ایرانی صدر کا دَورۂ پاکستان اور ملّتِ اسلامیہ کا اجتماعی ضمیر

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 17 مارچ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

عزت مآب ایرانی صدر جناب حسن روحانی مارچ 2016ء کے آخری ہفتے پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ جی آیاں نُوں۔ پاکستان میں متعین ایرانی سفیر، جناب مہدی ہنر دوست، اپنے صدرِ محترم کے وِزٹ کے حوالے سے پاکستان کی اہم شخصیات سے مفصل ملاقاتیں کرچکے ہیں۔ جناب حسن روحانی ایسے ایام میں پاکستان تشریف لارہے ہیں جب سفارتی لحاظ سے یہ خطہ خاصا گرم اور متحرک ہے۔ ترکمانستان کے صدر جناب قربان علی محمدوف ابھی ابھی پاکستان کا دورہ کرکے واپس گئے ہیں۔

سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیردو ہفتے قبل بھارت کے دورے پر تھے۔رواں ماہ کے آخر میں وزیراعظم نواز شریف امریکا جارہے ہیں۔ اسی مہینے کے خاتمے پر بھارتی وزیراعظم سعودی عرب کا دورہ کررہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ پاک، ایران تعلقات کی کہانی بہت وسیع موضوع ہے۔ یہ دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصہ 1947ء سے 1979ء تک اور دوسرا حصہ 1979ء میں  آیت اللہ روح اللہ خمینی صاحب کی تحیّر خیز قیادت میں برپا ہونے والے انقلابِ ایران کے بعد شروع ہوتا ہے۔

فریقین کے چھوٹے موٹے شکووں اور مختلف نشیب و فراز کے باوصف دونوں ملکوں کے تعلقات مناسب ہی رہے ہیں۔ خدا کا شکر ہے کہ ایران اور پاکستان نے کبھی ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھائے۔ ایران وہ ملک ہے جس نے تشکیلِ پاکستان کے بعد سب سے پہلے پاکستان کو بطورِ آزاد مملکت تسلیم کیا تھا اور پاکستان دنیا کا پہلا ملک ہے جس نے 79ء میں انقلابِ ایران کے بعد جناب خمینی علیہ رحمہ کے انقلابی اور بدلے ہوئے ایران کی طرف اپنا دستِ تعاون آگے بڑھایا۔

جب سے جناب نواز شریف برسرِ اقتدار آئے ہیں انھوں نے دانستہ کوشش کی ہے کہ توازن کا دامن تھامتے ہوئے ایران اور سعودیہ سے یکساں انداز میں تعلقات مضبوط بنائے جائیں۔ تیسری بار وزیراعظم بننے کے بعد وہ دوبار ایران کا دَورہ کر چکے ہیں۔ ان کا جنوری 2016ء کے وسط میں دوسرا دورۂ ایران تو خالصتاً اسی نیت سے کیا گیا کہ شیخ نمر النمر کی پھانسی کے بعد ایران اور سعودی عرب میں جو تناؤ آگیا تھا، اسے دُور کیا جائے۔

یہ کوشش اگرچہ پوری طرح ثمر آور تو ثابت نہ ہوئی لیکن وزیراعظم نواز شریف کی مساعی جمیلہ کی تحسین کی جانی چاہیے کہ انھوں نے اپنی حدود میں رہتے ہوئے عالمِ اسلام کے دو نمایاں ترین بھائیوں کے دُور ہوتے دلوں کو دوبارہ قریب لانے کی حتمی کوشش تو کی (جناب آصف زرداری کا دعویٰ سامنے آیا ہے کہ انھوں نے بھی اپنے دورِ صدارت میں سعودی عرب اور ایران کی ناراضیاں ختم کرانے کی کوشش کی تھی) اب صدرِ ایران پاکستان تشریف لارہے ہیں تو دونوں برادر اسلامی ممالک کو مزید یک جہت اور یک سُو کرنے کے لیے جناب حسن روحانی اور جناب نواز شریف کو حکمت، تدبر اور صبر کا دامن تھامنا ہوگا۔

شام و یمن اور بحرین و لبنان میں سعودی اور ایرانی کردار نے جو حالات پیدا کیے ہیں، ایرانی صدر سے مکالمہ کرتے ہوئے ان سے عہدہ برآ ہونا پاکستانی قیادت کا گہرا امتحان ہوگا۔ مشرقِ وسطیٰ میں سعودی اورایرانی مفادات کی جو چپقلش جاری ہے، پاکستان کو اس بارے میں محتاط رویہ اپنانا ہوگا۔ مثال کے طور پر : لبنان کی ’’حزب اللہ‘‘ ایسی معروف تنظیم کو دہشت گرد قرار دینے کے بعد ایک بار پھر ایران اور سعودی عرب آمنے سامنے ہیں۔ ایران کو اس تازہ فیصلے سے رنج ہوا ہے جو پہلے ہی سعودیہ کے شمال میں بائیس اسلامی ممالک (جس میں ایران کو شامل نہیں کیا گیا تھا) کی مشترکہ فوجی مشقوں کی وجہ سے بھرا بیٹھا تھا۔

پہلے خلیج کی ’’تعاون کونسل‘‘ (GCC) نے ’’حزب اللہ‘‘ کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا اور پھر اس فیصلے کے تقریباً ڈیڑھ ہفتے بعد عرب لیگ نے بھی یہی فیصلہ سنا دیا۔ ’’عرب لیگ‘‘ میں شامل بائیس رکن ممالک میں سے بیس نے اس فیصلے کی تائید کی۔ (ان دونوں فیصلوں سے قبل تیونس میں ہونے والی عرب وزرائے خارجہ کانفرنس میں بھی ’’حزب اللہ‘‘ اور اس کے وابستگان کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا) قاہرہ میں ’’عرب لیگ‘‘ کے ہیڈ کوارٹر میں جب جی سی سی کے رکن اور بحرینی سفارت کار، واحد مبارک سیار، پریس کانفرنس میں اس فیصلے کی جزئیات پڑھ کر سنا رہے تھے، تہران کا طیش قابلِ دید تھا۔ ’’عرب لیگ‘‘ اور ’’جی سی سی‘‘ کو اس بات کا غصہ ہے کہ ’’حزب اللہ‘‘ اور اس کے مسلح بازو کو ایران کی تمام اشیرواد حاصل ہے۔

’’حزب اللہ‘‘ شام میں صدر بشار الاسد کی فوجوں کے ساتھ مل کر ’’داعش‘‘  کے خلاف لڑ رہی ہے۔ یوں ’’حزب اللہ‘‘ کی وجہ سے شامی صدر کو براہ راست تقویت مل رہی ہے۔ یہ منظر سعودی حکام کے لیے بوجوہ ناقابلِ قبول ہے؛ چنانچہ سعودی حکومت نے ’’حزب اللہ‘‘ کا ٹیٹوا دبانے کے لیے لبنان کو دی جانے والی تین ارب ڈالر کی امداد بھی معطل کردی ہے۔ اس امداد کا کثیر حصہ لبنانی فوجوں کو ملنے والا تھا جو عراق، شام اور لبنان میں دہشت گردوں کے خلاف جنگ آزما ہیں۔

چونکہ اس امداد سے ’’حزب اللہ‘‘ کے جنگجوؤں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا تھا، اس لیے یہ امداد روک کر گویا ’’حزب اللہ‘‘ کی کمر توڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عرب لیگ اور چھ ممالک (سعودی عرب، بحرین، عرب امارات، کویت، اومان، قطر) پر مشتمل خلیج کی ’’تعاون کونسل‘‘ (GCC) نے ’’حزب اللہ‘‘ کو ’’دہشت گرد‘‘ تنظیم تو قرار دے دیا ہے لیکن ایران نے اس پر سخت ردِ عمل کا اظہار کیا۔ یہ جی سی سی کے سیکریٹری جنرل، عبدالطیف الزیانی، ہیں جنہوں نے ’’حزب اللہ‘‘ کو دہشت گرد قرار دینے کا اعلان ایک پریس کانفرنس میں کیا لیکن اس کا فوری جواب ایران کے نائب وزیرِخارجہ، حسین امیر، کی طرف سے سامنے آیا۔ انھوں نے انتباہی لہجے میں کہا: ’’حزب اللہ کو دہشت گرد قرار دے کر جی سی سی نے ایک نئی سنگین غلطی کی ہے۔

ہمیں ’’حزب اللہ‘‘ پر فخر ہے۔‘‘ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ایران ’’حزب اللہ‘‘ اور اس کے سربراہ حسن نصر اللہ کی پشت پناہی ترک کرنے پر ہر گز تیار نہیں ہے۔ یوں بحرین اور یمن کے بعد لبنانی ’’حزب اللہ‘‘ کا بحران بھی ایران اور سعودیہ تنازعہ کو مزید ہوا دینے کا باعث بن رہا ہے۔ ایرانی صدر محترم حسن روحانی صاحب کے دورہ پاکستان کے دوران پاکستانی قیادت کو یہ منظر بھی ذہن نشین کرنا چاہیے کہ مبینہ طور پر چونکہ ایران کی وجہ سے سعودی عرب اور لبنان کے تعلقات میں خاصی کشیدگی آچکی ہے، اس لیے لب کشائی کرتے ہوئے خاصی احتیاط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ سعودیہ، لبنان تعلقات اتنے خراب ہوچکے ہیں کہ خود لبنان کی حکومت عملی طور پر دو حصوں میں بٹ چکی ہے۔

ایک حصہ واضح طور پر سعودی عرب کی حمایت میں ہے اور دوسرے کا جھکاؤ ایران کی طرف۔ اوّل الذکر کی قیادت سعد الحریری کررہے ہیں۔ لبنانی کابینہ میں وزیرِانصاف اشرف رفیع بھی یہ کہہ کر وزارت سے علیحدہ ہوگئے: ’’چونکہ حزب اللہ کے مسلح بازو کی حکومت میں مداخلتیں حد سے تجاوز کرگئی ہیں، اس لیے میں اس جانبدار حکومت کا حصہ نہیں رہنا چاہتا۔ حزب اللہ ریاست کے اندر ریاست بنا رہی ہے۔‘‘ ایران نے اس کا خاصا بُرا منایا ہے۔

ایرانی غصے کا اظہار لبنان میں ’’حزب اللہ‘‘ کے ترجمان ٹی وی (’’المنار‘‘) کے ذریعے سامنے آیا ہے۔ لبنان کے سابق وزیراعظم، فواد سنیورا، بھی سعودی عرب کی ہمنوائی کررہے ہیں۔ اس پس منظر میں ہماری جملہ قیادت کو ایرانی صدر کے دورۂ پاکستان کے دوران سعودی عرب، ایران اور لبنان کی اسی باہمی کشمکش کے حوالے سے اپنے معاملات طے کرنا ہوں گے اور کوئی ایسی بات کہنے سے گریز کرنا ہوگا جس سے معزز مہمان کی ناراضی کا اندیشہ ہو۔ کوشش تو یہی ہونی چاہیے کہ پاکستان کی بدولت یہ تینوں بڑے مذکورہ ’’متحارب‘‘ اسلامی ممالک کی باہمی کشیدگی ختم ہوکر دوستی اور محبت میں بدل جائے۔ ملّتِ اسلامیہ کے اجتماعی ضمیر کا بھی یہی تقاضا اور مطالبہ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔