بدنصیبی کی بھی ایک حد ہوتی ہے

اوریا مقبول جان  جمعرات 17 مارچ 2016
theharferaz@yahoo.com

[email protected]

میڈیا کا کمال یہ ہے کہ آپ پاکستان کے کسی بھی ذی عقل، پڑھے لکھے یا ان پڑھ شخص سے سوال کریں کہ عورتوں کے چہروں پر تیزاب کہاں پھینکا جاتا ہے یا پھر ایسے ظالم کہاں رہتے ہیں تو چونکہ اس کے دماغ میں روزانہ کے پراپیگنڈہ نے یہ بات نقش کروادی ہے کہ ایسے ظالم تو صرف اور صرف پاکستان میں ہوتے ہیں۔

اسلیے وہ یہی جواب دے گا کہ ہم ہی ظالم ہیں۔پرنٹ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ان لوگوں کا یہ کمال پوری دنیا کے بلاگوں اور ٹاک شوز میں بھی نظر آتا ہے اور سنجیدہ مضامین میں بھی۔ آپ ان سارے مضامین اور سوشل میڈیا کے تبصروں سے گزریئے یا پھر الیکٹرانک میڈیا کو دیکھئے آپ کو ایسے لگے کہ یہ ظالمانہ کام صرف اور صرف مسلمان کرتے ہیں۔ حد یہ ہے کہ آسکر ایوارڈ کے لیے تیزاب پھینکے جانے پر جس ڈاکومینٹری کو منتخب کیا گیا وہ پاکستان سے متعلق تھی اور اسے بنانے والی خاتون کا نام شرمین عبید تھا۔ ساری دنیا سے پاکستان کا انتخاب بہت معنی رکھتا ہے۔

اس لیے کہ یہ واحد ملک ہے جو رنگ، نسل، زبان اور علاقے کے نام پر نہیں بلکہ اسلام کے نام پر بنا اور قوموں کی برادری میں یہ واحد ملک تھا جس نے اپنے نام کے ساتھ اسلامی جمہوری لکھا۔ ایسے میں اس ڈاکومینٹری کو آسکر ایوارڈ دینے سے دو مقاصد حاصل ہوتے ہیں۔ ایک تو مغربی دنیا پر یہ تاثر مستحکم ہوجاتا ہے کہ یہ ظلم اور تشدد صرف مسلمان معاشروں کا خاصہ ہے اور دوسرا پاکستانیوں کے ذہن میں اس تصور کی جڑیں مضبوط کردی جاتی ہیں کہ صرف ہم ہی ظالم ہیں اور باقی دنیا کی مہذب اقوام کو دیکھیں کس طرح امن سے رہتی ہیں اور وہاں کوئی ایسے ظالمانہ کام نہیں کرتا۔ اگر وہاں اس طرح عورتوں کے منہ پر تیزاب پھینکا جارہا ہوتا تو وہاں سے کوئی نہ کوئی شرمین عبید تو ضرور نکلتی جو اس بدترین ظلم پر ڈاکومینٹری بناتی۔ ان کا میڈیا ہی اس ظلم پر آواز اٹھاتا۔ وہ لوگ تو اپنی غلطیوں اور مظالم پر خود ہی آواز اٹھاتے ہیں۔

اگر وہاں بھی ہماری طرح تیزاب سے عورتوں کے چہرے بدنما بنالیے جاتے تو وہاں ہماری طرح طوفان نہ کھڑا ہوجاتا۔ میڈیا کا یہی کمال ہے کہ وہ جسے بدنام کرنا چاہتا ہے تو پھر صرف اسی کے منہ پر سیاہی تھوپتا ہے اور باقی چہروں کے عیب چھپاتا ہے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ بدنما معلوم ہو۔ یہی کام ایک خاص انداز سے پاکستان کے ساتھ کیا جارہا ہے اور ہماری سادگی دیکھیے کہ جو ہماری برائیوں کو اسی طرح سرعام دکھا کر ایوارڈ وصول کرتی ہے‘ اس کی فلموں کے لیے وزیراعظم ہاؤس میں خصوصی شو کا اہتمام کرتے ہیں۔

مغربی تہذیب کے پرستار برطانیہ کو دنیا کا مہذب ترین، جمہوری اقدار کا پاسدار اور سیکولر اخلاقیات کا امین ملک تصور کرتے ہیں۔ امریکا کے بارے میں ان لوگوں کا تصور ایک ایسی عالمی طاقت کا ہے جو خود کو ہر قسم کے قانون سے بالاتر تصور کرتی ہے۔ اس نے عورتوں اور بچوں کے حقوق کے عالمی چارٹرز پر دستخط نہیں کیے، وہاں زیادہ تر لوگ پورے دنیا سے بھاگ کر آباد ہوئے اور آج بھی وہ تارکین وطن سے بنا ہوا ایک معاشرہ ہے۔ یہ تارکین وطن اپنے اپنے ممالک کے جرائم کا ایک ورثہ بھی ساتھ لاتے ہیں۔

اس لیے جب کبھی امریکا میں اس طرح کے جرائم جیسے عورتوں پر تشدد، غیرت کے نام پر قتل، چھوٹی عمر کی بچیوں کا ماں بننا وغیرہ کے بارے میں اعدادو شمار ان سیکولر، لبرل اور جمہوری قوتوں کے علمبردار لوگوں کے سامنے رکھو تو وہ کہتے ہیں کہ امریکا کونسا ایک مثالی معاشرہ ہے۔ لیکن برطانیہ اور فرانس کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔ برطانیہ کی جمہوریت، آزادیٔ رائے، سیکولر اخلاقیات کی تو وہ بہت زیادہ تعریف کرتے ہیں کہ یہ سیکڑوں سال پرانی ہیں اور برطانیہ تو اس وقت مہذب معاشرہ تھا اور انسان کے احترام پر یقین رکھتا تھا۔

جب دنیا بادشاہوں کے ظلم سہہ رہی تھی۔ آکسفورڈ اور کیمبرج نے سب سے پہلے علم کی شمیں روشن کیں اور وہیں سے برطانوی مہذب ’’معاشرہ‘‘ تخلیق پایا۔ میں ان کی ساری باتیں سچ مان لیتا ہوں‘ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے لیکن میں ان دوستوں کی بات کو سچ مان کر برطانیہ کے وہ اعدادو شمار سامنے رکھ رہا ہوں جو گزشتہ دس سالوں میں عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے حوالے سے ہیں۔ یہ دنیا میں تعداد اور تناسب کے حوالے سے کسی بھی بدنام ملک سے کم نہیں ہیں۔ یہ کسی این جی او یا اخباری تحقیق کے اعدادو شمار نہیں بلکہ یہ برطانیہ کے سرکاری ادارے کے بتائے گئے اعدادو شمار ہیں۔

ہیلتھ اینڈ سوشل کیئر انفارمیشن سینٹر (HSCIC) نے بتایا ہے کہ برطانیہ میں خواتین کے چہروں پر تیزاب پھینکنے کی وارداتوں میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ 2004/05 سے 2014/15 تک یہ تعداد دگنی ہوچکی ہے۔ انھوں نے یہ تعداد اسپتالوں کے ریکارڈ سے حاصل کی جہاں یہ بدنصیب عورتیں اپنے چہروں کا علاج کروانے داخل ہوتی ہیں۔ اب ذرا سال بہ سال ان کی تعداد ملاحظہ کریں۔ 2004/05 میں 55 عورتیں تیزاب گردی کا شکار ہوکر اسپتال میں داخل ہوئیں۔ 2005/06 میں 47، 2006/07 میں 44، 2007/08 میں 67، 2008/09 میں 69، 2009/10 میں 98، 2010/11 میں 110، 2001/12 میں 103، 2012-13 میں 97، 2013-14 میں 109اور 2014-15 میں 124 خواتین اپنے ان زخموں کا علاج کروانے اسپتال میں داخل ہوئیں جو ان پر تیزاب پھینکنے سے ہوئے اور جس نے ان کے چہروں کو بدنما بنادیا تھا۔ ان میں سے 80 فیصد سفید فام خواتین تھیں۔

گزشتہ دس سالوں میں 925 عورتیں اسپتال میں تیزاب گردی کا علاج کروانے آئیں اور اس معاشرے کی درندگی دیکھیے کہ ان میں سے 253 وہ تھیں جن کی عمریں 75 سال سے زیادہ تھیں۔ کس قدر پاگل پن ہے اس مہذب برطانوی معاشرے ہیں۔ اس معاملے کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ ان میں سے اکثر عورتیں پولیس کو ظلم کرنے والے کے بارے میں نہیں بتاتیں۔ یکم اکتوبر 2015ء کے گارڈین نے ایک خاتون کا انٹرویو درج کیا جو تیزاب پھینکنے سے بری طرح متاثر ہوئی۔ وہ اپنے مجرم کو پہچانتی تھی لیکن اس نے پولیس کو اس شخص کے خوف کی وجہ سے نہیں بتایا۔ ویسٹ یورک شائر West York Shir کی اس خاتون نے جو الفاظ کہے میں من و عن درج کررہا ہوں۔

She would not tell the police because she thought the man who attacked her was very well connected. ”I just did not want any backlash. It is just me and my mom  you see”

’’اس نے پولیس کو اس لیے نہیں بتایا کہ اس پر حملہ کرنے والا معاشرے میں بہت بااثرتھا۔ اس نے کہا ’’میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ کسی برے ردعمل کا اظہار کرے۔ بس میں اور میری ماں اس کو جانتی ہیں۔‘‘

ایسے نہیں لگتا کہ یہ کہانی برطانیہ کے کسی شہر کی نہیں ہمارے ہاں کے کسی قصبے یا دیہات کی ہے جہاں مجرم بااثر ہوتے ہیں اور جرم کرکے دندناتے پھرتے ہیں۔ کسی کو اس خاتون پر ڈاکومینٹری بنانا یاد نہ آئی جو برطانیہ جیسے مہذب معاشرے اور اسکاٹ لینڈ یارڈ جیسی اعلیٰ پولیس کی موجودگی میں بھی خوفزدہ تھی۔ان 925 خواتین کی کہانیاں برطانوی معاشرے میں بکھری ہوئی ہیں اور ان میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

لیکن کیا کسی برطانوی چینل کے ڈرامے، کسی ہالی ووڈ کی فلم یا پھر کسی ٹیلی ویژن کے پروگرام میں یہ سب موضوع گفتگو ہے۔ میں ایک ڈرامہ نگار ہوں۔ میں نے سترہ سال ڈرامہ تحریر کیا ہے۔ میں جب ان کہانیوں کو پڑھتا ہوں تو ہر کہانی ایک علیحدہ فلم یا ڈرامے کا موضوع ہے۔ لیکن کوئی اپنے ملک کے اس بدنما چہرے کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتا۔

دوسرا یہ تاثر جو سارے میڈیا پر چھایا ہوا ہے وہ یہ کہ ایسی ظالمانہ حرکتیں صرف مسلمان کرتے ہیں جب کہ اس سلسلے میں کولمبیا سب سے آگے ہے جہاں اوسطاً سو عورتیں سالانہ تیزاب گردی کا شکار ہوتی ہیں۔ اس ملک میں 95 فیصد عیسائی رہتے ہیں۔ اس کے بعد کمبوڈیا آتا ہے، وہاں کی آبادی بھی 95 فیصد بدھ مت سے تعلق رکھتی ہے۔ بھارت، بنگلہ دیش، جمیکا، نیپال، نائیجریا، جنوبی افریقہ، یوگنڈا، بنگلہ دیش اور پاکستان اس فہرست میں شامل ہیں۔

ان کی آبادیوں سے اندازہ لگائیں کہ وہاں مسلمان کتنے ہیں۔ لیکن بدقسمت ترین صرف پاکستان ہے جہاں سے ایوارڈ حاصل کرنے والی شرمین عبید بھی موجود ہے اور اس ’’عظیم کارنامے‘‘ پر وزیراعظم ہاؤس کے دروازے بھی اس پر کھلتے ہیں۔ کوئی ایسی ہدایت کار برطانیہ میں کیوں پیدا نہیں ہوتی اور وزیراعظم ہاؤس 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کے دروازے اس پر کیوں نہیں کھلتے۔ ہماری بدقسمتی اور بدنصیبی کی بھی تو ایک حد ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔