نیا کپتان نہیں، مترجم چاہیے

ایاز خان  منگل 22 مارچ 2016
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن ہماری جیسی ٹیم کے لیے ہار ،ہار کھیل کا حصہ نہیں ہو سکتی۔ 50اوورز کا عالمی کپ ہو یا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، بھارت کے ساتھ میدان میں اترتے ہی ہم ہارنے کے لیے ہیں۔ دونوں فارمیٹس میں اب تک 11 مرتبہ ان ٹیموں کا مقابلہ ہوا ہے جس میں سے تمام میچ بھارت نے ہی جیتے ہیں۔ 2007ء کے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاک بھارت پہلا معرکہ ٹائی ہوا لیکن بال آؤٹ پر بھارت نے ہی جیت لیا تھا۔کولکتہ میں شکست کی مکمل ذمے داری کپتان شاہد آفریدی کو لینی چاہیے۔

ان کے بعد اگر کسی کا قصور ہے تو وہ کوچ وقار یونس کا ہے جنہوں نے پچ کو سمجھنے میں غلطی کی۔ پاکستان نے اننگز کا آغاز کیا تو بھارتی سپنر روی چندرن ایشون کے پہلے اوور سے ہی یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ٹیم کی سلیکشن غلط ہو گئی ہے۔ عماد وسیم کی جگہ ایک فاسٹ بولر اضافی کھلایا گیا اور پھر مثبت نتیجے کی امید، ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ اس غلطی پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا۔ شاہد آفریدی کویہ معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے چلنے کا انحصار بیٹنگ وکٹ پر ہوتا ہے۔ ایڈن گارڈنز کے ٹرننگ ٹریک پر ان کے لیے ممکن نہیں تھا کہ وہ تیزی سے اسکور کر سکتے۔

بیٹنگ آرڈر میں محمد حفیظ تیسرے نمبر پر تھے جب کہ ان کی باری ساتویں نمبر پر آئی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جب کوئی کپتان اسپن کو کھیلنے والے اپنے بہترین بیٹسمین کو ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے بھجوائے گا تو ٹیم اسکور بورڈ پر فائٹنگ ٹوٹل کیسے ترتیب دے سکے گی۔ بولنگ میں بھی غلطیاں کرنے کا سلسلہ جاری رہا۔ محمد سمیع نے جب اپنے پہلے ہی اوور میں مسلسل دو گیندوں پر شِکھر دھون اور سریش رائنا کو آؤٹ کر دیا تو اگلے اوور میں اپنے بیسٹ بولر محمد عامر کو لانا چاہیے تھا مگر لالے نے اس دن کچھ اور ہی طے کر رکھا تھا۔

عماد وسیم کو نکال کر ایک تو انھوں نے وننگ کمبی نیشن کو خراب کیا اور دوسرا ایک آپشن سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ انڈیا میں جس طرح کی وکٹیں بنائی گئی ہیں ان پر لیفٹ آرم لیگ سپنر بہترین پرفارم کر رہے ہیں۔ کولکتہ کے ٹرننگ ٹریک پر عماد وسیم لالے کے لیے بہترین ہتھیار ثابت ہو سکتے تھے۔ شاہد آفریدی اپنے مخالف کپتان مہندرا سنگھ دھونی کی حکمت عملی دیکھ لیں، انھوں نے ایشون کو اشیش نہرا کے ساتھ اٹیک کرایا مگر پورے چار اوور ایشون کے بجائے رویندر جدیجہ سے کرائے جو لیفٹ آرم لیگ سپنر ہے۔ نیوزی لینڈ کے لیفٹ آرم لیگ سپنر مچل سینٹنر کی پرفارمنس بھی سب کے سامنے ہے یہ نوجوان اپنے پہلے دو میچوں میں6 کھلاڑیوں کو آؤٹ کر چکا ہے۔

کولکتہ میں شکست کے بعد شائقین کی مایوسی اور تنقید بلا جواز نہیں ہے۔ ایشیا کپ میں بھارت اور بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکستوں نے شائقین کو بڑا دکھ دیا تھا مگر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے پہلے میچ میں بنگلہ دیش کے خلاف قومی کرکٹ ٹیم کی شاندار وکٹری اور نیوزی لینڈ کے ہاتھوںانڈیا کی ہار نے امید پیدا کر دی تھی کہ قومی ٹیم انڈیا کا بھرپور مقابلہ کرے گی۔ لیکن ہوا کیا؟ ٹیم کی سلیکشن سے پرفارمنس تک سب کچھ اتنا برا تھا کہ انڈیا نے یکطرفہ مقابلے میں ہمیں ہرا دیا۔ شاہد آفریدی کے بارے میں اس سے بہتر تبصرہ کیا ہو سکتا ہے کہ وہ جیسا کھلاڑی ہے ویسا ہی کپتان ہے۔ یعنی چل گیا تو چل گیا ورنہ۔۔۔۔۔

شاہد آفریدی کہتے ہیں ہم نے شکست کو پیچھے چھوڑ دیا، آئیں ہم بھی شکست کو پیچھے چھوڑ دیں اور آج نیوز ی لینڈ کے خلاف اہم میچ میں اپنی ٹیم کا ساتھ دیں۔ نیوزی لینڈ اس وقت گروپ 2 کی بہترین ٹیم نظر آرہی ہے۔ ان کی منیجمنٹ کا پروفیشنلزم ملاحظہ فرمائیں۔ پہلے دو میچوںمیں وکٹ چونکہ اسپن بولروںکے لیے مدد گار تھی اس لیے انھوں نے اپنے دو بہترین فاسٹ بولرزٹم ساؤتھی اور ٹرینٹ بولٹ کو باہر بٹھا ئے رکھا۔ آج موہالی کی وکٹ کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اس پر گھاس ہے اور یہ فاسٹ بولروں کے لیے مدد گار ہو گی۔ اگر ایسا ہی ہے تویقین رکھیں یہ دونوں فاسٹ بولرنیوزی لینڈ کی پلینگ الیون میں شامل ہوں گے۔

شاہد آفریدی کو بھی چاہیے کہ وہ فاسٹ بولروں کی مدد گار وکٹ ہونے کی صورت میں چار فاسٹ بولروں کے ساتھ میدان میں اتریں۔ مجھے لگتا ہے کہ شاہد آفریدی میدان میں اترنے سے پہلے جو پلاننگ بناتے ہیں اس کے مطابق چلتے ہیں جب کہ کپتان وہی ہوتاہے جو صورتحال کے مطابق اپنی حکمت عملی میں تبدیلی کرے۔ عماد وسیم کو انڈیا کے خلاف میچ میں شامل نہ کرنے کی وجہ سے جو تنقید ہوتی ہے اسے جواز بنا کر اگر بلا ضرورت انھیں شامل کر کے ایک فاسٹ بولر نکالا گیا تو وہ نقصان دہ ہو گا۔ عماد کو شامل کرنا ہے تو شرجیل کو ریسٹ دے کر حفیظ اور احمد شہزاد سے اننگ اوپن کرالی جائے۔

ہمارے بیٹسمینوں کو بھی ویرات کوہلی سے سبق سیکھنا چاہیے۔ کوہلی کو اگر آدھی انڈین ٹیم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ نیوزی لینڈ نے کوہلی کو جلدی آؤٹ کیا تو میچ بھی جیت لیا۔ کرس گیل کی بھی تقلید کرنے کی ضرورت ہے۔ گیل نے انگلینڈ کے خلاف جس طرح کھیل کر شاندار سنچری بنائی وہ مخالف ٹیموں کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ کرس گیل تیز کھیل سکتے ہیں یہ سب جانتے ہیں مگر اس میچ میں انھوں نے تیز ضرور کھیلا مگر احتیاط کے ساتھ۔ انھوں نے بلا وجہ تیز کھیلنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ روک کر بھی کھیلے اس کے باوجود صرف 48گیندوں پر ناقابل شکست سنچری بنا ڈالی۔ شاہد آفریدی کو بیٹنگ کرتے وقت کرس گیل کی یہ اننگز ضرور ذہن میں رکھنی چاہیے۔

اس موقع پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کو ’’خراج تحسین‘‘ پیش نہ کیا جائے تو زیادتی ہو گی۔ چیئرمین شہریار خان نے فرمایا ہے کہ قوم اب کرکٹ ٹیم سے مزید امید نہ رکھے۔ عجیب بات ہے، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ٹیمیں ورلڈ کپ جیتنے کے حوالے سے کسی کھاتے میں نہیں ہیں مگر ان کی قوموں کو بھی اپنی ٹیموں سے امید ہو گی۔ پاکستان ٹیم عالمی رینکنگ میں ساتویں نمبر پر ہونے کے باوجود اب بھی ورلڈ کپ جیتنے کی اہل ہے۔ انھوں نے ورلڈ کپ کے بعد شاہد آفریدی کو کپتانی سے فارغ کرنے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں حضور اگر شاہد آفریدی نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیت لیا تو پھر ان کا فیصلہ کیا ہو گا؟ بزرگ چیئرمین کو اس موقع پر یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وقار یونس سے البتہ ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ ہماری کرکٹ پر رحم کریں۔

شاہد آفریدی اپنے آخری ٹورنامنٹ میں کامیابی حاصل نہیں کرتے تو یقیناً وہ کپتانی کے اہل نہیں رہیں گے۔ شہریار خان جب کہتے ہیں کہ اس کے بعد نیا کپتان تلاش کریں گے تو مجھے حیرت ہوتی ہے۔ کپتان تلاش کرنے کی کیوں ضرورت ہے۔ سرفراز احمد ٹیم کے نائب کپتان ہیں اور میرے خیال میں انھیں ہی کپتان بنایا جانا چاہیے۔

سرفراز ایک فائٹرکرکٹر ہے اور پی ایس ایل میں اس کی بطور کپتان صلاحیتیں سب کے سامنے  ہیں۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ سرفراز احمد،شاہد آفریدی سے بہترکپتان ثابت ہوں گے۔ پی سی بی کا یہ رویہ بھی عجیب ہے کہ کسی انگریزی بولنے والے کو ہی کپتان بنانا ہے۔کیوں؟ پی سی بی نے جہاں اتنے لوگ بھاری معاوضے پر ٹیم کے ساتھ دورے پر بھیجنے کے لیے رکھے ہوئے ہیں وہاں ایک مترجم کو نوکری کیوں نہیں دی جا سکتی۔ اس احساس کمتری سے ہم کب نکلیں گے کہ ہمیں انگریزی بولنی اور سمجھنی آئے گی تب ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔