صحیح فیصلہ

فرح ناز  پير 14 مارچ 2016
ffarah.ffarah@gmail.com

[email protected]

ڈوبتے ہوئے کو تنکے کا سہارا بھی بہت لگتا ہے، اسی طرح پاکستانی عام آدمی بھی تنکے کو سہارا سمجھنے لگتا ہے۔ جس نے کچھ اچھی اچھی باتیں، بھیس بدل کر کرنی شروع کیں ہم نے سمجھا کہ اللہ کی رحمت آ ہی گئی اور پھر اسی سمجھ نے وہ وہ دیکھا کہ نسل در نسل اس کو بھگتا جاتا رہا، دور دور یہ سلسلہ چلتا ہی جارہا ہے کہ سمجھ و بوجھ کو پنپنے کا ماحول نہیں، تعلیمی ادارے پیسہ بنانے کی مشینیں بن گئے ہیں، تربیت کا فقدان ہوگیا ہے، انٹرنیٹ نے ہم سے کتابیں چھین لی ہیں۔

اب تمام معلومات سوشل میڈیا پر بھی بریکنگ نیوز کی شکل میں موجود ہے۔ چاہے وہ جھوٹی ہو یا سچی لیکن خبر بنی رہتی ہے۔ ان جھوٹی سچی خبروں میں وہی رہتے ہیں جو ایک محدود سرکل میں گم رہتے ہیں۔ خبر کو سمجھنے والوں کو اچھی طرح پتا چل جاتا ہے کہ جھوٹ کیا اور سچ کیا۔ بہرحال ہم اور ہمارے ملک کو اللہ اپنی پناہ میں رکھے، جب سے پاکستان قائم ہوا ہے تب سے سازشوں کا جال آج تک پھیلا ہوا ہے گاہے بگاہے بے انتہا نقصان قوم برداشت کرتی آرہی ہے۔

سیاست کے نام پر، کبھی قربانیوں کے نام پر بہت سارے گھرانے اپنے پیاروں سے جدا ہوتے ہیں اور ایسے ایسے حالات برداشت کرتے آرہے ہیں کہ یقیناً ان کے دل ہی جانتے ہوں گے، دہشت گردی، قتل و غارت، بھتہ، اغوا برائے تاوان اور اسی طرح کے جال عوام کے اردگرد بنے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ صحت و علاج، تعلیم بھی ان چیزوں سے محفوظ نہیں، پھر بھی وطن عزیز سے محبت کرنے والے آج بھی والہانہ انداز رکھتے ہیں ذاتی نقصانات کے باوجود یہیں سونا یہیں بچھونا، مریں گے تو یہیں جیئیں گے تو یہیں۔

اور بات بھی یہی اچھی ہے، پردیس تو پھر پردیس ہے، کھانا اچھا، رہنا اچھا، سب کچھ اچھا ہی اچھا۔ پھر بھی دل میں اپنے وطن کی یاد رہتی ہے، جن گلیوں میں کھیلا کودا ہو، جن شہروں کو چمکتے دمکتے، ہنستے گاتے دیکھا ہو تو کیسے ممکن ہے کہ اس کی یاد دل میں نہ ہو۔ مگر ایک لمحے کے لیے سوچیے کہ جس گھر میں ہم رہ رہے ہوں کیا ہم اس کو برباد کرسکتے ہیں، کیا ان گلیوں کو آگ لگائی جاسکتی ہے، کیا ہنستے بستے ہوئے لوگوں کو زندہ جلایا جاسکتا ہے؟

خوف سے آنکھیں بند کرنے کو دل چاہتا ہے، اگر ہم کبھی ایسا سن بھی لیں تو، مگر کتنے سخت دل اور ظالم ہوں گے وہ لوگ جو اپنے گھروں میں ایسا کر رہے ہوں گے، انسانیت کے دائرے سے باہر یہ لوگ بھیس بدل بدل کر ہم میں شامل ہوجاتے ہیں، لچھے دار گفتگو کے جال میں معصوم لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں، ان کے احساسات سے کھیلتے ہیں، ان سے اپنے مفادات حاصل کرتے ہیں اور زندہ سلامت انھیں آگ میں جھونک دیتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم کے افراد بے تحاشا صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ یہاں ارفع کریم جیسی ذہین بیٹی کم عمری میں ہی پوری دنیا میں اپنی ذہانت کے جھنڈے گاڑ دیتی ہے۔ جہانگیر خان اسکواش کی دنیا میں بے مثال نام، مہدی حسن وہ گائیک جنھیں پڑوسی ملک کے لوگ اپنا گرو مانیں، نصرت فتح علی خاں صاحب نے قوالی کو ایک نیا رنگ دیا، بہترین اداکار، بہترین گلوکار گو ایک پورا گلدستہ جس میں ہر طرح کے پھول اپنی مثال آپ ہیں۔

پھر کہاں کمی رہ گئی ہے؟ پھر کون لوگ ہیں جو تباہی و بربادی ہی کرنا جانتے ہیں۔ کیا صرف اپنی ذات ہی سب کچھ ہے؟ لیکن یہ ذات بھی فانی ہے۔ مر کھپ کے سب کو ایک گہرے گڑے میں ہی جانا ہے، جہاں صرف اعمال کا ہی صلہ ملے گا۔ بچپن سے جوانی تک اور جوانی سے بڑھاپے تک کے سفر میں اہم عنصر جوانی کا سفر ہی ہے، جس میں نفس پر کمان ہی کامیابی و کامرانی ہے۔ بڑھاپا تو ویسے ہی بے بسی ہے، کبھی کوئی بیماری، کبھی کوئی دکھ، کبھی چلنے پھرنے سے قاصر، کبھی کھانا پینا تک مشکل۔ کامیاب رہے وہ لوگ جو اپنے بہترین برسوں کو بہترین انداز میں گزار پائے اور بہترین فیصلے کرسکے، اپنی ذات سے آگے بہترین سوچ سکے اور اپنی صلاحیتیں اپنی توانائیاں اپنے لوگوں کے لیے بہترین انداز میں خرچ کرسکے۔

سنتے آئے ہیں کہ دو طرح کے لوگ موجود ہیں ایک وہ جو لوگوں کے کام آتے ہیں، دوسرے وہ جو لوگوں سے کام لیتے ہیں۔ دلوں کے حال تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر انسانوں کے کردار اور رویے بھی ہمیں بہت کچھ بتا دیتے ہیں اور بہت کچھ سکھا دیتے ہیں۔ جہاں دلوں میں ایمان موجود ہے وہاں منافقوں کا ٹولہ بھی موجود ہے۔ وہاں ورغلانے والے، غلام ذہنیت کے لوگ بھی موجود ہیں۔ برائی جلدی اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔اس لیے شاید ہم سب برائی کی طرف جلدی متوجہ ہوجاتے ہیں۔ شیطان تا قیامت تک اپنے شیطانی کام کرتا رہے گا اور ہم شیطان کے آلہ کار بنتے رہیں گے شاید اسی طرح ہمارے ارد گرد ایسے منفی ذہن رکھنے والے لوگ بھی ہیں جو کبھی کسی بھیس میں اور کبھی کسی بھیس میں ہمیں ورغلاتے ہیں۔

پاکستان کو بنے تقریباً 68 سال کا عرصہ گزر گیا ہے۔ کبھی جمہوریت، کبھی ڈکٹیٹر شپ، شخصیات کے ساتھ ہی پالیسیاں بھی ختم، اچھا شخص صاحب اقتدار رہا تو بہتری ہوئی، اچھی پالیسیز بنیں، مگر جیسے ہی رخصت ہوا اس کے ساتھ ہی سب کچھ رول ہوگیا، اب نئی شکل اور نئی کہانی۔

یہ ہمارا نصیب کہ اچھا یا برا۔ یہی پاکستان کی بدقسمتی رہی جس رفتار سے ترقی ہونی چاہیے تھی وہ نہ ہوسکی۔ بہترین ذہن نہیں ملے تو مایوسی ہوئی اور اسی مایوسی نے اور منفیت کو جنم دیا، دوریاں بڑھتی گئیں اور کسی نے ان کو ختم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی، جس طرح کے آج کل کی جاری ہیں۔ اختلافات تو معاشرے کی بہتری کا سبب بنتے ہیں، اختلافات ہوتے ہیں، ڈبیٹ ہوتی ہے، اچھے اور برے پہلوؤں پر غور و فکر ہوتا ہے، 20,20 سال کے نتائج پر منحصر پالیسز بنائی جاتی ہے۔ اور پھر دلجمعی اور خلوص کے ساتھ کاررواں بنتا ہے اور چلتا ہے۔

منفی سوچیں، منفی رویوں کو ختم کیا جاتا ہے۔ اسباب ڈھونڈ کر ان کا علاج کیا جاتا ہے پھر اس طرح قدم بہ قدم زندگی بہتری کی ڈگر پر ڈالی جاتی ہے، ریاست اور حکمران کے کندھوں پر بھاری ذمے داری اور ان کو ادا کرکے تاریخ میں اپنا مقام بنانا، کتابوں میں نصاب بن جانا، ایسی مثال بن جانا کہ دنیا رشک سے دیکھے۔

ایک اور بھاری ذمے داری ہر عام آدمی کے کندھوں پر بھی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو چنیں ایسے لوگوں کو مسندوں پر بٹھائیں جو اس قابل اور لائق ہوں جو ان کے جذبات کو سمجھ سکیں جو ان کے شعور کو آگے لے کر چل سکیں۔ ریاست، حکمران، عوام ان میں سے کوئی بھی عوامل کمزور ہوگا تو نقصان سب کو اٹھانا پڑے گا کبھی ہلکا کبھی بھاری۔

میری قوم نے بھی بڑے بھاری بھاری نقصان اٹھائے ہیں مگر شاباش ہے ان جذبوں پر جو کبھی بھی منفی نہیں ہوتے جنھوں نے اجتماعی طور پر جدوجہد کی اور بیش بہا قربانیاں دیں۔

ہمیشہ تعلیم و تربیت کی کمی ہمیں محسوس ہوتی رہی ہے اور وقت کے ساتھ اس میں کمی کی بجائے اضافہ ہوا بدقسمتی یہ رہی کہ کسی نے سنجیدگی کے ساتھ اپنے مفادات کو پیچھے چھوڑ کر اجتماعی طور پر کوئی پلاننگ نہیں کی اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

کیونکہ تعلیم و تربیت کا وہ معیار جو ہونا چاہیے تھا نہیں ہوا اسی لیے آج تک فیصلہ کرنے میں تمام لوگ ہی تذبذب کا شکار ہیں۔ کبھی غلط اور کبھی صحیح فیصلے ہوتے ہیں۔

طرح طرح کے بھیس بدلے ہوئے لوگ بے وقوف بناتے رہیں اور لوگوں کے جذبات سے کھیلتے رہے۔ زندگی کو ’’بریکنگ نیوز‘‘ بنادیا گیا ہر پل سنسنی خیز خبروں کے ذریعے ایسے الجھایا کہ اب تمام لوگ ہی سنسنی خیز بن کر رہ گئے ہیں۔

سادگی کہیے یا بے وقوفی یا لاعلمی، چمکتا ہوا جال جب لوگوں کے اردگرد ہوتا ہے تو وہ پھنس ہی جاتے ہیں، اور نہ چاہتے ہوئے بھی وہ فیصلے کر جاتے ہیں جو بعد میں بہت تکلیف دہ بن جاتے ہیں سمجھیں اور سوچیں ضرور کہ آپ کی زندگی بہت اہم ہے اور ایک ہی بار ملتی ہے۔ وقت پر فیصلہ اور وہ بھی سوچ و سمجھ کر کریں، ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی، یہی اپنے بڑوں سے سنتے آئے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔