بے یقینی ختم کرنے کی ضرورت

عباس اطہر  اتوار 11 نومبر 2012
 Abbasather@express.com.pk

[email protected]

جمہوریت پر منڈلاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے خطرات کے درمیان میاں نواز شریف کا گزشتہ روز والا بیان نہ صرف اچھا شگون ہے بلکہ ان پر اس الزام کی بھی وضاحت ہوگئی ہے کہ انھیں ’’فرینڈلی‘‘ اپوزیشن کیوں کہا جاتا رہا۔

ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے میاں صاحب نے اس بات پر خراج تحسین پیش کیا کہ جمہوری حکومت پہلی بار فوج کی چھتری کے بغیر اپنی مدت پوری کررہی ہے۔ ظاہر ہے، ان کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پیپلز پارٹی نے اپنا دور حکومت مکمل کیا بلکہ ان کی خوشی اس بات پر تھی کہ جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے، چاہے وہ کیسی اور کسی بھی جماعت کی تھی۔ اچھے شگون والی بات یہ ہے کہ پاکستان میں پہلی بار اپوزیشن لیڈر نے اس بات پر افسوس یا دکھ کر اظہار نہیں کیا کہ اس کی مخالف جماعت کو مدت پوری کرنے کا موقع کیوں مل گیا۔

اچھا شگون یہ ہے کہ جیسے یہ روایت بن گئی کہ حکومت مدت پوری کرسکتی ہے، ویسے ہی یہ روایت بھی بن گئی ہے کہ اپوزیشن حکومت کے مدت پوری کرنے پر افسردہ نہیں ہوا کرے گی بلکہ اس کی مدت پورا ہونے کو جمہوریت کی تندرستی سمجھے گی۔ نواز شریف نے یہ بیان دے کر اس تاثر کی بھی تصحیح کر دی کہ وہ پچھلے ساڑھے چار پانچ سال فرینڈ لی اپوزیشن کرتے رہے۔ ان کی دوستی حکومت سے نہیں، نظام سے تھی اور اب جو حالات پیدا ہوئے ہیں، ان سے تصدیق ہوئی ہے کہ جمہوریت کے لیے خطرات کہیں نہ کہیں چھپے ہوئے تھے یا اب بھی ہیں اور نواز شریف سمجھتے تھے کہ اپوزیشن کی سیاست نے کچھ زیادہ گرما گرمی اختیار کی تو یہ خطرات ابھر سکتے ہیں۔ گویا حکومت نے اپوزیشن کے خلاف اور اپوزیشن نے حکومت کے خلاف حد سے نہ بڑھ کر اپنے آپ کو نہیں، جمہوریت کو بچایا۔

یہ امر واقعی ہے کہ پاکستان میں فوجی چھتری کے بغیر کسی جمہوری حکومت کا پانچ سال کی مدت پوری کرنا بہت بڑی بات ہے۔ اسے ایک قسم کا انقلاب کہا جاسکتا ہے۔ ماضی قریب میں قاف لیگ کی اکثریت والی پارلیمانی حکومت نے مدت پوری کی لیکن اسے صحیح معنوں میں جمہوری حکومت ماننا اس لیے مشکل ہے کہ اس کی سربراہی اور حفاظت ایک حاضر سروس جرنیل کے پاس تھی۔ جونہی اس حاضر سروس جرنیل نے وردی اتاری، اس کا بنایا ہوا سارا نظام زمین بوس ہوگیا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دور میں فیصلے پارلیمنٹ نہیں کرتی تھی۔ فیصلہ سازی کاسارا کام مشرف اور اس کے ساتھی جرنیل کرتے تھے۔

ان فیصلوں ہی کے نتیجے میں معاشی تباہی کی بنیاد رکھی گئی۔ ایسی تباہی جسے موجودہ حکومت بھی قابو میں نہ لاسکی۔ لوڈشیڈنگ سے لے کر قرضوں میں اضافے تک اور افراط زر سے لے کر ہر جگہ کرپشن کا دور دورہ ہونے تک کے سارے ابتر معاملات کی بنیاد مشرف نے رکھی۔ دہشت گردی کی لہر، کراچی میں لسانی اور فرقہ وارانہ جنگ اور بلوچستان میں علیحدگی پسندی کے زور پکڑنے کے اسباب بھی مشرف کی پالیسیوں نے فراہم کیے۔ اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے سے ہی ملک کا فائدہ ہوسکتا ہے۔ چند طالع آزمائوں کے فیصلوں سے ان کا اور ان کے ساتھیوں کا فائدہ تو ہوسکتا ہے ، قوم کو صرف عذاب ملتے ہیں۔

نواز شریف نے ایک اور اہم بات یہ کی ہے کہ حکومت انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے۔ اس سے جمہوریت کا فائدہ ہو گا۔ اس مطالبے میں دو باتیں غور کے قابل ہیں۔ انھوں نے یہ مطالبہ نہیں کیا کہ حکومت الیکشن کا انعقاد جلد کرے۔ یہ کہا ہے کہ تاریخ کا اعلان کرے۔ مطلب یہ کہ اگر وہ مارچ میں الیکشن نہیں کرانا چاہتی تو نہ کرائے۔ مئی ہی میں کرائے لیکن الیکشن کی تاریخ دے دے۔ تاریخ دینے سے جمہوریت کا فائدہ ہے اور دوسری غور طلب بات یہ ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جمہوری نظام کو درپیش ’’ خطرات‘‘ اب بھی گھات میں ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے سے ملک میں مجموعی طور پر جو فضا بن جائے گی، اس کے نتیجے میں ان ’’خطرات‘‘ کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔

اس وقت ایک بے یقینی پھیلائی جا رہی ہے کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ احتساب کرنے والی نگران حکومت آئے گی جو تین سال تک رہے گی اور احتساب کے نام پر (یا اس کی آڑ میں) ناپسندیدہ سیاستدانوں کو ان کے انجام تک پہنچائے گی۔ یہ افواہیں پھیلانے والے وہی لوگ ہیں جو ساڑھے چار سال سے حکومت جانے کی تاریخیں دیتے آئے ہیں۔ یہ کہنا غلط ہو گا کہ تاریخیں دینے کی وجہ محض ان لوگوں کی خواہش تھی اور اس کے پیچھے کوئی بنیاد نہیں تھی۔

قرین قیاس یہی ہے کہ بنیاد موجود تھی اور منصوبے بھی تھے جن کی راہ ہموار کرنے کے لیے تاریخیں دینے کا عمل شروع ہوا لیکن کچھ تو سیاستدان الرٹ تھے (فرینڈلی اپوزیشن) اور کچھ دوسرے ایسے حالات تھے کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کا موقع نہ مل سکا اور منصوبہ ملتوی پر ملتوی ہوتا رہا۔ ایک اور پہلو یکایک عدلیہ اور فوج کے درمیان تنائو کی صورت میں نمودار ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ اس تنائو کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہیں تو ساتھ ہی کچھ ایسے بھی ہیں جن کی خواہش ہے کہ یہ تنائو بڑھے۔ بعض لوگ اپنی نادانی سے خوش ہیں کہ ان دو اداروں میں ٹکرائو ہو۔ حالانکہ ٹکرائو آگے بڑھا تو اصل ’’کایوایلٹی ‘‘ جمہوریت کی ہو گی۔

بہرحال، اگر انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو جاتا ہے تو افواہوں، کوششوں اور ٹکرائو کی خبروں کی وجہ سے عوام میں انتخابات کے انعقاد کے بارے میں جو بے یقینی چھائی ہوئی ہے وہ یکدم چھٹ جائے گی۔ ملک میں انتخابی جوش و خروش پیدا ہو جائے گا اور اس فضا میں منصوبہ ساز آگے بڑھنے میں بہت مشکل محسوس کریں گے۔ اس لیے کہ انھیں بے یقینی کی فضا ہی میں آکسیجن ملتی ہے۔ یہ آکسیجن انھیں نہیں ملے گی تو وہ کمزور ہوں گے اور یہی کمزوری جمہوریت کے لیے آب حیات بن سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔