نیب کے پر کاٹنے سے بہتر ہے اسے ختم ہی کردیا جائے (2)

رحمت علی رازی  اتوار 13 مارچ 2016

بدقسمتی سے مملکتِ خداداد اپنے قیام کے بعد سے اب تک ہر دور میں کرپشن، کمیشن اور دھوکہ دہی جیسی معاشرتی برائیوں کی لپیٹ میں رہ کر ترقی کی وہ منازل طے نہیں کر سکی جسکی وہ حقدار ہے‘ کرپشن جیسی لعنت نے وطن عزیز کی بنیادوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے ملک میں ایک طبقہ ایسا ہے۔

جس نے ناجائز ذرایع سے مال ودولت اکٹھی کر کے قومی خزانے کی زنبیل کو ہر دور میں خالی کیا ہے، جسکے باعث ثروتِ عامہ چند مخصوص ہاتھوں میں ہی مرتکز ہو کر رہ جانے سے ہماری نوآمدہ نسلیں بھی عالمی مالیاتی اداروں کی مقروض ہو کر رہ گئی ہیں اور عملاً اب بھی ہم ایک آزاد و خود مختار ملک میں غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبورِ محض ہیں۔ اس ملک کا یہ عظیم المیہ رہا ہے کہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمایندوں نے ہی عوامی خدمت کے بجائے کمیشن خوری اور سرکاری ٹھیکوں پر پیسے بنانے کی حرص اور زیادہ سے زیادہ دولت اکٹھی کرنے کی ہوس میں وقت ناوقت قومی خزانے پر ہاتھ صاف کیے جسکی وجہ سے جمہوری معاشرے کی ناکامی کے باعث ایک طویل عرصے تک ہمیں فوجی ڈکٹیٹرشپ کا سامنا کرنا پڑا اور یوں پوری دُنیا میں پاکستان کا امیج انتہائی خراب رہا۔

کشورِ حسین میں آنیوالے ہر مارشل لاء کے بعد کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات کیے گئے مگر عوام میں کرپشن کے خلاف شعور نہ ہونے اور مؤثر قوانین کی عدم دستیابی کے باعث کرپشن کی خباثت آج بھی معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ سیاستدانوں اور افسرشاہوں نے عوام الناس کے خون پسینے کی کمائی پر پل بڑھ کر گال پر گال چڑھائے اورکرپٹ مافیا کی فہرست میں اپنا نام درج کروایا‘ مگر افسوس کہ ملک کے کمزور قوانین کے باعث ہر دور میں کرپٹ عناصر قوم کی لوٹی ہوئی رقم میں سے کچھ حصہ اپنی ہی بیگناہی پر خرچ کر کے عدالتوں کے ذریعے بریت حاصل کر کے دوبارہ معاشرے میں نہ صرف باعزت زندگی گزار رہے ہیں بلکہ لوٹ کھسوٹ کی کمائی میں سے ایک پائی بھی دوبارہ قومی خزانے میں لَوٹ نہیں سکی۔

یوں تو پاکستان میں کرپشن کے میگا سکینڈلز جمہوری و نیم جمہوری ادوار میں سامنے لائے گئے مگر افسوس کہ ان تمام میگا سکینڈلز میں اربوں، کھربوں روپے واپس قومی خزانے میں جمع نہیں کرائے جا سکے جسکی وجہ سے کرپٹ مافیا اپنی منصبی کارروائیاں اور بھی دلیرانہ انداز میں جاری رکھے ہوئے ہے‘ اور آج بھی ادارے کمزور سے کمزور تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ 12 اکتوبر 1999ء کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے ایک لاغر اور ناکام جمہوری حکومت کے خاتمے کے بعد اداروں کی مضبوطی اور تباہ حال معیشت کو استحکام دینے کے لیے اقتدار حاصل کیا اور اپنی فوجی حکومت کی جانب سے متعدد سخت فیصلے کیے۔

جنرل مشرف کے دورِ حکومت میں اصلاحاتی ایجنڈے میں سب سے اہم پوائنٹ کرپٹ مافیا کے خلاف سخت ترین احتساب کا عمل شروع کرنا تھا‘ جس کے لیے نومبر 99ء کو ایک آرڈیننس کے ذریعے نیشنل اکاؤنٹ ایبلٹی بیورو (نیب) کا ادارہ قائم کیا گیا جسکے علاقائی دفاتر وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں کے دارالحکومتوں میں قائم کیے گئے اور اس ادارے کو آزادی و خودمختاری دیکر کرپٹ مافیا کے خلاف سخت سے سخت ترین تادیبی کارروائیاں کرنے کا ٹاسک سونپا گیا۔ قومی احتساب بیورو نے 17 سالہ تاریخ میں اب تک کرپٹ مافیا کے بڑے بڑے سکینڈلز سامنے لا کر قومی خزانے سے اربوںکھربوں لوٹنے والے عناصر سے صرف 2 کھرب 70 ارب روپے کے لگ بھگ واپس لے کر قومی خزانے میں جمع کرائے ہیںجو کسی بھی طرح حوصلہ افزا نہیں۔

نیب ابھی تک اپنے ارتقاء کا عمل مکمل کرنے کی پیہم سعی میں ایک مضبوط ادارہ بننے کے لیے کوشاں ہے، نیب آرڈیننس کے تحت یہ ادارہ ملک کی کسی بھی اعلیٰ شخصیت یا ادارے کے زیرنگیں نہیں ہے بلکہ ایک خودمختار حیثیت رکھتا ہے تاہم وہ کبھی بھی ایک مختارِ کل ادارہ بننے میں کامیاب نہیں ہو پایا۔ نیب کی خوبائی کے چرچے یوں تو بیرون ملک بھی ہیںکہ چند سال پہلے جب نیب کے سابق چیئرمین نوید احسن نے چین کا دورہ کیا تو چائنا کی طرف سے کرپشن کے خلاف پاکستان میں رائج نیب کے قانون کی بڑی تعریف کی گئی اور اس قانون کو لاگو کرنے والے کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ چین نے نیب کی طرز پر اپنے ملک میں بھی قانون رائج کرنے پر غور شروع کر رکھا ہے۔

بدعنوانی کے خاتمے کے لیے ایک بالادست محتسب ادارے کی جانب سے حکومت کے رویے پر مسلسل نظر رکھنا اَشد ضروری ہے لیکن افسوس کہ ہمارے ملک میں بدعنوانی کے خلاف مہم نے ہمیشہ سیاسی رنگ اختیار کیا ہے اور کئی مقامات پر یہ مہم صرف چند افراد کے خلاف کارروائی تک محدود رہی ہے۔ اگر محتسب ادارہ بااثر سیاستدانوں کا احتساب کرنے کی کوشش کرتا ہے تو تمام سیاستدان اس ادارے سے نالاں ہو جاتے ہیں۔ آج ہمیں ایسی صورتحال کا سامنا ہے جہاں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ سمیت سب ہی نیب پرکمان بدست ہیں۔ کوئی بھی خود کو احتساب کے لیے پیش نہیں کرنا چاہتا، ہر کوئی صرف دوسروں کا ہی احتساب چاہتا ہے۔ نیب کی جانب سے کارروائی کے حوالے سے تحریکِ انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں نیب کے خلاف اپنے اپنے انداز میں نالہ و فریاد کرتی نظر آتی ہیں۔

نیب کے خلاف (ن) لیگ تو اب کچھ زیادہ ہی شور مچا رہی ہے جب کہ اس سے پہلے پی پی بھی شور مچاتی رہی ہے۔ جب نیب اور ایف آئی اے نے سندھ میں کرپشن کے خلاف ہاتھ ڈالا تھا اور اس کی لپیٹ میں پی پی کے رہنما آئے تھے تو انھوں نے نون لیگ کی وفاقی حکومت پر پی پی پی کی حکومت اور اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے نیب کو استعمال کرنے کا الزام لگایا، جب کہ نون لیگ کا کہنا تھا کہ کرپشن کے خلاف تو نیب کام کر رہا ہے جس پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ وفاقی حکومت کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت اپنے کرپٹ لوگوں کو بچانے کے لیے یہ سارا شور و غوغا کر رہی ہے۔

پی ٹی آئی نے بھی سندھ میں کرپشن کے خلاف کارروائیوں کی مکمل حمایت کی اور اسی انداز میں کرپشن کے خلاف پنجاب اور وفاق میں کارروائیوں کا مطالبہ کیا لیکن جب خیبرپختونخوا میں خود پی ٹی آئی کے اپنے لوگوں پر ہاتھ پڑا تو احتساب کے قانون میں تبدیلیاں کی جانے لگیں اور اپنے ہی مقرر کردہ چیئرمین احتساب کو استعفیٰ دینے پر مجبور کر دیا گیا جب کہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ بھی وزیراعلیٰ سندھ کی طرح یہ راگ الاپنے لگے کہ ان کے افسروں کو ڈرایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے کوئی کام کرنے کے لیے تیارنہیں۔ اب وفاقی حکومت کے لوگ رگڑے میں آنے لگے تو وزیراعظم بھی نیب پر سنگباری کرنے لگے ہیں۔ وہ احتساب بیورو کی کارکردگی پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کرنے کے بعد حزبِ اختلاف کے ان رہنماؤں کی صف میں کھڑے ہو گئے ہیں جو پہلے ہی نیب کی کارروائیوں سے خائف تھے۔

ان کی جانب سے ان تحفظات کا اظہار ایک ایسے موقع پر کیا گیا جب سندھ اور خیبرپختوانخوا کے بعد نیب کے احتسابی عمل کا رُخ پنجاب کی جانب مڑ چکا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نیب کی جانب سے وفاقی اور پنجاب حکومت کے سیکڑوں مختلف منصوبوں، ایل این جی کی درآمد، میٹرو بس، اورنج ٹرین اور ایل ڈی اے سٹی کی تحقیقات کی فائلیں کھول دی گئی ہیں۔ وزیر اعظم کی جانب سے کھلے عام نیب پر تنقید اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نیب کے پیچھے اس وقت کوئی ایسا ’طاقتور ادارہ‘ موجود ہے جسکے سامنے وزیراعظم بھی بے بس ہیں۔ برّی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنی مدت ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہو جائینگے‘ یوںلگتا ہے کہ جنرل راحیل شریف نے ایک طرح سے اپنی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کو بدعنوان عناصر کے احتساب کی ڈیڈ لائن کے طور پر مقرر کر رکھا ہے۔ کیا تاسف ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنا احتساب خود نہیں کر سکتے‘ شاید اسلیے یہ کام بھی فوج کو اپنے شانوں پر لینا پڑ رہا ہے۔

اب ہمیں اس بات کا اظہار برملا کرنا ہو گا کہ جنرل راحیل شریف کی بطور آرمی چیف اورجنرل رضوان اختر کی بطور ڈی جی آئی ایس آئی انٹری نے نہ صرف امن و سلامتی کی بنیادیں مضبوط کی ہیں بلکہ عسکری، سیاسی اور دیگر سرکاری اداروں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کا مضبوط پیغام بھی اپنے ذرائع سے جاری کر دیا ہے‘ اب ملک کے تمام اداروں سے غلاظت صاف کرنے کے لیے احتساب کے ادارے کو حرکت میں لایا جا چکا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ اب اس کام میں روڑے اٹکانے کی جرأت کوئی نہیں کر سکے گا۔

تین روز قبل سندھ میں پولیس کی غیرقانونی سرگرمیوں پر آئی جی سندھ کو تنبیہ کرنے کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ نے نیب کو بھی بطور ِخاص ہدایت جاری کی ہے کہ وہ چھوٹے مقدمات کے بجائے میگا سکینڈلز پر توجہ دے، جس سے یہ واضح اشارہ ملتا ہے کہ بدعنوان سیاستدانوں پر شکنجہ کسنے کا اسکرپٹ مکمل ہو چکا ہے۔ عوام کو اس بات سے غرض نہیں کہ احتساب کون کرے‘ انہیں تو اس بات سے غایت ہے کہ احتساب جو ادارہ بھی کرے‘ بہرحال احتساب ہر ایک کا ہو، کڑے سے کڑا ہو اور غیرجانبدار ہو۔ حزب ِاختلاف کی جماعتیں بظاہر وزیر اعظم کے نیب سے متعلق بیان پر کڑی تنقید کر رہی ہیں لیکن ہمارا یہ قیاس ہے کہ اگر حکومت نیب کے اختیارات میں کمی کے لیے آئینی ترامیم لاتی ہے تو یہی جماعتیں اس کا ساتھ دیں گی۔

وزیراعظم کی نیب پر برہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان کی بادشاہت ایسے کرپٹ وزراء کی مرہونِ منت ہے‘ ان کی حکومت ایسے بدعنوان افسروں اور بزنس مینوں کے کندھوں پر قائم ہے جو پاکستانی وسائل کو اپنے آباؤ اجداد کی جاگیر سمجھ کر لوٹنے میں روز و شب مشغول ہیں۔ اگر نیب ان پر ہاتھ ڈالتا ہے تو بلاوجہ وزیراعظم اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں سے محروم ہو جائینگے۔ ان حالات میں وہ نیب کے ادارے کو متنازعہ کیونکر نہ بنائیں؟ اگر اس مشکل وقت میں وہ اپنے ان ساتھیوں کا دفاع نہیں کرینگے تو پھر انتخابات میں کامیابی کے لیے انتخابی مہم میں پانی کی طرح پیسہ کون بہائے گا؟ ہمارے منہ پھٹ وزراء اپنے ذاتی مفادات کی خاطر کبھی افواجِ پاکستان پر انگلی اٹھاتے ہیں تو کبھی عدلیہ ان کا نشانہ بن جاتی ہے۔

اگر ادارے ان کے سامنے سرِتسلیم خم کریں اور ان کے ہرجائز نا جائز حکم پر ’’لبیک‘‘ کہیں تو سب اچھا‘ اور اگر ان اداروں کی طرف سے ان کی کرپشن کو بے نقاب کیا جائے تو پھر تصور کر لیا جاتا ہے کہ ان  اداروں کے وجود کو باقی رہنے کا کوئی حق نہیں‘ مگر زمینی حقائق سے نا آشنا ان حکمرانوں، سیاستدانوں، ارکانِ اسمبلی اور وزراء کو شاید معلوم نہیں کہ میڈیا کی بدولت آج پاکستانی قوم میں اتنا شعور بیدار ہو چکا ہے کہ وہ ان کی اصلیت کو سمجھتی ہے‘ وہ ان کے بیانات کے پیچھے ان کی ذاتی مفادات پر مبنی ذہنیت کو بھی جانتی ہے۔

چاہیے تو یہ کہ وزیراعظم، نیب اور دیگر اداروں کو میرٹ پر کام کرنے دیں اوراگر وزراء پر مبینہ کرپشن کے الزام میں کوئی حقیقت ہے تو پھر ان کو ہرحال میں گھر جانا چاہیے لیکن اگر ان کا دامن صاف ہے تو پھر سرخروئی کے لیے انہیں قانونی مراحل سے گزرنے کا خوف کیسا؟ کچھ عرصہ پہلے نیب نے 15 برس قبل کے150 کیسز، جن میں موجود ہ وزیراعظم، وزیراعلیٰ پنجاب اور کچھ وزراء کے نام بھی شامل ہیں، کی فہرست سپریم کورٹ میں جمع کرائی تھی جس پر وزیر اطلاعات برہم ہوئے اور کہا تھا کہ نیب کی کرپشن کے کیس بھی کہیں چلنے چاہئیں۔ بھئی اگر ایسی ہی بات تھی کہ بدعنوانیوں کو طشت ازبام کرنیوالا واحد ادارہ ’’نیب‘‘ بذاتِ خود بھی بدعنوانیوں میں غلطاں و پیچاں ہے تو محترم وزیر صاحب اتنا عرصہ  خاموشی کیوں اختیار کیے رہے۔

جب نیب سندھ میں کارروائیاں کر رہا تھا تب تو وہ انہیں ڈلیور کرتا دکھائی دے رہا تھا اور اب جب کہ اس نے اپنے تیروتفنگ پنجاب پر تانے ہیں تو وہ خود بھی قابلِ مواخذہ ٹھہرا دیا گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سندھ کے حکمرانوں کی طرف سے نیب پر دباؤ تھا کہ اس کو صرف سندھ میں کرپشن نظر آ رہی ہے، کیا پنجاب میں کرپشن نہیں ہے؟ اس نِت کے رونے کی وجہ سے ملک کی اعلیٰ ترین ایجنسیوں کو مجبوراً نیب پر مزید دباؤ ڈالنا پڑا‘ جس پر نیب نے پنجاب کے کچھ کیسز تیار کیے ہیں جن میں حکومت کے اہلکار، بیوروکریٹس اور خود وزیراعظم بھی شامل ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم نے نیب پرکڑی تنقید کی‘ اور اس طعن و تشنیع پر پیپلز پارٹی کے سابقہ مردِ اوّل نے دبئی سے بیان جاری کیا کہ وزیراعظم صاحب! صرف نیب ہی نہیں ایف آئی اے بھی لوگوں کو ناجائز تنگ کر رہی ہے۔

اس معاملے میں عمران خان بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں جو خود تو کرپشن سے پاک ہیں مگر ان کی خیبر  پختونخوا کی حکومت نے قانون سازی کی ہے کہ کسی ارکانِ اسمبلی کو کرپشن پر پکڑنے سے پہلے اسپیکر سے اجا زت لینا پڑیگی، کسی بیوروکریٹ کو گرفت میں لینے سے پہلے سیکریٹری سے اجازت لینا ہو گی‘ یقینا اسی پر احتجاج کرتے ہوئے خیبرپختونخوا کے صوبائی ڈائریکٹر جنرل نیب نے استعفیٰ دیا۔ بات یہ ہے کہ ملک کے سربراہ ہی اگر کرپٹ ہوں تو دوسروں کو بھی شہ ملتی ہے اور ہر طرف کرپشن ہی کرپشن کادور دورہ ہو جاتا ہے۔

کرپشن کی روک تھام کے لیے ملک کے سیاسی نظام میں اصلاح کی ضرورت ہے جس کی بدولت سیاسی لوگ الیکشن جیتنے کے لیے کروڑوں روپے خرچ کر کے اقتدار میں آتے ہیں اور پھر ملکی دولت سے اربوں کا ناجائز حصہ وصول کرتے ہیں۔ کرپشن کو ختم کرنے کے لیے نیب جیسا منظم ادارہ ملکی سلامتی کے لیے ناگزیر ہے۔

نیب ایف بی آئی، سی بی آئی اور اسکاٹ لینڈ یارڈ کی طرح کامیاب تو نہیں ہوا لیکن پھر بھی نیب کی کارکردگی موجودہ وسائل اور اختیارات کی موجودگی میں کافی حد تک بہتر ہے اور اس میں ایف بی آئی، سی بی آئی، اسکاٹ لینڈ یارڈ سے بھی بہتر بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ جو خامیاں ہیں وہ حکومتِ وقت کے مختلف ادوار کے حاکموں کی مصلحت کوشی کی وجہ سے ہیں کیونکہ انھوں نے ہمیشہ ہی آزاد چیئرمین بنانے کے بجائے اپنا معتمدِ خاص شخص ہی چیئرمین نیب کے عہدہ پر لا بٹھایا۔ صرف موجودہ چیئرمین کو دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی رضامندی سے متعین کیا گیا ہے اور وہ ابھی تک پوری تن دہی، خلوص اور جانفشانی سے کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہمارے خیال میں وہ ہنوز کوئی ڈیلیور کرنیوالی مستند ٹیم تشکیل نہیں دے پائے، ان کے خلوص میں تو کوئی شک نظر نہیں آتا۔

انھوں نے چند مثالی اقدامات ضرور اٹھائے بھی ہیں، جیسا کہ نیب میں پرفارمنس ریکارڈ کرنے اور اعداد و شمار کو کمپیوٹرائزڈ کرنے کے لیے انھوں نے مانیٹرنگ اینڈ ایلیویشن سسٹم (ایم ای ایس) بنوا بھی دیا اور چلا بھی دیا۔ پہلی بار کیس ڈائری کے قانون کو پولیس کی طرح نیب میں متعارف کروایا، ہاں اگرچہ ابھی تک اس میں کافی نقائص ہیں۔ انھوں نے جے آئی ٹی ایس کی طرح مشترکہ تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دیں اور عملدرآمد کروانے کے احکامات بھی جاری کیے مگر فیلڈ افسروں نے ان کو صحیح طرح نافذ نہیں کیا اور حیرت کی بات ہے کہ یہ چیئرمین کے علم میں تاحال نہیں ہے۔

اسی طرح چیئرمین نے نیب کی اپنی فرانزک لیبارٹری قائم کرنے کا کام بھی بطریق احسن مکمل کر لیا ہے، بہ ایں ہمہ نیب کی اپنی ٹریننگ اکیڈمی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ مزید حوصلہ افزاء بات سکھر ریجن نیب، ملتان ریجن نیب، گلگت ریجن نیب کی تکمیل اور کارگزاری ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ گوادر ریجن آفس بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ چیئرمین نیب نے اپنی بساط کے مطابق 60  فیصد افسران کی پوسٹنگ ٹرانسفر میرٹ کے مطابق کر تو دی ہیں جب کہ طاقتور میرٹ پر تعینات باقی افسران دس بارہ سالوں سے پنڈی اسلام آباد میں ہی گھُسے ہوئے ہیں اور کوئی بھی ان کو ہلا نہیں سکتا۔ بہتر ہے چیئرمین خود ہی ایسے افسران کا کچھ کریں۔ ان کی اکثر یت نے ٹرانسفر پالیسی سے باہر نکلنے کے لیے ایک ایک ماہ کی اٹیچمنٹ اور ڈیپوٹیشن کا بے وزن بہانہ گھڑ رکھا ہے اور وہ مسلسل ہیڈکوارٹر ہی میں قابض و جامد ہیں کیونکہ ان کے نزدیک باقی سب افسران اچھوت ہیں۔

چیئرمین نے کیسز کی تکمیل کی معیادیں بھی متعین کی ہیں لیکن ہر کیس کی ایک جیسی معیاد نہیں ہو سکتی‘ یہ سارے وہ اقدامات ہیں جو چیئرمین نے کیے تو ہیںلیکن ان میں کوئی بھی ایسا عمل نہیں ہے جو تفتیش کے کام میں کوالٹی یا تیزی لا سکے یا ثبوتوں یا لوٹی ہوئی رقوم کی نشاندہی یا بازیابی میں اضافہ کر سکے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مسئلہ نیب کے ادارے یا اس کے تفتیشی افسران کی اہلیت میں نہیں بلکہ حکومتوں کی نیتوں میں ہے۔ اکثر تو وہ اپنے خاص لوگ نیب کی بڑی سیٹوں پر بٹھا دیتے ہیں جو سارے نیب کو ہائی جیک کر لیتے ہیں۔ موجودہ حکومت بڑے منظم اور پراثر طریقے سے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے تواتر سے یہ پراپیگنڈہ کر رہی ہے کہ نیب کا سسٹم ٹھیک نہیں ہے۔

نیب موثر نہیں، نیب نے کئی سال سے رزلٹ نہیں دیا، نیب کو کنگ پارٹی بنانے کے لیے بلیک میلنگ کرنے کے لیے استعمال کیا گیا، ہمارے بندوں نے بھی نیب بھگتی، نیب شریف لوگوں کی پگڑیاں اچھالتی ہے، نیب ڈریکونین قانون ہے وغیرہ وغیرہ۔ حکومتی نمائندے خواہ مخواہ ہی نیب کے ادارے کو نااہل اور غیر موثر قرار دینے پر بضد ہیں‘  انہیں اس میں کیڑے نکال کر اس کا بوریا بستر گول کرنے کی سازش کرنے کے بجائے اس کو آزاد، خودمختار، موثر، انصاف دہندہ اور نتیجہ خیر بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اگر پچھلی حکومتوں نے اس کا غلط استعمال کیا ہے تو اس حکومت کو اسے آزادی کے ساتھ اپنا کام کرنے دینا چاہیے۔

نیب ایک ادارہ ہے، ایک ٹول ہے، اب اس کے استعمال کرنیوالوں کا کردار ہے کہ وہ اس کو انصاف کے لیے استعمال کرتے ہیں یا اپنے سیاسی عزائم کے لیے۔  جہاں تک وزیراعظم کا یہ کہنا ہے کہ نیب شریف لوگوں کے گھروں میں گھس جاتی ہے‘ تو عرض ہے کہ انہیں قانون کا کم از کم اتنا ضرور پتہ ہونا چاہیے کہ ملزمان کے گھروں یا دفتروں میں گھس کر تلاشی لینا کسی بھی تفتیشی ادارے کا سب سے پہلا اور بنیادی حق ہے‘ جیسا کہ سی بی آئی انڈیا کے افسران نے اگست 2015ء کو سابق چیف منسٹر دگامبرکامت کے گھر ریڈ کیا جو کہ ’’جائیکا فنڈڈ پراجیکٹ‘‘ میں ایک امریکی کنسلٹنٹ کمپنی سے کک بیکس لینے کے ملزم تھے۔

دہلی کے وزیراعلیٰ اروند کجریوال کے دفتر پر سی بی آئی نے دسمبر 2015ء کو چھاپہ مارا اور تلاشی لی۔ دسمبر 2015ء کو ہی سی بی آئی کے آئی آر ایس کے ایک افسر سنجے کمار کے ٹھکانوں پر ریڈ کر کے تلاشی لی تو 20  کروڑ روپے کیش، 20 کروڑ کی سرمایہ کاری کے کاغذات اور بہت سی پراپرٹی کے کاغذات برآمد ہوئے تھے۔18 اکتوبر 2015ء کو سی بی آئی نے نئی دہلی میں ریلوے کے دو سابقہ افسران کے گھروں سے ریڈ کے دوران 27 کروڑ روپے کیش برآمد کیا تھا۔

ایک کا نام ہشام بیاری اگروال تھا۔ اکتوبر 2013ء کو سی بی آئی نے ہمڈالکو کمپنی کے مالک کمار منگلم کے دفتر چھاپہ مار کر 25 کروڑ روپے کیش برآمد کیا تھا۔ اسی طرح اسکاٹ لینڈ یارڈ کا بنیادی ہتھیار بھی چھاپہ اور تلاشی ہی ہے۔ الطاف حسین کے گھر میں بھی تو اسکاٹ لینڈ یارڈ گھس گئی تھی اور 12 گھنٹے تلاشی لیتی رہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری بھی بلاخوف و خطر اپنے فرائض کی انجام دہی میں ہمہ تن مصروف ہیں‘ ان پر طاقتور حلقوں کی طرف سے زبردست دباؤ بھی ہے‘ آثار بتاتے ہیں کہ ’’مہربانوں‘‘ اور عوام کے دباؤ کی وجہ سے اب کسی سے رعایت کیے جانے کاخفیف سا امکان بھی نہیں ہے۔ کرپشن کے مہادیو کو چاروں شانے چت کرنے کے لیے نیب کو اب بدعنوانی کے خلاف زیرو ٹالرننس کی پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہی  ہو گا، تبھی جا کر وہ بڑے مگرمچھوں کو آہنی ہاتھوں سے دبوچ کر ملک بھر میں بلاامتیاز کارروائی جاری رکھ پائیگا۔

نیب کا یہ اقدام بھی قابلِ قدر ہے کہ اس نے بدعنوانی کے خاتمے کے لیے مختلف سرکاری اور غیرسرکاری تنظیموں اور سول سوسائٹی کو شامل کیا ہے۔ بدعنوانی کے برے اثرات سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے ملک بھر کے تمام شیڈول بینکوں کی تمام اے ٹی ایم مشینوں پر نیب کا پیغام ’’کرپشن سے انکار‘‘ درج کیا گیا ہے‘ اس کے ساتھ ساتھ نیب اور اعلیٰ تعلیمی کمیشن نے مختلف یونیورسٹیوں کے طالبعلموں میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط بھی کیے ہیں‘ اس تعاون کی وجہ سے ملک کی مختلف جامعات میں کردار سازی کی 10 ہزار انجمنیں قائم کی گئی ہیں۔ اس کے برعکس آج کل نیب کو کمزور کرنے کے لیے کرپٹ مافیا کی جانب سے پرزور سازشیں بھی شروع کر دی گئی ہیں اور اس کی اصل افادیت کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے‘ اب دیکھتے ہیں نیب کس حد تک اس سازشی مافیا کو بے نقاب کرنے میں کامیاب ہو پاتا ہے۔

قمر زمان چوہدری کی اس تمام دوڑ دھوپ کو کھوٹا کرنے کے لیے ’’سیاسی قوتیں‘‘ سرجوڑ کر بیٹھ گئی ہیں۔ ہماری اطلاع کیمطابق نیب آرڈینس میں ترمیم پر حکومت اور پیپلزپارٹی میں بیک ڈورچینل پر خفیہ رابطہ ہوا ہے۔ آرڈیننس میں ترمیم کے لیے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی اعلی قیادت میں غیر اعلانیہ مفاہمت پر اتفاقِ رائے ہو چکا ہے اور اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ حکومت اگر نیب کو ختم کرنے کے لیے بھی قانون سازی کرے تو پیپلزپارٹی اس کا بھرپور ساتھ دیگی‘ بتایا گیا ہے کہ اپوزیشن سے ترمیم کے مسودے پر گفتگو بھی کی گئی ہے۔

حکومت قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری سے قبل 90 روز کے لیے صدارتی آرڈیننس پر بھی غور کر رہی ہے اورنیب آرڈیننس میں ترمیم پر حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر ہیں، جب کہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت سے اس حوالے سے عقبی دروازے سے رابطے کے بعد طے کیا گیا ہے کہ حکومت پارلیمانی کمیٹی سے منظوری کے بعد نیب آرڈیننس میں ترمیم کے لیے قومی اسمبلی میں بل لائیگی جہاں پر اکثریت ہونے کی وجہ سے اسے ’’خاص مزاحمت‘‘ کا سامنا نہیں کرنا پڑیگا‘ جب بل کو سینیٹ میں پیش کیا جائے گا تو وہاں پر پیپلزپارٹی حکومت کا ساتھ دیگی۔ سیاست دانوں کی اکثریت یہ چاہتی ہے کہ ان کا احتساب نہ ہو‘ جب بھی ان کا احتساب ہونے لگتا ہے وہ آہ وبکا کرنے لگتے ہیں‘ وہ بظاہرکتنا ہی ایک دوسرے کے خلاف کیوں نہ ہوں، احتسابی ادارے کے اختیارات محدود کرنے کے لیے سب ایک پیج پر ہیں۔

کچھ بھی ہو، نیب نے حکمرانوں، اس کی فرینڈلی اپوزیشن‘ ان کے ساتھی بیورو کریٹوں، کاروباری صنعتکار دوستوں، کرپٹ وڈیروں، انگریز کے جانشینوںاور جاگیرداروں کی بدعنوانیوں پر تحقیقات مکمل کر ہی لی ہیں اور وہ زیر تفتیش مقدمات کو تقریباً فائنل کر چکی ہے‘ صرف ان مقدمات کو چلانے کی اجازت لینا اور اس کا نوٹیفکیشن حاصل کرنا باقی ہے۔ ہم یہاں واضح کر دیں کہ اب نیب کے اختیارات کو کم کرنا کسی صورت ممکن نہیں رہا، کہ اب تو تیر کمان سے نکل چکا ہے‘ مقدمات فائنل ہو چکے ہیں‘ سپریم کورٹ تک میں لسٹیں داخل کی جا چکی ہیں‘ اب تو صرف دیکھنا یہ ہے کہ پکڑ دھکڑ میں کون اول دوئم پوزیشنوں پر آتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ سیاسی جماعتوں کے نیب پر تحفظات سراسر  منفی ہیں، سیاسی اکابرین کا مدعا  فقط یہ ہے کہ ہمیں نہ پکڑو،  دوسروں کو پکڑو۔ نیب سے متعلق آزاد کمیشن کے قیام کی سوچ رکھنے والے سن لیں کہ یہ محض ان کی خام خیالی ہے‘ یہ آزاد کمیشن سیاسی جماعتوں کے تحفظات ہرگز ہرگز  دور نہیں کر سکے گا۔ سیاسی جماعتیں بتائیں کہ آزاد کمیشن کی ضرورت پیش کیوں آ رہی ہے؟ نیب کے اندر ہی اسکروٹنی کا نظام کیوں نہیں بنا دیا جاتا؟ یہ حقیقت ہے کہ نیب کے سسٹم میں ٹھوس اور قابلِ عمل اصلاحات ناکافی ہیں‘ ان پر مزید توجہ دی جانی چاہیے لیکن ان اصلاحات کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہونا چاہیے ‘ نہ ہی یہ اصلاحات کرپٹ مافیا کو بچانے کے لیے عمل میں لائی جانی چاہئیں۔

اپنی پت رکھنے کے لیے سیاستدانوں کے لیے اب بیحدضروری ہو گیا ہے کہ وہ اپنی صفوں میں موجود کرپٹ عناصر کو بچانے کے بجائے انہیں بے نقاب کریں، ان کے رضا کارانہ احتساب کے لیے قانون کی مدد کریں‘ اور یہ تبھی ممکن ہو گا جب وہ خود کو سب سے پہلے احتساب کے لیے پیش کرینگے، صرف اس طرح ہی سیاسی نظام پر لوگوں کا اعتماد بحال اور جمہوری عمل مضبوط ہو سکتا ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔