بچھوؤں سے ناخنوں کی آرائش۔۔۔!

ندیم سبحان  منگل 15 مارچ 2016
انوکھا رجحان تیزی سے مقبول ہورہا ہے  ۔  فوٹو : فائل

انوکھا رجحان تیزی سے مقبول ہورہا ہے ۔ فوٹو : فائل

کاکروچ اور چھپکلی جیسے عام گھریلو حشرات سے سامنا ہوتے ہی خواتین پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھتی ہوں۔ کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کاکروچ اور چھپکلی کو دیکھ کر خوف زدہ ہوجانے والی خواتین بچھوؤں کو آرائش حسن کے لیے استعمال کررہی ہوں؟ بچھو جیشی دہشت ناک مخلوق کو آرائش حُسن کے لیے استعمال کرنے کا انوکھا رجحان لاطینی امریکا میں تیزی سے مقبول ہورہا ہے جہاں خواتین اپنے ناخنوں کو نیل پالش کے بجائے زہریلے بچھوؤں سے سجا رہی ہیں!

فیشن کے نام پر میکسیکو کے شہر دورانگو سٹی میں جنم لینے والا یہ عجیب وغریب رجحان لاطینی امریکا کے کئی ممالک میں پھیل چکا ہے۔ اس کی ابتدا کا سہرا لوپیتا گارشیا کے سر ہے۔ لوپیتا آرائشی دستکاریوں میں بچھوؤں کا استعمال کرنے کے لیے شہرت رکھتی ہے۔ ایک روز وہ دورانگو کے معروف ’ نیل پارلر‘ میں بیٹھی تھی جب اس نے پارلر کی مالکہ روسیو وڈالیز کو بچھوؤں سے ناخنوں کی آرائش کا انداز متعارف کروانے کی تجویز دی۔

روسیو کو یہ تجویز پسند آئی اور اس نے لوپیتا ہی کو اپنے پارلر میں یہ سروس فراہم کرنے کی پیش کش کی جسے لوپیتا خوش دلی سے قبول کرلیا۔ یہ پچھلے ستمبر کی بات ہے۔ محض چھے ماہ کے دوران ہاتھوں اور ناخنوں کی آرائش کے اس عجیب وغریب انداز کا چرچا میکسکو کی حدود سے باہر نکل کر لاطینی امریکا میں پھیل گیا ہے۔ مختلف ممالک سے سرپھری متمول خواتین اپنے ناخنوں پر بچھو ’ بٹھانے‘ کے لیے لوپیتا اور روسیو کے پاس پہنچ رہی ہیں۔

روسیو کا کہنا ہے ناخنوں پر سجانے کے لیے چھوٹے بچھوؤں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کی عمر ایک ہفتے تک ہوتی ہے۔ ان ننھے بچھوؤں کو حشرات کُش زہر کا اسپرے کرکے ہلاک کیا جاتا ہے اور پھر دُھلائی اور دوسرے کئی مراحل سے گزارنے کے بعد مائع ایکریلک میں ڈبو کر ناخن پر چپکا دیا جاتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے ڈنک علیٰحدہ نہیں کیا جاتا کیوں کہ ایسا کرنے سے بچھو کا ’ حُسن‘ گہنا جاتا ہے۔ ہلاک ہوجانے کے بعد بھی بچھوؤں میں زہر اسی طرح موجود ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ روسیو اور لوپیتا انھیں چُھونے سے گریز کرتی ہیں۔ ناخنوں کی آرائش کے لیے لوپیتا اور اس کی ساتھی  Centruroides Suffusus نسل سے تعلق رکھنے والے بچھوؤں کا استعمال کرتی ہیں جو زرد اور سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں اور ناخن پر چپکائے جانے کے بعد خوش نُما نظر آتے ہیں۔ لیکن ان میں انتہائی مہلک زہر ہنوز موجود ہوتا ہے جو انسان کے جسم میں چلاجائے تو پندرہ سے بیس منٹ کے دوران اس کی موت واقع ہوسکتی ہے۔

دورانگو سٹی میں بچھو بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے وہاں بچھو کے زہر سے انسانی ہلاکتوں کی شرح بھی بلند ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس شمالی میکسیکو میں واقع اس شہر میں ایک ہزار سے زائد لوگ بچھوؤں کے ڈنک کا نشانہ بن کر موت کے منھ میں چلے گئے تھے۔

لوپیتا بھی بچپن سے بچھوؤں سے مانوس تھی۔ مگر دوسروں کی طرح بچھوؤں سے خوف کھانے کے بجائے وہ ان میں بڑی دل چسپی لیتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ آرائشی دستکاری کے فن میں مہارت حاصل کرلینے کے بعد اس نے ان کی تیاری میں مُردہ بچھوؤں کا استعمال شروع کردیا تھا۔ لوپیتا کہتی ہے،’’بیشتر لوگ بچھوؤں سے دہشت زدہ ہوجاتے ہیں مگر میرے خیال میں یہ بہت خوب صورت مخلوق ہے۔اسی لیے میں نے ہمیشہ ان کیڑوں کا آرائشی استعمال کرنے کے نت نئے طریقے وضع کیے مگر ناخنوں کی آرائش میں انھیں استعمال کرنے کا انداز سب سے زیادہ مقبول ہوا ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔