ہماری عقل مرگئی ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 16 مارچ 2016

ایمرسن نے کہا ہے کہ ’’تم جو کچھ ہو اس ہونے کا شور میرے کانوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ تم جو کچھ کہتے ہو وہ مجھے سنائی نہیں دیتا‘‘۔ ہم جو کچھ ہیں وہ ہمارے بولنے یا کرنے کی نسبت کہیں زیادہ اونچی اور صاف آواز میں سنا جاتا ہے، ہم اپنے متعلق چاہے سرگوشیوں میں کہیں یا چیخ چیخ کر کہیں کہ ہم مہذب ہیں، ہم تعلیم یافتہ ہیں، ہم دنیا بھر کے امن کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں، ہم روشن خیال ہیں۔

اب ان باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ہے، اس لیے کہ ہمارے کہنے اور ہمارے عمل میں اتنا فاصلہ ہے کہ ہم اسے لفظوں کے پل سے قریب نہیں لا سکتے۔ ہم اب دنیا بھر کی نظروں میں صرف بارودی سرنگیں ہیں، چلتی پھرتی بارودی سرنگیں۔ لگتا ہے جوڈی ولیمز نے 1997ء میں نوبل انعام لیتے وقت ہمارے لیے ہی کہا ہو گا کہ ’’بارودی سرنگ ہمیشہ ابدالآباد تک شکار کے لیے تیار رہتی ہے، عام لفظوں میں بارودی سرنگ مستعد ترین سپاہی ہے، جنگ ختم ہو جاتی ہے، مگر بارودی سرنگ موت کا کھیل جاری رکھتی ہے‘‘۔

سب سے پہلا سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ملک میں عقل کو مرے برسوں بیت چکے ہیں اور ہم برسوں سے عقل کے بغیر زندہ ہیں۔ اس عقل کے بغیر جس سے ڈیکارٹ کو محبت ہو گئی تھی، سپینوزا نے اس کے لیے فاقے کیے تھے، برونو اس کی خاطر جلایا گیا تھا، انقلاب فرانس نے عقل کی حسین دیوی کی پرستش کے لیے کئی صنم کدے تعمیر کیے تھے، سقراط نے اس کی خاطر زہر کا پیالہ پیا تھا۔ اب ہمارے خیالات، احساسات، فکر، سوچ اور عمل سب کے سب عقل سے بے نیاز ہیں۔

یاد رہے ہمارے افکار و احساسات، فکر و سوچ آسمان سے نہیں ٹپکتے اور نہ ہی زمین و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں، بلکہ تہذیب کے دوسرے عوامل کی طرح وہ سماجی حالات کی پیدوار ہوتے ہیں، اس لیے جس طبقے کا غلبہ معاشرے کی ساری قوتوں پر ہوتا ہے اسی طبقے کا غلبہ ذہنی قوتوں پر بھی ہوتا ہے، اسی لیے معاشرے میں اسی کے خیالات و افکار کا سکہ چلتا ہے۔

تو پھر ظاہر ہے ہمارا تو یہ ہی حال ہونا تھا، ہم بارودی سرنگیں نہ بنتے تو کیا بنتے۔ ایسا معاشرہ جہاں جہالت پھیلانے کی کھلی چھٹی ہو، جہاں لوگ جہالت کی اندھی دیوی کے پجاری ہوں، پھر وہاں خاک نہیں اڑے گی تو کیا اڑے گا، پھر وہاں بربادی وحشیانہ رقص نہیں کرے گی تو کیا کرے گی۔ اب ہم سب تہذیب و تمدن سے دور، دورِ وحشت کی وحشت انگیز تاریکیوں کی طرف سفر کر رہے ہیں، جہالت کے اندھے کنویں میں موٹر سائیکل چلا رہے ہیں۔

جس طرح جِِلدی بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں، لازم و متعدی، اسی طرح دماغی بیماریوں کی بھی دو قسم ہیں، لازم جس کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو غور و فکر کا اہل نہ سمجھے اور متعدی یہ کہ دوسروں کو بھی سوچنے نہ دے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں دونوں قسم کی دماغی بیماریاں لاحق ہیں، نہ تو ہم اپنے آپ کو غور و فکر کے اہل سمجھتے ہیں اور نہ ہی ہم دوسروں کو سوچنے دیتے ہیں، اور اگر کوئی غلطی سے سوچنے کے جرم کا مرتکب ہو جاتا ہے تو ہم فتوؤں کے لٹھ اٹھا کر اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں اور اس کی وہ درگت بناتے ہیں کہ وہ آیندہ سوچنے کا سوچتے وقت بھی خوف سے کانپنے لگ جاتا ہے۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ شہروں، محلوں اور گلیوں میں غول کے غول گھومتے ڈھونڈتے رہتے ہیں کہ کوئی سوچنے کی جرأت تو نہیں کر رہا ہے۔

اگر ہم تاریخ کے مسافر بن جائیں اور چھ ہزار برس قبل سے اپنے سفر کا آغاز کریں تو ہمیں معلوم چلے گا کہ ابتدائی ریاستیں شہری ریاستیں تھیں، جو سب کی سب دریاؤں کے کنارے آباد تھیں۔

یہ دھات کا زمانہ تھا اور جب تجارت کا آغاز ہوا تو بازار اور شہر وجود میں آئے، ان شہروں کا مرکز عبادت گاہیں ہوتی تھیں، تمام کی تمام ابتدائی ریاستیں تھیوکریٹک تھیں۔ ان ریاستوں کے سربراہ مندروں کے مہاپروہت ہوتے تھے، جو آسمانی دیوتاؤں کے نمایندے سمجھے جاتے تھے اور ان کے احکامات دیوتاؤں کے احکامات کا درجہ رکھتے تھے۔

اس دور میں عقائد و افکار پر اجارہ داری مذہبی پیشواؤں کو حاصل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بابل، مصر، ایران، یونان، فلسطین، ہندوستان اور چین میں ریاست کو عطیہ خداوندی قرار دیا گیا اور حاکم کو خدا کا نمایندہ بتایا گیا۔ ریاست کے احکام و قوانین کو فرمان الٰہی سے منسوب کر دیا گیا۔ سب ہی کا خیال تھا کہ ریاست کی سربراہی اور قوانین عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں اور رعایا کا فرض ہے کہ وہ حاکم وقت کی اطاعت اور اس کے احکامات کی پیروی کرے۔

اسی لیے بادشاہ کا مذہب ریاست کا سرکاری مذہب ہوتا تھا اور مذہبی پیشوا ریاست کے سربراہ سے پورا پورا تعاون کرتے تھے اور اس کے عوض معاوضہ پاتے اور دوسری طرف مغرب میں مسیحی کلیسا بڑی طاقتور ریاستی قوت بن کر ابھرا۔ جب روم کے شہنشاہ قسطنطین اول نے عیسائی مذہب اختیار کیا اور عیسائیت سلطنت کا سر کاری مذہب قرار پائی تو کلیسا کی طاقت بہت بڑھ گئی۔ پوپ کا دعویٰ تھا کہ وہ زمین پر یسوع مسیح کا خلیفہ ہے، آہستہ آہستہ کلیسا کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔

پوپ کے مقرر کردہ پادری لاکھوں کی تعداد میں شہروں میں پھیل گئے اور کلیسا زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہو گیا۔ آگے چل کر کلیسائیت اور بادشاہوں میں اختیارات اور جاگیروں پر خوفناک جنگ کا آغاز ہوا اور کلیسا کو شکست ہوئی۔ اسی اثنا میں امریکا اور ہندوستان کے بحری راستے دریافت ہو گئے۔

اسپین، پرتگال، ہالینڈ اور برطانیہ میں نئی نئی تجارتی کمپنیاں قائم ہونے لگیں اور نو آبادیاتی نظام کی داغ بیل پڑی۔ اسی دوران جرمنی میں 1465ء میں چھاپہ خانہ ایجاد ہوا، کتابوں اور رسالوں کی اشاعت سے پادریوں کی عملی اجارہ داری ختم ہو گئی، سائنسی ایجادیں اور دریافتیں اسی زمانے میں شروع ہوئیں اور ان ایجادوں سے عقائد و افکار کے ایوانوں میں زلزلہ آ گیا۔ کلیسا نے سخت مزاحمت کی، برونو کو آگ میں زندہ جلا دیا گیا، حالانکہ وہ ایک پادری تھا، گلیلو پر مذہبی عدالت میں مقدمہ چلا، سائنس دانوں کی کتابیں آگ میں جلائی گئیں، لیکن صنعت کے فروغ کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کی مقبولیت بڑھتی گئی اور توہم پرستی کا زور ٹوٹتا گیا۔

پادری سادہ لوح عقیدت مندوں سے رقم لے کر جنت کے پروانے جاری کرتے، گنڈے اور تعویذ بیچتے، ان ہی توہم پرستیوں کے خلاف پروٹیسٹنٹ فرقہ وجود میں آیا۔ ان معاشرتی اور مذہبی انقلابوں کے ساتھ ساتھ ریاست پر جاگیرداروں کے بجائے تاجروں اور صنعت کاروں کا غلبہ بڑھتا گیا۔ سب سے پہلے برطانیہ نے 1688ء میں تھیوکریسی کو ختم کیا، لیکن بقیہ یورپ کو اس کام میں مزید 100 سال لگ گئے، پھر انقلاب فرانس نے تھیوکریسی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔

یاد رہے تھیوکریسی ظلمت پرستوں کا آخری حربہ ہوتا ہے، جو خدا کی حاکمیت کی آڑ میں اپنا راج قائم کرتے ہیں، جو لوگوں کو سوچنے کے پیدائشی حق سے محروم کر دیتے ہیں۔ اب ہمارے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے یا تو ہم عقل کی بھیک مانگیں اور جب خدا ہمیں عقل سے ایک بار پھر نواز دے تو ہم زندگی کے ہر معاملے میں خود سوچنے کے عمل کا آغاز کر دیں۔ خود سوچیں نا کہ آپ پر کوئی دوسرا اپنی سوچ مسلط کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔