عورت کو مرد بنا دیا!!

شیریں حیدر  اتوار 20 مارچ 2016
 Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

… ہم مائیں، ہم بہنیں ، ہم بیٹیاں
قوموں کی عزت ہم سے ہے!!

اس نغمے کے لکھاری نے تو عورتوں کی صنف میں بیویوں کو شامل نہیں کیا، ظاہر ہے کہ نغمہ مقبول عام ہے اور اسے بچیاں بھی گاتی ہیں… مناسب جواز ہے، مگر پنجاب حکومت نے تو حقوق نسواں کا بل پاس کروا کے پنجاب کی عورتوں کو مرد بنا دیا ہے، اتنے حقوق… کب ہم نے خواب میں بھی سوچے تھے، آپ سب بہنوں کی طرح میں بھی سوچنے لگی کہ صوبہ پنجاب کی عورت کس قدر خوش قسمت ہے۔ اہم وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے وفاقی اور صوبائی حکمران، پنجاب کو کل پاکستان سمجھتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ پاکستان، صوبہ پنجاب کا حصہ ہے، اسی لیے سارے ترقیاتی منصوبے صوبہ پنجاب میں شروع ہو کر پنجاب میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔

مجبور، محکوم اور مظلوم تو سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کی عورت تو پنجاب کی عورت سے کہیں زیادہ ہے۔ ہاں تو بہنو!! دل میں خوشی محسوس ہوئی کہ چلو کسی کو کچھ احساس تو ہوا، پھر سنا کہ علماء اور مذہبی راہنماؤں نے اس بل کے خلاف بیانات دینا شروع کر دیے ہیں اور ایکا کر کے وزیر اعظم صاحب پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ اس بل کو منسوخ کیا جائے کیونکہ یہ بل اسلامی احکام کے منافی ہے۔

چلیے مان لیتے ہیں جناب مگر آپ علماء اور مذہبی رہنما حضرات ہی بتا دیں کہ اس ملک میں اسلامی قوانین کیمطابق ہو کیا رہا ہے، کیا آپ کے حکمرانوں نے سادگی اور عاجزی اختیار کر لی ہے؟ اپنے انتخابی نشان کے موافق، سب کچھ کھا پی کر ہڑپ کر جانیوالوں کا گریبان کوئی پکڑ سکتا ہے؟ کیا یہاں چور کے ہاتھ کاٹے جاتے ہیں، قاتل کو سر عام پھانسی دی جاتی ہے، غریب کو انصاف مل رہا ہے؟ قانون سب کے لیے ایک جیسا ہے؟ ملک کو لوٹنے والوں کا احتساب ہوتا ہے؟ عورتوں کی عزتیں محفوظ ہیں اور عوام کو جان و مال کا تحفظ حاصل ہے؟

کیا یہاں کوئی بھوکے پیٹ نہیں سوتا اور سب کو چھت میسر ہے؟ کیا اس ملک کے حکمران عوام کی تکالیف کو دیکھ کر بے چین ہو جاتے ہیں؟ کیا اس ملک میں سب کو یکساں طبی اور تعلیمی سہولتیں میسر ہیں؟ نہیں ناں !!! تو پھر جھگڑا کاہے کا ؟؟ جہاں اتنا کچھ مذہب کے خلاف ہو رہا ہے تو آپ ایک بات کو لے کر بحث مباحثہ چھوڑ دیں ۔ مردوں کو تو حقوق یوں بھی حاصل ہیں ، بنا کسی بل کے پاس کیے، وہاں اگر عورتوں کو خوش کر دینے کو کوئی بل پاس کر دیا گیا ہے تو کون سا اس پر عمل حکمرانوں نے کرنا ہے؟

اس ملک میں جو لوگ عورتوں کو خوش کرنے کے سلسلے میں مشہور ہیں، عملی طور پر جہاں عورتوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو ان کا دل اور دامن بھی تنگ پڑ جاتا ہے۔ ہر مرد میں صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ عورت کو خوش کر سکتا ہے … مگر بدقسمتی سے گھر کی نہیں بلکہ باہر کی عورت کو۔ صرف عورت، یعنی بیوی ہی کی بات نہیں، وہ زیادہ تر رشتوں میں ایسا ہی برتاؤ رکھتا ہے، اپنی بہن سے زیادہ دوسرے کی بہن کو خوش رکھ سکتا ہے، اپنی ماں سے زیادہ اسے دوسروں کی مائیں اچھی لگتی ہیں اور اپنی بیٹی کو تو وہ بات بے بات دنیا کی اچھی بیٹیوں کی مثالیں دیتا ہے جو کہ اس کی اپنی بیٹیاں نہیں ہوتیں۔

گھروں میں دن بھر ہنگامہ بپا کیے رکھنے والی عورتیں، شام ہوتے اور مردوں کے گھر لوٹتے ہی سہم جاتی ہیں، ان کی چیخم پکار دم توڑ جاتی ہے کیونکہ ان سے بلند مرتبہ اور آواز رکھنے والا فرد گھر لوٹ آتا ہے۔ عورت ہر روپ میں مرد سے کسی نہ کسی طرح خوف زدہ رہتی ہے، باپ کی ناراضی سے، بھائی کی رگ غیرت پھڑک اٹھنے سے، شوہر کی طرف سے تو اسے صرف تین لفظ … ان کی دھمکی ہی عمر بھر اسے اونچا سانس تک نہیں لینے دیتی، بیٹوں سے بھی ڈرتی ہے کہ ان کی مرضی کے خلاف کچھ نہ ہوجائے، دامادوں سے کہ ان کے ہاتھوں میں بیٹیوں کی قسمت کی ڈور ہوتی ہے، دفتروں میں باس سے کہ کب ان کا من بے عزتی پر اتر آئے۔

مجبوری کی حالت میں گھروں سے نکلنے والی، بسوں ویگنوں میں دھکے کھاتی، ان ہی سواریوں پر سوار مردوں سے کہ جنھیں خواہ مخواہ جھٹکے لگتے ہیں اور ہر بار ان کا توازن اسی طرف بگڑتا ہے جس طرف کوئی سہمی ہوئی بچی کھڑی ہوتی ہے۔ نابینا استاد بھی کسی سے کم نہیں ہوتے، کالجوں اور اسکولوں کے باہر کھڑے ہوئے ان ’’بھائیوں‘‘ سے کہ جن کی اپنی بہنوں کو بھی کوئی تاڑ رہا ہوتا ہے مگر اس سے انھیں کوئی سروکار نہیں، رانگ کالیں کر کے تنگ کرنے والے کہ جن کی کارکردگی، بچیوں کے کردار کو ان کے گھر والوں کی نظروں میں مشکوک بنا دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر بچیوں کو ورغلا کرانھیں خوار کرنیوالے، انھیں بہکا کر بلیک میل کرنیوالے، معصوم بچیوں کی معصومیت کو مجروح کرنیوالے… آپ سار ے مرد ہی تو ہیں!!

کبھی آپ میں سے کسی کو خوف محسوس ہوا کہ کوئی عورت آپ کو چھیڑے گی، آپ کی مجبوری سے فائدہ اٹھائے گی، اگر وہ آپ کی باس ہے تو آپ کا جسمانی استحصال بھی کر سکتی ہے، اگر وہ آپ کی استاد ہے تو اپنے رتبے سے گر کر آپ سے عملی مذاق کرے گی، آپ پر دراز دستی کرے گی؟؟ نہیں ناں!!! تو مت ڈریں کسی بھی بل سے جناب، عورت وہی ہے جو کچھ وہ ہے اور ہمیشہ سے رہی ہے!! آپ کے cheats کو جان کر بھی آپ کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور، آپ کے تشدد کے بعد بھی آپ کی ’’ خدمت ‘‘ پر کمر کسے ہوئے، آپ کی گالی گلوچ سن کر بھی آپ کے سامنے نہ بولنے کی قسم کھائے ہوئے۔

دو دن قبل اخبار میں پڑھا کہ کسی خاتون نے اپنے شوہر کے تشدد کی شکایت کی اور پولیس اس کے شوہر کو لے گئی اور اسے جو بھی سزا دی، مارا پیٹا یا جرمانہ کیا، تھانے سے باہر نکلتے ہی اس نے اپنا ازلی حق استعمال کیا اور اپنی بیوی کو طلاق دے دی… مرد جو بھی چاہے کرے، جتنی بھی زبان اور ہاتھ چلائے مگر زبان درازکا لقب ہمیشہ عورت کے حصے میں ہی آتا ہے، کیونکہ مردوں کے خیال میں اس کی زبان صرف اس لیے ہے کہ وہ اپنے شوہر کے لیے پکائی جانے والی ہانڈی کا نمک چکھ لے کہ کہیں اسی چھوٹی سی بات پر اس کی دھنائی نہ شروع ہو جائے۔

ان پڑھ اورغربت کی چکی میں پسے ہوئے، اپنے غموں کو ہلکا کرنے کے لیے عورت پر اپنا غبار اتار لیتے ہیں تو پڑھے لکھے لوگ زبان سے نشتر چلا کر، اس میں بات بے بات نقائص نکال کر… اسے جاہل عورت کا لقب دے کر اپنی انا کی تسکین کرتے ہیں۔ علم میں، مرتبے میں، سوچ میں ، ذہانت میں، عبادت میں، اخلاق میں، سخاوت میں… غرض کسی بھی پیمانے پر عورت مرد سے آگے ہو، اس سے بڑھ کر ہو، نہ وہ اسے تسلیم کر سکتا ہے نہ برداشت۔ یہی ایک وجہ ہے کہ اس وقت ہمارے ہاں شادیوں کے ٹوٹنے کا تناسب خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اور اب حقوق نسواں کا بل، رہی سہی کسر اس سے پوری ہوجائے گی۔

جہاں ملک کا میڈیا ہر وقت یہ دکھا رہا ہو کہ اس ملک میں عورت ظلم کی چکی میں پس رہی ہے اور عورتوں کے خلاف سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں، دوسری عورتوں کے ہاتھوں یا مردوں کے، تویہی کچھ اس ملک میں سکھایا جا رہا ہے ، یہی ہمارے نوجوان دیکھتے ہیں اور سیکھتے ہیں۔رہنے دیں، آپ ہمیں عورت ہی رہنے دیں، مرد نہ بنائیں، بس عورت ہونے کا مان، حق، فخر ہم سے نہ چھینیںکہ ہم مرد کو جنم بھی دیتی ہیں اور اسے ایک حقیر کیڑے جیسے وجود سے، اپنی ساری طاقت صرف کر کے پروان چڑھاتی ہیں،ا س لیے کہ و ہ ہمارا مان بنے… اس لیے نہیں کہ وہ ہماری صنف کو اپنی جوتی کی نوک پر رکھے، عورت ہر روپ میں قابل تعظیم ہے۔

کسی مرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی عورت کو کسی بھی وجہ سے حقیر جانے خواہ وہ مرد ملک کا سربراہ ہی کیوں نہ ہو اور وہ عورت گلی میں جھاڑو لگانیوالی جمعدارنی!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔