ذائقوں اور رشتوں کا زوال

رئیس فاطمہ  ہفتہ 10 نومبر 2012

چند دن قبل مسزفاروق کا فون آیا کہ مجھے فرصت ملے تو کچھ دیر کے لیے ان کے پاس ہوجاؤں۔۔۔۔۔ضرور کوئی خاص بات تھی جو وہ مجھے یوں بلا رہی تھیں، مسز فاروق سے میری ملاقات پہلی بار 1996میں گورنمنٹ کالج برائے خواتین، ناظم آباد میں ہوئی تھی۔

جہاں پی۔ٹی۔اے کی میٹنگ تھی۔ بہت پڑھی لکھی اور فہمیدہ خاتون تھیں، ہماری دوستی کی بنیاد صرف کتابیں، کلاسیکل موسیقی اور آرٹ فلمیں تھیں، میری طرح انھیں بھی میک اپ، جیولری، ملبوسات اور شاپنگ کے ذکر سے وحشت ہوتی تھی۔ وہ میری تحریروں کی نقاد بھی ہیں۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً پچھتر برس ہے۔ ماشاء اللہ بہت بھرپور زندگی گزار رہی ہیں۔ دو تین ماہ میں ہم ایک دوسرے سے ملاقات بھی کرتے ہیں، ہم دونوں ایک دوسرے کو اپنے ہاتھ کے پکے کھانے کھلاتے ہیں۔ پھر ایک دن جب میں ان کے گھر پہنچی تو وہ خورشید کا گایا ہوا بڑا ہی پیارا گیت سن رہی تھیں۔۔۔۔پنچھی باورا۔۔۔۔ چاند سے پریت لگائے۔۔۔۔!

انھوں نے ٹیپ ریکارڈ بند کیا اور میرے قریب آبیٹھیں۔ کچھ وقت تک ہم خورشید اور شمشاد بیگم کے گانوں پر بات کرتے رہے، باتوں ہی باتوں میں وقت کا پتہ نہ چلا۔ مسز فاروق بہت اچھی سی چائے دم کرکے ٹی کوزی سے ڈھک کر لائیں تو احساس ہوا کہ دو گھنٹے گزر گئے اور میں نے یہ بھی نہ پوچھا کہ انھوں نے مجھے آنے کا حکم کیوں دیا تھا؟ لیکن انھوں نے چائے کا کپ میرے سامنے رکھتے ہوئے کہا : ’’تمہیں پتہ ہے آج میں تم سے کیا کہنا چاہتی ہوں؟‘‘

’’چلیے اب بتا دیجیے!‘‘ میں نے کہا۔ وہ مسکرا کر بولیں: ’’یہ جو دو تین کالموں میں تم نے کھانوں میں ذائقے کے زوال کا ذکر کیا تھا، جانتی ہو اس کی سب سے بڑی وجہ کیا ہے؟ اور کہوں اب گھر سے باہر کسی بھی ہوٹل کا کھانا کیوں اچھا نہیں لگتا۔۔۔۔۔یہ اور اسی قسم کی بہت سی باتیں۔۔۔۔۔’’امراؤ جانِ ادا‘‘ کی باتیں۔۔۔۔۔گردشِ رنگِ چمن اور ’’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو‘‘ کی باتیں۔۔۔۔۔ اور بہت کچھ، جیسے فلم، محل، پاکیزہ ، پرما اور گرم ہوا کی باتیں۔۔۔۔۔وہ خاموش ہوئیں تو میں نے ترنت پوچھا۔ اچھا پتا ہے ذائقوں کے زوال کی اصل وجہ کیا ہے؟ کیا کوئی نئی بات؟

نئی تو نہیں، بات تو وہی ہے جو تم نے لکھی ہے، یعنی کمرشل ازم ۔۔۔۔۔جس نے کھانوں کا ذائقہ گم کردیا ہے، لیکن اس کے علاوہ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ پہلے جب کبھی گھر سے باہر کھانا کھانے کا من کرتا تھا تو ہر ہوٹل کا الگ ذائقہ تھا۔ بعض چیزیں بعض ہوٹلوں سے مخصوص تھیں، جیسے کالی کے ہوٹل کا قورمہ، دہلی مسلم ہوٹل کی مغلئی بریانی، کچہری روڈ پر واقع قیصر ہوٹل کی مٹن لیگ، کیفے ڈی خان کا کباب پراٹھا، فریڈرک کیفے ٹیریا کے پیٹسز اور کیفے چارج کے پیٹز، بندوخاں کے کباب کے علاوہ پاک آئس کریم، بلوچ آئس کریم اور ماڈرن آئس کریم کے الگ الگ مزے۔۔۔۔۔ہر ہوٹل کا اپنا مزہ اور اپنا انداز پکانے کا، ہر جگہ جاکر ایک نیا ذائقہ ملتا تھا۔

لیکن اب کیا ہے کہ لاہور ہو یا کراچی ہو یا دلّی سب جگہ کمرشل ازم نے اپنے پنجے گاڑ لیے ہیں۔یعنی اب کوئی ہوٹل، اپنے مسالے نہیں بناتا، تمام مسالے بازار میں تیار ملتے ہیں، اسی لیے ہر جگہ کا ذائقہ کم و بیش ایک جیسا ہی ہے۔ پہلے کراچی میں نہاری کے حوالے سے بھی کئی ہوٹل بہت مشہور تھے اور آج بھی ہیں۔ جن لوگوں نے آج سے دس سال پہلے ان ہوٹلوں کی نہاری کھائی ہے وہ جانتے ہیں کہ پہلے ان سب کا ذائقہ الگ الگ ہوتا تھا، لیکن اب ایک ہی جیسا ذائقہ سب کا ہوتا ہے کیونکہ پیکٹ کے تیار مصالحوں نے ان کا اصل ذائقہ چھین لیا ہے۔

’’ہاں یہ درست ہے‘‘ میں نے کہا وہ واقعی صحیح کہہ رہی تھیں۔ ذائقے کے زوال کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ ایک ہی جیسے مصالحوں سے تیار کھانے اپنا قدرتی ذائقہ کھو چکے ہیں۔ بچپن میں پہلی بار جب اپنی میمن اور سندھی دوستوں کے گھر سندھی اور میمنی بریانی کھائی تو بے حد لذیذ لگی، دونوں کے ذائقوں میں بہت فرق تھا، سندھی بریانی میں ٹماٹر، پودینہ، دہی، ہری مرچ اور سفید زیرے کا استعمال بہت ہوتا تھا جب کہ میمنی بریانی میں آلو بخارا اور دہی لازمی جزو ہوتے تھے۔ یہ دونوں بریانیاں ہماری دلّی کی یخنی والی مغلئی بریانی سے بالکل الگ تھیں اور مزہ دیتی تھیں۔ جب کہ ہماری میمن اور سندھی سہیلیوں کو مغلئی بریانی اور میوے والا زردہ من کو بہت بھاتا تھا۔

اسی طرح گھروں میں بھی اپنی پسند کے مصالحے ڈال کر کھانے تیار کیے جاتے تھے۔ کچری کباب، بہاری کباب ، سیخ کباب، گولہ کباب، تکّے، کڑھی، مسور اور چنے کی دال، بگھارے بینگن اور مختلف قسم کے پلاؤ، جیسے یخنی پلاؤ، مٹر پلاؤ، کوفتہ پلاؤ، چھولے پلاؤ، مسور پلاؤ، کابلی پلاؤ، اپنے اپنے علاقے اور کلچر کے حساب سے الگ الگ ذائقہ رکھتے تھے، لیکن اب یہاں بھی معاملہ وہی ہے کہ مصالحوں کے پیکٹ تیار کرنے والوں کی مرضی جس تناسب سے چاہیں مختلف اجزاء شامل کریں۔ نہاری کا خاص جزو، سونف، سونٹھ اور پیپل ہے، لیکن اگر آپ پیکٹ کا جائزہ لیں تو جو نہاری پکانا جانتے ہیں انھیں ان تمام اشیاٗ کی کمی محسوس ہوتی ہے، لیکن عام طور پر خواتین اب انھی تیار مصالحوں کی عادی ہوگئی ہیں۔ اس تن آسانی نے ذائقوں کو کھو دیا۔

ایک مثال پسے ہوئے گرم مصالحے کی ہے، جس میں دارچینی کی بھرمار ہوتی ہے جب کہ گھر کے پسے گرم مصالحے میں سفید زیرہ، لونگ، بڑی الائچی، کالی مرچ اور دار چینی ایک تناسب سے ڈال کر پیسی جاتی ہے۔ دراصل ذائقے کا دوسرا نام تناسب ہے بلکہ زندگی نام ہی تناسب کا ہے۔ تھوڑا سا چہرے کا تناسب بگڑ جائے، آنکھ چھوٹی، ناک لمبی یا دہانہ چوڑا ہوجائے تو صورت بگڑ جاتی ہے، حسن نام ہی تناسب کا ہے، لیکن جب سے زندگی میں سے تناسب کو دیس نکالا ملا ہے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب تو لہسن، ادرک اور براؤن کی ہوئی پیاز بھی ریڈی میڈ آتی ہے۔ گرائنڈر میں پِسی ہوئی لہسن ادرک کی بوتلوں میں سرکہ ملادیا جاتا ہے جس سے کھانوں کا ذائقہ خراب ہوجاتا ہے، لیکن گھر میں کون پیسے؟ جب تیار مال مل رہا ہو۔

مسز فاروق سے جب میں نے اجازت چاہی تو ایک سوال جو میرے دل میں اٹک رہا تھا وہ زبان پر آگیا۔ میں نے پوچھا کہ کیا واقعی انھوں نے مجھے صرف یہی سب کچھ بتانے کے لیے بلایا تھا یا کچھ اور کہنا تھا۔ وہ میری بات سن کر خاموش ہوگئیں، لیکن میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھیں نم تھیں اور چہرہ بے حد اُداس۔ کبھی پہلے میں نے انھیں اس طرح نہیں دیکھا تھا۔ انھوں نے منہ دوسری طرف کرلیا، لیکن آنکھوں سے گرتے ہوئے آنسو وہ نہ چھپاسکیں۔ میں نے انھیں کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف کیا تو سسک پڑیں اور نجانے کب کے رُکے ہوئے آنسو بہنے لگے۔۔۔۔۔۔’’بولیے خدا کے لیے بولیے، کیا بات ہے؟‘‘ میں نے کہا۔ انھوں نے کمال ضبط سے کام لیا اور بولیں’’میں نے تو تمہیں اس لیے بلایا تھا کہ تم سے کہہ سکوں کہ صرف کھانوں میں ہی ذائقوں کا زوال نہیں ہوا ہے بلکہ خونی اور اہم رشتوں کا بھی زوال ہوچکا ہے۔

بیٹے جیتے جی سسرال والوں اور بیویوں کی سازشوں کا شکار ہوکر ماں باپ کو بڑھاپے میں بے یارومددگار، اکیلا چھوڑ جاتے ہیں، اگر آج میری اور فاروق کی پنشن نہ آرہی ہوتی اور یہ گھر ہمارا نہ ہوتا جوکہ میں نے اپنے پوتے کے نام کردیا ہے تو یقینا آج ہم بھی ایدھی ہوم میں ہوتے۔۔۔۔۔۔۔لکھو ۔۔۔۔۔۔لکھو فاطمہ! لکھو کہ رشتوں کا زوال ہوچکا ہے۔ اولاد ماں باپ کے مرنے کی دعائیں کرتی ہے، بہوئیں یہ سمجھتی ہیں کہ انھوں نے اپنے ساس سُسر سے جو نفرت اور دغابازی کی انتہا کی ہے اس سے انھوں نے کامیابی سے کسی کا بیٹا چھین لیا ہے، کیا مکافاتِ عمل کبھی نہ ہوگا؟ قدرت کبھی اس ظلم کا بدلہ نہیں لے گی؟ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ میں حیران تھی کہ انھوں نے تو ہمیشہ اپنے بیٹے بہو کی تعریف کی ہے اور یہ بتایا ہے کہ بوجہ ملازمت وہ دوسرے شہر میں رہنے پر مجبور ہے جس کے ٹرانسفر کے لیے وہ دن رات دعائیں کرتی ہیں۔ پھر آج کیا ہوا ؟ تب انھوں نے کہا کہ وہ بہت تھک گئی ہیں، اب مزید جھوٹ ان سے نہیں بولا جاتا۔

انھوں نے اب تک یہ بات اس لیے لوگوں سے چھپائی کہ ان کا بیٹا اور بہو بدنام نہ ہوں۔ جو شادی کے ایک ہفتے کے بعد ہی دوسرے شہر چلے گئے تھے اور قریبی رشتے داروں کے ایک سازشی گروہ نے بڑی زبردست پلاننگ سے ان کے نہایت نیک اور فرمانبردار بیٹے کو نہ صرف ہائی جیک کرلیا بلکہ اس کی بیوی نے اس کی زندگی اس طرح اجیرن کردی ہے کہ دن رات اس سے کہتی ہے کہ وہ تو اس سے شادی ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جب کہ حقیقت یہ تھی کہ انھیں رشتے نہیں مل رہے تھے، لوگ گھر دیکھ پلٹ کر نہیں آتے تھے، مسز فاروق کو لڑکی پسند تھی، لیکن انھیں پتہ نہیں تھا کہ شادی کے بعد اس کی لومڑی جیسی سرشت سامنے آئے گی۔

بیٹا معصوم ہے اور سب سمجھتا ہے، مسز فاروق نے اس سے کہہ دیا ہے کہ وہ اپنا گھر بسائے۔ بیوی ساس سسر سے عید بقر عید پر بھی بات نہیں کرتی، بچوں کی آواز تک دادا، دادی کو نہیں سنانے دیتی، لیکن انھیں کوئی شکایت نہیں کہ وہ تو بس اپنے بیٹے کے لیے فکرمند ہیں جو شادی کے بعد مسلسل عذاب جھیل رہا ہے۔ اگر لڑکی کی ماں چاہتی تو حالات مختلف ہوتے، لیکن اس سارے منظرنامے کا رنگ مسز فاروق کی سمدھن نے بڑی کاریگری سے بھر اہے ، کیونکہ گھریلو عورتوں کو سازشوں میں کمال حاصل ہوتا ہے۔ پھر مسز فاروق کا مرتبہ اور شخصیت بھی لوگوں کو چبھتی ہے۔ پتہ نہیں مائیں بیٹوں کی دعائیں کیوں مانگتی ہیں جب کہ بیٹے تو بڑی آسانی سے ہائی جیک ہوجاتے ہیں۔۔۔۔!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔