گنجی شاخیں

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 14 مارچ 2016
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

گنجی شاخیں اس کرۂ ارض کے ترقی یافتہ ملک چین کے ان مردوں کو کہا جاتا ہے جو بیچارے شادی کے بندھن میں بندھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ ہمیں جب یہ خبر ملی تو تجسس کے باعث مزید تفصیل جاننے کی کو شش کی۔ معلوم ہوا کہ چین کے دیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین بہتر رشتوں کی تلاش میں شہروں کا رخ کرلیتی ہیں، یوں گاؤں میں رہنے والے مردوں کے لیے خواتین کی تعداد کم ہوجاتی ہے اور یہ شرح ایک اور بیس کی ہوجاتی ہے، یعنی بیس مردوں پر ایک عورت شادی کے لیے دستیاب ہوتی ہے۔ اس طرح مردوں کی ایک بڑی تعداد شادی کے حق سے محروم رہ جاتی ہے، ظاہر ہے کہ پھر ان کے بچے بھی نہیں ہوتے۔ یوں یہ ایک ایسے درخت کی مانند ہوتے ہیں جو بغیر پتوں کے ہوتے ہیں۔ اسی لیے چین میں ایسے مردوں کو بغیر پتوں کا درخت یا ’’گنجی شاخیں‘‘ کہا جاتا ہے۔

ہارورڈ کی ایک تحقیق کے مطابق چین میں ہر سو خواتین کے مقابلے پر ایک سو اٹھارہ مرد ہیں۔ یوں کل آبادی کے اعتبار سے چین میں چار کروڑ مرد زیادہ ہیں۔ محققین کا خیال ہے کہ اس سے مردوں میں انتشار پھیل سکتا ہے اور ان میں جرائم کے رحجانات بھی بڑھ سکتے ہیں۔ چنانچہ ایسی صورتحال میں چین میں خواتین کی قدر اور بڑھ گئی اور یہ قدر زر سے ناپے جانے لگی، جس کا اندازہ اس واقعے سے لگایا جاسکتا ہے جس کا چرچہ سوشل میڈیا پر بہت ہوا کہ ایک لڑکا جو اپنی حاملہ محبوبہ سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر لڑکی کے والدین نے اس شادی کے لیے بیس ہزار ڈالر قیمت مقرر کردی۔ لڑکا چونکہ اتنی بڑی رقم کا بندوبست نہیں کرسکتا تھا لہٰذا لڑکی کے والدین نے رشتہ دینے سے انکار کردیا۔

سوشل میڈیا پر بہت شور اٹھا، مگر کچھ نہیں ہوسکتا تھا کہ چین کا روایتی معاشرہ اب تبدیل ہوچکا ہے، اب نہ صرف چین ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں آگے آگے ہے، بلکہ یہاں کے لوگ بھی اعلیٰ معیار زندگی کی دوڑ میں صبح و شام کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکی والے بھی لڑکوں کی اس مجبوری سے پورا پورا فائدہ اٹھانے کی کو شش میں ہیں، تاکہ زیادہ سے زیادہ پیسہ حاصل ہو اور اعلیٰ معیار زندگی حاصل کیا جاسکے۔

چین میں ساٹھ، ستر کی دہائی تک معاملات اس کے برعکس تھے۔ مرد تھرماس فلاسک اور پلنگ کے عوض بھی شادی کا شرف حاصل کرلیتے تھے۔ لیکن فی زمانہ ترقی یافتہ ممالک کی طرح یہاں بھی نئے رحجانات قبول کیے جانے لگے جس سے خاندانی نظام میں بڑی حد تک تبدیلیاں آگئیں۔ آج یہاں مردوں کی زیادہ تعداد کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ پیدائش سے قبل ہی معلوم کرلیتے ہیں کہ آنے والا بچہ ہے یا بچی؟ یوں اگر آنے والا لڑکا نہ ہو تو بات وہی ختم کر دی جاتی ہے، جس سے لڑکیوں کی پیدائش کی شرح مزید کم ہوگئی ہے۔ یوں خاندانی نظام کے ساتھ ساتھ معاشرتی نظام بھی بری طرح متاثر ہوگیا ہے۔

یہاں کم آمدنی والے لوگ اب چینی لڑکیوں سے شادی کرنے کے بجائے ویتنام، کمبوڈیا اور برما جیسے ملکوں کی لڑکیوں سے شادی کرنے لگے ہیں۔ چین میں شادی کا معاملہ ایک بڑا سماجی مسئلہ بن چکا ہے جس سے مختلف لوگ فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں۔ ایک خبر کے مطابق چین کے شمالی صوبے میں سو ویتنامی لڑکیوں کو شادی کی غرض سے سولہ ہزار ڈالر فی کس کے حساب سے فروخت کیا گیا جو اچانک غائب ہوگئیں۔ ان میں سے ایک عورت نے واپس آکر اپنے خاوند کو بتایا کہ ان سب کو کھانے کی دعوت کے بہانے بلا کر بے ہوش کرکے دوبارہ کہیں اور شادی کرانے کے لیے لے جایا جارہا تھا کہ وہ فرار ہوکر اپنے خاوند کے گھر پہنچ گئی۔

چینی عوام کو اس مقام تک پہنچانے والے وہ لوگ نہیں تھے کہ جنھوں نے ہیروشیما یا ناگاساکی پر ایٹم بم گرایا تھا، بلکہ خود اس ملک کے لیے پالیسی اور قوانین بنانے والے لوگ تھے۔ یہاں آج بھی معاشرتی زندگی کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے آبادی کو کنٹرول کرنے کی پالیسیاں جاری ہیں اور قوانین اب بھی شادی شدہ جوڑوں کو ایک اور دو سے زیادہ بچوں کی پیدائش کے بارے میں سوچنے بھی نہیں دیتا۔ یوں یہاں لوگوں کو جب صرف ایک بچے کی پیدائش پر ہی فیصلہ کرنا پڑتا ہے تو وہ انتہائی روشن خیالی کا ثبوت دیتے ہوئے صرف اور صرف لڑکے کی پیدائش کا فیصلہ کرتے ہیں۔

یوں آبادی کا تناسب اور بگڑتا چلا جارہا ہے اور چینی مرد اب پڑوسی ملکوں سے لڑکیاں لانے یا خریدنے پر مجبور ہیں۔ یہ تصویر بالکل ایسی ہی ہے کہ جیسے مغرب کے بعض دانشوروں نے یہ عندیہ دیا تھا کہ بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث مستقبل میں وسائل کم پڑجائیں گے، اناج کی قلت بھی ہوجائے گی لہذا آبادی کو کنٹرول یا کم کیا جائے، یوں انھوں نے فیملی پلاننگ کو فروغ دے کر اپنی آبادی کو تو کم کرلیا لیکن جب وہاں وسائل بڑھ گئے تو وہ نئے مسائل سے دوچار ہوگئے اور انھیں اپنے ملک کی ترقی کا پہیہ جاری رکھنے کے لیے ان ملکوں سے لوگوں کو بلانا پڑا جو غیر ترقی یافتہ تھے۔ آج ان ممالک میں مسئلہ یہ ہے کہ آبادی میں اضافہ کیسے کیا جائے؟

آج اس سلسلے میں لوگوں کو ترغیب دی جارہی ہے، مگر لوگ اس کے لیے تیار نہیں کہ وہ تو پرتعیش زندگی کے مزوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ انھیں واپس لانا، بچوں کی پیدائش اور ان کی ذمے داریوں کے نبھانے کی طرف راغب کرنا آسان نہیں۔ اٹلی کی حکومت نے اپنے ملک کی آبادی بڑھانے کے لیے اسکیم متعارف کرائی کہ حکومت کی جانب سے فی بچہ پیدا کرنے پر جوڑے کو 14 ہزار امریکی ڈالر دیے جائیں گے۔

کچھ یہی پالیسی دیگر مغربی یا ترقی یافتہ ممالک کی بھی ہے کیونکہ وہ مستقبل میں کم آبادی کے نقصانات سے خوف زدہ ہیں، اور خوف زدہ کیوں نہ ہوں کہ جب انھیں نظر آرہا ہو کہ مستقبل میں ان کے پاس فوج میں بھرتی کے لیے بھی نوجوان دستیاب نہ ہوں گے۔ اس مغربی پالیسی کے باعث بزرگوں (یعنی پینسٹھ سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں) کی آبادی جو اٹھارویں صدی تک تقریباً دو سے تین فیصد تک رہی ہے، اب ترقی یافتہ ممالک میں 14 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ گویا اب مغربی ممالک میں یہ ان کی معیشت کے اعتبار سے قابل بوجھ ہوں گے۔

یوں مختصر یہ کہ جس معیشت اور خاندانی نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے خاندانی منصوبہ بندی جیسے فیصلے کیے گئے تھے اور مختلف نظریات پیش کیے گئے تھے، وہ اب اپنی تمام تر خرابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ منظر عام پر آگئے ہیں، مگر سوچنے کا مقام ہمارے لیے یہ ہے کہ ہم اب بھی ان کی نقالی کیے جائیں گے؟ یا کچھ عبرت کے سبق بھی حاصل کیے جائیں گئے؟ موجودہ حکمرانوں نے کس تیزی سے قوانین بنانے میں مغرب کی نقالی کی ہے اور اس میں مزید پیش رفت جاری ہے، آیئے لمحے بھر کو غور کریں کہ یہ سارے قوانین کہیں آپ کے خاندانی نظام کو تہس نہس کرنے تو نہیں جارہے؟ کیا ہم بھی اپنے ہاں ’’گنجی شاخیں‘‘ جیسی اصطلات لانا چاہتے ہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔