لامحدود آزادی آدمی کے نصیب میں نہیں ہے

سرمایہ دارانہ نظام کو بدلنے کی خواہش، دراصل بدصورتی کو ختم کرنے کی خواہش ہے برصغیر میں نئی نظم کے انتہائی اہم شاعر آفتاب اقبال شمیم سے مکالمہ ۔  فوٹو : فائل

سرمایہ دارانہ نظام کو بدلنے کی خواہش، دراصل بدصورتی کو ختم کرنے کی خواہش ہے برصغیر میں نئی نظم کے انتہائی اہم شاعر آفتاب اقبال شمیم سے مکالمہ ۔ فوٹو : فائل

آفتاب اقبال شمیم نظم کے تخلیقی انہماک میں عمر بسر کرنے والے ایک اصیل شاعر ہیں۔ انہوں نے نظم نگاری کا آغاز اس وقت کیا، جب ادب میں ترقی پسندی کی روایت غیر فعال ہورہی تھی اورحلقۂ ارباب ِذوق کی جدیدیت کے تسلسل میں نئی نظم کا غلغلہ عروج پر تھا۔ آفتاب اقبال شمیم نے ان تینوں دھاروں کے تخلیقی انجذاب کے باوجود اس قدر منفرد آغاز کیا کہ ’’ادبی دنیا‘‘ میں ان کی پہلی نظم’’ستمبر کا شہر‘‘ کی اشاعت پر ڈاکٹر وزیر آغا کو کہنا پڑا ’’بہت سے اہم شاعر جہاں اپنے ادبی سفر کا اختتام کرتے ہیں آفتاب اقبال شمیم نے وہاں سے آغاز کیا ہے۔

آفتاب صاحب گورڈن کالج میں انگریزی پڑھاتے رہے ہیں۔ بارہ برس چین کی پیکنگ یونی ورسٹی میں اردو بھی پڑھائی۔ ’فردا نژاد‘ ’زید سے مکالمہ‘ ’گم سمندر‘ ’میں نظم لکھتا ہوں‘ ان کی نظموں کے مجموعے اور ’سایہ نورد‘ ان کی غزلوں کا انتخاب ہے، اب ’نادریافتہ‘ کے نام سے ان کا کلیات زیراشاعت ہے، جس میں ان کا نیا مجموعۂ نظم ’ممنوعہ مسافتیں‘ بھی شامل ہوگا۔ ۔

ایکسپریس :پہلے تو یہ بتایے کہ آپ جس عہد میں راول پنڈی آئے، تو یہ شہر کیسا تھا؟
آفتاب اقبال شمیم: ابتدائی تعلیم کے بعد جب میں اپنے قصبے سے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے راول پنڈی میں وارد ہوا تو میرے لیے یہ بڑا شہر تھا۔ اگر آج کے راول پنڈی شہر سے اُس شہر کا موازنہ کروں تو وہ شہر اِس آج کے شہر کے قصبے سے بڑا نہیں تھا، اصغر مال سے لے کر لال کرتی اور 22 نمبر چونگی تک پھیلا ہوا۔۔۔ ہم یار دوست آوارہ گردی کی موج میں اسے ایک ڈیڑھ گھنٹے میں پیدل یا سائیکلوں پر گھوم لیا کرتے تھے۔ اب تو بس اِک یاد ہی رہ گئی ہے، اُن اوراقِ مصور کی، اُن آراستہ اور رنگین تانگوں کی گھنٹیوں اور ٹاپوں کی، امان اور دوست داری کی فضا کی یاد ہی رہ گئی ہے۔

ایکسپریس : ابتدائی اثرات کس شاعر سے قبول کیے؟
آفتاب اقبال شمیم: میں اصغر مال کالج میں سال دوم کا طالب علم تھا، جب پروفیسر ڈاکٹر صفدر حسین نے مجھے کالج میگزین ’’کوہسار‘‘ کا پہلا اسٹوڈنٹ ایڈیٹر نام زد کیا، میرے دو اساتذہ پروفیسر رفیق محمود اور پروفیسر اکرام الحق نے مجھے دو کتابیں دیں، ایک دستِ صبا (فیض) اور دوسری ماورا (راشد)۔ میں آبائی گھر سے علامہ اقبال کے مردِ مومن کا دھندلا سا تصور اور اختر شیرانی کی عذرا و سلمیٰ و ریحانہ کی رومانیت کی خوشبو لے کر چلا تھا، اُس وقت میری عمر یہی کوئی سولہ سترہ برس ہو گی۔

دست صبا اور ماورا کے مطالعے کے دوران میں اپنے مساموں تک ایک بالکل مختلف اور نئے شعری تجربے سے شرابور ہو گیا۔ راشد کی شاعری میں فکری سطح پر اپنے عہد کی ناآسودگیوں کا ادراک، اچانک کوئی سوال پیدا کرکے قاری کو مضطرب کر دینے کا رجحان اور تاریخ کی جبریت کا احساس۔۔۔ فیض کی شاعری میں مظلوم و محکوم کے ساتھ یک جہتی، عالمی سطح پر استعمار سے آزادی کی جدوجہد کرنے والے ایشیائی، افریقی، لاطینی امریکی ممالک کی حمایت اور حسن و انقلاب کو ایک ہی شعری مرقعے میں سمونے کی جمالیاتی خواہش۔ ان کتابوں نے ایک ہی لپیٹ میں مجھے اوائل عمر میں ہی ایک جدید اور باشعور عالمی شہری بنا دیا اور میں پوری سنجیدگی کے ساتھ نظم لکھنے کی طرف مائل ہو گیا۔

ایکسپریس: ممکن ہے کہ کوئی لکھاری اپنے تخلیقی جوہر سے ثقافت کو تبدیل کردے؟ کہتے ہیں کہ حال ہی میں آں جہانی ہونے والے اٹلی کے ناول نگار و نقاد امبرٹو ایکو نے اٹلی کی ثقافت کو تبدیلی سے دوچار کیا ہے۔

ایکسپریس: کیا ادب کے ذریعے تبدیلی ممکن ہے؟ حال ہی میں آںجہانی ہونے والے اطالوی شاعر امبرتو ایکو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے اٹلی کی ثقافت تبدیل کر دی۔
آفتاب اقبال شمیم: ایک بات واضح ہے کہ جہاں تعلیم عام ہو اور لوگوں کا ادب سے تعلق ہو، وہاں کے دانش وروں کا ادب سے باقاعدہ رابطہ ہو، ایسے معاشروں میں ایک بڑا ادیب تبدیلی لا سکتا ہے، میرے خیال میں وہاں بھی یہی کچھ ہوا ہے۔

ایکسپریس: دور حاضر میں جو کچھ ادب میں تخلیق ہو رہا ہے، کیا اِس کا کردار ہو گا کسی قسم کی تبدیلی میں؟
آفتاب اقبال شمیم: آج جو ادب تخلیق ہو رہا ہے، وہ آج کی سوچ کا غماز ہے، وہ متاثر تو کرے گا، براہ راست نہ سہی لیکن وہ اپنا کام کر رہا ہے، اصل کام تب ہوگا، جب یہ ادب ہمارے دانش ور کو متاثر کرے گا۔

ایکسپریس: آپ کی شاعری تبدیلی کا باعث بنے گی؟
آفتاب اقبال شمیم: میرے ذہن میں کوئی ایسا خاکہ یا آئیڈیل تو نہیں تھا کہ میں جو تحریر کروں گا، وہ معاشرے میں تبدیلی لائے گا، میرے اندر ایک انرکمپلشن (Inner Compulsion) تھی کہ میں لکھتا رہوں، یہ سوچے بغیر کہ تبدیلی آئے گی۔ میرے خیال میں تبدیلی لانا ایک انقلابی کا آئیڈیل ہو سکتا ہے یا ایک ریفارمسٹ کا لیکن شاعر تو اپنے شعور اور لاشعور سے جڑا ہوا ہوتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ہمارے دور میں شاعر یہ سوچ کر شاعری شروع نہیں کرتا کہ وہ تبدیلی لائے گا لیکن جب وہ اپنے زمانے کی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے اور پھر اُس کو بدلنے کی شدید خواہش بھی رکھتا ہے، تو ہو سکتا ہے کہ اُس کی سوچ کسی تبدیلی کا پیشہ خیمہ بن بھی جائے۔

ایکسپریس: کیا یہ ہی بات ایک نثر نگار پر بھی لاگو ہو گی؟
آفتاب اقبال شمیم: نثر نگار اور شاعر میں بہرحال ایک فاصلہ ہوتا تو ہے لیکن بعض نثرنگار شاعر کے بہت قریب ہوتے ہیں، مثلاً پلیٹو ایک نثر نگار تھا لیکن اُس کا سارا فلسفہ شاعری کی طرح ہے اور اُس نے پورے مغرب کو تبدیل کرکے رکھ دیا۔

ایکسپریس: آپ کی طویل نظموں پر بات کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ کسی کو علم نہیں کہ آپ نے ان پر کتنا وقت صرف کیا؟ خاص طور پر ’’نہیں اور ہاں سے آگے‘‘ آپ کی نظم 1500 سطروں پر ہے، اس پر کتنا وقت لگا اور آپ نے کس طرح تخلیق کے تسلسل کو قائم رکھا؟
آفتاب اقبال شمیم: میں اِس سلسلے میں کہوں گا کہ میں نے یہ طویل نظم ایک سے زیادہ نشستوں میں مکمل کی لیکن طویل عرصہ نہیں لگا، یہ وہ زمانہ تھا جب میں اور احمد شمیم بہت آوارہ گردی کیا کرتے تھے۔ اِس نظم کا بہت سا حصہ اِس آوارگی میں بھی مکمل ہوا لیکن آخر میں جا کر میں نے خود کو مجتمع کیا اور مکمل کیا۔

ایکسپریس: آپ نے اپنی نظموں میں ایک نیا جہاں آباد کرنے کی کوشش کی، خاص طور پر ساٹھ کی دہائی میں آپ نے طویل نظمیں کہیں، اسی دوران میں آپ کی دوسری کتاب ’’فردا نژاد‘‘ کی نظمیں بھی سامنے آتی رہیں، طویل نظموں کے سحر سے نکل کر نسبتاً کم طویل نظمیں کہنے میں مشکل پیش آئی؟
آفتاب اقبال شمیم: یہ کبھی نہیں ہوا کہ میں نے دو تین نظمیں اکٹھی شروع کر لی ہوں، میں نے ہمیشہ ایک نظم مکمل کرنے کے بعد ہی دوسری نظم کہی البتہ درمیان میں کچھ نظمیں ادھوری بھی رہیں لیکن وہ دوسری بات ہے۔

ایکسپریس: آپ نے ایک نظم لکھ لی مگر کچھ عرصے کے بعد اُس میں کچھ قطع و بُرید بھی کی؟
آفتاب اقبال شمیم: نہیں! بس جو لکھ دیا، سو لکھ دیا، میں نظم کاٹ کر دوبارہ لکھنے کا قائل نہیں ہوں، ایک خاص موڈ میں جو نظم ہو گئی وہ ہو گئی، اگر کبھی قطع و برید کی بھی ہے تو اُسی وقت۔

ایکسپریس: آپ کی نظموں میں جبر کے خلاف احتجاج اور وجودی کرب کا حوالہ ہے، ان دونوں حوالوں نے آپ کو عمر بھر اپنے سحر میں رکھا اور یہ ہی آپ کی تخلیق کا باعث بنتے رہے۔ کس کس سطح پر آپ نے اِن حوالوں کو استعمال کیا؟ یہ سوال نئے پڑھنے والوں کی سہولت کے لیے ہے۔
آفتاب اقبال شمیم: جبر کا مسئلہ۔۔۔۔؛ ایک تو اس کا تعلق معاشرے سے ہے، دوسرا تعلق اس کا آدمی کی پیدائش کے ساتھ ہے۔ آدمی جو جبر سہ رہا ہے، وہ معاشرے کے ہاتھوں بھی سہ رہا ہے اور دوسرا، وہ اپنے ہاتھوں بھی جبر کا شکار ہے۔ انسان کی لیمیٹیشن بھی ایک مجبوری ہے، آدمی کا نامکمل ہونا بھی ایک جبر ہے، وہ مکمل ہونا چاہتا ہے مگر نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح اگر آزادی انسان کا سب سے بڑا آئیڈیل ہے، تو یہ آزادی آدمی کو مل نہیں سکتی۔

یہ ہی تضادآپ کو میری شاعری میں وضاحت کے ساتھ نظر آئے گا۔ لامحدود آزادی آدمی کے نصیبوں میں نہیں ہے۔ دوسرا یہ کہ سماج میں جو آزادیاں انسانوں سے چھین لی گئی ہیں، ایک فرد کی آزادی؛ جو ایک اجتماع پر قربان کی گئی، اُس کا غم یا جبر، اُس کا اظہار بھی آپ کو میری شاعری میں ملے گا اور کافی زیادہ۔

ایکسپریس: لا محدود آزادی کا کوئی امکان نہیں تو پھر اقبال کا رومانس کیا ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: انسان کامل کا جو تصور اقبال نے دیا، اُس میں ایک ڈیفی نیشن پہلے سے موجود ہے، وہ مکمل تصور ہے، یہ بھی ایک لامحدود آزادی ہے۔ انسانِ کامل وہ ہے جو کہ مرد مومن ہے، اور مرد مومن جو ہے، اُس کی تعریف اقبال اپنی شاعری میں کر چکا ہے، یہ وہ تصور ہے، جو کامل مسلمان کا تصور ہے۔

ایکسپریس: لا محدود آزادی انسان کس سے حاصل کرنا چاہتا ہے، سماج سے یا فطرت کے جبر سے؟ انسان کے ذہن کے پس منظر میں کیا ہوتا ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: یہ لامحدود آزادی انسان کی جبلتوں پر قائم ہے، جب انسان اِن کو ٹرانسفارم (Transform) کرکے ایک شکل دیتا ہے، جو معاشرے میں ایک فرد کے آئیڈیل کی شکل ہے، یعنی جب اُن میں ایک یونیٹی پیدا ہو جائے تو لامحدود آزادی شاید ممکن ہو لیکن ایسا ہو نہیں سکتا، ممکنات کی دھندلی سی تصویر موجود تو ہے مگر یہ پھر بھی ممکن نہیں ہوتی کیوں کہ انسانی معاشرے جس طریقے سے آگے بڑھے ہیں، ترقی کی ہے، پھر معاشی طور پر ایسی فورسز کے تابع بھی ہیں، جو ہمیں ہماری تمنا کے مطابق زندگی گزارنے کی اجازت ہی نہیں دیتیں؛ تو اس لیے لامحدود آزادی محض خواب ہے لیکن یہ خواب انسان دیکھتا ضرور ہے۔

ایکسپریس: وقت کے جبر سے نکلنے کا خواب جدید شاعری کی شکل میں سامنے آیا ہے، آپ کی شاعری میں ایک بڑے کینوس پر اس جبر کا حوالہ موجود ہے۔ تو کیا یہ بھی ایک خواہش ہی ہے یا آدمی کو کبھی وہ لمحے میسر آ بھی جاتے ہیں، جن کی وہ تمنا کرتا ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: وقت اتنی وسیع اور کائناتی فورس ہے کہ ہم اُس کے جبر سے رہائی نہیں پا سکتے، ہم اپنی ہی مسٹری (Mistry) کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور کائنات کی پراسراریت تو بالکل ہی نہیں، اس کو جاننے کا ابھی آغاز ہے۔

ایکسپریس: کیا یہ آغاز سائنس نے کیا ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: ہم یہ نہیں کہ سکتے، ہاں سائنس نے ایک ڈسپلن میں اِس کا آغاز ضرور کیا ہے لیکن یہ ایک علم ہے اور علم نہ جانے کتنے طریقوں سے سامنے آ رہا ہے۔

ایکسپریس: کسی تخلیقی لمحے میں ایک تخلیق کار کیا وہاں پہنچتا ہے، جس کو ’’ٹائم لیس نیس‘‘ کہا جاتا ہے؟ اس جبر سے باہر نکلنے کا کچھ تو تجربہ ہو۔
آفتاب اقبال شمیم: اِس جبر سے باہر نکلنے کی تمنا ہی کی جا سکتی ہے، نکلا نہیں جا سکتا، میرا ذریعہ تو شاعری تھا مگر میں نہیں نکل سکا۔ شاعری کے ذریعے ہی میں نے اپنے آپ کو جبر سے بچانے کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اِس جبر کو میں نے اپنے آپ پر اور دوسروں پر ہوتے ہوئے دیکھا جب کہ میں خود کو اور معاشرے کو آئیڈیل کے مقام پر پہنچتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا۔۔۔جو خواب ہی رہا۔ اِس معاشرے میں جتنی اور جو آزادی میسر ہے، وہ مصلوب آزادی ہے۔ میں نے اِس دوران ایک بہت بڑے گیپ کو دیکھا اور یہ مجھ سے کبھی فل نہیں ہوا۔

ایکسپریس: اِس کا مطلب یہ ہوا کہ جب آپ عالم نظم میں ہوتے ہیں تو اُس وقت بھی خود کو ٹائم لیس نیس میں نہیں پاتے؟
آفتاب اقبال شمیم: ٹائم لیس نیس کا تجربہ ہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ ایک تخلیقی عمل سے گزر رہے ہوتے ہیں، تو اُس وقت کبھی کبھی ٹائم لیس نیس کا ایکس پیری انس (Experience) کرتے ہیں مگر آپ اس کو کیپچر نہیں کر سکتے، یہ ایک ہلکا سا احساس ہوتا ہے مگر مکمل کیپچر نہیں ہوتا، اس لیے اگلی نظم کے لیے کچھ رہ جاتا ہے۔

ایکسپریس: تو کیا آدمی اُس وقت خود کو مجبور تصور کر رہا ہوتا ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: آپ اُس وقت اُسے مجبور نہیں کہیں گے، بے اختیار کہیں گے، دونوں میں فرق ہے۔ بے اختیاری انسان کی سائیکی کا ایک حصہ بھی ہے، وہ بے اختیار ہو کر ہی اُس آئیڈیل کا تصور کرتا ہے، جو شاید کبھی پورا نہیں ہو سکتا۔

ایکسپریس: پچاس ساٹھ کی دہائی میں چلنے والی تحریکیں اس جبر کو ختم کرنے کے لیے تھیں، وہ تحریکیں ختم ہو گئیں، اب سرمایہ دارانہ نظام ہے، اُس دور اور آج کے دور کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
آفتاب اقبال شمیم: جب میں نے شاعری شروع کی، اُس وقت بھی سرمایہ دارانہ نظام تھا اور اب میں شاعری ’ختم‘ کر رہا ہوں تو آج بھی یہ موجود ہے۔ اِس نظام میں تبدیلی کا خواب ضرور دیکھا ہے اور وہی خواب میں نے اپنی شاعری میں بیان کیا۔ اب میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ دیکھے جانے والے خواب کی تعبیر ممکن نہیں۔

ایکسپریس: جب تحریکیں چل رہی تھیں، امید تو موجود تھی مگر اب۔۔۔کیا یہ عہد زیادہ بانجھ ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: معاشرے میں اگر ارتقائی عمل جاری ہے تو پھر امید کی جا سکتی ہے کہ نئی تحریکیں ابھریں گی، میرے بعد کوئی دوسرا شاعر آئے گا، میرا آئیڈیل لے کر یا کوئی دوسرا آئیڈیل لے کر، جسے تبدیلی کے ساتھ جوڑا جا سکے گا، اِس پراسیس کا کوئی اختتام نہیں۔ اِس آئیڈیل کی تعبیر انسان کے مقدر میں نہیں مگر خواب اس کی دسترس میں ہے۔

ایکسپریس: ایک وسیع کائنات میں زمین، جو ایک موہوم دھبے سی ہے، کائنات میں اِس کی تنہائی اور پھر زمین پر تنہائی کاخوف؛ کیا آپ پر کبھی طاری ہوا؟
آفتاب اقبال شمیم: میں نے بالکل اس خوف کو محسوس کیا ہے۔ جب آپ اس حوالے سے چیزوں کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں تو وہ انسان میں خوف پیدا کرتی ہیں، جس کو احاطۂ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا۔ یہ تشدد ا یسا ہے، جو مقدور ہے، اسی لیے انسان کو ہمیشہ تخلیق کار رہنا ہے۔ اگر معاشرہ مکمل بھی ہوجائے تو اتنی بڑی کائنات میں رہتے ہوئے ہمیں تنہائی سے چھٹکارا نہیں ملے گا، سو تخلیق کاری آدمی کی مجبوری ہے۔

ایکسپریس: تو کیا فن کار لایعنیت کے معنی ہی تلاش کرتا رہتا ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: لایعنیت میں اتنی وسعت ہے کہ اُس کو تلاش ہی نہیں کیا جا سکتا، ہرچند وہ ہر جگہ موجود ہے مگر اس کو آنکھ بھر دیکھ نہیں سکتے، اُس سے دوچار نہیں ہو سکتے، ہم اس لایعنیت میں معنی تلاش کرتے ہیں اور پھر یہ سوچتے ہیں کہ یہ وہ معنی ہے، جو ایک دور کا ہے۔ پچھلے دور نے جو معنی دیا تھا، اسے رد کر دیا گیا، اگلے دور کا معنی کچھ اور ہوگا۔آگاہی بڑھنے کے ساتھ ساتھ لایعنیت کا احساس بھی بڑھ رہا ہے۔

ایکسپریس: یہ بتائیں کہ آپ کو لکھنے پر بچپن کی نارسائیوں نے مجبور کیا یا جوانی کے عشق نے، کیوں کہ ایسے حوالے آپ کے ہاں موجود ہیں؟
آفتاب اقبال شمیم: (مسکراتے ہوئے) ظاہر ہے، میں بھی اِسی شہر، گلیوں اور معاشرے میں گھومتا رہا تو میری اور آپ کی جوانی کے مسائل مختلف نہیں، جہاں حسن کی ایک جھلک ہے تو بدصورتیوں کی ہزار جھلکیاں ہیں۔ جب میں نے شعور میں قدم رکھا تو انسانوں میں تفریق کو دیکھا۔۔۔(خیال کرتا تھا) کہیں کوئی خرابی ہے، بے پناہ جبر ہے، جو سب کے لیے ایک سا ہے لیکن معاشرے کا پیدا کردہ جبر ایک جیسا نہیں، اس کو کوشش کرکے کم کیا جا سکتا ہے، ختم نہیں کر سکتے۔ شاعر کا کام یہ ہے کہ جذبات کا اظہار کر دے یا زیادہ سے زیادہ پیغام دے دے۔

ایکسپریس: سوال ابھی تشنہ ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: میں اُس زمانے سے اتنی دور آ چکا ہوں کہ اس زمانے کے جذبات کو اب اس عمر میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ یہ غم تو ہم سب کے سانجھے ہیں لیکن یہ کہ محبت کی ناکامی کی وجہ سے میں نے شاعری کی، ایسی کوئی بات نہیں۔

ایکسپریس: محبت کی وجہ سے تو شاعری کی ہو گی؟
آفتاب اقبال شمیم: ظاہر ہے محبت کے بغیر شاعری نہیں ہو سکتی۔

ایکسپریس: بات خوب صورتی اور بد صورتی کی ہو رہی تھی، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں بدصورتی بھی ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: اگر یہ نہیں ہے تو جنگیں کیوں ہوئیں۔ جنگ سے زیادہ بد صورتی کیا ہوگی، ایک قتل کیاگیا آدمی بد صورتی کی زندہ مثال ہے، ایسی بدصورتی نے کروڑوں انسانوں کو مار دیا، اُن جنگوںکا مآخذ سرمایہ دارانہ نظام ہے، اس نظام کو بدلنے کی خواہش، دراصل بدصورتی کو ختم کرنے کی خواہش ہے تاکہ حسن کو اس کے اصل روپ میں دیکھا جا سکے۔

ایکسپریس: لامتناہی آزادی کی وضاحت کیا ہو گی؟
آفتاب اقبال شمیم: لامتناہی آزادی کا مطلب مادر پدر آزادی ہرگزنہیں۔ شاعری میں اس کا مطلب اور طرح کا ہے، ایک ایسی آزادی جس میں ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھے، جو انصاف کو پہلی قدر سمجھے، انسانیت کا احترام ہو، استحصال نہ ہو، آئیڈیل پورے ہوں۔

ایکسپریس: سکینڈے نیوین ممالک میں عدل و انصاف ہے، معاشی تفریق بھی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے، حتیٰ کہ وہ آزادی، جسے آپ نے مادرپدرآزادی کہا، وہ بھی ہے لیکن۔۔۔وہاں کا انسان دوسروں کو نہیں توخود کو قتل کرنے لگ گیا، یہ کیا ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: یہ مسئلہ الگ گفت گو کا متقاضی ہے لیکن خود کشی کے رجحانات یا دوسروں کو قتل کرنے کے رجحانات بہرحال ہیں، کوئی نہ کوئی کمی تو ہے۔

ایکسپریس: کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آئیڈیل کو پا لینا اور نہ پانا، ایک ہی المیہ ہوا؟
آفتاب اقبال شمیم: جی ہاں المیہ تو ہے لیکن جہاں آئیڈیل، آئیڈیل ہی نہیں رہتا، اُس کا وجود ہی ختم ہو جائے تو یہ اس سے بھی بڑا المیہ ہے۔ تفریق کے بغیر معاشرہ بنانے کی سوچ، اظہار اور کوشش جب کی جاتی ہے، تو یہ ایک ایسا عمل ہے، جو جدوجہد میں شامل ہونے کی خواہش ہے۔ معاشرے سکینڈے نیوین ہوجائیں تو یہ بھی ایک المیہ ہی ہے۔

ایکسپریس: اس سے پھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا فراق اور ہجر معنویت پیدا نہیں کرتا؟۔
آفتاب اقبال شمیم: فراق اور ہجر ہی تو ہر معنویت پیدا کرنے کی سورس ہے، اگر فراق اور ہجر نہیں تو پھر معنی تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ جو ہجر نیچر نے دیا، وہ اس سے بالکل الگ ہے جو معاشرے نے دیا۔ ایک تو جنم کا جبرہے، انسان کی لمیٹیشن؛ جس سے آپ باہر نہیں نکل سکتے، نکل بھی جائیں تو ایک اور منزل آپ کی منتظر ہوگی۔ جدائی کا عمل ختم نہیںہو سکتا۔

ایکسپریس: وجودی بیزاری کی تکرار آپ کی نظموں میں ہے مگر آپ وجودی ادیبوں کی طرح اس بیزاری کا شکار نہیں، اپنے عصر سے جڑے ہوئے ہیں، یہ دو الگ الگ کیفیات ہیں، آپ دونوں کو کس طرح نباہتے ہیں؟
آفتاب اقبال شمیم: تکرار آپ کامقدر ہے، اِسے ماننا چاہیے، میری نظموں میں اس تکرار کا پہلو نمایاں ہے۔ آپ کی ماہیئت ایسی ہے کہ تکرار اس کا لازمہ ہے۔ جب تکرار سے بے زاری کا اظہار کیا جاتا ہے، تو آپ چاہتے کہ ایک نیا تجربہ سامنے آئے، یہ کوئی پلاننگ نہیں ہوتی باہر نکلنے کی، یہ مسلسل عمل ہے لیکن ہماری سوسائٹی کی بدصورتیاں جن کو تبدیل کیا جا سکتا ہے، اُن کا ذکر ہونا چاہیے، خواہ تکرار ہی میں ہو۔۔۔شاعر ایسا کرتا ہے۔

خواہش ہو سکتی ہے کہ یہ نہ ہو مگر سوال یہ ہے کہ کیوں نہ ہو؟ ناممکن کا ممکن ہونے کے بارے میں آپ کا تخلیقی ذہن اگر ایک خواہش کا اظہار کرتا ہے، تو یہ بھی ایک غم ہے آدمی کا، جس کا آپ اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اپنی محدودیت کے خلاف ایک قسم کا احتجاج کر رہا ہے کہ میں باہر نکلنا چاہتا ہوں۔

ایکسپریس: جدید نظم پر بڑا الزام ابہام کا ہے، آپ کو بھی کسی حد تک اس الزام کا سامنا ہے۔ قاری کی عدم دستیابی شاعروں کے لیے ایک مستقل مسئلہ ہے۔ ابہام کا مسئلہ قاری کی ’غزل مزاجی‘ یا اُس کی تربیت میں کمی سے سامنے آتا ہے یا کوئی اور پہلو ہے؟
آفتاب اقبال شمیم: یہ ابہام جو قاری محسوس کرتا ہے، یہ نظم کی اپنی مجبوری ہے اور اگر نظم میں آپ ایک بڑے مضمون کو ایک چھوٹی سے نظم میں پیش کر رہے ہیں تو کہیں نہ کہیں کم زوری یا ابہام موجود ہو گا، آپ اس سے بچ نہیں سکتے۔ ہمارے قاری کو صدیوں سے دو مصرعوں میں بات سمجھنے کی عادت ہوگئی ہے۔ نئی نظم میں کچھ نہ کچھ ذمہ داری قاری پر بھی ہے۔ قاری ایسی نظم کو اس صورت میں سمجھ سکے گا جب وہ خود اپنی صورت حال اور اپنے زمانے کا ادراک رکھتاہو۔

ایکسپریس: اِس پس منظر میں آپ نے کبھی محسوس کیا کہ آپ کی شاعری تک بہت کم قارئین نے ذمہ داری نباہی؟
آفتاب اقبال شمیم: وسیع تر مقبولیت کی خوش فہمی مجھے کبھی نہیں رہی۔

ایکسپریس: نظم کو سمجھنے کے لیے ہمارے ہاں تنقید کے لیے غزل ہی کے ٹولز استعمال کیے جاتے ہیں، کیا یہ کافی ہیں؟
آفتاب اقبال شمیم: یہ ایسی بحثیں ہیں جو ساٹھویں دہائی میں بہت کی گئیں کہ کیا نظم ایسی لکھی جائے، جو حرف بہ حرف قاری تک پہنچ سکے، یا شاعر جو چاہے، لکھ دے، قاری سمجھے، نہ سمجھے۔ یہ بحثیں 70 اور 80 کی دہائیوں میں بھی جاری رہیں۔ میرے خیال میں یہ دونوں باتیں انتہا پسندی ہیں، آپ قاری کو خارج کر دیں، یہ بھی درست نہیں اور یہ بھی انتہا پسندی ہے کہ آپ قاری کے رحم و کرم پر ہوں۔

کچھ چینی ادب کے بارے میں
ایکسپریس: چین میں شاعری کی روایت سے متعلق کیا کہتے ہیں آپ؟
آفتاب اقبال شمیم: چینی تہذیب شاید سات ہزار سال سے بھی پرانی ہے۔ چینی مورخ اپنی تاریخ کا باقاعدہ آغاز ’شیا‘ خاندان سے کرتے ہیں، اس عہد میں تین فنون، شاعری، مصوری اور خطاطی کو درجۂ فضیلت حاصل ہوا۔ اس عہد کی شاعری کا مجموعہ ’’شیہہ چنگ‘‘ کہلاتاہے، اس کی پہلی نظم ’’کسان کا گیت‘‘ ہے۔ یہ گیت اسی آدرش اور خواب کا اظہار کرتا ہے، جو کنوئیں کھودنے اور زمین کاشت کرنے والا کسان دیکھتا ہے۔ یہ مجموعہ چین کی شعری روایت کا سرچشمہ ہے۔

روایت ہے کہ اس کی ترتیب و تالیف دانش وروں کے دانش ور کنفیوشس نے خود کی تھی۔ یہ مجموعہ تین سو سے زیادہ نظموں پر مشتمل ہے، اس کی کچھ نظمیں سیدنا عیسیٰ ؑ کی پیدائش سے اٹھارہ سے بارہ صدیاں قبل تخلیق ہوئیں۔ یہ چو خاندان کا دورِ حکومت تھا، ادھر چین کے جنوب میں چھن خاندان حکمران تھا، جو تھا تو چوخاندان کا باج گزار لیکن اس کی ثقافتی روایات مختلف تھیں اور وہ اس پر فخر بھی کرتے تھے۔ اس عہد کی نظموں کے انتخاب میں چھویوآن کی ایک مختصر نظم ’’مچھیرے کا گیت‘‘ اور ایک طویل نظم ’’لی ساؤ‘‘ شامل ہے۔ یہ چینی شاعری کا پہلا معلوم شاعر سمجھا جاتا ہے۔ ’’لی ساؤ‘‘ چینی شاعری کی واحد طویل ترین نظم ہے۔ یہ شیہہ چنگ کی شعری روایت سے بالکل مختلف ہے۔ یہ نظم اپنی توسیع شدہ ہیئت اور رومانوی مزاج کے توسط سے ایک یادگار اور بڑی نظم ہے۔

ایکسپریس : چینی زبان کے بارے میں کچھ بتائیے؟
آفتاب اقبال شمیم: چینی ثقافت کی طرح چین کی شعری روایت دیگر دنیا کی شعری روایات سے مختلف اور الگ تھلگ ہے، جس کی ایک وجہ، شاید سب سے بڑی وجہ، اس کا لسانی نظام ہے۔ دنیا کی بیشتر زبانیں حروف تہجی کی ترتیب اور صرف و نحو کے قاعدوں سے بنتی ہیں جب کہ چینی زبان تصویری علامتوں (کریکٹرز) سے تشکیل پاتی ہے۔ یہ تصویری علامتیں گرائمر کی ضرورت کے تحت اپنی شکلیں نہیں بدلتیں اور ان کی آوازیں یا صوتی پیکر بھی معین ہوتے ہیں، جو حروف تہجی پر مبنی زبان کی صوتی تمثالوں کے برعکس وقت کے ساتھ بدلتے نہیں رہتے، نہ ہی دوسری زبانوں سے ارتباط میں ان کی ساخت اور طرز ادا پر کوئی اثر پڑتا ہے۔

حروفِ تہجی سے بنی زبانوں کی اپنی آسانیاں ہیں، اگر آپ حرفوں کی ایک محدود تعداد کی پہچان کرنا اور باہم جوڑنا سیکھ لیں تو زبان کا پڑھنا اور لکھنا سیکھ جاتے ہیں لیکن ایسی زبان میں تبدیلیوں کا عمل جاری رہتا ہے، ہجے بدلتے ہیں، معانی میں کمی بیشی آتی رہتی ہے، لفظ متروک ہوجاتے ہیں، نئے مروج ہو ہوتے رہتے ہیں لیکن چینی زبان پر کوئی صوتیاتی تبدیلی اس کے معانی پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ اگر کسی کریکٹر کا تلفظ بدل بھی جائے تب بھی اُس کے معانی وہی رہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ چینی زبان میں لفظ کسی شے، کسی مظہر، کسی احساس کا مقرر عکس ہے، جو دائمی ہے۔

ایکسپریس :میں اکثر یہ سوال کرتا ہوں کہ چینی ثقافت کی عمر ہزاروں برس پرمحیط ہے، اِس دوران یہاں سے عالمی سطح کا نثری ادب سامنے نہیں آیا، کیا میں درست ہوں؟
آفتاب اقبال شمیم: میں بارہ برس چین کی پیکنگ یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو سے منسلک رہا ہوں، اگرچہ میرا چینی شعر و ادب کا مطالعہ بڑا محدود ہے لیکن مجھے کسی حد تک اس کے عمومی موضوعات اور رجحانات سے آشنائی ہوئی۔ کنفیوشس، مینیش اور لاؤزے کے فکر و فلسفہ کے علاوہ چینی شاعروں، مصوروں اور خطاطوں کی تخلیقات نے اس عظیم تہذیب کو ایک مخصوص سمت اور اچھوتا تشخص دیا ہے۔

عظیم شاعر چھوئی یوآن سے لے کر بیسویں صدی کے عظیم چینی افسانہ نگار لوسون تک چینی ادب ایسی تخلیقات سے ثروت مند ہے کہ ہم اسے عالمی ادب کے اعلیٰ ترین تخلیقی سرمائے میں شامل کر سکتے ہیں۔ چین کے کلاسیکی ناولوں ’’تین سلطنتیں، شبستانِ احمر اور دلدلوں کے ہیرو‘‘ کا شمار دنیا کے بڑے ناولوں میں کیا جا سکتا ہے۔ چینی شعر و ادب انسانی محبت، رواداری، دوستی، اپنی زمین سے گہری محبت اور جبر کے خلاف مزاحمت جیسے موضوعات سے مالامال ہے۔

احمد شمیم کے بارے میں
ایکسپریس : احمد شمیم سے بڑی گاڑھی چھنتی تھی آپ کی، کس رجحان کے آدمی تھے؟
آفتاب اقبال شمیم: احمد شمیم دنیا سے گمنام گزر جانا چاہتا تھا، وہ اپنی نظمیں شوق سے سناتا تھا، گاہے گاہے ادبی مباحث اور محفلوں میں شریک بھی ہوتا تھا اور ادبی رسائل میں چھپتا بھی تھا لیکن اس کے اندر کی دھوپ میں ملال کا ایک دراز قد سایہ اُس کے ساتھ ساتھ چلتا تھا، جب وہ کوثر ہوٹل میں جامع مسجد روڈ (پنڈی) پر اور قیصر ہوٹل میں رہتا تھا تو ہم کم و بیش روز ہی ملا کرتے تھے۔

ہم شہر میں آوارہ خرامی اور ہم کلامی کیا کرتے مگر کمرے میں ہماری گفت گو کا سفر زیادہ وسعت گیر ہوتا تھا، جس کے دوران گہری چپ میں خود کلامی کے وقفے بھی آتے تھے اور بیشتر بار گفت گو کسی ملال، رائیگانی یا لاحاصلی کے انتم سُر پر ختم ہوتی، طے پاتا کہ نظمیں لکھ لکھ کر لایعنیت کی دیوار چاٹنا تو ہماری مجبوری ہے لیکن ان نظموں کو محفوظ کرکے مجموعہ چھاپنا ہماری مجبوری نہیں، چناں چہ ہم اپنی اپنی شاعری کی کتاب نہیں چھاپیں گے۔

وہ اپنے وعدے پر قائم رہا اور اُس نے اپنی زندگی میں اپنی کتاب نہیں چھاپی لیکن خوش نصیبی یہ ہے کہ احمد شمیم کی اہلیہ محترمہ منیرہ احمد شمیم نے یہ کام کیا اور شہرتِ دوام کے شیلف میں اُس کے تین مجموعے چھپوا کر ہمارے لیے سجا دیے۔ اُن کا شکریہ کہ انہوں نے ایک جینوئن اور قد آور شاعر کو وقت برد ہونے سے بچا لیا۔

احمد شمیم میڈیا کا آدمی تھا لیکن مس فِٹ، وہ اپنے پیشے کو اپنی سزا گردانتا تھا، وہ بہت فطین، بہت اعلیٰ پائے کا مقرر، صاحبِ علم، بذلہ سنج اور میز پر گفت گو کا ہنر ور تھا، ّسانی سے شاہ کا مصاحب بن سکتا تھا لیکن اُس کے اندر ایک زیاں کار، ایک ایذا پسند موجود تھا، جو بڑے سے بڑے باس کے سامنے جھوٹ کو جھوٹ کہنے کی سکت رکھتا تھا۔ اُس کی موت سے ایک دو سال پہلے 1980 کی بات ہے، میں اُن دنوں چین میں تھا، مجھے احمد شمیم کا ایک خط ملا، کھولا تو اندر سے ایک پرزہ ملا جس پر یاس یگانہ چنگیزی کا یہ شعر پنسل سے لکھا ہوا تھا۔

کون دیتا ہے دادِ ناکامی
خونِ فرہاد برسرِ فرہاد

حامد ہاشمی کا خط ملا تو پتا چلا کہ احمد شمیم کی تنزلی ہو گئی ہے، آج کل وہ پنڈی اور مظفر آباد کے درمیان آتا جاتا نظر آتا ہے، یعنی ستاروں کو چھو لینے کی تمنا کرنے والا اپنی دمہ زدہ سانس کے ساتھ سطح مرتفع کی اُفقی بلندی پر دیومالا کے سسی فس کی طرح چڑھنے اُترنے پر مامور کر دیا گیا ہے۔ گلے میں اٹکنے والے نمکین غم کو نگل لینے کے علاوہ کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔