اکبر بگٹی نے کہا …

اسلم خان  جمعـء 9 نومبر 2012
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

’’ بلوچ سیدھی سادی زندگی گذارنے والے خانہ بدوش تھے، محض خانہ بدوش، جو وسط ایشیا کے سرسبز و شاداب مرغزاروں میں چارے اور پانی کے وسیع ذخائر کی تلاش میں بادہ پیمائی کرتے رہتے۔

قبل از مسیح کی تاریخ میں قوم کی حیثیت سے بلوچوں کا وجود ندراد تھا۔‘‘

یہ کسی بلوچ دشمن کی تحقیق نہیں، نواب اکبر شہباز خان کی ایک نادر و نایاب تحریر کے اقتباسات ہیں جو انھوں نے معروف تاریخ دان اور پروفیسر عزیز بگٹی کی کتاب کے پیش لفظ کے لیے عطا کیے تھے۔
خانہ بدوشی ایک تہذیبی ادارہ ہے، اتنی ہی جدید، ترقی یافتہ اور منظم، جتنی کوئی بھی تہذیب یا قبیلہ ہو سکتا ہے۔یہ لوگ شہروں میں نہیں بستے تھے بلکہ قبائل کی شکل میں مختلف چراگاہوں میں نقل مکانی کرتے رہتے تھے۔ باہمی اعانت کے لیے اپنے منتخب سرداروں کی سرکردگی میں نیم منظم جماعتیں تشکیل دے لیتے۔ انھوں نے اپنے ایسے مراکز بھی بنائے ہوئے تھے جہاں وہ خطرے کے موقعوں پر اپنے مال مویشی سمیت جمع ہو سکیں۔

بلوچوں کی روایتی دستاویزی تاریخ سردار میر جلال خان سے بارہویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے چوالیس قبائل بولک قہرمان، سیستان، بندر عباس اور بمپور کے درمیانی علاقے میں جا بسے۔ اس کے بعد میرشیہک کی سرکردگی میں بلوچوں کی اکثریت اور مرکزی حصہ مکران کی طرف بڑھا اور آخر کار پندرہویں صدی عیسوی میں میر چاکر خان کی سرکردگی میں مختلف راستوں سے ہوتے ہوئے بلوچستان کے ایک بڑے حصے میں پھیل گئے۔ میر چاکر رندوں کی کمان کرتا ہوا ، کچھی کے میدانوں میں آ نکلا اور سبی پر قابض ہو گیا۔ لاشاری قبیلہ نے میر گواہرام کی سرکردگی میں گنداوا کو مستقر بنا لیا۔ سبی بلوچوں کا مرکز بن گیا اور میر چاکر کو بلوچ وفاق کا سردار اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا۔میر شیہک اور اس کے بعد میر چاکر نے اپنی سیاسی اور فوجی طاقت کی بنیاد رند مرکزیت پر رکھی۔

میر شیہک نے اپنے دور میں باہم برسر پیکار قبائل کو ایک قوم کی حیثیت سے متحد کرنے کی کوشش کی اور اس میں خاصا کامیاب بھی ہوا۔ میر چاکر نے اس ضمن میں مزید جدوجہد کی اور اسے نمایاں کامیابی ہوئی۔ اسے اس کے ہم مرتبہ سرداروں میں سرخیل ضرور سمجھا گیا لیکن بادشاہ کی حیثیت نہ دی گئی۔ لیکن یہ قومی اتحاد زیادہ عرصے تک نہ رہ سکا کیوں کہ میر چاکر اپنے کسی ہمسر کو برداشت نہ کر سکتا تھا اور میر گواہرام کسی کو اپنے سے بر تر تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا۔ میر چاکر کی اس ذاتی کمزوری نے اس پر پوری طرح قابو پا لیا اور وہ گواہرام اور اس کے لاشاریوں کو نیچا دکھانے کے موقعے کی تلاش میں رہنے لگا۔

آپس کی چھوٹی موٹی جھڑپیں بڑھ کر سنگین صورت اختیار کرتی گئیں اور بالاخر میر چاکر نے ایک زبردست غلطی یہ کی کہ ان ہنگاموں میں غیر ملکی عناصر کو بھی شریک کر لیا اور افغانستان سے ارغونوں کو اپنی مدد کے لیے بلا لیا تا کہ گواہرام اور لاشاریوں کو پوری طرح کچلا جا سکے۔ ایک خونریز جنگ میں لاشاریوں کو شکست ہوئی اور وہ تتربتر ہو گئے۔ بلوچ اتحاد پر یہ ایک ضرب کاری تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ نہ صرف لاشاریوں کو شکست کا منہ دیکھنا اور منتشر ہو جانا پڑا بلکہ کچھ دنوں بعد ہی رند آپس میں دست و گریباں ہو گئے اور میر چاکر کو بھی دل برداشتہ اور مایوس ہوکر سیوی اور بلوچ مرکز کو چھوڑنا پڑا۔ اس نے پنجاب کا رخ کیا اس نے سیوی کو خیرباد کہتے ہوئے گواہرام کو یہ بد دعا دی تھی کہ

تجے تو قبر میسر نہ آئے اے گواہرام
نہ تیرے پاس ہی رہ جائے تیرا گنداوا

اور یہ الفاظ ایک دل شکستہ فرد ہی کے ہو سکتے تھے۔ گواہرام کے ہاتھوں سے گنداوا نکل گیا اور چاکر کے ہاتھوں سے سبی۔ دونوں اجنبی سرزمینوں میں ابدی نیند سو رہے ہیں۔

’’بلوچ نسل کی عظمت اور اس کا اتحاد چاکر کی شخصیت کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ اگرچہ اس کا زمانہ عظیم کارناموں سے عبارت ہے۔ لیکن اس کا دور قومی عظمت کا آخری نشان تھا۔‘‘ انھوں نے اپنی سر زمین اور محلات کو اسی دن ویران چھوڑ دیا جس دن میر ہار مان گیا تھا۔ اور ایک متحد نسل پارہ پارہ اور بے مہار ہو گئی۔‘‘اس کے مدتوں بعد میر نصیر خان نوری نے بلوچستان کے کچھ حصوں میں ڈھیلا ڈھالا قبائلی وفاق بنا لیا تھا لیکن بہت سے بلوچی بولنے والے اس وفاق میں شامل نہیں ہوئے مثلاًمری، بگٹی، بلیدی، کھوسہ، بجارانی، سندرانی، مزاری، لنڈ، دریشک، لغاری، گورشانی، قیصرانی، بزدار، کھیتران، پژ، رند، گشکوری، دشتی، غلام بولک، گوپانگ، دودائی، چانڈے، ٹالپر اور بہت سے چھوٹے چھوٹے قبائل بھی خوانین قلات کے ماتحت نہیں رہے۔ نصیر خان نے نادر شاہ کی ملازمت میں معمولی سپاہی ’’یساول‘‘ کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

اور نادر شاہ کے قتل کے بعد اس کے دیرینہ ملازم احمد شاہ ابدالی کی فوج میں شامل ہو گیا۔ احمد شاہ ابدالی نے اسے اس کے بڑے بھائی کی جگہ قلات کی گدی پر بٹھا دیا۔ اور خود برائے نام حکمران رہا۔ نصیر خان اس کا ہمیشہ وفادار رہا۔ نصیر خان نے ایک حکمران کی حیثیت سے جو طاقت حاصل کی تھی اور جتنی تیزی سے بڑھالی تھی، اس کے جانشینوں نے اس سے کہیں زیادہ تیزی سے کھو دی۔ جدید بلوچستان کی قبائلی اور سیاسی آویزشوں کا ذکر کرتے ہوئے جناب اکبر بگٹی لکھتے ہیں۔بولان کے کوہسار اور وادی لہو میں نہا چکے ہیں اور ابھی نامعلوم کتنا لہو بہنا باقی ہے۔ ماضی کے ورق الٹنے سے کیا فائدہ جو کچھ چند سینوں میں پوشیدہ ہے، اسے وہیں دفن رہنے دیا جائے تو بہتر ہے۔ وہ زمانہ سب کے لیے تلخ اور تکلیف دہ رہا ہے۔ تلخی اور تکلیف اب بھی باقی ہے۔ ہمارے اعمال و کردار چاہے وہ اچھے ہوں یا برے، سب کے سامنے ہیں۔ ان کے متعلق عوام خود کسی فیصلہ پر پہنچ سکتے ہیں ۔
ایڈورڈ گبن نے کہا تھا کہ ’’تاریخ‘ انسان کے جرائم کی داستان ہے۔‘‘

اس حقیقت کے باوجود کہ ہم نے تاریخ میں کوئی بڑا نام پیدا نہیں کیا۔ لیکن ہمارے لوگ اور رہنما اپنے آپ تک محدود رہے اور اس طرح انھوں نے اپنا تشخص برقرار رکھا یہ سیدھے سادے لوگ اپنے ہی وطن کی حدود میں موسموں کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ نئی نئی چراگاہوں کی تلاش میں سرگرداں رہتے آئے۔ لیکن انھوں نے کسی کو خراج تو نہیں دیا۔ یہ بڑی بات ہے کہ ہم نے اپنا تشخص برقرار رکھا جو آج بھی باقی ہے۔ چاکر پنجاب چلا گیا اور وہیں دفن ہوا۔ گواہرام روپوش ہوگیا اور اس کی قبر کا تو ہمیں پتہ تک نہیں لیکن بلوچوں کا وطن، بلوچوں سے آباد ہے اور بلوچوں کے پاس ہے ہماری اپنی تاریخ ہے۔ اپنا وجود۔ ہم بلوچ ہیں بہ حیثیت ایک قوم کے ایک خاص جغرافیائی خطے میں اپنے تشخص کے ساتھ رہتے ہیں۔

ہم سب بلوچ اپنے تمام نظریات میں شاید متحد نہ ہوں لیکن بلوچ قوم اور قومیت پر ہم سب متفق ہیں۔ یہ شعور روز بروز ترقی کر رہا ہے۔ یہ ہماری میراث ہے، یہ وہ ترکہ ہے جو ہمیں میر جلال ہان، شیہک، چاکر، گواہرام، بیورغ، جاڑو، میرہان، توذبندغ، ریحان، رامین، حمل اور بالاچ کی طرف سے ورثہ میں ملاہے۔ یہ وہ بلوچ میراث ہے جو ہمیں بہت زیادہ عزیز ہے۔ یہ وہ میراث ہے جو بہت سی قومیتوں کے پاس نہیں جسے تاریخ میں بہت سی قومیتوں نے کھو دیا ہے۔ ہم میں یہ موجود ہے اور یہی سب کچھ ہے۔ بلوچ کسی اور قوم میں مدغم نہیں ہوئے، وہ ماضی میں بلوچ تھے اور اب بھی بلوچ ہیں۔

چاکر اعظم اور سردار گواہرام کی خانہ جنگی نے بلوچوں کو کوئی زبردست یا دیر پانقصان نہیں پہنچایا۔ وقتی طور پر ضرور کچھ نقصان ہوا۔ صرف چند قبیلوں نے اپنا وطن چھوڑا لیکن ان کی اکثریت اپنے گھروں میں مقیم رہی۔ وہاں ان کی قومیت باقی رہی اور انھوں نے اپنی میراث کو یعنی ’’بلوچ دیہہ‘‘ کو برقرار رکھا۔

بلوچ قوم کے بارے میں اکبر بگٹی کے ان تحریری نظریات کے تناظر میں اگر ایران، پاکستان اور افغانستان میں بکھرے ہوئے بلوچ قبائل کے طرز زندگی اور ان ممالک میں ان کی سیاسی حیثیت کا تجزیہ کیا جائے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف پاکستان ہی وہ جائے امان ہے جہاں پر تمام کمیوں اور کوتاہیوں کے باوجود بلوچوں کا قومی تشخص قائم و دائم اور شاد باد ہے۔ ورنہ ایران میں شاہ ایران اور بعد میں مذہبی انقلابی حکومت نے بلوچ قومیت کے بت پر کاری ضرب لگائی ہے۔ اور آج ایران میں بلوچ قبائل اپنا تشخص کھو رہے ہیں۔ افغانستان میں تو حالات اس سے بھی بدتر ہیں ۔ اس لیے عزیزم براہمداغ سے گزارش ہے کہ وہ جنیوا کی خوبصورت فضائوں کو خیر باد کہہ کر اپنے ویران ’’بلوچ دیہہ‘‘ کو آباد کریں۔ جس بلوچ دیہہ کے لیے ان کے دادا نواب اکبربگٹی نے بڑھاپے میں بھی جان کی بازی لگانے سے دریغ نہیں کیا تھا۔

جس دھج سے کوئی متقل کو گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔