آمریت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا کوئی جرم نہیں

انوار فطرت  اتوار 11 نومبر 2012
 ’’لیبیا سازش‘‘ کے مرکزی کردار طارق خورشید کے ساتھ ایک نشست۔ فوٹو : فائل

’’لیبیا سازش‘‘ کے مرکزی کردار طارق خورشید کے ساتھ ایک نشست۔ فوٹو : فائل

 کیا تضاد ہے کہ حضرتِ ایوبؑ صبر کا حوالہ بنتے ہیں لیکن ایوب خان نامی بے صبر فوجی آمر کے جبر نے ایک پورے ملک کو زندان اور ایک پوری قوم کو ضمیر کا زندانی بنا دیا۔

کوئی زبان کھلی تو قینچ اور کوئی سر، تاب ہوا تو قلم لیکن تابہ کے، ایک دن صبر کا پیمانہ چھلک گیا، آہ و فغاں، چیخ پکار، دہائیاں بلند ہوئیں۔ زندہ دلی شاید لاہوریوں کی مجبوری ہے، بہت برے دنوں میں بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، ہنستے ہنستے ایوب خان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ سپیریئر سائنس کالج کے طارق خورشید، حسام الحق، عبدالرشید شیخ، ثمر خان، احسان اللہ خان اور متعدد دوسرے طلبہ کا لارڈز (کیفے) میں اجلاس جاری تھا، تحریک کی گرماگرمی جاری تھی، غالباً براہِ راست تصادم سے گریز کا پہلو زیرغور تھا کہ اچانک غزالہ شبنم جلال کے ساتھ اٹھیں اور اپنی چوڑیاں اتار کر لڑکوں کی جانب اچھال دیں، پہلے سنّاٹا اور پھر سرگوشیاں۔۔۔ بالآخر غزالہ کو چوڑیاں واپس کر دی گئیں۔۔۔ اب نوجوانوں کے تیور بدلے ہوئے تھے۔

اگلے دن گورنمنٹ کالج سے جلوس نکلا، شرکاء کیا تھے، مجسم شعلے تھے۔ وائی ایم سی اے ہال کے قریب پولیس نے ناکا لگا رکھا تھا، اِنہوں نے دھرنا دیا، لاٹھیاں حرکت میں آ گئیں، کسی کا سر پھوٹا، کسی کی آنکھ لیکن سب جمے ڈٹے رہے۔ طارق خورشید کے قریب ایک بانکا نوجوان تنویر بیٹھا ہوا تھا، پولیس نے دیکھا کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا تو سنگینوں کی نوکیں سیدھی کر لیں۔ ایک شقی القلب پولیس والے نے سنگین مار کراس کا پیٹ چاک کر دیا۔ پولیس کو اس کا اختیار تو نہ تھا لیکن جہاں شمریت کا راج ہو وہاں جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے درمیان فرق اٹھ جاتا ہے، یوں لاہور کے پہلے شہید جمہوریت کا اعزاز تنویر کا مقدر بنا۔ اس کے بعد بھگ دڑ مچی تو طارق بھی اپنے ساتھیوں سمیت بھاگے، ایک کوآپریٹو بینک کے عملے نے پناہ دی۔ نوجوانوں نے سرکار کو چین سے دن کاٹنے دیا نہ رات۔ حالات قابو سے باہر ہوئے تو پولیس کو فرار ہوتے ہی بنی اور اگلے دن لاہور طلبہ کے قبضے میں تھا۔

اسی دوران بابائے سوشل ازم شیخ رشید سے ملاقاتیں ہوئیں اور طارق نے ان کے ہاتھ پر بیعت کر لی۔

ایکسپریس: شیخ رشید کی وجہ سے آپ ترقی پسند بنے یا پہلے ہی سے نظریاتی تھے؟
طارق خورشید: میں پنجاب یونی ورسٹی کے زمانے ہی سے ترقی پسند تھا۔ میرا تعلق نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن (NSF) سے تھا، ہماری نظریاتی تربیت ڈاکٹر نواز صاحب اور میر لطیف صاحب نے کی۔ ہم پروفیسر عزیز الدین گروپ میں تھے۔ ہم نے اپنے عہد کے برصغیر کے بہت بڑے مزدور رہ نما مرزا ابراہیم کے ساتھ ریلوے لیبر یونین میں بھی کام کیا، یوں عملی تربیت پائی۔

ایکسپریس: لیبیا جانے کا سبب و سبیل کیا بنی؟
طارق خورشید: دراصل ضیاء الحق کے خلاف تحریک تو ہم چلا ہی رہے تھے اور اس میں ہمیں خاصی کام یابی بھی حاصل ہو رہی تھی، ہمارے کالج اور یونی ورسٹی کے بہت سے دوست بیوروکریسی میں پہنچ چکے تھے۔ 35 بیورو کریٹ، جن کا تعلق لیفٹ سے تھا، ہمارے ساتھ کام کر رہے تھے۔ یہ گروپ بعد میں Expose ہو گیا اور ان میں سے کم از کم آدھے اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہمیں زیر زمین کام کرنا تھا اور پی پی پی کے کارکن کی تعمیر اور نشو و نما ایسے خطوط پر ہوئی ہے کہ اُس میں زیر زمین کام کرنے والا مٹی گارا استعمال ہی نہیں ہوا۔ زیرِ زمین کام کرنا بائیں بازو والوں کا انداز ہے۔ ہمیں مختلف مقامات پر خفیہ سیل قائم کرنے تھے جن پر کام شروع تو کر دیا گیا لیکن وسائل ایسے وافر نہ تھے کہ اس کام سے بہ سہولت عہدہ برآء ہو سکتے۔ اس دوران یہ بات علم میں آئی کہ ضیاء الحق کا تختہ الٹنے کی تحریک کو لیبیا کی حکومت اسپانسر کرنا چاہتی ہے۔

ڈاکٹر صاحب (کنیز یوسف) سے میری ملاقاتوں کا سلسلہ قائداعظم یونی ورسٹی سے شروع ہوتا ہے جہاں وہ وائس چانسلر تھیں۔ وہ پاکستان میں کسی یونی ورسٹی کی پہلی خاتون وائس چانسلر تھیں اور انھیں ذوالفقار علی بھٹو صاحب ہی نے تعینات کیا تھا۔ غزالہ شبنم جیسی شعلۂ جوّالہ ان ہی کی شاگرد تھیں۔ ڈاکٹر صاحب بلاشبہ ایک بہادر خاتون تھیں۔ ضیاء الحق کے دور میں انھیں نوکری سے فارغ کر دیا گیا تو وہ پیپلز پارٹی کی تحریک میں شامل ہو گئیں اور بھٹو کیس کے دوران تو پیپلز پارٹی کی اگلی صفوں میں رہیں۔ ان کے ایک بھائی عثمان خالد فوج میں بریگیڈیئر اور نوشہرہ کے اسکول آف آرٹلری کے کمانڈنٹ تھے، دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور ریٹائرمنٹ کی مدت بھی قریب تھی سو حکومت نے انھیں علاج کے لیے لندن جانے کی اجازت دے دی۔

اسی دوران ڈاکٹر صاحب کے زرخیز ذہن نے ایک منصوبہ تیار کیا اور بھائی کو اس امر پر راضی کیا کہ وہ لندن جا کر ایک پریس کانفرنس میں فوج سے مستعفی ہونے کا اعلان داغ دیں، اس میں پاک فوج سے ضیاء الحق کے خلاف بغاوت کی استدعا بھی کی جائے، اس طرح اُن کے خیال میں، ضیاء الحق، بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دے پائیں گے۔ خیر! عثمان خالد اور ان کے ایک اور فوجی ساتھی کرنل الیاس شمیم نے، جو فوجی آمریت کے مخالف تھے، ڈاکٹر صاحب کے منصوبے کے عین مطابق عمل کیا لیکن تب تک بھٹو صاحب کو پھانسی گھاٹ پر جھلایا جا چکا تھا اور پاکستان میں کوئی ہل چل نہ مچی۔ پھر یوں ہوا کہ عثمان خالد کے ذہن میں قوت کے ذریعے آمر کو ہٹانے کی دھن سمائی اور انھوں نے تحریکِ آزادیٔ پاکستان (پاکستان لبریشن موومنٹ) قائم کی اور ’’انقلاب‘‘ کے نام سے ایک پرچہ بھی نکالنا شروع کیا۔ ان ہی دنوں کرنل الیاس شمیم نے لیبیائی سفارت کاروں سے مراسم پیدا کیے اور اس سلسلے میں کرنل قذافی سے ملنے کی کوشش کی۔

بہ ہرحال ملاقات کا سلسلہ بن گیا لیکن کسی وجہ سے کرنل الیاس نہ جا سکے اور عثمان خالد لیبیا پہنچ لیے۔ جب ہمیں اپنے زیر زمین سیل قائم کرنے اور ان کے لیے وسائل کی ضرورت پڑی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ لیبیا آمریت کے خلاف پاکستان کے ’’باغی‘‘ گروپوں کو اسپانسر کرنے کی خواہش رکھتا ہے تو میں تیار ہو گیا۔ میرے ساتھ دوسرے ساتھی بھی تھے جن کا تذکرہ میری کتاب ’’سوئے دار‘‘ میں موجود ہے۔ دراصل کرنل قذافی تو تھے ہی زورِ بازو پر یقین رکھنے والے اِدھر عثمان خالد بھی غالباً فوجی ہونے کی مناسبت سے بندوق پر زیادہ اعتماد کرتے تھے۔ اِس کا علم ہمیں لیبیا پہنچ کر تب ہوا جب ہمیں کمانڈو تربیت لینے کو کہا گیا۔ میں اور میرے دوستوں کی اکثریت نے یہ تربیت لینے سے صاف انکار کر دیا کیوں کہ دہشت گردی ہمارے مزاج کا حصہ نہیں تھی، ہم خالص سیاسی مزاج رکھتے تھے۔

میری اس معاملے پر لیبیا کی پولٹ بیورو کے رکن عمر ابراہیم سالم سے خاصی تو تو میں میں بھی ہوئی۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ہم واپس جانا چاہتے ہیں تو اسباب معلوم کرنے کے لیے انھیں ہمارے پاس بھیجا گیا۔ میں نے ان سے کہا ’’کرنل قذافی اور عرب امارات کے کسی شیخ میں کوئی خاص فرق نہیں، وہ باز پالتے ہیں اور قذافی انسان! آپ تو دہشت گردی کی تربیت دے رہے ہیں۔‘‘ اس پر عمر سالم خاصے برافروختہ ہوئے تھے۔ میں نے ان پر یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ پاکستان میں کوئی بھی تحریک پیپلز پارٹی کے بغیر ملک گیر نہیں ہو سکتی۔

ایکسپریس: لیبیا سازش کیس میں آپ گرفتار ہوئے، یہ ممکن نہیں کہ آپ ایک تشدد پسند ذہن رکھنے والے آمر کے قیدی ہوں اور آپ پر جسمانی تشدد نہ کیا گیا ہو، ’’سوئے دار‘‘ میں کہیں اس کا ذکر نہیں؟
طارق خورشید: دیکھیے! ہمارا پالا کسی شائستہ دشمن سے نہیں پڑا تھا اور الزام بھی ہم پر معمولی نہ تھا، ’’سازش‘‘ کی تھی ہم نے، سو کسی رو رعایت کے سزاوار کب تھے۔ آپ اندازہ کیجے! جنوری کے اوائل کی ہول ناک رات تھی جب مجھے قلعے میں 10/5 کی ایک کوٹھڑی میں یکہ و تنہا دھکیل دیا گیا۔ تاریکی کا ہول تو تھا ہی، اس پہ آنکھوں پر پٹی بھی بندھی ہوئی۔ کوٹھڑی کی بناوٹ کچھ اس طرز پر تھی کہ اس کے دونوں طرف ڈھیلے ڈھالے بھاری بھرکم دروازے تھے جن میں قدامت کی وجہ سے درزیں پڑ چکی تھیں، پہاڑ کی تیز برفیلی ہوا ایک دروزے سے گھستی اور جسم کو کند بلیڈ کی طرح کاٹتی ہوئی گزر جاتی، فرش کچا، یخ، گرفتار اس حال میں ہوئے تھے کہ پاؤں میں موزے تک نہ تھے، ایک معمولی سا کوٹ، ٹانگیں ڈھانپوں تو چھاتی برف کی سِل بن جاتی اور اوپر کھینچوں تو ٹانگیں لکڑی ہو جاتیں، پنبہ کُجا کُجا نَہم کی سی کیفیت۔ زیرِ زمین ایسے ایسے مقامات پر بھی رکھا گیا جہاں سانپوں کے مسکن بھی تھے بل کہ ایک جگہ تو ایسی بھی رہی جہاں چھت سے سنپولیے برستے تھے۔ یقین کریں ہمیں کچھ خبر نہیں ہوتی تھی کہ کب دن چڑھا، کب رات ڈھلی، بعض اوقات ہم پر ایسا ہول طاری کر دیا جاتا کہ وقت منجمد ہو کر رہ جاتا تھا، یہ جو شاعری میں ایک پل کا صدیوں پر محیط ہونا باندھا جاتا ہے تو ایسے پل ہم نے عملاً گزارے ہیں۔

ہاں! جسمانی تشدد کا ذکر ’’سوئے دار‘‘ میں نہیں ہے، میں نے قصداً نہیں کیا مگر حقیقت تو یہ ہی ہے کہ تشدد ہوا اور جتنا اُن سے ممکن تھا، انھوں نے کیا۔ کتاب میں تشدد کا باب قائم نہ کرنے کا ایک مقصد ہے، میں دراصل نہیں چاہتا کہ اس راہ پر چلنے والے خوف زدہ ہو جائیں، میں چاہتا ہوں کہ یہ تاثر قائم کیا جائے کہ عزم راسخ ہو تو یہ راستہ کچھ مشکل نہیں۔ ان خوف ناک اور دہشت انگیز مراحل کے بجائے میں نے اٹک جیل میں کمبل پہنچانے والے بابے کا ذکر کرنا زیادہ مناسب سمجھا، تیلی خان کا تذکرہ کیا، ان لوگوں کا تذکرہ کرنا مجھے اچھا لگا جن کی محبتوں نے مجھ پر اذیت کے لمحات کو سہل کیا، مشکل مرحلوں سے گزرنے میں آسانیاں فراہم کرنے کی کوشش کی۔ میں نے کرنل آفتاب کا ذکر کیا، میجر جنجوعہ اور ڈی ایس پی میاں شریف کی نیک دلی سامنے لایا۔ ان لوگوں نے میرا حوصلہ ماند نہیں پڑنے دیا۔ یہاں ایک واقعہ یاد آگیا۔ بھٹو صاحب جب پہلی بار رہا ہو کر آئے تھے، لوگ انھیں پھول پہنا رہے تھے۔ میں بیگم نصرت بھٹو کے قریب ہی کھڑا تھا، مجھ کو بھی کسی نے پھول پہنانا چاہے تو میں نے روک دیا، اس پر بیگم صاحب مسکرائیں، کہنے لگیں ’’ پہن لو یہ پھول، لوہے کے گجرے پہننے کا سلیقہ آ جائے گا‘‘۔

ایکسپریس: یہ بتائیے! آپ لوگ بھی آمر کے خلاف جدوجہد کر رہے تھے اور اُدھر ان ہی دنوں الذوالفقار بھی یہ ہی کچھ کرنے میں کوشاں تھی، آپ دونوں کے مابین ربطِ کار کیوں نہ ہو سکا؟
طارق خورشید: اصل بات یہ ہے کہ ہم ہیں ترقی پسند اور وہ تھے پیپلز پارٹی کے کارکن، فطری طور پر ہم دونوں کا کام کرنے کا انداز مختلف بل کہ متضاد رہا۔ لیبیا میں جب ہمیں کمانڈو تربیت دینے کی کوشش کی گئی تو ہم نے صاف انکار کر دیا تھا کیوں کہ ہم سیاسی لوگ ہیں اور ہمارا انداز سیاسی ہے۔ وہ ہمیں دہشت گرد بنانا چاہتے تھے جو ہم نے بننے سے صاف انکار کر دیا تھا۔ الذوالفقاروالے نظریاتی لوگ نہیں تھے وہ خالصتاً پیپلز پارٹی کا Stuff تھا جس کی وہ تربیت نہیں ہوئی تھی، جس سے ہم گزر کر آئے تھے۔

ایکسپریس: کرنل الیاس شمیم نے بھی عثمان خالد کے ساتھ ہی فوج سے استعفیٰ دیا تھا لیکن آپ کی کتاب میں یہ کردار پھر سامنے نہیں آیا؟
طارق خورشید: کرنل الیاس صاحب نے استعفیٰ تو عثمان خالد کے ساتھ ہی دیا تھا لیکن وہ ان کے ہم راہ (قصداً یا مجبوراً) لیبیا نہیں جا سکے۔ پھر بی بی شہید نے اپنے دور میں انھیں اسٹیل مل کا بگ باس بھی بنایا تھا۔ اس کے بعد مجھ کو ان کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔

ایکسپریس: لیبیا سازش کیس کے حوالے سے ’’سوئے دار‘‘ میں ڈاکٹر کنیز یوسف صاحب کا کردار اس طرح پینٹ ہوتا ہے کہ اس پر انگلیاں اٹھائی جاسکتی ہیں؟
طارق خورشید: میں آج بھی کہتا ہوں کہ ڈاکٹر کنیز نظریے سے وابستگی رکھنے والی خاتون ہیں لیکن ان کا خاندان اکثر آڑے آجاتا تھا۔ سوئے دار میں آپ نے پڑھا ہوگا، ہم لیبیا سے واپسی کے بعد انھیں احوال سے آگاہ کرنے گئے تھے، ہم نے مناسب سمجھا کہ کوئی بات کرنے سے پہلے انھیں ان کے بھائی عثمان کا خط دے دیں جو (معروف کالم نگار اور ادیبہ) آپا افضل توصیف کے پاس تھا، خط پڑھتے ہی ڈاکٹر صاحب مشتعل ہو گئیں اور ہم پر بری طرح برس پڑیں، ہمیں بولنے کا موقع ہی نہیں دے رہی تھیں کہ ہم انہیں ان کے بھائی کے کارنامے سنا سکیں، یہ تھا اپنے عزیز و اقرباء کے حوالے سے ان کا رویہ، وہ دنیا جہان تِل پَٹ کر دیں، ڈاکٹر صاحب کبھی نوٹس نہ لیتیں لیکن انہیں سوئی چبھ جائے تو آسمان سر پر اٹھا لیتیں۔

جب وہ کم زور پڑتیں تو دوستوں کے گلے پر بھی چھری پھیرنے سے گریز نہ کرتیں۔ دوست داری ان کی یہ تھی کہ اِدھر ہم لیبیا سازش کیس میں گرفتار ہوئے اور اُدھر وہ ملک سے بڑی کام یابی کے ساتھ فرار ہو گئیں، بقول شخصے انھوں نے خواجہ خیرالدین کے ذریعے جنرل ضیاء الحق سے ساز باز کر لی تھی جس نے انھیں بھاگ جانے دیا۔

ایکسپریس: یونی ورسٹی میں ڈاکٹر کنیز یوسف سے یونی ورسٹی کے دور میں اختلافات کی اصل وجہ کیا تھی؟ آپ کی کتاب میں اس کا ذکر موجود نہیں؟
طارق خورشید: بھٹو صاحب کو دراصل نوجوانوں اور خاس طور پر طلبہ سے بہت توقعات تھیں، اسی لیے وہ اُن پر التفات کی نظر کچھ زیادہ رکھا کرتے تھے، ان کے ناز نخرے بھی برداشت کر لیتے تھے۔ انہیں اپنے طور پر اس کا بھی ادراک ہوتا تھا کہ کون کس لائق ہے، مثلاً مجھے خصوصی طور پر انھوں نے یو ایس اسٹڈیز میں ماسٹر کرنے کی تجویز دی اور ڈاکٹر کنیز صاحب کو کلاسیں شروع کرنے کی ہدایت کی، میں نے اس مضمون میں داخلہ بھی لے لیا تھا، یہ الگ بات کہ بھٹو نہ رہے، حمید اختر کے بارے ان کا اندازہ کچھ اور تھا سو اسے ہیلمٹ بنانے کی فیکٹری لگانے کا پرمٹ دے کر کام پر لگا دیا، اسی طرح وہ ہر ایک کے بارے میں ویژن رکھتے تھے۔

ہماری طرف بھٹو صاحب کے اس جھکاؤ کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب ہمیں اپنا رقیب سمجھتی تھیں اور ہمیں قابو میں رکھنے کے لیے مختلف حربے بھی استعمال کرتیں۔ پہلا شکار انھوں نے چاچا ہمدانی کا کیا یعنی اسے یونی ورسٹی سے نکالنے کی کوشش کی جس پر ہم نے تحریک چلا دی، نتیجہ یہ نکلا کہ چاچا تو وہیں رہے اور ڈاکٹر صاحب فارغ۔۔۔بھٹو صاحب نے انھیں بعد میں ہسٹری کمیشن کا چیئرپرسن مقرر کر دیا۔
ایکسپریس: بھٹوصاحب کے ساتھ کیا معاملہ تھا؟ ایشیا سرخ ہے کانعرہ لے کر چلے اور آغاز سفر ہی میں جے اے رحیم اور معراج محمد خان جیسے لوگ انھیں چھوڑ چھوڑ کر جانے لگے، جو ساتھ رہے وہ بھی مشکل میں رہے اور وہی فیوڈل لارڈز بھٹو صاحب کی قربت حاصل کر گئے جن کے خلاف وہ بہ زعم خود … نکلے تھے؟

طارق خورشید: بھائی! بھٹو صاحب کے ساتھ معاملہ تو یقیناً تھا، ایک طرف وہ ایک فیوڈل لارڈ کے بیٹے تھے تو دوسری طرف ایک غریب ماں کے لال، یہ ایک شخصی دوئی (Dichotomy) تھی اور ایک طرح سے ’’ایماں مجھے روکے ہے تو کھینچے ہے مجھے کفر‘‘کا معاملہ۔ شہزادہ ہونے کے ناتے وہ فیوڈل لارڈ کا ساتھ بھی چاہتے تھے اور ماں کی ذات انھیں غریب سے دور نہیں ہونے دیتی تھی اور بھائی! ہم ترقی پسندوں کی قربانیاں بے شک بے بہا تھیں جس کے باعث ایک آرڈر سا بن گیا تھا جسے بھٹو صاحب نے کیش کرایا۔ ترقی پسند خود باہر نہیں نکلتے تھے۔ پیپلز پارٹی کے آغاز میں کارکن کلیئر ہیڈڈ تھا، پیپلز پارٹی سے پہلے اس کی کوئی پہچان نہیں تھی۔ حنیف رامے، بابا شیخ رشید، ڈاکٹر مبشر حسن، معراج محمد خان اور دوسرے بہت سے ایسے ساتھی تھے جن کا کام پیپلز پارٹی کے وجود میں آنے سے پہلے بھی بہت تھا لیکن ان کو جانا پہچانا گیا پیپلز پارٹی کے قیام کے بعد، سوائے شیخ عبدالرشید، جاوید حکیم قریشی، نذر کیانی وغیرہ چند ایک ہی نام ایسے ہیں جو بہ ہرحال پہلے سے جانے پہچانے تھے وہ بھی ریجنل لیول پر۔ پنجاب بھٹو صاحب کے لیے بہت زرخیز ثابت ہوا، ان کا امیج 1965 میں معاہدہ تاشقند کے تناظر میں نیشنل ہیرو کے طور پر ابھرا۔ پنجاب کی سائکی میں جذباتی پن کی فراوانی ہے۔

جو بھی بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا وہ پنجاب کا محبوب بنتا۔ اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھٹو صاحب نے ایک موقع پر اپنے خطاب کے دوران سوَرن سنگھ کو مخاطب کرکے کہا ’’بھارتی کتو! نکل جائو‘‘ اس جملے نے پنجابیوں کو گرویدہ کر لیا۔ سونے پر سہاگا یہ کہ وہ محروم طبقات کی بات بھی کرتے تھے، اسلامی بلاک کے اکنامک آرڈر کا ان کا مشن مجھے بھی انسپائر کرتا تھا۔ آپ دیکھ لیں، بھٹو وہ واحد لیڈر ہے جو Controvarsy سے Consensus کی طرف آیا۔ وہ دراصل تاریخ بدلنے کا جنون رکھتے تھے۔ ہمارے ہاں اس کی دو ہی مثالیں ہیں، ایک قائداعظم اور ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو۔

ایکسپریس: بائیں بازو کے کام یاب نہ ہونے کی کوئی وجہ سمجھ میں آتی ہے؟
طارق خورشید: لیفٹ کا پرابلم یہ ہے کہ اب تک بنے بنائے Jorgan سے باہر نہیں نکل رہا۔ وہ عام آدمی سے اس کی زبان میں بات نہیں کر پا رہا۔ Behave نہیں کر سکتا۔ آپ کو بتائوں، میں جمعہ کی نماز پڑھتا تھا تو یہ میرے پیچھے پڑ جاتے۔ میرے خلاف پمفلٹ بھی نکلا جس میں مجھے منافق ثابت کرنے کی کوشش کی گئی حال آںکہ کون نہیں جانتا قائداعظم یونی ورسٹی میں پہلی بار لیفٹ کی یونین ہم ہی نے بنائی تھی اور ہم جیتے بھی۔

ایکسپریس: سیاسی سماج میں عام آدمی کو رواداری کا عنصر نظر نہیں آتا۔ نظری اختلافات کو ذاتیات کے علاقے میں داخل کر لیا جاتا ہے، ایک دوسرے کے خلاف خنجر بہ دست ہونے کا رویہ بہت زیادہ ہے؟
طارق خورشید: سیاست دانوں کی اکثریت بغیر کسی سیاسی تربیت کے میدان میں اتری ہوئی ہے لہٰذا ایسا تو ہو گا۔ جن لوگوں کی سیاسی تربیت ہوتی ہے ان کا رویہ زیادہ سماجی ہوتا ہے، مثال کے طور پر آمر پرویز مشرف کے دور میں مخدوم جاوید ہاشمی قید و بند میں تھے۔ ان کی صاحب زادی میمونہ کی لندن میں بی بی سے ملاقات ہوئی، بعد میں فوٹو گرافروں کی ایک ٹیم نے ان کی تصویریں اتارتے ہوئے انھیں ’’Smile‘‘ دینے کو کہا تو بی بی ان پر برس پڑیں کہ آپ عجیب غیر مہذب لوگ ہیں، اس کا باپ اُدھر اذیت کاٹ رہا ہے اور اس کی بیٹی سے آپ ’’Smile‘‘ دینے کی توقع کرتے ہیں۔ جاوید پر میرے کزن برکات کے قتل کا الزام تھا لیکن ایک موقع پر راجہ انور نے پورے یقین کے ساتھ کہا کہ جاوید نے میرے کزن کو نہیں مارا۔

خیر میں قید کے دوران ان سے ملنے گیا۔ جاوید بلاشبہ ایک دیانت داراور جذباتی شخصیت ہیں، میں ملنے گیا تو آب دیدہ ہو گئے، صدیق الفاروق اس موقع پر موجود تھے، وہ آمریت کے ظلم و جبر کا تذکرہ کر رہے تھے تو میں نے عرض کیا کہ یہ کم ہے، جاوید سے ملنا بھی آسان ہے اور قید کے دوران انھوں نے آسانی سے کتاب بھی لکھ لی، میں تو اپنی کتاب کے Synopses جیل سے سگریٹوں میں اسمگل کیا کرتا تھا، کاغذ پنسل تک میسر نہ تھے۔ ضیاء الحق کا دور تھا، حفیظ اللٰہ نیازی (عمران خان کے بہنوئی) اسلامی جمیعتِ طلباء سے تھے، نظریاتی سیاست کا دور تھا، شہر میں صفدر ہمدانی کی ڈھنڈیا پڑ رہی تھی، ایس پی اسلام آباد، حفیظ کو ہمارا مخالف جان کر ہمدانی کا اتا پتا کرنے ان کے پاس پہنچ گئے لیکن حفیظ یہ سن کر سیخ پاء ہوگئے اور ایس پی کو ڈانٹ دیا ’’مجھے کیا پولیس کا مخبر سمجھ رکھا ہے جو میں ہمدانی کا پتا بتاؤں؟‘‘ اور ایس پی کے جانے کے فوراً بعد انھوں نے صفدر کو صورتِ حال سے آگاہ کردیا کہ اپنا بندوبست کرلو۔ بہ ہرحال یہ رواداری ان سیاست دانوں کا شیوہ ہے جن کی کسی نہ کسی طور سیاسی تربیت ہوتی ہے۔

ایکسپریس: رہائی کے بعد عملی سیاست میں حصہ کیوں نہیں لیا؟
طارق خورشید: دراصل لیبیا سازش کیس میں قید و بند کے باعث ہمارا لوگوں سے رابطہ زیادہ استوار نہیں رہ سکا۔ جب قید سے چھٹے تو تب تک گاڑی چھوٹ چکی تھی سو میں نے محسوس کر لیا تھا کہ سیاست میرے بس کا روگ نہیں ہے۔ ساتھیوں نے خود کو پروموٹ کرنے کے بجائے دوسروں کو ’’فروغ‘‘ دیا۔ معراج محمد خان نکلے تو لوگوں نے انھیں مہم جو قرار دیا اگر ان کا ساتھ دیا جاتا تو لیفٹ مضبوط ہوتا۔ پیپلز پارٹی کے کارکن سجھوتا نہیں کرتے اور ان کے حالات بھی بہت خراب ہیں۔ میں 1994 میں لندن گیا تو صفدر ہمدانی کا جگر سیروسز (Cerrhoses) کا شکار ہو چکا تھا۔ بہت برے حالات میں تھا، اخبار تک نہیں ملتا تھا۔

ناہید خان کو بی بی شہید سے صفدر ہمدانی ہی نے متعارف کرایا تھا جس کے بعد انھوں نے بی بی کا اعتماد جیتا اور انتہائی قربت حاصل کر لی جب کہ ہمدانی اس دورانیے میں بی بی سے ’’دور کیے جاتے رہے‘‘۔ بہ ہر حال میں نے واپس آکر ناہید کو بتایا کہ ہمدانی نے پیپلز پارٹی کا ساتھ انتہائی برے دنوں میں بھی نہیں چھوڑا، وہ بیگم نصرت بھٹو کے انتہائی معتمد ساتھی تھے، ان کا کچھ تو خیال رکھا جانا چاہیے لیکن انھوں نے ’’اچھا کچھ کرتے ہیں‘‘ کہ کر چپ سادھ لی، حتیٰ کہ 1998 میں ہمدانی اللہ کو پیارا ہو گیا۔

ایکسپریس: عملی سیاست کا آغاز کب کیا تھا؟
طارق خورشید: عملی سیاست کا آغاز اسلام آباد ہی سے کیا تھا۔ میرے ہم راہ صفدر ہمدانی، حمید اختر، نیلوبختیار کی والدہ بیگم کرنل علی ملک، نسیم فضل حق، ہدایت اختر اور دیگر ساتھی تھے لیکن ہم میں سے کسی کو ٹکٹ نہیں ملا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آزاد کھڑے ہو جائو لیکن میں نے انکار کر دیا کہ ڈسپلن، ڈسپلن ہے جب کہ قصوری ٹکٹ نہ ملنے پر ناراض ہو گئے تھے، انھوں نے اسلام آباد اور قصور سے ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا تھا۔

ایکسپریس: فوجی عدالتوں کا وتیرا کیسا رہا؟
طارق خورشید: ہم تو دراصل پہلے سے جانتے تھے کہ ان عدالتوں نے کیا طے کر رکھا ہے لیکن بہ ہرحال سماعتیں ہوتی رہیں، عدالتیں اپنی انصاف پسندی کا بھونڈا ڈراما رچاتی رہیں۔ ہر بار پیشی پر ہمیں کسی نہ کسی مضحکہ خیز صورتِ حال کا سامنا رہتا تھا۔ ہم ان کی ’’درفنطنیوں‘‘ سے محظوظ ہوا کرتے۔ ایک بار ہمیں ایک ایسی چارج شیٹ تھما دی گئی جس میں لیبیا سازش کیس میں لیبیا کو کھلم کھلا ملوث قرار دیا گیا تھا، اندھے کو کیا چاہیے دو آنکھیں، ہم نے یہ دستاویز کسی نہ کسی طرح لیبیا کے سفارت خانے ’’پہنچوا‘‘ دی، بس پھر کیا تھا، سفارت خانے نے احتجاج کردیا اور حکومت کو پسّو پڑ گئے، فوجی جج صاحب بوکھلائے ہوے ہم سے وہ چارج شیٹ مانگنے آئے اور برملا اعتراف کیا ’’آپ کو پتہ نہیں وہ چارج شیٹ آپ لوگوں کو دے کر ہم نے اپنے لیے کتنی بڑی مصیبت کھڑی کر لی ہے‘‘۔ تو ایسے لطائف ہی میں سمجھیے انھوں نے ہم پر کیس چلایا۔

ایکسپریس: قید کے دوران آپ کو مختلف جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا، آپ مشاہدہ کرتے رہے، کیا محسوس کیا آپ نے؟
طارق خورشید: ’’سوئے دار‘‘ میں آپ نے پڑھ ہی لیا ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ بہت سے ایسے جرائم ہیں جو آپ جیل سے باہر مشکل سے کر پاتے ہیں لیکن یہ ہی جرائم جیل کے اندر رہ کر بڑی سہولت کے ساتھ کیے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر شراب کشید کرنا۔۔۔ میں نے خود جیل کے اندر کھلے عام شراب کشید ہوتے اور اسے جیل سے باہر ’’اسمگل‘‘ ہوتے دیکھا ہے، اب آپ ہی سوچیے! جیل میں بیٹھ کر قانون کے ’’محافظوں‘‘ کی ’’حفاظت‘‘ میں شراب بنانا کتنا ’’محفوظ‘‘ عمل ہے۔ قیدی عورتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا ہے اسے غیر انسانی قرار دینا بالکل مناسب ہے، جنسی درندے ہمہ وقت منڈلاتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس: آپ کے والدِ محترم کی وفات کے موقع پر آپ کی پیرول پر رہائی کے معاملے میں پس و پیش کی جاتی رہی، اس وقت آپ کے دل پر کیا گزری ہوگی، اس کا تصور ہی کیا جا سکتا ہے۔
طارق خورشید: جنازے میں شرکت کی اجازت تو بعد میں مل ہی گئی تھی بل کہ یوں سمجھیے کہ مجھے دھکے دے کر پیرول پر بھیجا گیا کیوںکہ میں نے احتجاجاً جانے سے انکار کردیا تھا۔ مجھے اس وقت جو دکھ اندر ہی اندر چاٹ رہا تھا وہ یہ تھا کہ والد کے بعد میں ہی گھر میں سب سے بڑا تھا، میرے دل میں رہ رہ کر یہ ہی آتا تھا کہ اس وقت گھر والوں پر کیا قیامت گزر رہی ہوگی، مجھے اس موقع پر سوگ وار خاندان کے ساتھ ہونا چاہیے تھا، ان کو حوصلہ دینا چاہیے تھا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ جب کرنل امتیاز نے مجھ سے کوئی تعزیتی جملہ کہا تو میں پھٹ پڑا اور پھر اس وقت میرے منہ میں جو آیا میں نے اس پر بند نہیں باندھا۔

میں نے کرنل کو دائرۂ انسانیت سے باہر، بے ضمیر، بے شرم تک کہ ڈالا۔ کرنل بے چارا خاموشی سے یہ سب سنتا رہا اور جب میں خاموش ہوا تو وہ تیزی کے ساتھ اٹھ کر وہاں سے نکل گیا۔ میں نے بھی پکا ارادہ کر لیا تھا کہ اب پیرول پر نہیں جاؤں گا کیوںکہ جب میں جانا چاہتا تھا تو انھوں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا، اُس صورت میں، میں اپنے والد کا چہرہ ہی دیکھ لیتا،سو میں نے اس مقصد کے لیے درخواست دینے سے انکار کر دیا تھا۔ میرے ساتھ یہ چال بھی چلی گئی کہ مجھے میری والدہ سے فون کروا دیا گیا، ان سے تو میں انکار نہیں کر سکتا تھا لیکن فون رکھنے کے بعد میں نے پھر انکار کر دیا۔ تب تک مجھے علم نہیں تھا کہ میرے والد کی نعش ابھی لندن سے پاکستان پہنچی ہی نہیں تھی، بعد میں جب میجسٹریٹ گل نواز نے یہ بات بتائی تو میرا دل پسیج گیا لیکن پھر بھی رہائی کے لیے درخواست لکھنے پر آمادہ نہ ہوا۔ گل نواز صاحب نے اپنے ہاتھ سے درخواست لکھی اور میرا ہاتھ پکڑ کر دست خط کرائے۔

ایکسپریس: آپ کی کتاب کا انتساب سچ مچ بہت ہی درد انگیز ہے ’’اپنی تین نسلوں کے نام، جن میں ایک کا بڑھاپا، دوسری کی جوانی اور تیسری کا بچپن میرے نظریات کی بھینٹ چڑھ گیا‘‘۔ کوئی پچھتاوا؟
طارق خورشید: نہیں، ہرگز نہیں، میں نے کوئی جرم نہیں کیا، اپنے لوگوں کے لیے آمر کے خلاف اٹھ کھڑے ہونا کوئی جرم نہیں، پچھتاوا مجرموں کو ہوتا ہے۔ میں نے سوئے دار کے ’’حرفِ اوّل‘‘ میں معروف خاتون صحافی اوریانا فیلیسی کے ناول A Man کا ذکر کیا ہے جو مجھے بی بی شہید نے لندن سے بھجوائی تھی۔ اس ناول کی تلخیص بھی میں نے اس میں دی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب مجھ پرمقدمہ چل رہا تھا۔ اس ناول کا ہیرو بعد از خرابیٔ بسیار بہ ظاہر اپنی منزل پا لیتا ہے ، رکنِ پارلیمان بھی بن جاتا ہے لیکن حکومت اس کی تابڑ توڑ تنقید کی تاب نہ لاتے ہوے اسے کار کے ڈرامائی حادثے میں مروا بھی دیتی ہے۔ میں یہ سجھتا رہا کہ وہ ناول مجھے اپنا بیانِ صفائی تیار کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا لیکن جب میں سوئے دار لکھنے بیٹھا اور جد و جہد کرنے والوں کے ساتھ پی پی پی کا سلوک دیکھا تو سمجھ میں آیا کہ مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی کہ مزاحمت کرنے والوں کا انجام وہی ہوتا ہے جو اس ناول کے ہیرو کا ہوا۔

نام تو ضیاء الحق تھا لیکن انھوں نے اپنے عہد میں تاریکی کے گڑھے (Black Holes) بے شمار بنائے، جب تک رہے ان میں روشنی کو حبسِ دوام میں رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن جانتے نہ تھے کہ روشنی حق کو لاحق ہے اور حق لازوال ہے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک دن وہ اپنی ہی تاریکی کی لپیٹ میں آکر تحلیل ہو گئے۔ اسی شب پرست کے دور میں لیبیا ’’سازش‘‘ ہوئی اور ’’کیس‘‘ کا ڈراما رچایا گیا۔ طارق خورشید اس ’’سازش‘‘ میں مرکزی ملزم کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ بائیں بازو اور پیپلز پارٹی کی نئی نسل اس کیس سے زیادہ واقف نہیں، جو شناسا ہیں ان کی یادوں پر بھی اب وقت کی گرد خاصی دبیز ہو چکی ہے، سو اس کے نقوش دھندلا چلے ہیں۔ اس موضوع پر اس سے قبل محترمہ افضل توصیف ’’لیبیا سازش کیس‘‘ اور بریگیڈیئر ترمذی (Profile of Intelliglnce) کے نام سے کتابیں لکھ چکے ہیں۔ تیسری کتاب طارق خورشید کی تصنیف ’’سوئے دار۔۔۔ کیا میں دہشت گرد تھا؟‘‘ ہے جو سمجھیے From the horse’s mouth ہے۔ سوئے دار انتہائی دل چسپ کتاب ہے۔ عہدِ آمریت کی تاریکیاں اس میں اپنی تمام تر شدت کے ساتھ ’’روشن‘‘ ہیں۔ کتاب کا دوسرا ایڈیشن بھی آ چکا ہے۔

طارق خورشید چہرے مہرے اور گفت گو سے بھی ہرگز دہشت گرد دکھائی نہیں دیتے۔ ان سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں میں نے ان کے چہرے پر پچھتاوے کی پرچھائیں نہیں دیکھی، دوران گفت گو انھوں نے در مدحِ خویش کا جملہ یا کوئی ایسا لفظ، جس سے ان کے حق میں تفاخر کا پہلو نکلتا ہو، ادا نہیں کیا۔ وہ حقیقی ترقی پسندوں کی طرح بے نیاز دکھائی دیتے ہیں۔ پیدائش ان کی گجرات میں 1950 کے اواخر کی ہے۔ قائداعظم یونی ورسٹی سے انھوں نے جیولوجی میں ایم ایس سی کیا۔ سیاسی سرگرمیوں میں اوائلِ عمر ہی سے حصہ لینا شروع کیا۔ ایوب خان کے خلاف تحریک میں حصہ لیا اور بعد میں شیخ رشید بابا کی وساطت سے پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف ایک بار پھر تحریک میں شامل ہوگئے۔ 5 جنوری 1981 کو گرفتار کر لیے گئے۔ ان پر حکومت لیبیا کی مدد سے آمریت کا تختہ الٹتے کا الزام تھا، اس ’’جرم‘‘ میں عمر قید کی سزا پائی۔ آٹھ سال کی قید کاٹ پائے تھے کہ پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی اور انھیں رہا کردیا گیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔