کیا آبی گزرگاہوں کا نظام قابل عمل ہے !!!

شبینہ فراز  اتوار 20 مارچ 2016
22 مارچ کو منائے جانے والے عالمی یوم آب کے حوالے سے خصوصی مضمون ۔  فوٹو : فائل

22 مارچ کو منائے جانے والے عالمی یوم آب کے حوالے سے خصوصی مضمون ۔ فوٹو : فائل

عالمی یوم آب 22 مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ اس بار اس کا موضوع ’’پانی اور روزگار‘‘ Water and jobs ….Better water, better jobs ہے۔ یعنی آبی وسائل جتنے محفوظ اور ان کا استعمال جتنا پائے دار ہوگا، لوگوں کا روزگار اتنا ہی محفوظ ہوگا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں کام کرنے والوں کی آدھی تعداد پانی سے متعلق نوکریوں یا کاموں سے وابستہ ہے۔ آب و حیات کے ربط کا فلسفہ انتہائی سادہ لیکن مضبوط اور مربوط بنیادوں پر استوار ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ حیات کے تمام رنگ آب ہی سے نکھرتے ہیں اور سنورتے ہیں۔ تاریخ بھی اسی فلسفے کی تائید کرتی ہے کہ دنیا کی تمام بڑی تہذیبوں نے پانی کے کنارے جنم لیا اور یہیں ارتقا کے مراحل طے کیے۔

ہمیں قدرت نے ایک دو نہیں سات دریا عطا کیے جو اس کی فیاضی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اسی لیے ہم سات دریاؤں کی سرزمین کہلاتے ہیں، یہ دریا ، دریائے سندھ، راوی، چناب، ستلج بیاس، جہلم اور دریائے سرسوتی یا ہاکڑو (گھگر) ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کا نظام قدرت کی فراخ دلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔۔۔۔ لیکن آبی وسائل کا غیردانش مندانہ استعمال، ناقص آبی انتظام اور بدلتے موسموں نے ہمارے آبی وسائل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔

پانی زمین پر زندگی کی ضمانت بھی ہے اور فطرت کے نظام میں توازن کی بنیاد، یہ زندگی کی ہر صورت کے لیے لازم بھی ہے اور ملزوم بھی۔ چھے ارب سے زاید آبادی کے لیے پانی کی طلب دن بہ دن بڑھ رہی ہے اور یہ آبادی کرۂ ارض پر موجود میٹھے پانی کا 54 فی صد استعمال کرجاتی ہے۔ یہ میٹھا پانی70  فی صد زراعت، 22 فی صد صنعتیں ا ور 8 فی صد گھریلو سطح پر استعمال کیا جاتا ہے۔ پانی کے استعمال کے حوالے سے یہ اندازہ لگایا جارہا ہے کہ یہ استعمال 2025 تک ترقی پزیر ممالک میں 50 فی صد اور ترقی یافتہ ممالک میں 18 فی ص بڑھے گا۔ 1.4 ارب لوگ دریاؤں کے بیسن میں رہتے ہیں۔

جہاں پانی کا استعمال اتنا زیادہ ہے کہ زیرزمین پانی کی سطح انتہائی کم ہوگئی ہے۔ یورپ کے 60فی صد شہروں میں پانی کا استعمال اس شرح سے کہیں زیادہ ہے جس شرح سے یہ زمین میں جذب ہوگا۔ 1.8 ارب افراد2025 تک پانی کی کمی کا شکار ہوں گے اور دنیا کی آبادی کا دو تہائی انتہائی کمی کا شکار ہوگا۔ یہ بھی ایک توجہ طلب بات ہے کہ ایک دن میں ایک شخص کی ضروریات پر دو سے چار لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے لیکن اسی فرد کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے صرف ایک کلوگرام چاول حاصل کرنے کے لیے دو ہزار سے پانچ ہزار لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے، جب کہ ایک کلوگرام گندم کے حصول کے لیے تیرہ ہزار سے سترہ ہزار لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان میں صورت حال مختلف لیکن زیادہ ابتر ہے۔ اگر گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو پاکستان کا شمار 2025 تک کم آبی وسائل والے ملک سے انتہائی آبی قلت کے ملک کے طور پر کیا جائے گا۔ زرعی ملک ہونے کے ناتے پانی کا زراعت میں بے تحاشہ استعمال ہے یعنی 93 فی صد زراعت کے لیے، 4 فی صد گھریلو استعمال کے لیے اور بقیہ صنعتی شعبے میں استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ سیلابی پانی صرف ڈیلٹا کے استعمال میں آتا ہے جو ماحولیاتی نظام کے لیے بہتر ہے۔ سیلاب اور خشک سالی اس صورت حال کے عام مظاہر ہیں۔ مون سون کی بارشوں اور گرمیوں میں گلیشیئرز پگھلنے کے باعث دریا میں پانی کی مقدار ربیع کے مقابلے میں خریف کے سیزن میں پانچ گنا زیادہ ہوتی ہے۔

پاکستان کا شمار پانی کے کمی والے اور نیم خشک ممالک میں کیا جاتا ہے۔ یہاں بارشوں کا سالانہ اوسط 240 ملی میٹر ہے۔ آبادی اور دست یاب پانی کے درمیان عدم توازن کے باعث پاکستان کا شمار پانی کی کمی والے ممالک میں کیا جاتا ہے، لیکن اس کی تیز رفتار بڑھنے والی آبادی اسے بہت جلد انتہائی کمی والے ممالک میں لے جائے گی۔

آبادی اور زراعت کا دارومدار دریائے سندھ کے پانی پر ہے، اور گلوبل چینج امپیکٹ اسٹڈی سینٹر (GCISC) کی تحقیق کے مطابق آئندہ پچاس سالوں میں مغربی ہمالیائی گلیشیئرز میں کمی واقع ہوگی جس سے دریا میں پانی اور بھی کم ہوجائے گی، اور اگر ایسا ہوجاتا ہے تو ہمالیائی خطے پر انحصار کرنے والے ممالک کی معیشت، ماحول اور معاشرے پر برے اثرات مرتب ہوں گے۔ مشاہدہ اور تحقیقی نتائج واضح کررہے ہیں کہ پانی کی کمی بدلتے موسموں کے اثرات سے اور بڑھ جائے گی، اور اس کے اثرات معیشت اور معاشرہ، قدرتی آفات میں اضافے کی صورت میں سامنے آئیں گے۔

٭کیا آبی گزرگاہیں مسئلے کا بہتر حل ہوسکتی ہیں !!!

پنجاب حکومت نے دریائے سندھ میں تجرباتی طور پر اٹک اور داؤد خیل کے درمیان 200 کلو میٹر طویل تجرباتی آبی گزرگاہ کے آغاز کے لیے قدم اٹھایا ہے۔ ایک پبلک پرائیویٹ شراکت داری کے ذریعے حکومت پنجاب نے ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ ڈیولپمنٹ کمپنی (TDC) قائم کی ہے۔ کمپنی کا بالواسطہ مشن پورٹ قاسم کو نوشہرہ سے مربوط کرنا ہے۔

اسی حوالے سے ڈاکٹر حسن عباس نے بین الاقوامی ادارے Thethirdpol.net  پر ایک تفصیلی رپورٹ لکھی ہے۔ اس رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ہم نے ڈاکٹر حسن عباس سے بات کی جو پاکستان میں یونیسکو کے سابق چیئرمین اور مشی گن یونیورسٹی سے ہائیڈرولوجی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری یافتہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے،’’یہ پائلٹ پروجیکٹ بظاہر درست سمت میں ایک قدم ہے۔ لیکن حکومت اور ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ ڈیولپمنٹ کمپنی کی بصیرت محدود نظر آتی ہے۔

یہ بصیرت بہت بڑے نظام کے ایک چھوٹے سے حصے تک محدود ہے۔ یہ خواب دیگر شعبوں سے مطابقت نہیں رکھتا، جیسے کہ آب پاشی اور ماحولیات وغیرہ۔ اور اس میں بھارت کی جانب راستہ بناتے ہوئے دریائے سندھ کے مشرقی حصوںکی صلاحیت اور افغانستان کی طرف جاتے ہوئے دریائے کابل کو بالکل نظرانداز کیا گیا ہے۔ شاید حکومت پنجاب نے اب تک آب پاشی کی کارکردگی کے نظام کی مکمل صلاحیت کو افزودہ کرنے کی چابی کو نہیں سمجھا ہے۔‘‘

یہ آبی گذرگاہوں کا منصوبہ ہے کیا؟ ڈاکٹر حسن عباس نے تفصیل کچھ یوں بیان کی،’’دریائے سندھ جیسے طویل اور قابل اعتماد دریائی نظام دنیا میں صرف چند ایک ہیں۔ دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا پاکستان کے بیشتر بڑے شہروں اور بحیرۂ عرب کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہیں، بل کہ افغانستان میں کابل اور اسی طرح گورداسپور اور لدھیانہ جیسے شہروں کو بھی۔ اگر محتاط انجنیئرنگ سے تین ممالک میں کئی شہروں کو بحیرہ عرب سے جوڑنے کے لیے اندرون ملک آبی گزرگاہیں(IIWS) تعمیر کی جائیں تو یہ مغربی چین اور وسطی ایشیا سمیت پورے خطے میں آباد کروڑوں لوگوں کے لیے بہت بڑی اقتصادی ترقی لاسکتی ہیں۔

تاریخی اعتبار سے ایسے ممکنہ مواقع برطانوی راج کے زمانے سے موجود رہے ہیں۔1869 میں نہرسوئز کی تعمیر کے ساتھ ہی برطانیہ نے کراچی میں بندرگاہ تعمیر کی۔ اندرون ملک سڑکوں اور ریلوے کے ذریعے نقل و حمل کے ذرائع کو بہتر بنایا اور دریائے سندھ میں اسٹیمر سروس شروع کی۔ ایک طرف تو مون سون کے موسم کو چھوڑ کر، دریا کا پانی سمندر میں جانے کے لیے بالکل بھی نہیں یا بہت کم دست یاب ہے ۔

اگرچہ دریائے سندھ میں بین الشہر رابطہ نہروں کی تجاویز پیش کی گئی تھیں، لیکن برطانوی انجنیئرز نے آب پاشی کی نہروں کی تعمیر میں زیادہ اقتصادی صلاحیت کو محسوس کیا، جب کہ ریلوے کی ترقی کے ذریعے اندرون ملک نقل و حمل کو ممکن بنایا۔ دریائے سندھ کو آب پاشی کی نہروں میں تبدیل کردیا گیا تھا، جسے اب دنیا کے سب سے بڑے آب پاشی کے نظام کے طور پر جانا جاتا ہے (سندھ طاس آب پاشی کا نظام) اور پھر دریا خشک ہوتا چلا گیا۔‘‘

آبی گزرگاہوں کے منصوبے پر ماحولیاتی ماہرین نے کچھ خدشات بھی ظاہر کیے ہیں۔ اس حوالے سے ساحل کے رہائشیوں کے بارے میں خدشات شامل ہیں جو کہ دریائی ٹرانسپورٹ کی آلودگی، دریائی مٹی کی کھدائی اور ناہمواری کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔ ناقدین میں ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت بھی شامل ہیں جس نے ایندھن پر اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ تاہم اگر آبی گزرگاہوں کو مسائل سامنے رکھتے ہوئے اور ان کا سدباب کرتے ہوئے بنایا جائے تو وہ حقیقی معنوں میں ایکو سسٹم کو بحال رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

٭زرعی کارکردگی کی امید

بہرحال امید کی کرن باقی ہے۔ سندھ طاس کے نظام میں آب پاشی کی کارکردگی دنیا میں سب سے کم ہے۔ یہ امریکا کی امپیریل ویلی کے مقابلے میں صرف نصف ہے اور وادیٔ نیل کے مقابلے میں دو تہائی ہے۔ موثر آب پاشی آدھے پانی کو دریاؤں کی جانب موڑے جانے سے بچاسکتی ہے۔ یہ اقتصادی دانش مندی ہوگی۔ اگر پانی کو کارکردگی کے ذریعے محفوظ کیا جائے تو زیادہ منافع کا باعث بن سکتا ہے۔

ایک مکمل طور پر موثر آبی گزرگاہوں کا نظام ممکنہ طور پر خطے میں کروڑوں افراد کی خدمت کرے گا اور آب پاشی سے سیراب زراعت کی موجودہ حصے سے کہیں زیادہ جی ڈی پی میں اپنا حصہ ادا کرے گا۔ لیکن IIWS زراعت کا متبادل تو نہیں ہوگا بل کہ یہ زرعی پیداوار میں اضافہ کرے گا۔ آب پاشی کی کارکردگی میں بیسن پیمانے پر سرمایہ کاری اقتصادی دانش مندی ہوگی۔ موجودہ آب پاشی ٹیکنالوجی کے استعمال سے کارکردگی کو دگنا کیا جاسکتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں نہری نظام اور چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت سے دنیا کے دیگر ممالک مثلا مصر، ترکی اور ایران وغیرہ سے کم ہے۔ اس صلاحیت میں اضافے کی غرض سے فصلوں کے لیے معیاری بیجوں کا استعمال، کھیتوں میں آب پاشی کے جدید اور کم خرچ طریقے مثلاً فوارہ اور قطرہ آب پاشی وغیرہ سے پانی کا ضیاع کم کیا جائے گا۔  اسی طر ح چھوٹے ڈیموں کی پیداواری صلاحیت کے ساتھ ساتھ، مقامی افراد کے شراکتی منصوبوں سے پانی کی مقدار میں اضافہ اور ساتھ ہی حیاتیاتی تنوع اور جنگلی حیات کے لیے بھی ماحول بہتر بنایا جاسکے گا۔

اس وقت دنیا بھرکی نظریں ہمالیائی خطے کے ممالک اور ان کے آبی وسائل پر مرکوز ہیں۔ یہ خطہ اپنے آبی وسائل کے حوالے سے دنیا بھر میں ایک منفرد اہمیت کا حامل ہے۔

دنیا کے کئی اہم ترین دریا اسی خطے کی پگھلتی برف سے رواں دواں رہتے ہیں۔ اس خطے کے دریائی علاقوں کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان، افغانستان، بنگلادیش، بھوٹان، انڈیا، چین اور نیپال شامل ہیں۔ دنیا کی 21 فی صد آبادی ان ہی ملکوں میں آباد ہے۔ یہی خطہ دیگر جنوبی ایشیائی دریاؤں کے ساتھ ساتھ دو بڑے دریا یعنی عظیم دریائے سندھ اور برہم پترا کا منبع بھی ہے۔ ہمالیہ سے پھوٹتے پانی کے یہ سرچشمے یعنی برہم پترا، گنگا، سندھ، میگھنا 1.5بلین یعنی ڈیڑھ ارب لوگوں کی زندگیوں کو رواں دواں رکھتے ہیں۔ وقت کی ضرورت ہے کہ اس خطے کے لوگ اور حکومتیں مشترکہ طور پر ایسے اقدام کریں جس سے اس علاقے کے آبی وسائل مزید منظم ہوں۔

٭ایک مکمل نظام کے امکانات لامحدود ہیں
ایک مکمل طور پر آبی گزرگاہوں کا نظام پاکستان کے تمام بڑے شہروں کو بھارت اور افغانستان کو منسلک کرنے ساتھ وسطی ایشیائی اور مغربی چین کے اقتصادی مفادات کا تحفظ کرے گا۔ خالصتاً اقتصادی فوائد کے علاوہ دیگر مثبت نکات بھی ہیں ۔ مثلاً اگر پانی کی طلب کم کردی جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی سے متعلق کشیدگی کم ہوسکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان اور افغانستان کے درمیان بھی تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔

موثر آب پاشی کا نظام زمینی کٹاؤ، آلودگی کو روکنے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافے میں مددگار ثابت ہوگا۔ دریاؤں میں پانی کی فراوانی سے انڈس ڈیلٹا کا ماحول ترقی کرے گا جس سے ایکو ٹورزم کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ یہ تمام شعبے اقوام متحدہ کی پائے دار ترقی کے اہداف کو بہت اچھی طرح سے پورا کریں گے، جس سے ملک کو ان اہداف کے حصول یا اس سے بھی آگے بڑھ جانے میں مدد ملے گی۔ جیسا کہ موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے تحت قومی سطح پر مطلوبہ شراکت کا تعین کیا گیا ہے۔

اندرون ملک آبی گزرگاہوں کی ترقی دریاؤں میں ضرورت کا پانی واپس لانے کے لیے معاشی طور پر قابل عمل طریقہ ہے اور اسی میں معیشت اور ماحولیات دونوں کی جیت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔