افریقی جنگ میں جلنے والے جنگجو بچے

خرم منصور قاضی  اتوار 11 نومبر 2012
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 مصر اور لیبیا سے متصل اسلامی ملک سوڈان کا رقبہ 967493 مربع میل ہے۔

پندرھویں صدی کے عرب فاتحین نے یہاں پر اسلام کی کرنیں بکھیریں۔ اسلام آہستہ آہستہ عوام کے دلوں میں گھر کرتا گیا اور دور حاضر میں سوڈان میں سنی مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کے 70% سے زیادہ ہے اور خواندگی کی شرح تقریباً 47% فیصد ہے۔ 1980ء کی دہائی کے وسط میں جنوبی سوڈان میں رہنے والے سیاہ فام عیسائیوں اور قبائلیوں نے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا اور آزادی کے نعرے لگانے شروع کردیئے۔ 1990ء کی دہائی کے دوران تقریباً 1.5 ملین انسانی جانیں جنگ اور قحط کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ اس جنگ اور اس میں ہونے والی اموات کی وجہ سے مردوں اورجوانوں کی تعداد قابلِ ذکر حد تک کم ہو گئی ۔

اب باہم متحارب گوریلا گروپس نے اس کمی کو دور کرنے کا ایک انوکھا ، غیر انسانی اور پُر تشدد طریقہ ایجاد کیا ۔ انھوں نے9 تا 12سال کے کم عمر بچوں کو اغواء کرنا شروع کر دیا جن میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں ہی شامل ہیں۔ان بچوں کو ایک ماہ کی ٹریننگ دینے کے بعد میدانِ جنگ کی بھٹی میں دھکیل دیا جاتا تھا ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت میدانِ جنگ میں برسرِ پیکار کم عمر بچوں کی تعداد تین لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ بچے مرتے بھی ہیں،مارتے بھی ہیں اور بعد ازاں ان کو انھی جسمانی و نفسیاتی عوارض کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ جن میں میدانِ جنگ سے لوٹنے والے جوان اور سپاہی مبتلا ہوتے ہیں۔

سوڈان کے موجودہ صدر جنرل عمر حسن احمد البشیر 1989 ء میں برسرِ اقتدار آئے اور تب سے اب تک ان کو ملک کا نظم و نسق چلانے کیلئے ان کو ان گنت اندرونی اور بیرونی مشکلات کا سامنا ہے۔ سوڈان میں 30 جون 1998ء میں اسلامی قوانین پر مبنی ایک نیا آئین نافظ کردیا گیا تاکہ سوڈان کو صحیح معنوں میں اسلامی مملکت بنایا جاسکے۔ اسلام دشمن طاقتوں کو یہ اقدام ناگوار گزرا اور سوڈان کو اس راست اقدام سے باز رکھنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے آزمائے جانے لگے۔ امریکہ نے 20 اگست 1998ء میں سوڈان پر کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارتخانوں میں دہشت گردی کا الزام لگا کر خرطوم میں ایک فارماسوٹیکل ادویات کی فیکٹری کو میزائلوں سے اڑا دیا ۔ ادھر امریکہ اور مغربی ممالک کی شہ اور آشیرواد پر سوڈان میں علیحدگی پسندوں کی تحریک شدت اختیار کرگئی۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کشت و خون کا یہ طوفان کیا رخ اختیار کیے ہوئے ہے۔

جنوبی سوڈان میں مسیحی علیحدگی پسندوں People’s Liberation Army Sudan( SPLA )اور سوڈانی مسلمانوں کے درمیان جنگ تقریباً دو دہائیوں سے جاری ہے۔ لاکھوں نوجوان اس خون ریز جنگ کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے آبادی میں واضح کمی ہوگئی ہے مگر جنگ بندی اور امن کی کوئی صورت تا حال واضح نہیں ہوئی۔ جوانوں کی کمی کے پیش نظرعرصہ دراز سے نو عمر بچوں کو بھی اس جنگ کے خوفناک شعلوں میں جھونکا جارہا ہے۔ ان بچوں کو باقاعدہ تربیت دینے کے بعد محاذ جنگ میں بھیجا جاتا ہے۔ مگر گزشتہ کچھ عرصے سے اب باغیوں اور یونیسف کی مشترکہ حکمت عملی کے تحت ان بچوں کو میدان جنگ سے دور رکھنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جن کے محدود حدتک مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔

یہ بچے جنگ اور خون ریزی کے اتنے عادی ہو چکے ہیںکچھ عرصہ قبل جب ’’رمبیک‘‘ کے علاقے میں واقع باغیوں کے ایک کیمپ میں کچھ بچوں کو میدان جنگ کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا گیا تو بچوں نے بڑی بے دلی سے اپنے ہتھیار افسروں کے حوالے کئے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ بچے میدان جنگ سے دور نہیں ہونا چاہتے کیونکہ جب ان کو محاذ پر بھیجا گیا تھا تو ان کے افسروں نے ان سے ایسی کسی بات کا ذکر نہیں کیا تھا کہ واپسی پر انھیں جنگی کیمپ چھوڑ کر جانا ہو گا ۔ یہاں بے شمار بچے ہیں اور ان کی اپنی اپنی کہانیاں ہیں کہ وہ اس جنگ کا حصہ کیسے بنے جبکہ کچھ کو تو اپنا ماضی ٹھیک طرح سے یاد بھی نہیں ہے۔

ان بچوں کی عمریں تقریباً 12 سے 20 برس کے درمیان ہیں۔بہت سوںکو تو اپنی صحیح عمروں کا انداز بھی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں علم ہے کہ جب وہ اپنے والدین سے بچھڑے تو ان کی عمریں کتنی تھیں۔ انہیں صرف اتنا یاد ہے کہ انہیں باغیوں نے بطور فوجی ٹریننگ دی اور جنگ کیلئے ہتھیار فراہم کئے۔ SPLA نے جب رمبیک کیمپ میں ایک رسمی تقریب منعقد کی اور چھ بچوں کو جنگی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا تو اس موقع پر بچوں نے غمزدہ لہجے میں کہا کہ’’ ہمیں SPLA جو کچھ کرنے کو کہے گی ہم کریں گے، اگر وہ ہمیں اپنی رائفل کے بغیر جانے کا کہیں گے تو ہمیں نہیں معلوم کہ ہم کہاں جائیں گے، کیا کریں گے اور کھانا کہاں سے کھائیں گے ‘‘۔

بچوں کو میدان جنگ سے دور رکھنے کیلئے یونیسف اور باغیوں کی مشترکہ کوششیں قابلِ قدر اور قابل تحسین ہیں۔ SPLA کے مطابق ان کے جنگجو نوجوانوں کی تعداد تقریباً ایک لاکھ سے زائد ہے اور ان میں عیسائی اور مظاہر پرست شامل ہیں جبکہ بچوں کی تعداد چھ ہزار سے دس ہزار تک ہے۔ ان میں جبری طور پر بھرتی کئے گئے وہ بچے شامل نہیں ہیں جو کہ خرطوم میں برسرپیکار رہے۔ SPLA اپنے مقاصد کے حصول کیلئے انتہائی اقدام کی طرف مائل ہورہی ہے تاکہ انہیں عالمی ہمدردیاں حاصل ہوسکیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ بچے اب عام انسانوں کی طرح زندگی گزارسکیں گے؟

ان بچوں میں سے کسی کو بھی زمانہ امن یاد نہیں ہے۔ وہ صرف جنگ سے شناسا ہیں۔ بیشتر بچوں کو ان کی خواہش کے خلاف جبری طور پر فوج میں شامل کیا گیا تھا۔ بے شمار تعلیم کی ابجد سے بھی واقف نہیں۔ انہیں صرف سول بستیوں پر حملہ کرکے موت کا نغمہ گنگانے کی دھن ہی سکھائی گئی ہے۔ یونیسف کے عہدیداران کا کہنا ہے کہ ’’یہ بچے ناقابل فہم، جاہل اور خوفزدہ ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک پوری نسل جنگ کی نذر ہوگئی ہے‘‘۔
ان میں سے کچھ ہی بچے میدان جنگ سے دوری پر آمادہ تھے۔ اینجلو بینٹو ایک پندرہ سالہ لڑکا ہے۔

اس کی عمر دس سال تھی جب SPLA نے اسے اور اس کے بڑے بھائی کو اغواء کیا اور ایک ماہ کی ٹریننگ کے بعد انہیں جنوبی سوڈان کے مینکائن قصبے میں لڑنے بھیج دیا۔ اینجلو کہتا ہے ’’جنگ میں کچھ بھی اچھا اور قابل نفع نہیں ہے۔ جنگ کے دوران میرا بھائی مارا گیا اور اسے میں نے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔ مینکائن ہی وہ علاقہ ہے جہاں میں نے پہلے انسان کا شکار کیا۔ وہ ایک عرب تھا اور فرار ہورہا تھا۔ میں نے اس کی کمر میں گولی مار کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بہرحال بچوں کیلئے جنگ کرنا اچھا نہیں ہے کیونکہ بچوں کو معلوم نہیں ہوتا کہ جنگ کس طرح لڑی جاتی ہے‘‘۔

اب رمبیک کیمپ والوں کو اس چیلنج کا سامنا ہے کہ وہ ان بچوں کو امن پسند زندگی گزارنے کے اصولوں سے روشناس کروائیں۔ تعلیم اس سلسلے میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے مگر یہ بچے طالب علموں کے رویئے سے بالکل ناآشنا ہیں۔ افریقی بچوں کو جنگ سے دور رکھنے کے اس تعمیری پروگرام کے عہدیداران اور SPLA کے ارکان کا کہنا ہے کہ ’’یہ بچے ایک خطرے اور وبال کی علامت بن چکے ہیں۔ ان کے سامنے سکول کے ہیڈماسٹر کی حیثیت ایک یرغمالی کی سی ہوتی ہے۔ اساتذہ سکول چلاتے ہیں مگر بچوں کو سزا نہیں دے سکتے کیونکہ ایسا کرنے پر بچے ان کا سر اڑانے کی دھمکیاں دیتے ہیں‘‘۔ کچھ بچے سکول نہیں جاتے۔ اس سلسلے میں وہ مختلف تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ 25 سالہ سینٹینو کوال جو دس برس کی عمر سے SPLA سے منسلک ہے، کا کہنا ہے کہ ’’سکول ان بچوں کیلئے بہترین ہے کہ جن کے پاس رہنے کیلئے گھر ہیں۔ وہ صبح سکول جائیں اور شام کو گھر واپس آجائیں۔ میرے جیسے بے گھر بچوں کیلئے تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں کیونکہ مجھے اپنا پیٹ بھرنے کیلئے لوگوں کے باغوں میں بطور مالی کام کرنا پڑتا ہے۔‘‘

ابراہیم میڈنگ کیمپ میں رہنے والے بچوں میں نسبتاً سمجھدار محسوس ہوتا ہے۔ میڈنگ چار برس کا تھا کہ جب SPLA نے اس کے گھر پر حملہ کرکے اس کے والد کو مار دیا۔ دو برس بعد اسے عرب خانہ بدوشوں نے اغوا کرکے بطور غلام بیچ دیا۔ وہاں سے فرار ہوکر وہ SPLA کے کیمپ پہنچ گیا اور یہیں کا ہوکر رہ گیا۔ وہ SPLA کیلئے صفائی اور کھانا پکانے کے فرائض انجام دیتا تھا جس کے عوض وہ اسے کھانا اور پناہ فراہم کرتے تھے۔ نو برس پہلے وقوع پذیر ہونے والے ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے ابراہیم کہتا ہے کہ ’’تمام مرد لڑنے کیلئے محاذ جنگ پر گئے ہوئے تھے اور میں بارہ بچوں کے ہمراہ کیمپ کی حفاظت پر متعین تھا۔ کیمپ پر عرب خانہ بدوشوں نے حملہ کردیا۔

ہم نے مقابلہ کیا اور بہت سے خانہ بدوشوں کو ڈھیر کردیا جبکہ ہم سب بالکل محفوظ رہے۔‘‘ سینٹینو کے خیالات سن کر انسان ششدر رہ جاتا ہے۔ وہ دس برس کا تھا جب سوڈان کے حامیوں نے اس کے گھر پر حملہ کرکے تقریباً اس کے تمام اہل خانہ کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ بدلہ لینے کی خاطر اس نے SPLA میں شمولیت اختیار کرلی۔ سینٹینو کہتا ہے کہ ’’بچے بہترین فوجی ثابت ہوتے ہیں، بچے بڑوں کی نسبت بہتر جنگ لڑسکتے ہیں کیونکہ انہیں موت کا ادراک نہیں ہوتا اس لیے وہ موت سے نہیں ڈرتے‘‘۔ سینٹینو پانچ برس قبل ایک لڑائی میں شدید زخمی ہوگیا تھا اور اب بستر پر زخم مندمل ہونے کا انتظار کررہا ہے۔ صحت مند ہونے کے بعد وہ دوبارہ جنگ میں شرکت کا خواہشمند ہے۔ سینٹینو کہتا ہے کہ ’’جب میری ٹانگ کا زخم مندمل ہوجائے گا اور میں دوبارہ چل سکوں گا تو میں دوبارہ جنگ میں شریک ہوجائوں گا ۔ مجھے سکول جانے اور تعلیم حاصل کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی لیکن اگر میں سکول چلا جائوں گا تو عربوں کو کون مارے گا؟‘‘۔

بچوں کو میدان جنگ سے دور رکھنے کیلئے یونیسف اور SPLA کی مشترکہ کوششیں قابل تحسین ہیں مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس قابل قدر مہم کو بچوں کی فلاح اور روشن مستقبل کیلئے اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک کہ ایک بھی بچہ میدان جنگ میں شریک جنگ ہے تاکہ یہ بچے بڑے ہوکر ’’مستقبل کے وبال‘‘ کی بجائے ’’مستقبل کے معمار‘‘ بن سکیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔