صحت

حسان خالد  اتوار 11 نومبر 2012
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

ذیابیطس کے مریضوں کے لئے لوبیا مفید ہے

کینیڈین ریسرچرز کے مطابق ایسے لوگ جو کہ ذیابیطس کا شکار ہیں‘ اگر وہ اپنی روزمرہ خوراک میں لوبیا اور دوسری ترکاریاں شامل کر دیں تو ان کے خون میں شوگر لیول اور بلڈ پریشر میں بہتری دیکھنے میں آئے گی۔
مسور کی دال اور لوبیا میں پروٹین اور فائبر (ریشہ) زیادہ مقدار میں ہوتا ہے‘ جس سے دل کی صحت میں بہتری آ سکتی ہے۔ کیونکہ ایسی خوراک کا گلیسیمک انڈکس (خوراک میں شوگر کی مقدار کا پیمانہ) کم ہوتا ہے۔ اس وجہ سے اس کے ذریعے ذیابیطس کو کنٹرول کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

ڈاکٹر ڈیوڈ جو کہ یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں غذائیات کے محقق ہیں‘ کا کہنا ہے کہ ’’ترکاریوں کو ہمیشہ سے دل کی صحت کے لئے مفید خیال کیا جاتا ہے‘ جو کہ دل کے لئے مفید ہیں بھی۔ بعض اوقات ان سے ایسے ایسے فوائد ملتے ہیں‘ جن کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ لوبیا کے استعمال سے نہ صرف ذیابیطس کے مریضوں کا گلوکوز لیول کنٹرول ہو گا‘ بلکہ اس نے بلڈ پریشر پر بھی مثبت اثرات مرتب کئے۔ ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ اس نے شوگر اور بلڈ پریشر پر کیونکر اثرات مرتب کئے؟ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ ان ترکاریوں میں موجود پروٹین‘ فائبر اور منرلز ہوں‘‘۔

ڈاکٹر ڈیوڈ نے مزید کہا کہ ’’اپنی روزمرہ کی غذا میں ترکاریوں کا زیادہ استعمال، صحت کے لئے مفید ثابت ہو گا۔ اس سے بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد ملے گی اور گلوکوز بھی کنٹرول میں رہے گا‘‘۔
اس تحقیق کے لئے ذیابیطس میں مبتلا 121 مریضوں کا انتخاب کیا گیا‘ جنہیں ہدایت کی گئی کہ وہ دن بھر میں ایک کپ ترکاریوں کا استعمال کریں یا صرف گندم سے بنی ہوئی چیزیں کھائیں۔

تین ماہ تک ریسرچرز نے مشاہدہ کیا کہ وہ لوگ جو کہ ترکاریاں کھا رہے تھے، ان کے بلڈ شوگر میں 0.5 درجے بہتری آئی۔ جبکہ جو گندم کی بنی ہوئی چیزیں کھا رہے تھے، ان میں 0.3 درجے بہتری آئی۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو ترکاریاں کھا رہے تھے، ان کا بلڈ پریشر 4.5 درجہ کم ہوا۔ جبکہ دوسرے لوگوں کا صرف 2.1 درجہ تک کم ہو سکا۔ محققوں کا کہنا ہے کہ ’’ترکاریاں کھانے کی وجہ سے فشار خون اور بلڈ شوگر میں آنے والی اس بہتری سے ذیابیطس کے کنٹرول اور دل کی بیماریوں کا خطرہ کم کرنے میں مدد ملے گی‘‘۔

ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس تحقیق کے مطابق صرف گندم کی بنی ہوئی چیزیں کھانے والوں کے بلڈ پریشر اور شوگر لیول میں بھی بہتری دیکھنے میں آئی۔ اس لئے ذیابیطس کے مریضوں کے لئے زیادہ اہم یہ نہیں ہے کہ وہ کیا کھاتے ہیں‘ بلکہ ان کے لئے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ کتنا کھاتے ہیں؟

برطانیہ میں پہلی روبوٹ اوپن ہارٹ سرجری
ہمارے ہاں بڑی عمر کے لوگوں کا کام کرنا اچھا نہیں سمجھ جاتا‘ جس کی وجہ سے ان کی جسمانی مشقت (Pysical activity) ختم ہو جاتی ہے اور انہیں مختلف بیماریاں اپنے نرغے میں لے لیتی ہیں۔ ایڈن رگ یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ 60‘70 کے پیٹے کے لوگوں میں ورزش کے نتیجے میں دماغ کے سکڑنے یا ڈیمنشیا (آہستہ آہستہ یاداشت کھو دینا) کا شکار ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

دوران تحقیق 638 ایسے لوگوں کے دماغوں کی سکیننگ کی گئی جو کہ ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے تھے۔ ایسے لوگ جو جسمانی طور پر زیادہ متحرک تھے‘ گزشتہ تین سال کے عرصہ میں ان کا دماغ کم سکڑا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ورزش سے مراد کوئی سخت قسم کی ورزش نہیں‘ ہفتے میں کئی بار واک پر جانا بھی کافی ہے۔

لیکن کوئی مشکل معمہ سلجھانے میں کی گئی دماغی سرگرمی کا اتنا اثر نہیں ہوتا، جتنا جسمانی ورزش کا ہوتا ہے۔ اس لئے مختلف دماغی سرگرمیوں مثلاً کتاب پڑھنا‘ یا دوسری سماجی مصروفیات مثلاً دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا وغیرہ کا اتنا خاطر خواہ اثر صحت پر نہیں ہوتا‘ جتنا جسمانی مشقت کا ہوتا ہے۔ جب ماہرین نے دماغ کے سفید مادے کا معائنہ کیا‘ جس کے ذریعے دماغ پیغام رسانی کرتا ہے‘ تو انہیں معلوم ہوا کہ 70 سال سے زائد عمر والے وہ لوگ جو ورزش کرتے ہیں‘ ان کے دماغ کا یہ حصہ دوسروں کی نسبت کم متاثر تھا۔ اس کے علاوہ ان کے دماغ میں Grey مادہ بھی نسبتاً زیادہ تھا‘ یہ دماغ کا وہ حصہ ہوتا ہے جہاں سے پیغام شروع ہوتا ہے۔

ماہرین پہلے سے ہی اس بات سے واقف ہیں کہ جیسے جیسے ہماری عمر بڑھتی جاتی ہے، ویسے ویسے ہمارا دماغ سکڑتا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یاداشت اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ گزشتہ سٹڈی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ورزش کے نتیجے میں یاداشت ختم ہونے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ ورزش کے نتیجے میں خون کا بہاؤ دماغ تک ہوتا رہتا ہے‘ جس سے دماغ کے خلیوں کو آکسیجن اور نیوٹرپنٹس ملتے رہتے ہیں۔

ڈاکٹر سیمن ریڈلی کا کہنا ہے ’’اس سٹڈی میں ورزش کا تعلق اس سے جوڑا گیا ہے کہ یہ آپ کے دماغ کے بوڑھے ہونے کے آثار کو کم کر دیتا ہے‘ جس سے آپ کی ذہنی صحت ٹھیک رہتی ہے۔ موجودہ تحقیق کی روشنی میں اگرچہ ہم ابھی دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ایسے لوگوں کی دماغی صحت محض ورزش کی وجہ سے ہی بہتر حالت میں ہے، لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ درمیانی عمر میں ورزش کرنے سے‘ آخری عمر میں یاداشت کے کھو جانے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے‘‘۔

معمر لوگ ورزش کر کے دماغ کو سکڑنے سے بچا سکتے ہیں
برطانیہ کے نیو کراس ہاسپٹل میں سرجن پہلی بار روبوٹ کی مدد سے اوپن ہارٹ آپریشن کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سرجن ہائی ڈفینشین کیمرہ کی مدد سے دل کا مشاہدہ کر رہے تھے اور آپریشن کے دوران دور بیٹھ کر ڈاونسی (Da Vinci) نامی روبوٹ کو کنٹرول کر رہے تھے۔

22 سالہ نئیلی جونز پہلی مریض تھی، جو دل میں موجود سوراخ کے علاج کے لئے اس آپریشن سے گزری۔ ڈاکٹروں کا دعویٰ ہے کہ یہ آپریشن دل کے روایتی آپریشن سے زیادہ محفوظ ہے۔
نارمل دل کی سرجری کے طریقہ کار کے برعکس اس میں پسلیوں میں کٹ لگا کر روبوٹ کے ہاتھ اندر داخل کئے جاتے ہیں۔ ایک سرجن ہائی ڈفینیشن کیمرے پر دل کا معائنہ کر رہا ہوتا ہے اور کنٹرول پینل کو استعمال کر کے روبوٹ کے ہاتھوں کو حرکت دے سکتا ہے۔ ہر بار جب ڈاکٹر اپنا ہاتھ 3ملی میٹر تک حرکت میں لاتے ہیں۔ روبوٹ کا ہاتھ اس پر صرف ایک ملی میٹر حرکت کرتا ہے۔

ہارٹ سرجن سٹیفن بلنگ کا کہنا ہے ’’اس آپریشن میں مریض کو کم درد ہوتا ہے اور وہ عام آپریشن کی نسبت جلد اس قابل ہو جاتا ہے کہ جلد صحت یاب ہو کر گھر جا سکے اور اپنے معمول کی سرگرمیوں کا آغاز کر سکے‘‘۔
جونز کے دل میں 3.5 سینٹی میٹر کا سوراخ تھا‘ یہ سرجری نو گھنٹوں تک جاری رہی۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ جلدی علاج چاہتی تھی تاکہ وہ جلد از جلد واپس جا کر اپنے دو سالہ بیٹے کا خیال رکھ سکے۔ اس کا کہنا ہے۔ ’’اگرچہ میں خوفزدہ تھی‘ لیکن میں نے روبوٹ سرجری کا انتخاب کیا‘ کیونکہ میں اپنے جسم پر بڑا زخم نہیں چاہتی تھی اور مجھے اس بات کی بھی خوشی تھی کہ اس طریقہ کار سے سب سے پہلے میرا علاج ہو گا‘‘۔

روبوٹ کی مدد سے ایک نسبتاً زیادہ پیچیدہ آپریشن (جس میں والو ٹھیک کرنا تھا) 43 سالہ پال پر کیا گیا۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس آپریشن کے بعد پال دو ماہ میں اپنے کام پر واپس جانے کے قابل ہو سکے گا، جبکہ روایتی طریقہ علاج کی صورت میں صحت یاب ہونے کے لئے چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔

ہسپتال کی انتظامیہ کو امید ہے کہ ہسپتال میں ہر سال روبوٹ کی مدد سے ایسے 30 آپریشن ہوا کریں گے۔ سویڈن اور فن لینڈ کے بعد برطانیہ یورپ کا تیسرا ملک ہے جہاں روبوٹ کی مدد سے اوپن ہارٹ سرجری ہونے لگی ہے۔ برطانیہ میں اس سے پہلے آپریشن سے قبل‘ سرجنز کو فن لینڈ میں آپریشن کی مکمل تربیت دی گئی۔

تاہم ڈاکٹروں کو اتفاق ہے کہ مہنگا طریقہ علاج ہونے کی وجہ سے روبوٹ کو کم ہی استعمال کیا جا سکے گا۔ روبوٹ کے چاروں ہاتھوں پر جو ضروری سامان اور اوزار ہوتے ہیں‘ ان میں سے ہر ایک کی مالیت 2000 پاؤنڈ ہے اور ان ہاتھوں کو دس آپریشنوں کے بعد بدلنا ہوتا ہے۔

اضافی نیند سے بچوں کے رویے اور کارکردگی میں بہتری آ سکتی ہے
ایک نئی تحقیق کے مطابق بچوں کی نیند کے دورانیے میں تھوڑا سا اضافہ کرنے سے ان کے رویے میں بہتری آ سکتی ہے‘ اور اس سے سکول میں ان کی بے ’سکونی‘ کی کیفیت کم ہو سکتی ہے۔ دوسری طرف‘ بچوں کی نیند کے دورانیے میں کمی آنے سے ان کی بے چینی اور فرسٹریشن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے’’لوگ اس پر مختلف پہلوئوں سے غور کر سکتے ہیں۔ اس تحقیق کی روشنی میں ہم یہ بتا رہے ہیں کہ بچوں کی نیند میں کمی بیشی سے ان کا رویہ اور پڑھائی دونوں متاثر ہو سکتی ہیں‘‘۔

گو کہ نیند اور انسانی رویے کے باہمی تعلق سے متعلق یہ پہلی تحقیق نہیں ہے‘ اس سے پہلے بھی اس پر کئی تحقیقات ہو چکی ہیں۔ اس تحقیق کے لئے 7 سے 11 سال کی عمر کے درمیان 33 بچوں کا انتخاب کیا گیا اور دو ہفتوں تک ان کے معمول پر نظر رکھی گئی۔ پہلے ہفتے کے دوران ریسرچرز نے صرف اس بات کو مانیٹر کیا کہ بچے کتنی دیر سوتے ہیں۔ بچوں کی نیند کا اوسط دورانیہ تقریباً 93 گھنٹے نکلا‘ جو کہ امریکہ کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ کے تجویز کردہ دس گھنٹوں سے کم ہے۔

دوسرے ہفتے کے لئے بچوں کو دو گروپوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ایک گروپ کے بچوں کے والدین کو کہا گیا کہ وہ اپنے بچوں کی معمول کی نیند کے دورانیے میں ایک گھنٹے کا اضافہ کریں‘ جبکہ دوسرے گروپ کے بچوں کی معمول کی نیند میں ایک گھنٹہ کم کرنے کی ہدایت کی گئی۔آدھے بچوں کی نیند کے دورانیے میں ہدایت کے مطابق ایک گھنٹے کی کمی لائی گئی‘ جبکہ دوسرے گروپ کے بچوں کی نیند کے دورانیے میں صرف نصف گھنٹے کا اضافہ کیا جا سکا۔ تاہم‘ اس کے باوجود اساتذہ نے زیادہ نیند لینے والے بچوں کے رویے میں بہتری کے آثار معلوم کر لئے۔

پہلے ہفتے کے اختتام پر اساتذہ نے ریسرچرز کو بچوں کے رویوں‘ جذبات اور مزاج کے متعلق سوالات کے جوابات دیئے۔ انہوں نے صفر سے 100 تک کے پیمانے پر اپنے جوابات دیئے‘ جس میں زیادہ گنتی کا مطلب رویوں کا شدید ہونا تھا۔ اور اس پیمانے میں60 سے زیادہ نمبروں کا مطلب یہ تھا کہ بچہ اپنے رویے کے سلسلے میں مسئلے کا شکار ہے۔ نیند کی کمی بیشی سے قبل دونوں گروپوں کے بچوں کا اوسط سکور 50 تھا۔اساتذہ کو اس سے لا علم رکھا گیا تھا کہ کون سا بچہ کس گروپ میں شامل ہے۔

دوسرے ہفتے کے اختتام پر اساتذہ نے سوالات کے جو جوابات دیئے‘ اس کے مطابق نصف گھنٹہ زیادہ نیند لینے والوں کا اوسط سکور 47‘ جبکہ ایک گھنٹا کم سونے والے بچوں کا اوسط سکور 54 ہو گیا تھا‘ جو کہ اس بات کی علامت تھی کہ ایسے بچوں کے رویے بگڑ گئے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے اگرچہ نیند کے اس فرق سے بچوں کے رویے میں بہت زیادہ فرق دیکھنے میں نہیں آیا‘ لیکن پھر بھی یہ اتنا نمایاں ضرور تھا کہ اساتذہ نے نیند کے اس فرق سے پیدا ہونے والے اثرات کا نوٹس لے لیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’ہو سکتا ہے کہ یہ بات والدین کے لئے مشکل ہو کہ وہ بچوں کی نیند کے دورانیے میں اضافہ کر سکیں‘ لیکن وہ اتنا تو کر سکتے ہیں کہ جو چیزیں بچوں کو جلدی سونے سے باز رکھتی ہیں۔ مثلاً ٹی وی‘ ویڈیو گیمز یا رات گئے تک کھیلتے رہنا، ان چیزوں سے اپنے بچوں کو منع کریں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔