پراسرار بندے ؛ نظام الدین اورنگ آبادی

ڈاکٹر ابو اعجاز رستم  اتوار 11 نومبر 2012
اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ ہماری اولین ترجیح ہوں تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ ہماری اولین ترجیح ہوں تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ فوٹو : فائل

 اگر اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اور رسول کریم ﷺ ہماری اولین ترجیح ہوں تو سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

یہی کلمے کا تقاضہ ہے یہی وہ مصالحہ ہے جو اصلاح کرکے مسلمانوں کو ایک جسم کی مانند جوڑ دیتا ہے ۔ بھائی بھائی بنا دیتا ہے۔ اگر ہم ایمان بھی رکھتے ہیں تو اور عمل بھی نہیں کرتے تو سوچیے کہ ہمیں ثمرات کیا حاصل ہوں گے۔ ثمرات حاصل کرنے کے لیے تو عمل کی ضرورت ہے ۔ عمل کے بارے میں ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ ارکان دین ہی اعمال ہیں جب کہ یہ دنیا دارالعمل ہے اور ہر کام جو ہم انجام دیتے ہیں وہ عمل ہے۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آئے۔ اپنی مرضی سے جائیں گے نہیں۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہاں کس کی مرضی سے رہنا ہے ؟ جس کی مرضی سے یہاں آئے ہیں اسی کی مرضی سے یہاں رہنا ہے۔ اس کی مرضی سے یہاں رہنا خیر ہے اور اس کی مرضی کے خلاف رہنا شر ہے۔ خیر اور شر برابر نہیں ہوسکتے۔ انجام کار خیر کام یابی اور شر ناکامی ہے ۔

یہ خیر کلمے کا تقاضہ ہے اور ہر شر اس کی نفی ۔ خیر اور شر کی قدریں تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ۔ اس لیے پیدا کرنے والا وہی واحد و لاشریک ہے۔ لیکن شر کی قدریں پھیلتی شیطان کے ذریعے ہیں جیسے خیر کی قدریں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ذریعے پھیلیں۔ شیطان منکر و مردود ہے۔ اس لیے اس کی پیروی کرنے والے بھی منکر و مردود ہیں۔ چوں کہ اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے۔ اس لیے اس کی پیروی کرنے والے بھی دوزخی ہیں، جب کہ خیر کا انجام حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ ہے ۔ خیر انسانوں کو آپس میں جوڑتی ہے اور شر فتنہ و فساد کا موجب ہے۔

فتنہ و فساد ظاہر ہے۔ انسانوں کے مابین نفرتیں پیدا کرتا ہے اور توڑتا ہے۔ کیا آج ہم آپس میں جڑے ہوئے ہیں یا فتنہ و فساد میں مبتلا ہیں؟ کوئی بھی ذی شعور ہمیں آپس میں جڑا ہو نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ ہم کلمے کے اثرات و ثمرات سے یکسر محروم ہیں۔ شر کے اثرات ہم پر کاملاً مسلط ہیں۔ اگر تلخ نوائی معاف ہو تو سچ یہ ہے کہ ہم شر کے پیروکار ہیں۔ عقل کا تقاضہ یہ ہے ’’اگر مرض کی صحیح تشخیص ہوجائے اور علاج بھی معلوم ہو تو فوراً علاج کرلینا چاہیے‘‘ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ابھی تک ہمیں اپنی حالت زار کا احساس ہی نہیں ہے۔ ہم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے ہیں۔

کسی لمحے بھی آگ میں گر سکتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی اپنے وطن اور اپنے بھائیوں کی تباہی کے منصوبے بنا رہے ہیں، حالاں کہ ہم خود بھی محفوظ نہیں ہیں۔ یہ کبھی نہیں ہوا کہ دوسروں کو برباد کرنے والا خود محفوظ رہے۔ جلد یا بدیر اسے بھی تباہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم ہر حوالے سے ٹوٹ چکے ہیں۔ جب بھی تباہی و بربادی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو ذمہ داران یہ کہتے ہیں ’’اس میں خفیہ ہاتھ ملوث ہے‘‘ یہ ایک انتہائی غیر ذمہ دارانہ بات ہے ۔ کوئی خفیہ ہاتھ ملوث نہیں ہے بلکہ یہ شیطان کا کھلم کھلا ہاتھ ہے اور ہم خود اس کے آلۂ کار ہیں۔ یہاں گمراہی پھیلانے والے معتبر ہیں ۔

عامتہ الناس کو اس قابل بھی نہیں سمجھا جاتا کہ وہ کسی کی کارکردگی کا خود جائزہ لے کر کوئی فیصلہ کرلیں۔ بلکہ دوسروں کے بارے میں جو منہ میں آئے کہہ کر اپنے آپ کو معتبر ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جو ایک کھلا دھوکا ہے۔ اس کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اگر ہم اس بداخلاقی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کریں گے تو اسلام کے بارے میں دنیا کو کیا پیغام جائے گا؟ دنیا یہی کہے گی کہ یہ اسلام کے ثمرات ہیں ۔ حالاں کہ یہ اسلام سے دوری کا نتیجہ ہے ۔ اسلام میں ایسا نہیں ہوتا کہ قومی مجرم قوم کے سیاہ و سفید کے مالک بن جائیں اور ہر کسی کی پگڑی اچھالتے پھریں۔ گمراہی کی بدولت ہی انھیں یہ سب کچھ حاصل ہے۔

ہماری ترجیحات اور ہمارے مفادات مختلف ہیں۔ نہ ہماری سوچ قومی اور نہ ملکی مفاد ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ اپنے ذاتی مفاد کے لیے ہم انسانیت سے اس قدر گر جاتے ہیں کہ دیکھنے والے یہ سوچتے رہ جاتے ہیں،’’اس شخص کا ضمیر کہاں گیا‘‘ خوشامد ایمان کے بدلے مفاد حاصل کرنے کا نام ہے۔ اگر ہر شخص ایمان داری سے اپنا کردار نبھائے تو ملک و قوم کا فائدہ ہے۔ جو ایمان داری سے اپنا کردار نبھاتے ہیں وہ خوشامد نہیں کیا کرتے۔ اس لیے ضمیر کے بوجھ سے آزاد رہتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ مقتدر ہمیشہ ان سے ناراض رہتے ہیں۔ حالاں کہ وہ سیدھا راستہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

سیدھے راستے پر چلتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خوشامد سے نہیں پرُخلوص عمل سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ بہرحال اس وقت سب سے اہم اور سب سے نازک مسئلہ یہ ہے کہ صاحبان اقتدار کو کرسی کی لڑائی سے فرصت نہیں ۔ غریب کے گھر میں روٹی نہیں۔ اس لیے اس مسئلے کے حل کے لیے کچھ سوچنا ہوگا۔ اس کا حل یہی ہے کہ کسی من وسلویٰ کے انتظار میں نہ بیٹھیں، بلکہ اپنے اپنے حلقے میں غرباء مل کر بیت المال قائم کریں اور اس کے ذریعے یتامیٰ، بیوگان اور مساکین کی کفالت کریں۔ ایک دفعہ اس نظام کو چلالیں پھر اﷲ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔

اگر یہ طریقۂ اولیاء اپنانا نہیں ہے اور اپنے آپ کو لاتعلق رکھ کر صرف کہانیاں ہی پڑھنی ہیں تو پھر مسائل حل نہیں ہوں گے۔ قانون کو اپنے اوپر نافذ کرنے سے ثمرات حاصل ہوتے ہیں۔ بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ اپنے اوپر قانون کا نفاذ بہت مشکل کام ہے ۔ حالاں کہ اس سے آسان کام کوئی نہیں ہے۔ کلمہ ’’انا‘‘ کی نفی ہے اور دنیا میں سارے جھگڑے ’’انا‘‘ کے ہیں۔ ’’انا‘‘ ہی کا دوسرا نام ’’نفس‘‘ ہے جو ہر دروازے پر جھکا دیتا ہے یہ تذلیل انسانی ہے بقول اقبال
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

حضرت علامہ اقبال ؒ کا فلسفۂ خودی کلمہ یعنی توحید و رسالت ہے۔ آدمی بھی کچھ نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے تو ، توحید و رسالت کی وجہ سے ہے۔ خودی بلند پروازی اور بے نیازی ہے۔ بلند پروازی اور بے نیازی بجز توحید و رسالت ممکن نہیں ۔ زیرِ دام وہی آتا ہے جس کی نظر زمین پر ہو۔ جو آسمان کی وسعتوں پہ نگاہ رکھتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی دام نہیں۔ جال میں پھنسنے کا سبب لالچ ہوتا ہے اور خودی لالچ سے پاک ہوتی ہے۔ نبی کریمﷺ کی اتباع کے ذریعے اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سے جڑنا اور اﷲ تعالیٰ کے لیے مخلوق سے جڑنا خودی ہے۔

کسی غرض کے لیے غیر اﷲ سے جڑنا شرک ہے۔ ہر توقع ا ﷲ تعالیٰ سے وابستہ رکھنا اور اس کی رضا کے لیے اس کی مخلوق سے پیار کرنا خودی ہے۔ مختصر یہ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے نیاز مندی اور مخلوق سے بے نیازی کا نام خودی ہے۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ فرماتے ہیں؎

خودی کی جلوتوں میں مصطفائیؐ
خودی کی خلوتوں میں کبریائی
زمین و آسمان و کرسی و عرش
خودی کی زد میں ہے ساری خدائی

فقر خودی کا نمونہ ہوتا ہے۔ خودی کے بغیر کوئی درویش نہیں ہوسکتا۔ استغناء اور بے نیازی ایسی صفات ہیں جنھیں یہ حاصل ہوں۔ خلق خدا ان کے دروازے پر جمع ہوجاتی ہے۔ یہی ان کا فیض ہوتا ہے۔ باقی دنیا ہر رنگ کی ہے۔
حضرت شاہ نظام الدین اورنگ آبادی 1060ھ میں قصبہ نگراؤں (کاکوری) میں پیدا ہوئے ۔آپ کے بزرگ باہر سے آکر یہاں آباد ہوئے تھے۔ آپ کی نسبی نسبت حضرت شہاب الدین سہروردیؒ کے واسطے سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ تک پہنچتی ہے ۔ حضرت فخر الدین فخر جہاں نے سلسلۂ حدیث میں اپنے آپ کو صدیقی لکھا ہے۔

والدین نے آپ کا نام نظام الدین رکھا۔ آپ کا گھرانا علمی و روحانی گھرانا تھا۔ اس لیے آپ کی تعلیم و تربیت اپنے وطن ہی میں ہوئی۔ اس کے بعد دہلی کے اہل کمال کی شہرت سن کر باقی تعلیم کے لیے آپ دہلی پہنچے۔ دہلی اس وقت بھی برصغیر پاک و ہند کا پایۂ تخت تھا۔ بلکہ اس وقت برصغیر پاکستان ہی تھا۔ اس لیے کہ اس وقت کلکتہ تک مسلمانوں کی حکومت تھی۔ پھر نالائق وارث آئے۔ سب کچھ چھن گیا۔ شاعری رومانویت کے بغیر نہیں ہوتی اور خیر سے ہمارے آخری مغل تاجدار شاعری فرمایا کرتے تھے۔ بھاگ کر رنگون پہنچے اور وہیں قتل کر دیے گئے ۔

اس کے بعد انگریز مکمل طور پر پاک و ہند پر قبضہ کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ اسی کو تاریخ کہتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو دہراتی رہتی ہے۔ یہ باہمت لوگوں کو اپنے سینے میں جگہ دیتی ہے۔ ضمیر فروشوں کو قابل نفرت بنا کر پیش کرتی ہے۔ یہ تو جملہ معترضہ ایسے ہی درمیان میں آٹپکا۔ حضرت شاہ نظام الدین حصول علم کے لیے دہلی پہنچے تو آپ نے حضرت شاہ جہاں آبادی کا بڑا شہرہ سنا۔ آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی کی خدمت میں حاضر ہو کر فیض حاصل کریں۔ ایک دن آپ حضرت کی خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ دروازہ پر دستک دی۔ اس وقت محفل سماع گرم تھی۔ دروازہ بند تھا۔ حضرت کا یہ دستور تھا کہ کسی اجنبی کو محفل سماع میں شرکت کی اجازت نہیں دیا کرتے تھے۔

دستک کی آواز سن کر حضرت نے ایک شخص کو حکم دیا، ’’دروازے پر کون ہے معلوم کرو۔‘‘ وہ شخص دروازے پر گیا اور آپ کے بارے میں تمام معلومات لے کر حضرت کی خدمت میں عرض کردیں۔ حضرت نے فرمایا کہ انھیں اندر لے آئیں۔ حاضرین کو بڑی حیرت ہوئی، انھوں نے عرض کیا۔ حضور یہ تو آپ کا طریقہ ہی نہیں ہے کہ کسی اجنبی کو محفل سماع میں آنے کی اجازت دیں۔ آپ نے فرمایا،’’وہ اجنبی نہیں ہے بلکہ آشنائے راز ہے۔‘‘ آپ جب حضرت شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آداب بجا لائے۔ حضرت شیخ نے آپ کے سلام کا جواب دیا۔ اور آمد کا سبب پوچھا، آپ نے کہا حصول علم کی خواہش آپ کے قدموں میں لائی ہے۔ حضرت شیخ نے آپ کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے آپ کی درخواست قبول فرمائی اور آپ کو خانقاہ میں رہنے کی اجازت دے دی۔ حصول علم کے ساتھ ساتھ آپ طالبان حق کے قلبی واردات کا بھی بغور مشاہدہ کرتے رہتے۔

بعض واقعات کو دیکھ کر آپ کو بڑی حیرت ہوتی۔ ایک دن حضرت یحیٰی مدنی کا ایک مرید مدینہ منورہ سے آیا۔ حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی کی خدمت میں حاضر ہوا تو شیخ کو دیکھتے ہی اس پر وجد طاری ہوگیا اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ آپ کو بڑی حیرت ہوئی کہ ایک شخص مدینہ منورہ سے آیا ہے ۔ وہاں کے انوار و تجلیات کے مقابلے میں شیخ کی کیا حیثیت ہے یہ شخص کیسے اس کیفیت میں مبتلا ہوا؟ آپ نے حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی سے اس کا سبب دریافت کیا۔ تو حضرت شیخ نے جواب دیا۔ یہ شخص مدینہ منورہ سے آیا ہے۔

مدینہ منورہ مرکز تجلیات ہے جس کسی کو جتنا حصہ ملا ہے اسی مرکز پاک سے ملا ہے۔ اس نے اتنا دیکھا جتنا یحیٰی مدنی نے اسے دکھایا۔ بے شک کوئی مرکز تجلیات میں رہے، مگر دیکھتا اپنے ظرف کے مطابق ہے۔ لہٰذا جب میرے روبرو آیا اور مجھے ناکارہ پر اﷲ تعالیٰ کی جو رحمت دیکھی تو متحمل نہ ہوسکا۔ اور اس کیفیت میں مبتلا ہوگیا ۔ اسی بات کو یوں بھی سمجھ سکتے ہو کہ ذات کبریاء ہر جگہ موجود ہے۔ مگر ہر کوئی دیکھ نہیں سکتا اور جو کوئی دیکھتا بھی ہے اپنے ظرف کے مطابق دیکھتا ہے جو کچھ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہ طور پر دیکھا، اس کا شاید کروڑواں حصہ بھی کوئی دیکھتا ہو۔ اسی کو دیدار ربّی سمجھا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ نور الٰہی کی ایک کرن بھی نہیں ہوتی۔ اتنا دیدار بھی کسی خوش نصیب کے حصے میں آتا ہے۔ ایسا شخص پھر دنیا کے کسی کام کا کا نہیں رہتا۔

وہ بار بار وہی منظر دیکھنا چاہتا ہے اور کچھ نگاہوں میں نہیں جچتا۔ دوران تعلیم ایسے ہی حالات و واقعات دیکھتے ہوئے علوم باطنی کی طرف راغب ہوگئے آپ کے افکار و خیالات میں تبدیلی آئی۔ یہ شوق جب حد سے بڑھا تو اپنے استاد محترم حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی سے ذکر کیا۔ جب حضرت شیخ مکان پر جانے لگے تو آپ نے حضرت شیخ کے جوتے اٹھا کر پہنائے۔ آپ کے اس عمل سے خوش ہو کر حضرت شیخ نے فرمایا،’’توجہ بکسب علوم باطنی اولیٰ و احسن است‘‘ یعنی علوم باطنی حاصل کرنے میں توجہ دینا اعلیٰ اور بہتر ہے۔ آپ نے حضرت شیخ کی خدمت میں بصدعجز و احترام عرض کیا؎

سپردم بتگو مایۂ خویش را
تودانی حسابم کم و بیش را

ترجمہ: ’’میں نے اپنا سرمایۂ حیات آپ کے سپرد کر دیا ہے۔ اب میرے حساب کی کمی بیشی کو آپ جانتے ہیں۔‘‘
حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہان آبادی نے یہ شعر سنا تو آپ کو اپنے دستِ حق پرست پر بیعت کر لیا۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ جب حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی مدینہ منورہ میں اپنے پیرو مرشد حضرت یحییٰ مدنی ؒ سے بیعت و خلافت و اجازت سے سرفراز ہو کر مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے تو حضرت یحییٰ مدنی سے حضرت شیخ سے فرمایا تھا کہ اس شکل و صورت کا ایک شخص آپ کی خدمت میں آئے گا اور عین دعوت الیٰ اﷲ کے وقت مندرجہ بالا شعر پڑھے گا اور وہ ہماری نسبت کا مالک ہے۔

آپ کی حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہاں آبادی ؒ سے بیعت کی تفصیل اس طرح بھی بیان کی جاتی ہے کہ ایک روز آپ قطب حضرت شیخ شاہ جہاں آبادی کی خدمت میں حاضر تھے اور اصول پر ایک کتاب پڑھ رہے تھے۔ ایک شخص جو حضرت یحیٰی مدنی کے مریدوں میں سے تھا۔ حضرت شیخ یحییٰ مدنی کے وصال کے بعد مدینہ منورہ سے آیا اور حضرت شیخ کلیم اﷲ شاہ جہان آبادی کو دیکھتے ہی وہ شخص بے ہوش ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد اس شخص کو ہوش آیا ۔ آپ حیران تھے کہ یہ کیا ہوا آپ نے حضرت شیخ سے اس کے متعلق استفسار کیا۔ حضرت شیخ نے فرمایا،’’یہ بھی ایک علم ہے اور یہ علم تم کو بھی تعلیم کیا جائے گا۔‘‘ یوں آپ نے حضرت شیخ کے ہاتھ پر بیعت کی اور پورے خلوص سے اس علم کے حصول میں مصروف ہوگئے۔ حضرت شیخ نے تکمیل علم پر آپ کو خرقہ خلافت سے نوازا۔

تکمیل علم اور حصول خلافت کے بعد آپ کچھ عرصہ مرشد کی خدمت میں رہ کر ریاضت و مجاہدے میں مشغول رہے۔ پھر مرشد نے دیکھا کہ آپ درجہ کمال کو پہنچ گئے تو دکن کی ولایت آپ کو سپرد کی اور ہدایت فرمائی کہ اورنگ آباد میں جا کر مستقل سکونت اختیار کریں۔ مرشد کے حکم کے مطابق آپ اور اورنگ آباد چلے آئے۔ وہاں ذکر و فکر مراقبہ میں مشغول ہوگئے اور زندگی بھر وہیں رہ کر مخلوق خدا کی خدمت اور رشد و ہدایت کا کرتے رہے۔ یہی مرشد کا حکم تھا اور یہی کاردرویشی۔ آپ نے اس کام کو اپنے مقام و مرتبے کے مطابق بحسن و خوبی نبھایا اور مرشد کا نام روشن کیا۔

اورنگ آباد میں قیام کے دوران ہی آپ نے شادی کی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ کا تعلق حضرت سید بندہ نواز گیسو دراز کے خاندان سے تھا۔ آپ کی اولاد میں پانچ لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ آپ کے صاحب زادوں کے نام یہ ہیں 1 ۔ محمد اسمعٰیل۔ 2 غلام معین الدین۔3 غلام بہاء الدین۔4غلام کلیم اﷲ۔ 5 حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں۔ یہ پانچوں ہی اہل اﷲ میں سے تھے، مگر اس حوالے سے فخر الدین فخر جہاں نے شہرت پائی۔

آپ نے بیاسی سال کی عمر میں 12 ذیقعد 1242ہجری کو عشاء کی نماز کے بعد جوار رحمت میں جگہ پائی۔ آپ کا مزار اورنگ آباد میں زیارت گاہ خاص و عام ہے آپ کے ایک لاکھ سے زیادہ مرید تھے۔ آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں آپ کے اولین سجادہ نشین بالاتفاق مقرر کئے گئے۔

آپ کے خلفاء میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں جنھوں نے کافی شہرت پائی۔
حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں، خواجہ مگار خان، سید شاہ شریف، شاہ عشق اﷲ، شاہ محمد علی خواجہ نور الدین، غلام قادر خان، محمد یار بیگ، محمد جعفر ، شیر محمد، کرم علی شاہ۔
قارئین کرام! کسی بھی بزرگ کے خلفاء اس کے جلائے ہوئے ایسے چراغ ہوتے ہیں، جو جہالت کی تاریکیاں کرکے ماحول کو منور کرتے ہیں۔

آپ جامع علوم ظاہری و باطنی تھے ۔ سنت رسول ﷺ کے سخت پابند تھے۔ ریاضت مجاہدہ اور مراقبہ میں زیادہ وقت گزارتے تھے۔ جب آپ استغراق میں ہوتے تو کسی بھی بے شغل آدمی کو نہیں پہنچانتے تھے خواہ وہ آپ کا مرید ہی کیوں نہ ہو۔ ہر کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے اور ہر کسی کی کھڑے ہو کر تعظیم کرتے تھے آپ کا لباس سادہ اور صاف ستھرا ہوتا تھا قیمتی لباس کا کوئی شوق نہ تھا اکثر لباس پیوند لگے ہوتے تھے ۔ خوراک بہت کم اور سادا ہوا کرتی تھی، جہاں تک ممکن ہوتا ہر حاجت مند کی حاجت روائی کی کوشش کرتے، کیوں کہ یہ درویشی کی بنیاد ہے۔ رخصت ہوتے وقت ہر کسی کو کچھ نہ کچھ ضرور دیتے۔ جمعہ کے علاوہ جو نذرانہ آتاوہ آپ محتاجوں کو دے دیتے تھے۔ آپ کو تحریر و تصنیف کا بھی بہت شوق تھا۔ آپ نے کئی کتابیں تصنیف کیں، جن میں نظام القلوب، مشہور ہوئی آپ کے ایک نگینے پر یہ عبارت کندہ تھی ’’ذکر مولی از ہمہ اولیٰ‘‘ دوسرے پر فارسی زبان میں یہ شعر درج تھا۔

در رعایت دلہا بکوش
نظامِ دیں بدنیا مفروش

آپ کی کتاب ’’نظام القلوب‘‘ اذکار و اشغال کے متعلق ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ذکر جہر کسی وقت بھی منع نہیں ہے۔ بلکہ ہر وقت مامور و ماجور ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اے عزیز! کمال عشق چاہیے تاکہ اس مقام پر پہنچے، کیوں کہ یہ مقام عاشقوں کو بغیر کمال عشق ہر گز نہ حاصل ہوگا۔ جو فائدہ میں نے ذکر جہر میں پایا، کسی چیز میں نہیں دیکھا۔ ذکر پاس انفاس سے کسی وقت بھی غافل نہ رہنا چاہیے تاکہ دل میں غیر کا شائبہ تک نہ گزرے۔

ایک روز آپ کی خانقاہ میں عرس ہو رہا تھا۔ قوال عربی کے اشعار پڑھ رہے تھے۔ اتنے میں ایک اجنبی شخص آیا اور آکر پاس بیٹھ گیا۔ اس نے ایک شعر پر بحث مباحثہ شروع کر دیا۔ دو ایک جواب دے کر آپ نے اس شخص سے فرمایا کہ یہ وقت کا بحث کا نہیں ہے، سماع سننے کا ہے۔ جب آپ نے اس سے نام دریافت فرمایا تو اس نے اپنا نام عبدالغنی بتایا یہ سن کر آپ نے فرمایا،’’فقیروں سے جھوٹ بولنا اچھی بات نہیں ‘‘ دوبارہ اس نے اپنا نام عبداﷲ بتایا، تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ شخص چلا گیا کچھ دنوں کے بعد وہ پھر آیا۔ آپ نے اس سے فرمایا،’’پچھلی مرتبہ جب وہ آیا تھا، تو سماع ہو رہا تھا اس وجہ سے اس کی تسلی و تشفی نہ ہوسکی۔

اب جو کچھ تمھارے شکوک و شبہات ہیں بیان کرو‘‘ اس نے کہا کہ تشفی تو اسی دن ہوگئی تھی اب تو معافی مانگنے آیا ہوں۔ آپ نے فرمایا ’’ نہ تم عبدالغنی ہو نہ عبداﷲ بلکہ تمھارا اصل نام یہ ہے۔ اس جگہ کے رہنے والے ہو یہ تعلیم ہے ، یہ سن کر وہ شخص آپ کا معتقد ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔