مسائل کے حل کیلئے خواتین کو فیصلہ سازی میں شامل کرنا ہوگا!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  منگل 15 مارچ 2016
حکومتی، اپوزیشن و سول سوسائٹی کی خواتین نمائندوں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: وسیم نیاز، شہباز ملک/ایکسپریس

حکومتی، اپوزیشن و سول سوسائٹی کی خواتین نمائندوں کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو۔ فوٹو: وسیم نیاز، شہباز ملک/ایکسپریس

پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد حصہ خواتین پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجودیہ طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔

ہمارے ملک میں خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے اس صنف نازک کی حالت قابل رحم ہے اور یہاںخواتین کے خلاف جرائم میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے ۔’’خواتین کے حقوق و تحفظ ‘‘ کے حوالے سے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و اپوزیشن جماعتوں کی خواتین نمائندوں اور سول سوسائٹی نے اپنے خیالات کاا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

حمیدہ وحید الدین (صوبائی وزیر برائے وویمن ڈویلپمنٹ پنجاب)

ہر سال 8مارچ کو خواتین کا عالمی دن ہمیں اس جدوجہد کی یاد دلاتاہے جو خواتین نے اپنے حقوق اور اپنے وجود کو تسلیم کروانے کے لیے کی۔ آج کا دن عام پاکستانی خواتین کی بہادری اور عزم کا عکاس ہے۔حکومت پنجاب نے صنفی امتیاز کے خاتمے اورخواتین کی ترقی کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ خواتین پیکیج اور خواتین کا تحفظ ان کی معاشی اور سماجی ترقی کے لیے اہم سنگ میل ہیں۔محکمہ ترقی خواتین، PCSW کا قیام، خاتون محتسب کا تقرر، وائلنس ایکٹ، ڈے کیئر سنٹر، وورکنگ وویمن ہوسٹلز کا قیام، تمام بورڈز میں خواتین کی 33فیصد نمائندگی، سرکاری ملازمتوں میں 15فیصد کوٹہ اور متعدد اقدامات شامل ہیں جن کے نتیجے میں آج کی عورت زیادہ بااختیار اور بااعتماد ہے۔

2012ء سے پہلے خواتین کے مسائل اور ان کی فلاح کے لیے کام کرنے والا کوئی ادارہ نہیں تھاجبکہ وویمن ڈویلپمنٹ، سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کا ہی ایک حصہ ہوا کرتا تھا۔ میاں شہباز شریف نے جب سے پنجاب میں وویمن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ قائم کیا ہے اور اس کے بعد سے ہم ہر سال عالمی دن برائے خواتین کو اپنے احتساب کے لیے مناتے ہیں اوراگلے سال کے لیے لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہیں۔ 2012ء میں جب وویمن ڈویلپمنٹ ڈپارٹمنٹ قائم ہوا تو میاں شہباز شریف نے اُس سال خواتین کے عالمی دن کے موقع پر وویمن ایمپاورمنٹ پیکیج 2012ء کا اعلان کیا، جس میں چالیس کے قریب پلان تھے جن پر مختلف محکموںنے کام کرنا تھا۔

اس پیکیج میں خواتین کے لیے ملازمتوں کے کوٹہ میں اضافہ ، خواتین پر تشدد کے حوالے سے قانون سازی و دیگر چیزیں شامل تھیں۔ 2013ء میں انتخابات کی وجہ سے ہم خواتین کے عالمی دن کے موقع پر کام نہیں کرسکے، 2014ء میں شہباز شریف نے وویمن ایمپاورمنٹ پیکیج کا اعلان کیا جس کے لیے باقاعدہ ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اور اب ہم اس حوالے سے کام کررہے ہیں۔ 2015ء میں بھی میاں شہباز شریف نے خواتین کی ترقی اور فلاح کے حوالے سے نئی پالیسی کا اعلان کیا اور اب 2016ء میں بھی خواتین کے حوالے سے حکومت پنجاب نے آئندہ کا لائحہ عمل واضح کیا ہے۔

حکومت پنجاب نے منظم قانونی و انتظامی اصلاحات کے ذریعے ویمن ایمپاورمنٹ کا جامع روڈ میپ متعارف کروادیا ہے۔یہ ایک تاریخی اقدام ہے جس سے قومی ترقی میں خواتین کا کردار بڑھا ہے اور پاکستان کا شمار خواتین کی بھلائی کے حوالے سے بہترین ممالک میں کیا جاتا ہے۔ان اقدامات کا کریڈٹ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کو جاتا ہے جنہوں نے خواتین کی ترقی کو اہم حکومتی ایجنڈا بنایا ہے تاکہ پاکستانی عورت کو اس کا اصل مقام مل سکے۔اس حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے ذریعے تعلیم حاصل کرنے والوں میں طالبات کا تناسب 45 فیصد ہے۔

مختلف سرکاری محکموں میں 56ڈے کیئر سینٹر قائم کر دیے گئے ہیں۔ضلعی سطح پر ورکنگ وویمن ہاسٹلز کی تعمیر کے لیے نو سو ملین روپے مختص کیے گئے ہے، 12 اضلاع میں ہاسٹلز کی تعمیر مکمل کر لی گئی ہے جبکہ باقی اضلاع میں بھی خواتین ملازمین کی سہولت کے لیے ان ہاسٹلز کی تعمیر پر توجہ دی جائے گی۔گیارہ اضلاع میں فیملی کورٹس کمپلیکس تعمیر کیے جا چکے ہیں اور دیگر اضلاع میں بھی فیملی کورٹس کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

دوسری جانب حصول انصاف تک رسائی آسان بنانے کی غرض سے 680پولیس تھانوں میں خواتین کے لیے ہیلپ ڈیسک قائم کیے جا چکے ہیں ۔ اسی طرح لڑ کیوں کے سکولوں میں خواتین کو نو ہزار کینٹینوں کے ٹھیکے دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے دیہی سطح پر خواتین کو معاشی طور پر با اختیار بنانے کے لیے ایک ایکڑ اراضی سے کم رقبہ کی حامل خواتین کو 12ہزار جانور مہیا کیے ہیںتا کہ وہ مویشی پال کر اپنا گزارہ کر سکیں۔دوسری جانب جناح آبادیوں میں ایک لاکھ دس ہزار پلاٹس برابری کے مالکانہ حقوق کی بنیاد پر خاوند اور بیوی دونوں کے نام مختص کئے گئے ہیں۔

فوزیہ وقار (چیئر پرسن پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف وویمن)

پنجاب حکومت نے خواتین کے حوالے سے بہت سے اقدامات کیے ہیں ۔ قانون سازی،کمیشن کا قیام ، خواتین کے حوالے سے پیکیج اور ملازمت میں کوٹہ مختص کرنا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔اس سال حکومت نے خواتین کے لیے پیکیج میں بہت زیادہ نئی چیزیںلانے کے بجائے پہلے سے موجود چیزوں کو مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ معاملات میں مزید بہتری لائی جا سکے۔اس پیکیج میں خواتین کو لیگل ایڈ ، کاؤنسلگ و دیگر سہولیات کے علاوہ ٹرانسپورٹ اور زراعت بھی شامل کی گئی ہیں۔تشدد روکنے اور دادرسی کے لیے رواں سال مزید تین اضلاع میں وائلنس اگینسٹ وویمن سنٹر بنائیں جائیں گے۔

خواتین کی ملازمت کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو لیبر اور ملازمت میں تو ان کی تعداد بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے لیکن فیصلہ سازی میں خواتین نظر نہیں آتی۔ میرے نزدیک فیصلہ سازی میں خواتین کی شمولیت بہت ضروری ہے۔گریڈ 18 اور اس سے زائد کی ملازمتوں کے حوالے سے پنجاب کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو گریڈ 18 میں13.5 فیصد خواتین ہیں جبکہ 77فیصد مرد ہیں۔ ضلعی سطح پر ایک خاتون ڈی سی او ہے جبکہ باقی سب مرد ہیں اور یہی صورتحال ای ڈی اوز کی بھی ہے۔ گریڈ 19میں صرف پانچ فیصد خواتین ہیں جبکہ گریڈ 21اور 22میں میرے علاوہ کوئی خاتون نہیں ہے۔

معاشی مجبوریوں کی وجہ سے لیبر میں تو خواتین کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن فیصلہ ساز پوزیشنوں پر ابھی بہت کمی ہے۔ حکومت کا اس امر کو سمجھنا اور ہر فیصلہ ساز بورڈ اور کمیٹی میںخواتین کی نمائندگی 33فیصد لازمی قرار دینا اہم فیصلہ ہے۔ہم نے تین سو سوالات کے ذریعے پہلی مرتبہ خواتین کی صحت ، تعلیم، گورننس، فیصلہ سازی، معاشی حیثیت ، ان کے خلاف تشددو دیگر حوالے سے 36 اضلاع سے ڈیٹا اکٹھا کیا ہے ، باقاعدہ ڈیٹا بیس بنا گیا ہے جو اہم قدم ہے اور اب اس کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔حالیہ ڈیٹا کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد 2012ء کی نسبت 2015ء میں 20 فیصد بڑھ چکا ہے۔ اسی طرح سزا کا عمل 2012ء میں 7فیصد تھا جبکہ 2015ء میں صرف ایک فیصد مجرموں کو سزا ہوئی ہے، اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ضلعی عدالتوں میں 14سے 15فیصد خواتین جج جبکہ ہائی کورٹ میں 55میں سے 3 خواتین جج ہیں۔ ہماری یہ تعداد خیبرپختونخوا سے کم ہے کیونکہ وہاں14میں سے 2خواتین جج ہیں۔ اس وقت لیبر فورس میں 26فیصد خواتین ہیں جن کا 50فیصد وہ خواتین ہیں جو 5 ہزار ماہانہ سے کم تنخواہ لیتی ہیں جبکہ 5ہزار ماہانہ سے کم تنخواہ لینے والے مرد صرف 7فیصد ہیںجو افسوسناک بات ہے۔ ہم وراثت کے نئے قانون پر عملدرآمد اور دارالامان کے حوالے سے بھی ریسرچ کرنے جارہے ہیں جس کی سفارشات حکومت کو پیش کی جائیں گی اور آئندہ کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔

لوکل گورنمنٹ الیکشن میں خواتین کے لیے سیٹیں مختص تھیں لیکن یہ باعث افسوس ہے کہ جنرل سیٹوں پہ خواتین کی ایک فیصد تعداد بھی سامنے نہیں آئی۔ خواتین کے حوالے سے ہمارا معاشرہ پیچھے کی طرف گیا ہے،ہم کچھ کاسمیٹک تبدیلیاں لائے ہیں لیکن ہماری ذہنیت کے ابھی بھی بہت سارے مسائل ہیں، سڑکوں پر خواتین ڈری سہمی نظر آتی ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہمارا معاشرہ تنگ نظر ہوگیا ہے۔ تحفظ خواتین بل عجلت میں پاس نہیں ہوا بلکہ 2003 ء سے زیر غور ہے، ہم نے تمام لوگوں کے ساتھ طویل مشاورت کے بعد یہ بل منظور کیا ہے۔ یہ بل مردوں کے خلاف نہیں بلکہ تشدد کرنے والے کے خلاف ہے، 90 ممالک میں یہ بل رائج ہے لیکن ہمارے ملک میں اس کا قانون کمزور ہے۔

سعودی عرب میں تشدد کی کریمنل پروسیڈنگ کی جاتی ہے جبکہ ہم صرف وارننگ دیتے ہیں۔ یہ بل کسی بھی طور آئین اور مذہب کے خلاف نہیں ہے، ہم نے اپنی معاشرتی اقدار کو مدنظر رکھ کر یہ قانون بنایا ہے۔ اس بل پر بات کرنا اسلامی نظریاتی کونسل کا حق ہے، امید ہے کہ مزید تحقیق کے بعد وہ بھی اس پر رضامند ہوجائے گی۔ میرا تمام خواتین کے لیے یہ پیغام ہے کہ حکومت جو بھی اقدامات کرتی ہے خواتین کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان سے فائدہ اٹھائیں اور ان کے لیے جو سیٹیں مختص کی گئی ہیں ان پر کام کریں اورخود پر اعتماد رکھتے ہوئے آگے بڑھیں، حکومت ان کا بھرپور ساتھ دے گی۔

بیگم یاسمین رحمان (سابق رکن قومی اسمبلی)

خواتین کے حقوق کے حوالے سے کوئی بھی پالیسی بنائی جاتی ہے یا ایوانوں میں کوئی جملہ کہا جاتا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے۔ آج خواتین کے حقوق کی جدوجہد دنیا میں تحریک کی شکل اختیار کرچکی ہے اور یہ اسی جدوجہد کا ثمر ہے کہ ایوانوں میں خواتین کے حقوق کی بات کی جارہی ہے۔ حال ہی میں جو تحفظ خواتین بل پاس ہوا ہے یہ خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے لیکن گھریلو تشدد کے حوالے سے یہ بل تسلی بخش نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ گھریلو تشدد کوکریمنلائز کیوں نہیں کیا جاتا ؟ میں نے 2008ء میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے کاوش کی، بل قومی اسمبلی سے پاس ہوگیا لیکن اسے سیاست کی نذر کردیا گیا۔

افسوس ہے کہ خواتین کے حقوق پر ہمیشہ سیاست کی جاتی ہے، میرے پیش کردہ بل پر نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ سول سوسائٹی نے بھی سیاست کی۔ آج کابینہ میں کوئی عورت بھی فل منسٹر نہیں ہے جبکہ35کے قریب سٹینڈنگ کمیٹیاں ہیں ان میں ایک بھی خاتون چیئرپرسن نہیں ہے۔ 2008ء میں 12کے قریب خواتین، سٹینڈنگ کمیٹیوں کی چیئرپرسن تھیں۔ افسوس ہے کہ سیاسی جماعتوں میں وویمن ونگ بنا کر خواتین کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا ہے اور اس وقت کسی بھی سیاسی جماعت میں کسی عورت کو اہم عہدہ نہیں دیا گیا۔ اگر سیاسی جماعتیں خواتین کو سپورٹ کریں گی تو پارلیمنٹ میں خواتین آگے آئیں گی ۔ میرے نزدیک معاشرتی سوچ اور رویے تبدیل کرنا بہت ضروری ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایک عورت کو اس کے گھر میں فیصلہ سازی میں کتنا حق حاصل ہے، کیا گھر میں عورت کو برابر کا حق حاصل ہے؟

ایک رپورٹ کے مطابق افغانستان اور گانگو کے بعد پاکستان خواتین پر تشدد کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے جو شرمناک ہے۔ اس بات کا ادراک حکومتی سطح پر بھی ہے اسی لیے کاسمیٹک قسم کے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ اگر حکومت سنجیدہ ہوتی تو خواتین کو اہم عہدوں پر تعینات کیا جاتا۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک خواتین کو اہم اور فیصلہ ساز عہدوں پر تعینات کرکے اختیارات نہیں دیے جائیں گے تب تک خواتین کے حوالے سے قوانین پر عملدرآمد نہیں ہوگا اور نہ ہی خواتین کے مسائل حل ہوں گے۔ خواتین کے حوالے سے ہم پیچھے کی طرف چلے گئے ہیں اور براہ راست انتخاب لڑ کر ایوانوں میں آنے والی خواتین کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

آج خواتین کو اپنے آئینی حقوق اور قرآن و سنت میں جو حقوق بتائے گئے ہیں ان کاعلم نہیں ہے لہٰذا اس حوالے سے خواتین کو آگاہی دینا بہت ضروری ہے۔ خواتین کی 33فیصد نمائندگی موثر تھی لیکن افسوس ہے کہ حالیہ بلدیاتی نظام میں وہ نمائندگی سامنے نہیں آئی۔ الیکشن کمیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق دیہاتوں میں خواتین کے ووٹوںکی رجسٹریشن اور کاسٹنگ کی شرح شہروں کی نسبت زیادہ ہے لہٰذا شہری خواتین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ حکومت، معاشرہ اور مرد و خواتین کے رویے بہت اہم ہیں، ہمیں مجموعی طور پر اپنے رویے تبدیل کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہ فیصلہ سازی میں خواتین کو اہم عہدوں پر آنا چاہیے اور بزنس میں بھی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔

ممتاز مغل (ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن)

8مارچ صنفی برابری کے لیے جدوجہد کا دن ہے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک مردم شماری نہیں ہوئی جس کی وجہ سے ہمیں یہ علم ہی نہیں کہ خواتین کی تعداد کتنی ہے۔ ملکی تاریخ دیکھیں تو پہلے خواتین کا عالمی دن حکومتی سطح پر نہیں منایا جاتا تھا لیکن 2000ء کے بعد اسمبلیوں میں بیٹھی خواتین کی کوششوں کی وجہ سے یہ دن سرکاری سطح پر منایا جانے لگا۔ خواتین نے سیاست کے میدان میں خود کو منوایا ہے، قومی اسمبلی میں 20 فیصد تک خواتین کی تعداد رہی ہے جبکہ سینیٹ میں بھی خواتین کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ اسمبلیوں میں 55 فیصد قانون سازی خواتین کی وجہ سے ہوتی ہے۔

2000ء اور 2005ء کے بلدیاتی انتخابات میں 33 فیصد نمائندگی کے تحت 40ہزار خواتین پہلی مرتبہ جبکہ دوسری مرتبہ 25 ہزار خواتین الیکشن لڑ کر آئیں ۔ اس طرح لاکھوں خواتین نے سیاست میں اپنا کردار ادا کیا اور یہ ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ عالمی طور پر خواتین کے حوالے سے پاکستان 27کنونشن دستخط کرچکا ہے، حکومت چاہے کسی بھی جماعت کی ہو عالمی دباؤ کی وجہ سے مجبوراََ اسے اس حوالے سے عملدرآمد کرنا ہوتا ہے۔ اس کی مثال ہمیں جی ایس پی پلس سٹیٹس ، سیڈا کنونشن، میلینیم ڈویلپمنٹ گول اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گول میں بھی نظر آتی ہیں۔

قانون کی نظر میں مرد اور عورت سب برابر ہیں۔ آئین پاکستان کے آرٹیکل 25 کے تحت یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ محروم افراد کے لیے خصوصی قوانین بنائے اور ہمارے معاشرے میں خواتین ایک محروم طبقہ ہیں لہٰذا ان کے لیے خصوصی قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں خواتین پر تشدد بڑھ رہا ہے۔ ہر سال آٹھ ہزار سے زائد خواتین تشدد کا شکار ہورہی ہیں جبکہ 2015ء میں صرف پنجاب میں 187 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا ہے ۔ خواتین کے حوالے سے پیکیج تو دیے جاتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا جبکہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے اور اگر فیملی کورٹ کو دیکھا جائے تو خواتین کیس لڑتے لڑتے بوڑھی ہوجاتی ہیں مگر ان کے مسائل حل نہیں ہوتے۔

پنجاب میں قانون وراثت اچھا اقدام ہے لیکن عام عورت کو اس حوالے سے آگاہی ہی نہیں ہے۔ہوم بیسڈ ورکر خواتین کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں خواتین کی نمائندگی کو کم کردیا گیا جو باعث افسوس ہے، اس کے علاوہ سرکاری سطح پر خواتین کی نمائندگی 33فیصد نہیں بنائی جاسکی۔ یہ باعث افسوس ہے کہ اسمبلیوں، سٹینڈنگ کمیٹیوں، فیصلہ ساز عہدوں پر خواتین کی تعداد بہت کم ہے، اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت روالپنڈی میں 80 ہزار جبکہ رحیم یار خان میں 2 لاکھ سے زائد خواتین امداد لے رہی ہیں لہٰذا جب اتنی بڑی تعداد میں خواتین غربت کا شکار ہیں تو ان کے مسائل کیسے حل ہوسکتے ہیں۔

تحفظ خواتین کے حوالے سے جب بلوچستان اور سندھ میںقانون پاس ہوا تو اسلامی نظریاتی کونسل سمیت کسی کو اعتراض نہیں ہوا لیکن پنجاب میںا س حوالے سے بہت شور کیا جارہا ہے۔تحفظ خواتین بل خواتین کے لیے بنایا گیا ہے، یہ انہیں تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر قوانین کو بھی سپورٹ کرے گا۔ خانہ بدوش خواتین کے شناختی کارڈ نہیں ہیں، ان کی رجسٹریشن کی جائے۔ اس کے علاوہ فیملی کورٹ میں خواتین ججوں کی تعداد بہت کم ہے، ان کی تعداد کوبڑھایا جائے تاکہ خواتین کے مسائل موثر طریقے سے حل کیے جاسکیں۔

اسمبلی کے 375 اراکین عوام کے نمائندے ہیں، انہوں نے واپس عوام میں جانا ہے لہٰذا وہ ایسی قانون سازی کیسے کرسکتے ہیں جو آئین اور مذہب کے خلاف ہو۔ خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف عورت فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ ’’ممکن الائنس‘‘ ، ’’آواز پروونشل فورم‘‘ اور ’’کم عمری کی شادی کے خلاف الائنس‘‘ و دیگر نے بھی بہت کام کیا ہے۔ اب قوانین بن چکے ہیں ، اگر حکومت کی خواہش ہوگی تو ان پر عملدرآمد بھی ہوگا اور بجٹ بھی فراہم کیا جائے گا۔

آئمہ محمود (مرکزی جنرل سیکرٹری آل پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن)

پوری دنیا میں 8 مارچ کو بطور عالمی دن برائے خواتین ، ان محنت کش خواتین کی یاد میں منایا جاتا ہے جو ایک سا کام ایک سا معاوضہ، روزگار کا تحفظ ، کام کے اوقات و دیگر بنیادی سہولتوں کے مطالبات لے کر میدان عمل میں آئیں۔ پاکستان میں جب ہم نے اپنے مطالبات اور آزادی کے لیے آواز اٹھائی تو ایک خاص سوچ کے لوگوں کی جانب سے ہمیں مغرب زدہ کہا گیا اور یہ بھی کہا کہ ہم مغرب جیسی آزادی چاہتی ہیں۔ افسوس ہے کہ پاکستان میں خواتین دوہرے اور تہرے استحصال کا شکار ہیں اور ہماری جدوجہد استحصالی نظام، جبر ، ناانصافی، تشدد سے آزادی اور صحت، تعلیم و دیگر حقوق کے لیے ہے۔

ایک عورت کی تعلیم ایک خاندان کی تعلیم ہوتی ہے لہٰذا جب ہم تعلیم کا حق مانگتے ہیں تو ہم اس معاشرے اور ملک کی بہتری کی بات کرتے ہیں لیکن ہمیں مغربی ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام دیا جاتا ہے۔ جب ہم عورتوں کی صحت کی بات کرتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سالانہ لاکھوں مائیں زچگی کے دوران پیچیدگیوں اور اموات کا شکار ہوتی ہیں۔ بدقسمتی سے صحت کے حوالے سے موجودہ حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے، حکومت کو چاہیے کہ خواتین کے لیے ڈسپنسریاں، زچگی سینٹر و دیگر سہولیات مقامی سطح پر فراہم کرے تاکہ شرح اموات کو کم کیا جاسکے۔

بدقسمتی سے عورت کو ہمیشہ شراکت دار، پیروکار کے طور پر رکھا جاتا ہے، یہ خوش آئند ہے کہ پنجاب حکومت نے خواتین کے حوالے سے موثر قانون سازی کی ہے لیکن ابھی بھی فیصلہ سازی میں اتنی خواتین نہیں ہیں جتنی ہونی چاہئیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق 70 سے 90 فیصد خواتین اور بچے گھریلو تشدد کا شکار ہیں جو افسوسناک ہے۔ چند سال قبل جب ہم گھریلو تشدد کے خلاف بات کرتے تھے تو کہا جاتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں ایسا ممکن نہیں ہے لیکن آج خواتین کی جدوجہد کے نتیجے میں پنجاب میں قانون سازی ہوئی ہے۔ میرے نزدیک گھریلو تشدد کے حوالے سے قانون سازی بارش کا پہلا قطرہ ہے جو یہ خوشگوار پیغام لایا ہے کہ اگر تمام خواتین اپنے حق کے لیے متحد ہوجائیں اور جدوجہد کریں تو ہم اپنے مطالبات منواسکتے ہیں۔

بعض لوگوں کی طرف سے یہ اعتراض کیا جارہا ہے کہ اسے کریمنلائز نہیں کیا گیا اس لیے یہ قانون اتنا سخت نہیں ہے لیکن ہمارے نزدیک کچھ ہونا، کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے۔ اس بل نے پوری دنیا اورپاکستان کو یہ احساس دلا دیا ہے کہ گھریلو تشدد ایک حل طلب مسئلہ ہے اور اسے حل کرنے کا احساس حکومتی سطح پر بھی پیدا ہوگیا ہے۔خواتین کے حوالے سے مسائل بہت زیادہ ہیں جن پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔ ابھی تک ہمارے ملک میں مردم شماری نہیں ہوئی جس سے خواتین کی اصل تعداد کا علم نہیں ہوسکا۔اس لیے ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ مردم شماری کروائی جائے اور اس کی روشنی میں خواتین کے لیے بجٹ مختص کیا جائے۔

اس کے علاوہ آبادی کے تناسب سے انہیں سیاست میں شمولیت ملنی چاہیے جبکہ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات کی پالیسیاں بھی آبادی کے حوالے سے بنائی جائیں۔ میرے نزدیک مردم شماری نہ ہونا خواتین کو حق نہ دینے کے مترادف ہے۔ہم لوکل گورنمنٹ میں خواتین کی جتنی نمائندگی چاہتے تھے وہ نہیں مل سکی۔ پنجاب میں جو بالواسطہ نظام متعارف کروایا گیا وہ بھی ہمارے مطالبات کے برعکس تھا لیکن ہم نے اسے خوش آئند قرار دیا کیونکہ جب مقامی سطح پر خواتین سیاست کا حصہ بنیں گی تو بہتری آئے گی۔ حکومت نے امتیازی قوانین کے خاتمے اوران کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے عالمی کنونشن دستخط کیے ہوئے ہیں، اس لیے یہ حکومت پر فرض ہے کہ وہ خواتین کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔

غیرت کے نام پر قتل کے حوالے سے ہمارے ملک میں کوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔ وزیراعظم نے یہ بیان دیا کہ غیرت کے نام پر قتل میں کوئی غیرت نہیں ہے، یہ خوش آئند ہے کہ حکومت اس پر قانون سازی کی بات کررہی ہے ۔ تیزاب گردی ، وراثت میں حق اور خواتین پر تشدد کے حوالے سے قوانین تو موجود ہیں لیکن افسوس ہے کہ ان پر عملدرآمد نہیں ہورہا لہٰذا حکومت قوانین پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ امریکی رپورٹ کے مطابق کام کی جگہ پر خواتین کے استحصال سے معیشت کو نقصان ہوتا ہے، ملکی بہتری کے لیے خواتین کو تعلیم، صحت، روزگار کے مناسب مواقع ملنے چاہئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔