بہادر اور عظیم المرتبت خواتین

نسیم انجم  اتوار 13 مارچ 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

یہ 8 مارچ بروز منگل کا دن تھا، اتفاق سے منگل کے دن سے ہی میں کالم لکھنے کی ابتدا کرتی ہوں، کبھی ایک ہی وقت میں لکھ لیتی ہوں تو کبھی دوسرے روز میری تحریریں اختتام پذیر ہوتی ہیں اور8مارچ کے دن خواتین کے حوالے سے پوری دنیا میں اس خاص دن کو منایا گیا ۔

تقریبات، سیمینار کا انعقاد اور ساتھ میں ٹی وی کے مختلف چینلز پر قابل ذکر خواتین کے کارنامے دکھائے جارہے تھے اور ان خواتین کو بھی مدعو کیا گیا تھا جو کبھی پوری دنیا اور خصوصاً پاکستان میں کسی نہ کسی اعتبار سے شہرت حاصل کرچکی ہیں۔ ایک چینل پر مختاراں مائی کو بھی گفتگو کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ وہ ہی مختاراں مائی ہیں جنھیں بے شمار اذیتوں اور بدنامی کا سامنا کرنا پڑا، لیکن اب یہ بدنامی اور ماضی کی اذیتیں، سکھ اور نیک نامی میں بدل چکی ہیں، ویسے بھی بدنامی تو جرائم پیشہ افراد کی ہوتی ہے، جو اپنے وطن، اپنی قوم، اپنے گاؤں کی بیٹی اور بہن پر محض انتقام لینے کے لیے ظلم کے پہاڑ توڑ دیتے ہیں۔

اس کے گھرانے کو برباد کردیتے ہیں، ان لوگوں کو نہ انسان کہا جاسکتا ہے اور نہ مسلمان۔ مختاراں مائی پر جو قیامت ٹوٹی وہ اسے سہہ گئی، اسے اﷲ نے بے حد ہمت دی، حوصلہ بخشا کہ انھوں نے فلاحی کاموں کا بیڑہ اٹھالیا، آج وہ ایک ایسا اسکول چلارہی ہیں جس میں سات، آٹھ سو طالب علم، علم کی شمع روشن کیے ہوئے ہیں، ایک وقت وہ تھا جب اپنے ہی اسکول میں وہ اور ان کے گھر والے خصوصاً بہن زیر تعلیم تھی، باقی دوسرا کوئی نہ تھا لیکن اب یہی اسکول ترقی کی منزلیں طے کررہا ہے۔

ہم نے دیکھا مختاراں مائی کی گفتگو میں بلا کا اعتماد تھا، وہ بہت ٹھہرے ہوئے لہجے میں بات کررہی تھیں، وہ اس بات کی مخالف تھیں کہ گاؤں میں پنچایت نہیں لگنی چاہیے، جب عدالتیں موجود ہیں تو گاؤں کے قوانین کی بھلا کیا اہمیت ہوسکتی ہے۔ لیکن وڈیروں اور جاگیرداروں نے غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر منصفانہ اصولوں کو اپنالیا ہے اور وہ اپنی من مانی کرتے ہیں، انھیں کوئی روکنے والا نہیں، آٹھ مارچ یوم خواتین کے حوالے سے جاہلانہ رسم و رواج اور طریقوں کو ختم کرنے کے لیے قانون کو حرکت میں لانے کا نام ہے۔یہیں اس موقع پر دین اسلام کے حوالے سے زہد و عبادت میں مصروف اور جنگوں میں شریک ہونے والی بہادر خواتین بھی یاد آگئی ہیں ان میں سے بہت سی صحابیات کے مرتبے پر فائز ہیں۔

غزوہ حنین میں سیدہ ام سلیم ؓ نے صرف زخمیوں کی تیمارداری کرنے اور پیاسوں اور مریضوں کو پانی ہی نہیں پلایا بلکہ انھوں نے ایک خنجر بنواکر اپنی کمر سے باندھ لیا تھا تاکہ بوقت ضرورت اس خنجر سے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا دفاع کرسکیں۔ انھوں نے غزوہ حنین کے روز بھی اپنے پاس ایک خنجر رکھ لیا تھا۔

جسے دیکھ کر رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا یہ خنجر کیسا ہے تو انھوں نے عرض کیا یہ میں نے اس لیے تیار کیا ہے کہ اگر کوئی مشرک میرے قریب آئے تو میں اس خنجر کے ساتھ پیٹ چاک کردوں۔ وہ جرأت و شجاعت میں مردوں سے کم نہیں تھیں ۔

جنگ احد میں سیدہ ام ایمن کو اس وقت نہایت ہی دکھ ہوا جب آنحضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے دندان مبارک شہید ہوئے اور ہونٹ مبارک پھٹ گئے اور چہرہ انور خون آلودہ ہوگیا لیکن انھیں یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم صحیح سلامت ہیں ایک مشرک نے سیدہ ام ایمن پر تیر چلایا اور وہ تیر کھاکر زمین پر گر پڑیں۔ اس واقعے کے بعد بھی سیدہ ام ایمنؓ پیاسوں کو پانی پلاتی رہیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی رہیں اور جب غزوہ خیبر کا دن آیا تو ام ایمن غزوہ خیبر میں شامل ہونے والی مجاہدات سے پیچھے نہیں رہیں اور فتح خیبر کے موقع پر دوسری خواتین صحابہ کے ہمراہ موجود تھیں۔

8 مارچ کے دن مجھے حضرت بی بی رابعہ بصریؒ بھی یاد آگئیں، تصوف کے ذریعے شہرت دوام حاصل کرنیوالی حضرت رابعہ بصریؒ نے ریاضت و عبادت میں پوری زندگی گزار دی، وہ حافظہ قرآن اور احادیث صلی اﷲ علیہ وسلم پر بھی مکمل عبور رکھتی تھیں، حضرت رابعہ بصریؒ عشق الٰہی میں ہر لمحہ غرق رہتیں، ایک بار آپؒ پر جذب کی کیفیت اس طرح طاری ہوئی کہ آپ جذب کی حالت میں اپنے ایک ہاتھ میں آگ اور دوسرے ہاتھ میں پانی لیے بھاگی چلی جارہی تھیں، بصرہ کے لوگوں نے اس حال میں انھیں دیکھ کر پوچھا کہاں جارہی ہیں؟

فرمایا میں اس پانی سے جہنم کی آگ بجھانا چاہتی ہوں اور آگ سے جنت کو پھونک ڈالنا چاہتی ہوں تاکہ لوگ جنت کے حصول اور دوزخ سے بچنے کے لیے عبادت نہ کریں۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ عبادت صرف اور صرف اﷲ کی محبت اور اس کی خوشنودی کے لیے کی جائے، عبادت تو دونوں صورت میں کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے کہ دوزخ کے عذاب سے اﷲ سب کو محفوظ رکھے اور عبادت و ریاضت زہد و تقویٰ کی بدولت جنت میں داخل ہوجائے۔ لیکن حضرت رابعہ بصری کا اپنا انداز فکر تھا اور جسے جذب ومستی کی کیفیت سے تعبیر کیا جاتا ہے حضرت رابعہ بصری شاعرہ بھی تھیں۔

آپؒ کے کلام میں عشق حقیقی کی کیفیت پنہاں ہے۔فصیح الدین کی کالموں کی کتاب خامہ بہ جوش کا ایک وہ پیراگراف میری نگاہوں کے سامنے آگیا ہے جس میں قرۃ العین طاہرہ جیسی اعلیٰ ہستی کا ذکر ملتا ہے، علامہ اقبال نے اپنے فکر کے اضطراب اور ضمیر کی قیادت میں سکون کے لیے ان ارواح کی صدا سنی اور پھر بڑی عقیدت کے ساتھ انھیں خاتون عجم کا خطاب دے دیا، پھانسی کے وقت جلاد کو اپنا نقاب الٹنے نہیں دیا، انھوں نے کہا کہ ’’آج میں اپنے محبوب کی ملاقات کے لیے جارہی ہوں آج میں کسی اور کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتی ہوں‘‘ انھوں نے ایک اور عظیم روح سرمد کی طرح جلاد سے کہا کہ ’’آؤ، آؤ تم جس جامہ میں بھی آؤ گے میں تمہیں خوب پہچانتا ہوں، بقائے حقیقی کا یہ عرفان سرمد ’’شبلی‘‘ بایزید بسطامیؒ اور منصور حلاج جیسی ارواح جلیلہ کو نصیب ہوتا ہے۔

طاہرہ ان ہی جویان حق کے کشتہ قبیلے کی ایک قد آور شخصیت تھیں، ایک موقع پر انھوں نے اس وقت کے سلطان سے تاریک کو ٹھڑی سے گرجدار آواز میں کہا کہ ’’تم میری جان لے سکتے ہو مگر عورتوں کی آزادی کو نہیں روک سکتے‘‘ بادشاہ نے انھیں شادی کا لالچ دیا تو بادشاہ کے خط کی پشت پر اپنا قول فیصل ایک شعر میں لکھا۔ یہ شعر تاریخ و ادبیات میں اتنا ہی مشہور ہوا تھا جتنا کہ شاہ سنجر کو شیخ عبدالقادر جیلانی کا جواب، کہ جب سے مجھے نیم شب کی سلطنت عطا ہوئی ہے میں ملک سنجر کے بادشاہ نیمروز کی بادشاہت کو ایک جو کی روٹی کی قیمت پر بھی لینے کو تیار نہیں ہوں۔

علامہ محمود الوسی بغدادی جیسی معتبر شخصیت کو طاہرہ کے مذہبی افکار سے اختلاف کے باوجود کہنا پڑا ’’میں نے اس میں ایسا فضل و کمال پایا ہے جو اکثر مردوں میں بھی نہیں دیکھا‘‘ وہ صاحب عقل و انکساری تھی اور حد درجہ عفت و حیا کی مالک تھیں۔8 مارچ کے حوالے سے بے شمار ستم رسیدہ خواتین یاد آگئی ہیں جنھیں جہیز نہ لانے کے سبب جلایا گیا، قتل کیا گیا، سولی پر لٹکایا گیا، ظلم کے خاتمے کے لیے گزشتہ پندرہ بیس برسوں سے بہت سی این جی اوز کام کررہی ہیں، حقوق کے لیے بات کی جارہی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان مثبت کاوشوں کے باوجود خواتین کے حالات میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی جب کہ دین اسلام میں خواتین کو بے حد عزت اور مرتبے سے نوازا گیا ہے۔فضا اعظمی کے یہ اشعار رسم و رواج اور جہالت میں قید اور پھر نئی تہذیب کو اپنانے کے حوالے سے نمونے کے طور پر پیش خدمت ہیں۔

غلامی سے نکل کر قید آزادی میں عورت ہے
نئی تہذیب کے ہاتھوں میں تیغِ بے ملامت ہے
گرفتار ہوس ہے اور آزادی کا چرچا ہے
اکھڑتی سانس ہے اور مرکز آفات عورت ہے
خریداروں کا جھرمٹ ہے، سبھی تیار بیٹھے ہیں
شکاری تیغ لے کر گھات میں ہشیار بیٹھے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔