یہ ہے بھارت

دنیا تسلیم کرتی ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان بنایا ایک معجزہ کر دکھایا دنیا کے نقشے پر اس نام کا کوئی ملک نہ تھا


Abdul Qadir Hassan March 16, 2016
[email protected]

مجھے یہ گمان بھی نہیں تھا کہ نزلہ زکام کسی کو لکھنے سے بھی محروم کر سکتا ہے چند چھینکیں کچھ کھانسی اور سر میں چکر جو آتے جاتے رہتے ہیں کسی کو چند سطریں لکھنے سے کیسے روک سکتے ہیں لیکن میرے ساتھ بالکل یہی ہوا کہ نزلہ و زکام نے مجھے بے دم کر دیا اور میں چند سطریں بھی نہ لکھ سکا۔

یہ میں گزشتہ دو تین دنوں کی غیر حاضری کی درخواست لکھ رہا ہوں۔ ساتھ ہی یہ بھی عرض کر دوں کہ کبھی لکھنا میرا پیشہ تھا پھر عادت بن گیا اور بعدازاں ایک فرض بھی کہ میرے دل و دماغ میں اپنے وطن عزیز کی بھلائی کی کوئی بات آئے اس میں آپ کو بھی شریک کر لوں لیکن ان لوگوں کو نہیں جو اس ملک کو کھا پی گئے یا وہ جو اپنے عارضی اور گھٹیا مفاد کے لیے اس کے دو ٹکڑے کر گئے اور اب سچ بات یہ ہے کہ ان کے دماغ مر گئے ہیں اور دلوں کی دھڑکن بھی صرف ان کے زندہ رکھنے کے لیے زندہ ہے ورنہ ان کا دل ان کے احساسات سے محروم ہو چکا ہے جو عام انسانوں کے دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اور جو اس ملک کی بنیاد ہیں اور جن کا اصلی نام پاکستان ہے۔

دنیا تسلیم کرتی ہے کہ جن لوگوں نے پاکستان بنایا ایک معجزہ کر دکھایا دنیا کے نقشے پر اس نام کا کوئی ملک نہ تھا انھوں نے ایک نیا ملک بنا دیا بلکہ اصلی پاکستان عالم اسلام کا بڑا ملک تھا اور پاکستان کے بانیوں کی دعا تھی کہ آج یہ ملک مسلمانوں کا پہلا ایٹمی ملک ہے اور ان بزرگوں کی یہ بددعا تھی جو کوئی اس ملک کی سلامتی کو کمزور کرے گا اس کی سزا موت ہے اور ہم نے یہ سزا خود دیکھی ہے۔ پاکستان کا ایک زندہ دشمن بھارت ہے وہاں کے ایک دانشور کا یہ خط بھارت کے حالات کی ایک گواہی ہے۔ یہ خط ملاحظہ فرمائیے۔

برصغیر کی تقسیم دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر ہوئی تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم اکثریتی علاقوں کے باشندوں نے اپنی مرضی سے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور کچھ مسلم آبادی اپنی مرضی اور حالات کے تحت بھارت میں رہنے پر رضا مند ہو گئی۔ آج بھارت اور پاکستان اپنی آزادی کی اڑسٹھ بہاریں دیکھ چکے۔ پاکستان کی نعمت حاصل کرنے والے اور بھارت رہ جانے والوں کے درمیان آج بھی واضح فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ جو ''دانشور'' آج بھی متحدہ ہندوستان کی خواہش رکھتے ہیں ان کے لیے بھارت سے وصول ہونے والے اس خط میں بہت سا سبق پنہاں ہے۔ ڈاکٹر نفیس اختر کا یہ خط وہاں کے حالات اور گزرے ہوئے دور کی عکاسی کرتا ہے۔ لکھتے ہیں:

''اڑسٹھ سال گزر جانے کے بعد موجودہ ملک (بھارت) کی حالت زار دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شاید یہ وہ صبح نہیں جس کا خواب آزادی کے متوالوں نے دیکھا تھا۔ یہ وہ اجالا نہیں ہے جس کے لیے پروانوں نے اپنی جانیں قربان کر دی تھیں۔ یہ داغ داغ اجالا اور یہ شب گزیدہ سحر وہ سحر نہیں ہے جس کے انتظار میں عشاق نے اپنا لہو روشن کیا تھا۔ انگریز تو چلے گئے لیکن فرقہ پرستی' تعصب اور تفریق کا جو بیج انھوں نے بویا تھا وہ اب تناور درخت بن چکا ہے۔

انگریزوں کی جگہ اب صنعتی' تجارتی اور سیاسی گھرانے ملک کی ساری دولت لوٹ کر عوام کا استحصال کر رہے ہیں۔ معاشی ناہمواری کا عالم یہ ہے کہ ملک کی 80 فیصد دولت 20 فیصد لوگوں کا حصہ ہے۔ غربت و افلاس کا حال یہ ہے کہ آج بھی 363 ملین یعنی تقریباً تیس فیصد بھارتی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں اور زندگی کے بے حد بنیادی مسائل سے محروم ہیں۔ صحت کی دیکھ بھال اور دیگر مسائل کا حل تو ممکن ہی نہیں۔ انڈیا اپنی جی ڈی پی کا محض ایک فیصد ہی صحت عامہ پر خرچ کرتا ہے۔ رواں سال میں صحت کے بجٹ میں بھاری کٹوتی کی گئی ہے' باجود اس صورت حال کے کہ ایک ہزار زندہ ولادت میں سے چالیس سے پنتالیس بچے ایک سال کی عمر سے قبل صحت کے مسائل کی وجہ سے فوت ہو جاتے ہیں۔

ولادت کے بعد ہر ایک لاکھ میں سے 167 مائیں معیاری سہولیات کے فقدان کی وجہ سے فوت ہو جاتی ہیں۔ ہر سال ٹی بی سے ساڑھے پانچ لاکھ بھارتی ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں ملیریا سے ہونے والی اموات کی آدھی تعداد بھارت' نائیجیریا اور جمہوریہ کانگو سے ہوتی ہے۔ ہزاروں لوگ ایڈز سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔ صحت کے شعبہ پر پرائیویٹ سیکٹر کی اجارہ داری ہے۔ سرکاری اسپتالوں' ڈسپنسریوں اور پروگراموں میں معیار کا فقدان اور بدعنوانی کا دور دورہ ہے۔ مجبوراً عوام کو نجی اسپتالوں کا رخ کرنا پڑتا ہے جو بڑی بیدردی سے عوام کا استحصال کرتے ہیں۔

مردم شماری رپورٹ 2011ء کے مطابق 36 فیصد آبادی ناخواندہ ہے۔ خواندہ آبادی کا پانچواں حصہ پرائمری تعلیم مکمل نہیں کر پاتا۔ ساڑھے پانچ فیصد ہائی اسکول تک پہنچتے ہیں اور صرف ساڑھے تین فیصد گریجویشن کر پاتے ہیں۔ بہت سے گاؤں ایسے ہیں جو آج بھی اسکول کی سہولت سے محروم ہیں۔ اعلیٰ تعلیم کے معیاری سرکاری اداروں کی کمی اور مہنگے پرائیویٹ اداروں کی اجارہ داری کے سبب زیریں متوسط طبقہ کے لوگ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔

سماجی صورتحال یہ ہے کہ اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف نفرت کے واقعات روزمرہ اخبارات کی زینت بنتے ہیں۔ جنین کشی' دختر کشی کا رجحان خطرناک حد تک موجود ہے۔ اندازہ کیا جاتا ہے کہ پچاس ملین عورتیں بھارتی آبادی سے دختر کشی کی وجہ سے غائب ہو گئی ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر آدھے گھنٹے میں عصمت دری کا ایک واقعہ درج کیا جاتا ہے اور کتنے ایسے واقعات ہوتے ہوں گے جن کی کوئی رپورٹنگ نہیں ہو پاتی ہو گی۔

بھارتی عدالتی نظام کی کیفیت یہ ہے کہ آج ملک کی جیلوں میں پونے تین لاکھ قیدی صرف ملزم ہیں مجرم نہیں۔ اس سے بھی خطرناک بات یہ ہے کہ بیشتر قیدی خود پر لگے الزام میں متعین زیادہ سے زیادہ سزا کی مدت سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ عام آدمی انصاف کے لیے عدالتوں کے بجائے کھاپ پنچایت' نکسلی عدالت اور غنڈوں کا سہارا لینے میں عافیت سمجھتا ہے۔

آزادی کے بعد سب سے زیادہ مشکلات سے اقلیتوں کو دوچار ہونا پڑا ہے۔ تعصب' فرقہ پرستی اور مسلم کش فسادات نے مسلمانوں کی معاشی' معاشرتی ترقی کو معکوس سمت میں ڈال دیا ہے۔ آج مسلمانوں کی تعلیمی' سماجی اور معاشی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔ سرکاری ملازمتوں' افسر شاہی اور سیاسی اداروں میں مسلمانوں کی نمایندگی ان کی آبادی کی نسبت بہت کم ہے۔ اس ضمن میں مسلمانوں کے ساتھ قانون سازی کی سطح پر بھی ناانصافیاں کی گئی ہیں۔

آئین ہند میں فراہم کی گئی ریزرویشن کی سہولت سے ہندو دلتوں کے ہم پیشہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے 1950ء سے ہی محروم رکھا گیا ہے۔ دفعہ341 میں دلتوں کی تعریف میں ہندو ہونے کی شرط غیر آئینی و غیر اخلاقی ہے۔ 1959ء میں اس آرڈیننس میں ترمیم کر کے یہ شق بڑھا دی گئی کہ جو دولت خود یا ان کے آباؤ اجداد کسی وجہ سے مسلمان یا عیسائی ہو گئے تھے اگر دوبارہ ہندو ہو جائیں تو انھیں دلت سمجھا جائے گا اور انھیں ریزرویشن کی سہولت بھی حاصل ہوں گی۔

آزادی کے بعد بھارت میں ہزاروں مسلم کش فسادات نے مسلمانوں کی معیشت کی کمر توڑنے کے ساتھ ساتھ ان کے اندر عدم تحفظ کا احساس بھر دیا ہے۔ اس ضمن میں مسلمانوں کے ساتھ کبھی بھی انصاف نہیں کیا گیا۔ ان حالات میں یوم آزادی کا آفتاب ایسا لگتا ہے کہ صرف ہماری ہنسی اڑانے کے لیے طلوع ہوتا ہے۔ حقیقی آزادی اور اس کی برکات سے ملک کا ایک بڑا طبقہ محروم ہے''۔

مقبول خبریں