عام معافی

پاکیزہ منیر  منگل 22 مارچ 2016

پاکستان اور خاص طور پر کراچی کی سیاست میں جو کچھ ہورہاہے وہ سب بظاہر تو عوام کے سامنے ہے۔ کچھ عوام جانتے اور کچھ نہیں جانتے ہیں، جو چیز سامنے ہے وہ کراچی آپریشن ہے اور جو چیز بے چین کررہی تھی وہ لوگوں کی فریادیں تھیں کہ ان پر اور ان کے پیاروں پر ظلم ہورہا ہے۔ کیا یہ واقعی سچی باتیں ہیں۔

یہ جاننے کے لیے میں کورٹ پہنچی، یہ جاننے کے لیے کہ کیا چیز عوام کے سامنے نہیں ہے، کتنا سچ اور کتنا جھوٹ ہے، کورٹ میں اپنی لائف میں پہلی بار آئی تھی، سب کچھ بہت زیادہ عجیب تھا، روتی ہوئی فیملیاں، ڈرے ہوئے لوگ، خوف زدہ چہرے، یہ منظر مجھے دکھی کرتا جارہا تھا۔ جمعرات کا دن تھا، کورٹ میں وہ ساری فیملیز آئی ہوئی تھیں جو اپنے پیاروں کی تلاش کی فریادیں کر رہی تھیں، کسی کا باپ، کسی کا بیٹا اور کسی کا بھائی غائب تھا وہ مسنگ پرسن میں شامل ہوچکے تھے۔ آہ یہ روتی ہوئی فیملیز، یہ بوڑھے ماں باپ، چھوٹے معصوم بچے سبھی موجود تھے، جن کو شاید یہاں نہیں ہونا چاہیے تھا، ان کے پیارے اگر قصور وار بھی ہیں، تب بھی گرفتار افراد کو چھپاکر نہیں رکھا جاسکتا ہے۔

موجودہ آئین میں شہریوں کو گرفتاری اور حبس بے جا سے بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ (الف) کسی شخص کو وجہ بتائے بغیر گرفتار نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے اپنی صفائی پیش کرنے کے حق سے محروم کیا جاسکتا ہے۔ (ب) گرفتار شدہ شخص کو 24 گھنٹے کے اندر اندر کسی قریبی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا ہوگا۔ 2010 کے تحت ہر شہری کے لیے شفاف اور غیر جانبدارانہ ٹرائل کو بنیادی حق قرار دے دیا گیا۔ (دفعہ 10)

اس بات سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی ہوئی ہے، کراچی میں دوبارہ روشنیاں بحال ہوئی، سیکیورٹی کے تمام ادارے الرٹ ہیں، ہم سب ہی پاکستانی شکر گزار ہیں۔ ان ہی اداروں کی وجہ سے آج کراچی شہر میں سکون کا سانس لے رہے ہیں۔

مگر کراچی میں سبھی مجرم تو نہیں۔ میں نے کورٹ میں موجود تمام ہی فیمیلز سے باری باری پوچھا، کسی کا بھائی تین ماہ سے لاپتہ ہے، کسی کا باپ، کسی کا بیٹا کئی سال سے لاپتہ ہے، معلوم ہی نہیں کہاں گئے۔

میری ایک بات سمجھ میں نہ آسکی، اگر یہ مجرم ہیں تو ہمارے ملک میں عدالتیں موجود ہیں، ہمارے ملک میں قانون ہے۔ بھئی اگر یہ لوگ مجرم ہیں، ان کو عدالتوں میں لاؤ، چھپاکر کیوں رکھا ہوا ہے۔ بنیادی حقوق جمہوری نظام میں شہ رگ کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان ہی سے عوام کے حقوق اور آزادیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ حقوق کا حرف ضبط تحریر میں آنا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ان پر عمل درآمد بھی ضروری ہے، جس سے جمہوری اداروں کو تقویت ملتی ہے اور عوام میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

ہر شہری خواہ وہ کسی بھی جگہ ہو اس کا ذاتی اور ناقابل انتقال حق ہے کہ اسے قانونی تحفظ حاصل ہو اور اس کے ساتھ قانونی دائرہ کار کے اندر برتاؤ ہو۔ عارضی طور پر پاکستان میں مقیم شخص کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ 1973 کے آئین میں عوام کے بنیادی حقوق کا باقاعدہ تعین کیا گیا ہے، اس میں حق زندگی و آزادی تحفظ گرفتاری، غلامی اور بیگار کی ممانعت، نقل و حرکت کی آزادی، حق انجمن سازی، آزادی تقریر و تحریر، حق مذہب، حق ملازمت اور حق زبان، ثقافت اہم بنیادی حقوق ہیں۔

ابھی سیاست میں ایک نئی ہلچل مصطفیٰ کمال کی وجہ سے دیکھنے میں آرہی ہے۔ میں نے ان کی تمام کانفرنسز سنیں اور مجھے ان کی ایک بات بہت اچھی لگی کہ جیلوں میں موجود لوگوں کو باہر آنے کا راستہ دو۔ وہ بالکل صحیح کہہ رہے ہیں، بعض تو بالکل بے قصور ہیں اور جن افراد پر کیسز ڈالے گئے ہیں وہ ابھی ثابت نہیں ہوئے ہیں کہ وہ مجرم ہیں۔ میں مصطفیٰ کمال کی ان ہی باتوں کی وجہ سے ان سے ملنے ان کے گھر کمال ہاؤس پہنچ گئی۔

ان سے ملی، باتیں ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا مجھے واقعی آپ کی بات دل پر لگی کہ جو لوگ جیلوں میں ہیں ان کو باہر آنے کا راستہ دو، وہ مجرم نہیں وہ ’’را‘‘ کے ایجنٹ نہیں، میں اتنی فیمیلز کو جانتی ہوں جو بہت پڑھے لکھے لوگ ہیں، جنھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ ان کے بچوں کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ بنادیا جائے گا، جن کے باپ دادا نے پاکستان بناتے وقت قربانیاں دیں، آج وہ ہی لوگ مشکوک ہوگئے، جن کی قربانیوں سے پاکستان وجود میں آیا ان ہی کی فیمیلز کی وفاداریاں ناقابل قبول ہوگئی، غداری کا دھبہ لگایا جارہا ہے، کیا اس لیے قربانیاں اپنے وطن کے لیے دی گئی تھیں۔

یہ کہاں کا انصاف ہے؟ یہ نوجوان نسل ہمارے ملک کا سرمایہ ہے، یہ غدار نہیں ہے، آج جیلوں میں ان کی زندگی برباد ہورہی ہے، ان کے گھروں میں قیامت ٹوٹی ہوئی ہے، زمانے میں الگ بدنام ہورہے ہیں، کیوں؟ ان لوگوں کا کیا قصور ہے؟ کوئی ثبوت نہیں کہ یہ لوگ مجرم ہیں، مگر ان لوگوں کو مجرم بولا جارہا ہے۔ میں نے مصطفی کمال سے کہا، آپ کی یہ بات اچھی لگی کہ عام معافی کا اعلان کیا جائے، ان تمام لوگوں کے لیے اﷲ کرے کہ آپ کی آواز سن لی جائے۔

مصطفیٰ کمال کے اقدامات، ان کی باتیں یہ ضرور ثابت کرتی ہے کہ یہ قوم غدار نہیں اور مجھے امید ہے کہ انشاء اﷲ بہت جلد ادارے ان کی باتیں سننے لگیں گے، جس طرح بلوچستان میں آواز سنی گئی، عام معافی کا اعلان ہوا، خیبر پختونخوا حکومت نے عسکریت پسندوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تھا، اسی قسم کی معافی کی پیشکش سوات میں آپریشن سے قبل طالبان کو دی گئی تھی، بہت سی ہمیں مثالیں ملیں گی، جن کو عام معافی دی گئی۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔