گریباں کا پرچم

لیاقت علی کُرد  اتوار 11 نومبر 2012
لیاقت علی کُرد

لیاقت علی کُرد

موجودہ حکومت لوگوں کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے کی ذمے داری سے آہستہ آہستہ جزوی دستبرداری کا اعلان کر رہی ہے۔

اس دستبرداری کی وجہ سے ریاست کا آئینی وعدے سے انحراف سامنے آتا ہے جو’’روسو ‘‘کے ’’معاہدہ عمرانی‘‘ کے مطابق ریاست اور شہریوں کے درمیان تاریخی وجود رکھتا ہے ۔جس کے نتیجے میں ایک فریق کے معاہدے کی خلاف ورزی کے بعد دوسرے پر اطاعت کی پابندی نہ لاگو ہوتی نہ لازم قرار پاتی ہے۔لہذا اگرریاست تعلیم،صحت،تحفّظ،امن اور روٹی جیسی ضروریات عوام کو فراہم نہیں کرسکتی تو عوام پر بھی فرض لاگو نہیں ہوتا کہ وہ ٹیکس دیںاور ریاستی قانون کی پابندی کریں۔ یہی شعوری بیداری تھی جو فرانسیسی انقلاب کی بنیاد بنی اور یہی وہ خیال ہے جو اس کالم میں دوبارہ کسی حوالے سے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اگر ہم اردگرد کا جائزہ لیں تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم ’’ہابس‘‘ کی فطری ریاست میں رہ رہے ہیں جس میں’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والا راج ہے۔ جمہوریت کا راگ الاپنا اور اس کو درپیش خطرات کا واویلا کرنا جیسے ایک سیاسی تسبیح بن چکی ہے جس سے نااہل حکمران اپنی کرسی بچانا چاہتے ہیں ۔مگر پسِ پردہ عوام پر مہنگائی ، غربت ،مفلسی ، کٹوتیاں مسلط کرنا کسی طور ریاستی حکمرانوں کے لیے اقتدار کا جواز نہیں چھوڑتا۔ ایک انسان کو بیوقوف بنانا یا چند انسانوں کو کچھ وقت کے لیے بیوقوف بنانا آسان ہو سکتا ہے مگر سب انسانوں کو ہمیشہ کے لیے بے وقوف بناناناممکن ہے ۔ہم پر کس قسم کی جمہوریت مسلط ہے اس کا تجزیہ ہمیں یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ پارٹیوں پر آمر مسلط ہیں جن کی حکومت کو بے وردی آمروں کی حکومت ہی کہا جاسکتا ہے۔سیاسی جمہوریت آج تک یہاں نا پید ہے۔

سینیٹ ایک قسم کا دارالامراء ہے جو ہر حوالے سے زیادہ سیاسی طاقت کا حامل ادارہ ہے جو کم آبادی، زیادہ دیہی اور سیاسی طور پر پسماندہ علاقوں میں طاقت رکھتے ہیں اور بالواسطہ عوامی رائے دہی سے نہیں آتے اوریہ کہنے کی ضرورت نہیںکہ ان کا مقصد صرف اور صرف وزراء کی خوشنودی اور بعد میں ان کے احسانات کا بوجھ اتارنے کے ساتھ اپنے پیسے سود سمیت واپس حاصل کرنا ہی ہوتا ہے۔آج کے دن تک عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق نہیں ملے۔ہر جگہ ہر ادارے میں بیمار ذہن بے ضمیر لوگوں کا راج ہے جن کا مقصد صرف اور صرف اپنی جگہ پر قابض رہ کر استحصال کرنا ہے۔ حقیقی جمہوریت کا یا تو اربابِ بے اختیار کو معلوم ہی نہیں یا وہ چاہتے ہی نہیں کہ جمہوریت کی نشوونماء ہو۔اگر عوامی شعور پر کام کیا جاتا ان کی طاقت اور ووٹ کا صحیح استعمال ہوتا تو آج آمریت کی طرح جمہوریت بھی دم نہ توڑ رہی ہوتی۔

امریکا کے صف اوّل کے سوشل فلاسفر جا ن ڈیوی ہیں۔ ان کا تحقیقی اور بنیادی کام جمہوریت پر ہی ہے۔ اس نے بارہا ایک نقطہ اُٹھایا ہے جسے وہ صنعتی جاگیرداری کہتا ہے جس کا تہرا قبضہ ہے نجی طاقت ،پیداواراور معیشت پر ، اور وہ کہتا ہے کہ ان کے ہوتے ہوئے جمہوریت بہت محدود رہے گی اگر ہمیں بہتر جمہوریت چاہیے تو ہمیں صنعتی جمہوریت کی جانب پیش قدمی کرنا ہوگی ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیاست کیسے ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے جسکا تحفظ اسمبلیاں کرتی ہیں۔قبائلی و دیہی وسیاسی یا صنعتی اجارہ داری سرداری جاگیرداری کے کوکھ سے جنم لینے والی جمہوریت بھی کیا جمہوریت ہے؟

کیا ہماری سیاست و معاشرت محض اصطلاح کی شعبدہ بازی نہیں؟ کیا ہم انسانی تاریخ کے سب سے بہترین انتظامی نظام یعنی جمہوریت کے بارے میں بس اتنا ہی جانتے ہیں کہ اگرحکمران سول وردی میں ملبوس ہو تو جمہوریت اور فوجی وردی میں ہو تو آمریت ہے۔ آج کل جو بھی خطرہ یا مسئلہ حکمرانوں کو خوفزدہ کرے توجمہوریت کا رونا روتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ان لوگوں نے کیا کبھی حقیقی کلاسیکل جمہوریت کو پنپنے دیا ،کبھی سنجیدگی سے اس کی آزادی کے لیے کام کیا؟

جب بھی عوام اپنے مسائل کی بات کرتے ہیں تب یہی کہا جاتا ہے کہ جمہوریت (جو جمہوریت ہے ہی نہیں) کو وقت دیں ۔ ٹھیک ہے وقت ہی وقت ہے مگر اپنے روتے ہوئے بچوں کو کوئی جمہوریت کھلائے گا یا بڑھتی ہوئی بیروزگاری میں بے فیض جمہوریت نوجوان کے بوڑھے باپ کا سہارا بنے گی۔ تعلیم جو سب کا حق ہے ، روزگار و نوکری جو سب کو میسّر ہونا چاہیے آج ایک مرتبہ و اعزاز بن گئی ہے۔ انفرا سٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔کرپشن اپنے عروج پر ہے مہنگائی ہے۔ تاہم حکومت اور اس کے ادارے ایسا تاثر دے رہے ہیں جیسے اس لنگڑی لولی جمہوریت کے اِن چیمپینوں کے خلاف اور موجودہ حکومت کے خلاف بات کرنا بھی گناہِ کبیرہ ہے۔ وہ جمہوریت اور پارٹیاں حقوق کی ترجمانی و پاسبانی کیسے کرے گی جن کا اپنا ہی وجود غیر محفوظ ہو۔ لگتا ہے استحصالی طبقہ ایسی گاڑی میں سوار ہے جس کے ایک طرف آمریت کا پہیّہ ہے تو دوسری طرف جمہوریت کاجس کا ایندھن عوام کا خون ،امنگیںخواب ہی ہیں جسکی سڑک کو طبقاتی نظامِ تعلیم اور استحصالی نظامِ زر سے منوّر کیا گیا ہے ۔

آج پوری دنیا میں اپنے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں ۔توانائی کے بحران کے سوال پر اسے عالمی مسئلہ کہہ کر اپنی جان چھڑانے والے حکمران اتنے بھی اَنجان نہیں ہونگے کہ انھیں عظیم عالمی جمہوری ملکوں میں برپا طوفانوں کا علم نہ ہو۔لگتا ہے حکمرانوں کو اقتدار کی چکا چوند روشنی نے کوتاہ بین کردیا ہے۔ کیا عظیم رومن جمہوریت کا اختتام اس لیے ہوا تھا کہ طاقت سمٹ کر چند ہاتھوں میں آگئی تھی۔ انھیںامریکا ، برطانیہ ، روس،یونان ، چلّی،مشرق وسطیٰ کی اسرائیل اور دوسرے عالمی ملکوں میں لاکھوں کا مجمع نظر نہیں آتا جو جمہوری حکومتوں کے ہی خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ لوگ اپنے حقوق اور ضروریات کے تحفّظ کے لیے سڑکوں کو آباد کر رہے ہیں۔ دوست ملک چین سے مدد کی امید کہ وہ مسائل حل کریگا ایک خام خیالی ہے اس کی ترقّی کے گُن گانے والوں کو لگتا ہے پتہ نہیں سالانہ وہاں ہزاروں مظاہرے ہوتے ہیں۔

امریکی قراردادِ آزادی کا ہی ایک اقتباس ہے کہ’’جب بھی جس بھی قسم کی حکومت ہو اگر عوام کو خوشحالی نہیں دے سکے تو یہ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے لیے کسی بھی جائز راستے کا انتخاب کریں۔‘‘ بچپن سے جوانی اور پوری زندگی اطاعت ہی اطاعت سکھائی جاتی ہے ، چاہے مدرسہ ہو یا اسکول ، گھر یا آفس یا معاشرہ یہ بغاوت کی بہن اطاعت آخر کہاں ہمارے ساتھ نہیں۔اس کے ساتھ زبردستی اَرینجڈ میرِج کہاں کہاں نہیں کرائی جارہی ۔مگر جس دن تبدیلی سے محروموں کو عقیدت ہوگئی ۔ تو محبت میں سب جائز ہے کہہ کر دیوانے اپنے گریبان کا پرچم لے کر چار سو سنّاٹے کو چیر کر باہر نکلیں گے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔