب کے طاغوت سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر عراق کے پاس ایٹم بم کی طاقت ہوتی تو نہ اسرائیل اس پر حملہ آور ہوتا اور نہ ہی امریکا و اتحادی ممالک کو صدام کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی جرأت و جسارت ہوتی۔

افسوس لیبیا کے حکمران، کرنل قذافی، نے عالمی دباؤ کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنا ایٹمی پروگرام بھی بند کردیا اور ایٹمی بھٹیاں بھی اٹھا کر امریکا کے حوالے کردیں۔ آج قذافی اور اس کا لیبیا کہاں ہے؟ اگر لیبیا ایٹمی طاقت ہوتا تو کسی کو اس شاندار اور خوشحال ملک کو تباہ کرنے کی شہ نہ ملتی۔ آج لیبیا ٹوٹ کر بکھر چکا ہے اور عراق بھی لخت لخت ہے۔

کمزوری کے باعث صدام حسین کو پھانسی پر جھولنا پڑا اور قذافی کو ایک ویرانے میں ذبح کیا گیا۔ مَیں نے قذافی کے آخری ایام کے دوران عوام کے ہاتھوں رسوا ہونے کی کلپنگ دیکھی ہے اور لاچاری اور بے بسی کا وہ خط بھی پڑھا ہے جو کرنل قذافی صاحب نے برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کے نام لکھا ہے۔ ایک مغربی حکمران سے زندگی کی بھیک مانگتا ہوا قذافی۔ پاکستان کے ایٹم بم کی مخالفت کرنے والے کیا یہ چاہتے ہیں کہ (خدانخواستہ) پاکستان کا حشر بھی ایسا ہی ہو؟ آج عراق و شام اور لیبیا کا وجود اور عدم وجود یکساں ہوچکا ہے۔

وہاں کے عوام سے کوئی جاکر پوچھے کہ فوجی طاقت نہ ہونے سے ملک کس طرح رسوا ہوتے ہیں۔ کیا شام کے بشار الاسد کا انجام بھی صدام اور قذافی سے مختلف ہوگا؟ یہ پاکستان کی جوہری طاقت ہے جس نے اس کے حریفوں اور دشمنوں کو آگے بڑھنے سے روک رکھا ہے۔ پاکستان کی سرزمین اور پاکستان کے عوام کا باعزت تحفظ اسی ’’قیمتی کھلونے‘‘سے وابستہ ہے۔ یہ ہمارا ایٹم بم ہے جس نے وجودِ پاکستان کے مخالفین کے جارحانہ پاؤں میں ہمیشہ کے لیے زنجیر ڈال رکھی ہے۔

یوکرائن بھی ’’عالمی امن‘‘ کی محبت میں اگر اپنا ایٹمی پروگرام رول بیک نہ کرتا تو آج وہ بھی روس اور امریکا کے ہاتھوں ذلیل و رسوا نہ ہورہا ہوتا اور نہ اس کے عوام خوار ہوتے۔ اسے اپنے وجود کے لالے پڑے ہوتے نہ کسی طاقت کو اس کے جغرافیے کا سودا کرنے کی جرأت ہوتی۔ اس پس منظر میں وہ لوگ پاکستان کے بہی خواہ کیسے ہوسکتے ہیں جو پاکستان کو ایٹمی پروگرام روکنے اور محدود کرنے کی صلاح دینے کی کوشش کرتے ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ بھارت نے ایٹم بم بنانے کا آغاز کرکے جنوبی ایشیا کے اربوں انسانوں کا سکون غارت کردیا۔

خوشی کی بات یہ ہے کہ ’’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی ‘‘ کے سربراہ، یوکی امانو، نے کہا ہے کہ پاکستان کا نیوکلیئر پروگرام اطمینان بخش ہے اور پاکستان کے تمام ایٹمی پاور پلانٹس بھی محفوظ ہیں۔ اگرچہ بدقسمتی سے، اس سلسلے میں، امریکا (بھارت کے مقابل)پاکستان کے ساتھ امتیازی سلوک برت رہا ہے۔ 31مارچ 2016ء کو واشنگٹن میں ہونے والی نیوکلیئر سیکیورٹی کانفرنس میں جناب نواز شریف شرکت کررہے ہیں۔ ہمیں قوی امید ہے کہ وہ پاکستان کے جوہری اثاثوں کا مقدمہ پوری توانائی کے ساتھ لڑیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔