نیب کے پر کاٹنے سے بہتر ہے اسے ختم ہی کر دیا جائے (3)

رحمت علی رازی  اتوار 20 مارچ 2016

یہ نیابت ِ عمریؓ کی طینت کا خمیر تھا جو خلیفۂ دوئم حضرت عمر فاروق ؓ کی اصل و افتاد میں مضمر تھا کہ آپؓ نے اقتدار پرستی کے بجائے خلافت ِ تزکیہ کی تحریک کو جلا بخشی اور اعلان فرمایا: ’’خدا کی قسم اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مر جائے گا تو قیامت کے دن عمر ذمے دار ہو گا‘‘۔ آپؓ نے گویا یہ اُصول مرتب فرما دیا کہ غربت و افلاس کا مداوا کرنا حاکمِ وقت کی بنیادی ذمے داری ہے۔ حکومتِ وقت کا یہ اولین فریضہ ہے کہ وہ اپنی زیر فرمان رعایا کے رزقِ مقدور کے لیے شغلِ معاش کا اہتمام کرے‘ اپنی معیشت کو دستاویزاتی بنائے‘ ٹیکس چوروں سے دستِ آہن کے ساتھ نمٹنے کے لیے ٹیکس وصولی کا خودکار اور منظم نظام وضع کرے۔ ٹیکس وصولیوں کے بعد اخراجات کی مد میںکی جانے والی ادائیگیوںکی شکل میں وسیع تر پیمانے پر موجود کرپشن کا ہنگامی بنیادوں پر سخت گیری سے خاتمہ بھی حاکمِ وقت کا فرضِ منصبی ہے۔

پاکستان کا ہر فرد، خواہ وہ حکومت میں ہے، اپوزیشن میں ہے، رعیّت میں ہے، وزیر ہے، سفیر ہے، سیکرٹری ہے یا صحافی ہے، ہر جگہ بیٹھ کر یک زبان ہو کر علیٰ الاعلان یہی کہتا ہے کہ کرپشن اُم لامراض ہے‘ یہ عارضہ ہماری مجموعی تباہی، غربت زدگی اور مقروضیت کا اصل سبب ہے اور یہی شیوۂ کار وطنِِ عزیز کے لیے باعث ِننگ بھی ہے۔ اب تو کرپشن ہمارے ہاں اعزاز کا درجہ حاصل کر چکی ہے کہ حکومت بھی ریکارڈ پر کہتی ہے صرف ایک سال میں دبئی میں پاکستانیوں نے 435 ارب روپے کی خطیر رقم کی جائیدادیں خریدی ہیں۔ خودہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر ڈنکے کی چوٹ پر فرمایا کہ پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر صرف سوئٹزرلینڈ کے بینک اکاؤنٹس میں پڑے ہوئے ہیں۔

سوئٹزر لینڈ نے اس بابت اب قانون بھی بنا دیا ہے جسکے تحت امریکا اور انڈیا نے اپنی لوٹی ہوئی دولت واپس حاصل کرنے کے لیے کارروائی کی اور اپنی زرِ مسروقہ بازیاب بھی کی جب کہ ہمارے وزیر خزانہ صاحب نے صرف تسلیم کیا لیکن کارروائی اس لیے نہیں کی تا کہ مہا کلاکار حضرات کو اپنا غبن شدہ سرمایہ سوئٹزر لینڈ سے کسی اور محفوظ ملک میں منتقل کرنے کا موقع مل جائے‘ اب تک تو یقینا یہ کام کافی حد تک ہو بھی گیا ہو گا۔

ہمارے معاشرے میں ایسے اصحابِ مصاف کی کمی نہیں جو کرپشن اور اس کی تباہ کاریوں کا تو مسلسل راگ الاپتے رہتے ہیں لیکن نظام میں موجود اس کام کی نشاندہی کے لیے غور و خوض یا تدبر و تفکر کی توفیق کبھی کسی محب ِ وطن کو نہیں ہوتی تا کہ عملی طور پر کرپشن کا تدارک کیا جا سکے۔ کہنے کو تو سابقہ چیئرمین نیب ایڈمرل فصیح بخاری نے بھی ایک بار ازراہِ تذکرہ فرما دیا تھا کہ پاکستان میں روزانہ 8 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ بھئی اگر ہو رہی تھی تو آپ چیئرمین نیب کی سیٹ پر بیٹھ کر کیا جھک مار رہے تھے؟ اس کی وجہ بھی بلاشبہ سیاسی مصلحت ہی رہی ہو گی۔ یہ کہنا ہر چند غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کے ایسے مالِ غنیمت سے ایک نیا پاکستان تعمیر ہو سکتا ہے جو کرپشن کی بدعت ِ حسنہ سے جمع کیا گیا ہے۔

اس کی توجیہہ یہ ہے کہ نیب نے 2015ء میں ایف بی آر میں کرپشن ختم کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ’’انسدادِ بدعنوانی کمیٹی‘‘ تشکیل دی جس نے اپنی سفارشات مرتب کر کے عمل درآمد کرنے کے لیے جمع کروائیں، جن کے مطابق ان پر عملدرآمد سے 1800 ارب روپے کے ریونیو میں اضافہ ہو جانے کا تخمینہ ہے۔ 1800 ارب کی بجائے 800 ارب روپے کا بھی اگر اضافہ ہو جائے تو ہمارے خیال میں یہ پاکستان کے بنیادی مسائل اور بھوک کے خاتمے کا طلسمی حل ہو گا۔ کرپشن کی وجہ سے ڈالر 100 سے اوپر اور بیرونی قرضہ 68.55 بلین ڈالر ہو گیا ہے جس پر ہم 800 ارب روپے صرف سود کی مد میں سالانہ ادا کرتے ہیں‘ 60.475 بلین کا اندرونی قرضہ اس کے علاوہ ہے‘ یہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار ہیں۔

یہ سارا قرضہ اور اس پر واجب الادا سود سابقہ حکومتوں کی کرپشن کا خراج ہے جو ہم ہر طلوع ہونیوالے دن میں ادا کر رہے ہیںجس سے ہماری پوری قوم کا مستقبل گروی ہوا پڑا ہے۔ ہر آنیوالی حکومت کو یہ بات کبھی ذہن نشین نہیں ہوئی کہ وہ کرپشن ختم کریگی تو فنڈز وافر مقدار میںمیسر آئینگے جن سے ڈیم بنیں گے، سستی انرجی میسر آئیگی، صنعتوں کا پہیہ چلے گا، روزگار بڑھے گا، آمدنی میں اضافہ ہو گا، معیارِ زندگی بلند ہو گا، آمدنی سے سیونگز (بچتیں) بھی بڑھیں گی جن سے مزید سرمایہ کاری ہو گی جس سے روزگار پیدا ہو گا اور خوشحالی کا یہ سرکل چلتا اور پھیلتا جائے گا۔ اسی طرح جب صنعتوں کا پہیہ گردش کریگا تو پیداوار بھی بڑھے گی اور ایکسپورٹ میں روز افزوںاضافہ ہو گا جسکے عوض ڈالر کی پاکستان میں آمد زیادہ سے زیادہ ہو گی۔

جس قدر ایکسپورٹ بڑھ کر امپورٹ سے زیادہ ہو گی اسی قدر ڈالر بھی ملک میں زیادہ ہو جائے گا اور ڈالر کی قیمت میں بتدریج کمی ہوتی جائے گی، جس سے غیرملکی قرضہ کم ہوتا جائے گا، بدیں وجہ سالانہ ادا کیا جانے والا سود 800 ارب روپے سے کم ہوتا جائے گا اور وہی اربوں روپے کی خطیر رقم عوام کی صحت، تعلیم اور بھوک مٹانے کے لیے میسر آ جائے گی۔ قصہ مختصر یہ کہ خوشحالی کا خواب دیکھنے کے لیے کرپشن کا خاتمہ ازحد ضروری ہے۔

نیب نے ایف بی آر کے ضمن میں انسدادِ بدعنوانی کمیٹی کی جاری کردہ تجاویز چیئرمین ایف بی آر و دیگر متعلقہ محکمہ جات کو ارسال کر کے بہت ہی مستحسن اقدام کیا ہے جس کے لیے چیئرمین نیب مبارکبادکے مستحق تو ہیں لیکن جناب! اس پر عملدرآمد کرنے اور معیشت کو دستاویزاتی بنانے کے لیے حضور نے کوئی پیروی تو کی ہی نہیں‘ کیا اس کے لیے آسمان سے فرشتے اتریں گے؟ جب 17 سال پہلے مشرف آیا تھا تو یہ باتیں تو اس نے بھی کی تھیں۔ رپورٹ پر عملدرآمد کروائے بغیر ہم تو اسے محض خانہ پری ہی شمار کرینگے۔ اگر یہی تجاہلِ عارفہ رہا تو کوئی بعید نہیں کہ حکمران جماعت اور حزبِ اختلاف کے سیاسی مجاہدین نیب کے پر کاٹنے کے لیے دستوری قینچیاں لے کر بے رحم صیادوں کا روپ دھارے گلستانِ پارلیمان میں خیمہ زن ہو جائینگے جو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ نیب کے رویے سے سرمایہ کار بھاگ جائینگے‘ صرف چوکیدار رہ جائینگے۔

یہ سارا پروپیگنڈہ بے بنیاد اور غیر منطقی اس لیے ہے کہ یہ سب کچھ کہتے ہوئے سیاسی مجاور بھول جاتے ہیں کہ 265 بلین روپے کی خطیر رقم کی ریکوری نیب کے افسران نے کروائی ہے، کوئی آسمان سے تو نہیں گری۔ کئی سو ملزمان کو نیب کے افسروں نے نہ صرف آزاد احتساب عدالتوں سے سزا دلوائی بلکہ یہ ہائیکورٹس اور سپریم کورٹ تک سے ان کی سزائیں بحال بھی رکھوائیں اور ان مجرمان نے سزائیں بھگتیں بھی۔ صرف پنجاب بینک کے ہمیش خان کیس میں نیب کے افسران نے اپنی جانیں ہتھیلی پہ رکھ کر شیخ افضل، سیٹھ یعقوب  سے 9 ارب کی خطیر رقم برآمد کر کے قومی خزانے میں جمع کروائی جسکا ٹرائل بھی تسلی بخش طریقے سے احتساب عدالت لاہور میں چل رہا ہے۔ لاہور ماس ٹرانزٹ فراڈ کیس میں ملزمان نے 40 کروڑ کی  رقم کا غبن کیا تو نیب نے نہ صرف 32 کروڑ روپے کے اثاثہ جات ضبط کروا دیے بلکہ ملزمان کو 14-14 سال کی سزائیں بھی دلوائیں۔ ’بی ڈی اے‘ کے جی ایم بسم اللہ کاکڑ سے نیب نے 35 کروڑ روپے پلی بارگین کے تحت وصول بھی کیے اور انہیں نوکری سے بھی فارغ کروایا۔

اسی طرح نیب بلوچستان نے صرف ایک کیس میں عبدالستار لاسی سے 42 کروڑ روپے پلی بارگین کے تحت وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کروائے۔ حال ہی میں جنرل (ر) زاہد علی اکبر چیئرمین واپڈا سے 20 کروڑ روپے کی پلی بارگین منظور کی گئی ہے۔ پنجاب بینک کے 62 ارب روپے ڈوب گئے تھے جن کے کیسز صرف نیب قانون کے تحت نیب میں زیر التوا ہیں۔ معاملات ابھی ہائیکورٹ کے لارجر بنچ کے پاس زیرالتواء ہونے کی وجہ سے رُکے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر نیب جیسا ادارہ بھی نہ ہوتا تو پنجاب بینک کب کا دیوالیہ ہو کر بند ہو گیا ہوتا۔ عوام الناس کے ساتھ وسیع تر پیمانے پر فراڈ ایک ظلم عظیم ہے جس کی دادرسی صرف نیب ہی کے قانون کے تحت ہوتی ہے‘ بصورت دیگر لُٹے پٹے  عوام کے پاس کوئی اور سہارا نہیں ہے۔

صرف ایک ڈبل شاہ کیس میں پانچ ارب روپے کی رقم کی وصولی اور واپسی ہوئی جس سے کئی گھروں کے چولہے اور چراغ روشن ہوئے۔ اسی طرح شہداء کی بیواؤں اور عوام کے 20 ارب روپے حماد ارشد کے ایڈن گروپ نے غتربود کر دیے جسے نیب قانون کے تحت صرف نیب نے ہی گرفتار کیا جو کہ عوام کے لیے اُمید کی ایک کرن ہے۔ جعلی ہاؤسنگ سوسائٹیوں، جعلی کمپنیوں، مضاربہ، مشارقہ اسلامی سرمایہ کاری کے نام پر اربوں روپے کی رقوم لوٹنے کا سلسلہ پاکستان میں عام ہے۔ صرف راولپنڈی اسلام آباد میں مفتی احسان گروپ نے عوام کے 25 ارب لوٹ لیے۔ ان ملزمان کو نیب نے گرفتار بھی کیا ہے‘ ریکوری بھی کی اور لوگوں کو لوٹائی بھی ہے۔

(بقیہ صفحہ17پر)

نیب کے پی کے کے سربراہ سلیم شہزاد نے پشاور میں احتساب کی اعلیٰ مثالیں قائم کی ہیں‘ اسلحہ خریداری کیس میں ملک نوید کو گرفتار کر کے کروڑوں روپے کی کرپشن ثابت بھی کی، برآمد بھی کی‘ اس میں امیر حیدر ہوتی کا بھائی غزن ہوتی اور اس کا برادر نسبتی رضا علی خان بھی ملوث پایا گیا جس نے 23 کروڑ روپے پلی بارگین کے تحت واپس کیے۔ فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ایم ڈی ارشد خان لٹے پٹے آئی ڈی پیز کے فنڈز غبن کرنے کے جرم میں چند روز قبل گرفتار ہوا۔

انتہائی افسوس کی بات ہے جہاں قوم مردہ جانوروں کا گوشت بیچ رہی ہے‘ جان بچانے والی ادویات میں ملاوٹ کر رہی ہے‘ بارود بیچ رہی اور لوگوں کو اغوا و بیہوش کر کے گردے چوری کر رہی ہے‘ یہاں تک کہ خون کی ایک بوتل میں نمکیات شامل کر کے دو بوتلیں بنا کر بیچ رہی ہے‘ لوگوں کی بچیوں کو اغوا کر کے دوسرے شہروں میں لیجا کر بیچ رہی ہے، وہیں پر انتہائی شرم و افسوس کی بات ہے کہ تباہ حال زلزلہ زدگان اور سیلاب زدگان کی امداد بھی کھا جاتی ہے اور کانوں میں دب کر بلاک ہو جانے والے غریب مزدوروں کے یتیم بچوں اور بیواؤں کو ملنے والی امدادی رقوم بھی ڈکار جاتی ہے۔

حال ہی میں بلدیہ ٹاؤن کراچی میں 250 افراد کو زندہ جلا کر ہلاک کر دینے کے قبیح واقعہ کی تفتیش کرنیوالی اعلیٰ سطحی جے آئی ٹی نے رپورٹ دی کہ ایک تو ایم کیو ایم کے افراد نے ان افراد کو زندہ جلا دیا، دوسرا یہ ظلم کیا کہ ان کے یتیموں کو ملنے والی امدادی رقوم بھی ہڑپ کر گئے۔ کیا ایسے ملک اور ایسے حالات میں نیب جیسے اداروں کو بند ہو جانا چاہیے؟ یہی نہیں‘ نیب پشاور نے پی اے کے گھر چھپایا ہوا 5 کلو سونا بھی برآمد کیا۔ سید معصوم شاہ نے 26 کروڑ روپے واپس کرنے کی پیشکش کی جو کہ جج نے رَد کر دی۔

اسی طرح نیب پشاور نے اسلحہ سکینڈل میں ملوث اکاؤنٹس آفیسر کے گھر چھاپہ مار کر ایک نئی پیک کی گئی واشنگ مشین کے اندر کیش اور جیولری برآمد کی۔ نیب پشاور کے مثالی ڈی جی نے جو سب سے زیادہ مستحسن کام کیا وہ یہ کہ انھوں نے ورکرز ویلفیئر بورڈ میں وسیع تر کرپشن کا نہ صرف سراغ لگایا بلکہ انتہائی کامیابی سے مزدوروں کے حقوق پر ڈاکے ڈالنے والے ظالموں کو قانون کے کٹہرے میں بھی لے کر آئے۔ انھوں نے پشاور میں نیب کے لیے گرانقدر خدمات انجام دی ہیں اور کرپشن کو کافی حد تک کنٹرول کر لیا ہے۔ نیب کے افسران کے کافی تسلی بخش کارنامے ہیں جن کا کالم کی حدود وقیود کی وجہ سے تذکرہ نہیں کیا جا سکتا۔

محدود ذرایع، محدود آزادی، غیررسمی بلیک مارکیٹ، معیشت کے غیردستاویزاتی ہونے اور ہنڈی والوں کے بے خوف و خطر رقوم ملک سے باہر ٹرانسفر کرنے کے باوجود نیب والوں کی کامیابیاں قابلِ ستائش ہیں۔ نیب کو یو این او میں بھی بنیادی اینٹی کرپشن ادارے کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ نیب کے ادارے کے خلاف میڈیا پر یہ بھی منظم اور بے بنیاد پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ نیب گرفتار پہلے کرتی ہے اور ریفرنس بعد میں داخل کرتی ہے۔

یہ سب کچھ کہنے والے دیدہ دانستہ ایسا مذموم پراپیگنڈہ کر رہے ہیں حالانکہ ان کو بخوبی علم ہے اور عوام کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ دُنیا کے تمام تفتیشی ادارے بشمول پنجاب پولیس، ایف آئی اے، اے این ایف، اینٹی کرپشن، انڈیا کی سی بی آئی، ایف بی آئی وغیرہ پہلے شکایت کے مندرجات کی تصدیق کرتے ہیں جب کہ بعد ازاں انکوائری کرنے کے بعد ایف آئی آر کاٹتے ہیں۔ نیب میں ایف آئی آر کے کاٹنے کو تفتیش تفویض کرنا کہتے ہیں۔ تفتیش کے دوران ملوث ملزم کو گرفتار کیا جاتا ہے‘ اس کی نشاندہی پر چھپائے ہوئے دستاویزاتی ثبوت، مالِ مسروقہ، غبن شدہ رقوم اور ان کے نتیجے میں خریدا گیا سونا، جیولری، چیک بکس اور خریدے گئے اثاثہ جات کی رجسٹریاں اور ملکیتی ثبوت، جعلی مہریں، لیٹر پیڈ، جعلی چھپی ہوئی رسیدیں وغیرہ بازیاب کر کے قبضۂ قانون میں لے کر عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دی جاتی ہیں‘ پھر چالان یعنی ریفرینس مرتب کیا جاتا ہے اور احتساب عدالت میں پیش کر دیا جاتا ہے۔

تلاشی لینا تفتیش کا سب سے بنیادی جزو ہے۔ شِق 100(4) ضابطہ فوجداری 1898ء کے تحت تفتیشی افسر اگر ضروری سمجھے تو بغیر سرچ وارنٹ حاصل کیے کسی بھی بلڈنگ کی تلاشی لے سکتا ہے۔ اگر وہ یہ سمجھے کہ عدالتی وارنٹ حاصل کرنے کے وقت سے ثبوت غائب نہیں ہو گا تو وہ سیکشن 93 ضابطہ فوجداری کے تحت متعلقہ عدالت سے کیس سے متعلقہ ثبوت بازیاب کرنے کے لیے سرچ وارنٹ حاصل کر کے تلاشی لے سکتا ہے۔ اگر تفتیش کے عمل کو تفصیل میں دیکھا جائے تو بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پچاس فیصد تفتیش تو صرف تلاشی ہی ہے کیونکہ تلاشی سے ہی جعلی مہریں، جعلی کاغذات، فائلیں، چیک بکس، ڈیپارٹمنٹل سلِپس، غبن شدہ کیش، جیولری، رجسٹریاں، جائیدادوں کے ملکیتی کاغذات ملتے ہیں جو کہ عدالت میں کیس کا ثبوت اور ریکوری کا باعث بنتے ہیں‘ اس لیے حکومتِ وقت کا نیب کی تلاشی کے عمل پر تنقید بدنیتی پر مبنی مذموم پروپیگنڈا ہے۔

بعینہٖ سیاستدانوں کا یہ پروپیگنڈا بھی بدنیتی پر ہی مبنی ہے کہ نیب زیادتیاں کرتی ہے، غلط کیس بناتی ہے اور شریف لوگوں کو تنگ کرتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نیب کے تمام اختیارات اور کام پر سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کا کنٹرول ہے۔ ہائیکورٹ براہِ راست نیب کے خلاف دائر ہونے والی تمام رِٹ پیٹیشنز کی بروقت سماعت کرتی ہے۔

اکثر ملزمان تو گرفتاری سے قبل ہی عدالت میں پہنچ جاتے ہیں کہ جناب نیب بدنیتی کی وجہ سے ہم پر غلط کیس بنا کر غلط طور پر ہمیں گرفتار کر کے ہمارے ساتھ زیادتی کرنا چاہ رہی ہے۔ عدالت نیب سے جواب طلب کرتی ہے، کیس کی سماعت کرتی ہے‘ اگر بادی النظر میں ٹھوس شواہد نہیں ہوتے تو نیب کو گرفتار کرنے سے منع بھی کر دیتی ہے۔ عمومی طور پر 80 فیصد ملزمان عدالتِ عالیہ میں قبل از وقت ہی چلے جاتے ہیں جس سے عدالتِ عالیہ نیب کیسز کی قبل از وقت اور کیس کی تفتیش کے دوران ہی نگرانی اور سکروٹنی کرتی رہتی ہے۔ دیگر اُمور میں بھی احتساب عدالتیں ہر وقت، ہر روز نیب کے ہر عمل پر نگرانی کرتی ہیں اور ہر عمل کی توثیق کرتی رہتی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں نیب والے سانس بھی احتساب عدالتوں سے پوچھ کر لیتے ہیں۔

احتساب عدالت اپنے سامنے رکھے گئے ثبوت دیکھ کر ہی یہ فیصلہ کرتی ہے کہ آیا نیب نے جس ملزم کو پکڑ کر اس کے سامنے پہلے جسمانی ریمانڈ کی منظوری کے لیے پیش کیا ہے اس کی گرفتاری میرٹ اور اُصولوں کے مطابق کی ہے یا غلط طور پر کی ہے۔ اگر عدالت غلط سمجھتی ہے تو جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کر دیتی ہے اور ملزم کی رہائی کے احکامات صادر کر دیتی ہے۔ اگر صحیح گردانتی ہے تو 14 دن یا اس سے کم کا جسمانی ریمانڈ منظور کر دیتی ہے اور ساتھ ہی یہ حکم بھی دیتی ہے کہ اس پر تشدد نہ کیا جائے اور عزت کے ساتھ رکھا جائے اور اگلی پیشی پر تفتیش میں ہونے والی پیشرفت سے تحریری طور پر آگاہ کیا جائے۔

اگلی پیشی پر عدالت پچھلے جسمانی ریمانڈ کے عرصے میں ہونے والی تفتیشی کارکردگی کا جائزہ لے کر اس بات کا سختی کے ساتھ تعین کرتی ہے کہ کیا کارکردگی تسلی بخش ہے یا نہیں اور کیا مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہے یا نہیں۔ اگر نہیں ہوتی تو عدالت فوراً مزید ریمانڈ دینے سے انکار کر دیتی ہے۔ اسی طرح احتساب عدالت ہی فیصلہ کرتی ہے کہ سرچ وارنٹ دینا ہے یا نہیں اور ملزمان کو اشتہاری قرار دینا ہے یا نہیں۔ آیا کہ نیب نے ملزم کی جتنی رقم میں پلی بارگین کی ہے کیا وہ اتنی ہی رقم ہے جتنے کے ملزم نے ناجائز مالی فوائد حاصل کیے ہیں یا کم ہے۔

اگر عدالت پلی بارگین کے تحت واپس ہونے والی رقم کو کم تصور کرتی ہے تو فوراً رَد کر دیتی ہے۔ اسی طرح احتساب عدالت کے سامنے تمام بند کی جانے والی تفتیشیں پیش کی جاتی ہیں جن کا احتساب عدالت بغور جائزہ لیتی ہے۔ اگر کوئی تفتیش عدالت سمجھے کہ نیب ناجائز طور پر سازباز کر کے بند کر رہی ہے تو عدالت یہ بات عدالتی آرڈرز میں لکھوا دیتی ہے اور یہ حکم بھی جاری کر دیتی ہے کہ تفتیش کو جاری و ساری رکھا جائے اور فلاں فلاں خطوط پر تفتیش کی جائے اور فلاں فلاں شواہد اکٹھے کیے جائیں۔ تو یہ اَمر بہرطور یقینی ہے کہ نیب کی تفتیش کا ایک ایک عمل احتساب عدالت کی نگرانی اور توثیق میں ہوتا ہے۔

دوسرا یہ کہ احتساب عدالت کا جج چیئرمین نیب کے بھی ماتحت نہیں ہوتا‘ نہ ہی وہ چیئرمین نیب یا کسی ڈائریکٹر جنرل کو خاطر میں لاتا ہے۔ وہ ایک سینئر ترین سیشن جج ہوتا ہے جو کہ تقریباً ہائیکورٹ کا جج بننے والا ہوتا ہے۔ احتساب عدالت کا جج، چیف جسٹس ہائیکورٹ کے ماتحت ہوتا ہے اور صرف اسی کو جواب دہ ہوتا ہے‘ نیب کے زیراثر بالکل بھی نہیں ہوتا۔ احتساب عدالت کے تمام جج دیے جانے والے تمام جسمانی ریمانڈ اور ان کے دیے جانے کے مدلل جواز تحریری طور پر چیف جسٹس ہائیکورٹ کو رجسٹرار ہائیکورٹ کے ذریعے بجھواتے ہیں جن کا متعلقہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بغور جائزہ لیتا رہتا ہے۔

یہ وہ تمام باتیں ہیں جن کا عوام الناس کو علم نہیں ہے کہ نیب کا ادارہ اور کام کس طرح چیک اینڈ بیلنس اور سکروٹنی کے عمل سے گزرتا رہتا ہے‘ اور اس میں بددیانتی یا زیادتی کا امکان بہت کم ہوتا ہے‘ اس لیے سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ نیب کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرنا بند کریں اور بے وزن دلیلیں دیکر اپنا وزن مزید کم نہ کریں۔ ماضی میں نیب اگر سیاسی انتقام کا باعث بنتی رہی ہے تو یہ حکومتِ وقت کا قصور تھا نہ کہ نیب کے ادارے یا نیب کے سسٹم کا۔ نیب کے تمام اختیارات چیئرمین نیب میں ہی بنیادی طور پر مرتکز ہیں جو اِن اختیارات کو نیچے تفویض کر کے کام چلاتے ہیں۔

اگر حکومتِ وقت چیئرمین نیب کو میرٹ پر متعین کر کے اسے کام کرنے کی آزادی دیدے اور مطلوبہ مالی و دیگر وسائل بھی فراہم کر دے تو نیب ملک میں بلاشبہ معاشی انقلاب لا سکتی ہے۔ نیب کے تمام اُمور کی نگرانی احتساب عدالت کا جج کرتا ہے۔ نیب اپنی آزادی سے کسی ملزم کو گرفتار کر کے اپنی حراست میں نہیں رکھ سکتی۔ اگر نیب کے تفتیشی سے کوئی کوتاہی ہو جائے تو احتساب عدالت کے جج اس کوتاہی یا بددیانتی کو اپنے عدالتی آرڈرز اور کارروائی میں لکھوا دیتے ہیں جو کہ تاریخ کا حصہ بھی بن جاتے ہیں اور تفتیشی افسران کی پرسنل فائل کا بھی۔ یہ جو وزیراعظم پاکستان اور ہم نوا ؤںنے کہا ہے کہ نیب شریف لوگوں کو تنگ کرتی ہے۔

اس بارے میں ہم یہی کہیں گے کہ ہائیکورٹ، میڈیا اور انٹیلی جنس اداروں کے سخت ترین چیک اینڈ بیلنس کی موجودگی میں وہ یہ کیسے کہہ سکتے ہیںکہ نیب اپنی حدود سے باہر نکل کر زیادتیاں کر رہی ہے۔ وہ تفتیشی اور عدالتی طریقہ کار کے اتنے زیادہ مراحل سے قبل ہی کسی ملزم کی بیگناہی اور شرافت کا تعین کیسے کر سکتے ہیں اور کیسے اسے ببانگ دہل میڈیا پر بیان کر سکتے ہیں جب کہ کسی کے گناہگار یا بیگناہ ہونے کا تعین سب سے پہلے ’’شکایت تصدیقی افسر‘‘ کرتا ہے‘ پھر وہ شکایت، کیس افسر دیکھتا ہے۔ اس کے بعد ریجنل بورڈ (جو نیب ریجن کے تمام ڈائریکٹرز، چیف لاء آفیسر، ونگ لیگل کنسلٹنٹ پرمشتمل ہوتا ہے) مشترکہ طور پر فیصلہ کرتا ہے کہ معاملے کی انکوائری کروائی جائے جس میں دیکھا جائے کہ کیس کی تفتیش کرنے کی منظوری بورڈ سے لی جائے گی یا نہیں۔ انکوائری آفیسر، کیس آفیسر، کیس کا لیگل آفیسروغیرہ ونگ ڈائریکٹر کی اجازت سے کیس بند کرنے یا تفتیش کی منظوری کی سفارش کو قبول یا رَد کرتے ہیں۔ اس کے بعد تفتیش کے سارے مرحلے پر یہی سارے ممبران باہمی مشاورت ہی سے فیصلہ کرتے ہیں‘ بہ ایں ہمہ احتساب عدالت کا جج بھی سارے مرحلے میں شامل ہو جاتا ہے۔

بالآخر تمام ریجنل بورڈ، تفتیشی آفیسر، کیس آفیسر، کیس لیگل آفیسروغیرہ کیس کی تفتیش بند کرنے یا ملزمان کے خلاف ریفرنس بھیجنے کی ونگ ڈائریکٹر کی سفارش کو قبول یا رد کرتے ہیں۔ کیس بند کرنے کی فائل کی منظوری، احتساب عدالت کے جج صاحب پوری طرح چھان بین کر کے دیتے ہیں۔ اگر چالان/ ریفرینس فائل ہو جائے تو اس میں بینکنگ ایکسپرٹ، ہینڈ رائٹنگ ایکسپرٹ، فرانزک ایکسپرٹ، ریونیو ایکسپرٹ، آڈٹ ایکسپرٹ، انکم ٹیکس ایکسپرٹ اور دیگر متعلقہ ایکسپرٹس کی آزادانہ و ماہرانہ رائے بھی شامل ہوتی ہے۔ آخرکار احتساب عدالت کا جج کیس کے میرٹ اور ڈی میرٹ کی جانچ پڑتال ٹرائل کے دوران اچھی طرح کرتا ہے۔ ان تمام نکات پر غور کرنے سے یہ واضح ہے کہ نیب کے نظام میں بہت زیادہ چیک اینڈ بیلنس ہے اور احتساب عدالت کے ججز اور عدالتِ عالیہ کے ججز ہمہ وقت مانیٹرنگ اور جانچ پڑتال کرتے رہتے ہیں۔

احتساب عدالت کے ججز کسی بھی وقت نیب کے ڈی جی اور چیئرمین کو بھی بلا سکتے ہیں اور ان کے خلاف آڈرز بھی پاس کر سکتے ہیں۔ وہ صرف چیف جسٹس ہائیکورٹ کو جوابدہ ہوتے ہیں‘ لہٰذا حکمرانوںکو نیب کے خلاف شریف لوگوں کو تنگ کرنے کا جھوٹا شور و غوغا بند کرنا چاہیے۔ دنیا کے تمام تفتیشی ادارے بشمول ایف بی آئی، سی بی آئی، ایف آئی اے، سکارٹ لینڈ یارڈ، اے این ایف وغیرہ تفتیش کرتے وقت ضرورت پڑنے پر ملزمان کو گرفتار کر کے ان سے پوچھ گچھ کرتے ہیں اور ان کی نشاندہی پر کرپشن کے ثمرات اور دستاویزی شواہد برآمد کر کے اسے کیس ریکارڈ کا حصہ بنا کر چالان کے ساتھ عدالتوں میں بھیج دیتے ہیں۔ قانون میں بھی گرفتاری کی شقیں اور جسمانی ریمانڈ منظور کرنے، تلاشی وارنٹ جاری کرنے کی شقیں دنیا کے تمام ضوابطِ فوجداری میں اسی لیے مشترکہ طور پر رکھی گئی ہیں تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔

یقین کریں کہ اگر دُنیا کے تفتیشی افسران کا جسمانی ریمانڈ حاصل کر کے بازپرس کرنے اور تلاشی لینے کا اختیار ختم کر دیا جائے تو کسی بھی معاملے کی تفتیش کرنا ناممکن ہو جائے۔ اسی طرح مشتبہ افراد، گواہان، ماہرین اور ممد و معاون اہلکاروں کو سمن کرنے اور ان سے ریکارڈ طلب کرنے کی طاقت اگر کسی تفتیشی افسر سے چھین کر کسی اور کو دیدی جائے تو تفتیش نہیں ہو سکتی۔

اگر بغیر گرفتاری کے ہی بااثر اور بگڑے ہوئے ملزمان سے نیب والے کرسی پر بٹھا کر پوچھیں کہ سر ازراہِ کرم فرما دیں کہ آپ جناب نے کرپشن کی ہے یا نہیں ‘اور براہِ مہربانی یہ بھی فرما دیں کہ جناب نے جعلی مہریں، لیٹر ہیڈز، فائلیں، اکاؤنٹس ریکارڈ، کیش، پراپرٹی کاغذات اور جیولری کہاں کہاں رکھی ہوئی ہے اور کینیڈا، دبئی یا قطر میں جناب کے اکاؤنٹس کس کے نام پر ہیں اور ان کی چیک بکس کہاں ہیں‘ اگر بتا دیں توجناب کا احسانِ عظیم ہو گا، تو بھلا کون بتائے گا اور کیوں بتائے گا؟ اس لیے نوازشریف، خورشید شاہ و دیگران کو چاہیے کہ وہ گرفتاری کے بعد ریفرنس فائل کرنے پر اعتراض کرنے جیسی مضحکہ خیز باتیں کرنا چھوڑ دیں وگرنہ کسی بھی وقت ان کی ناقابل تلافی سبکی ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔