پہلی ضرورت انصاف کی طاقت

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  منگل 22 مارچ 2016
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

خواتین پر تشدد کے حوالے سے بل پر ہر دوسرا شخص بات کرتا نظر آتا ہے۔ یہ بل کس حد تک ہمارے معاشرے اورخواتین کے حقوق کے حق میں بہتر ہے، اس کا اندازہ لگانا کوئی زیادہ مشکل نہیں، اگر اپنے کلچر اور حالات کا جائزہ لیا جائے تو فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ مذہبی جماعتوں کا موقف اپنی جگہ لیکن ایک عام فرد تھوڑا سا جائزہ لے کر بھی اندازہ کرسکتا ہے کہ مستقبل میں اس کے کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔

جامعہ کراچی کے طلبا نے جب راقم سے اس سلسلے میں پوچھا کہ یہ بل درست ہے یا اس کی مخالفت کرنی چاہیے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ پہلے یہ بتائیں کہ آپ کے خیال میں اس ملک میں خواتین کے ساتھ کیا معاملات ہیں؟ ایک طالبہ نے کہا کہ یہاں خواتین پر تشدد بہت ہوتا ہے، ایک نے کہا کہ خواتین پر تیزاب پھینکا جاتا ہے، ایک نے کہا کہ جہیز نہ لانے پر ذہنی و جسمانی تشدد کیا جاتا ہے، کسی نے کہا کہ چولہا پھٹنے سے خواتین کی ہی ہلاکتیں ہوتی ہیں، مرد کبھی جل کر نہیں مرتا، غیرت کے نام پر قتل کیا جاتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

ایک طالب علم نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ سر! تصویر کا یہ رخ مکمل نہیں ہے، عورت پر ظلم کے جملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ظلم مرد کررہا ہے، حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔ جب جہیز نہ لانے پر کسی گھرانے میں دلہن کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں ہوتا تو اس غلط رویے میں صرف مرد شامل نہیں ہوتا پورا گھرانہ عموماً شامل ہوتا ہے، جس میں سب سے آگے آگے نندیں، ساس وغیرہ ہوتی ہیں، جو خود بھی عورت ہوتی ہیں۔ اسی طرح جب کسی چولہے پھٹنے کی خبر میں کسی عورت کے جلنے کی اطلاع ہوتی ہے تو اس واقعے میں بھی صرف شوہر ملوث نہیں ہوتا بلکہ ساس اور نندوں سمیت اور بھی خواتین ہوتی ہیں۔

اسی طرح تیزاب سے جو لڑکی جھلستی ہے اس پر جس طرح ایک ماں (عورت) کو دکھ ہوتا ہے ویسے ہی ایک بھائی اور باپ (مرد) کو بھی تکلیف پہنچتی ہے، کون سا باپ خوش ہوگا کہ ایک لڑکی (یعنی بیٹی) پر کسی مرد نے تیزاب پھینکا ہے۔ پھر غیرت کے نام پر اور پسند کی شادی کے جرم میں تو یہاں ایک لڑکے کی بھی خیر نہیں ہوتی۔ لہٰذا انصاف کا تقاضا یہ نہیں کہ اس قسم کے واقعات کو اس طرح بیان کیا جائے کہ یہاں مرد و عورت کی کوئی جنگ چل رہی ہے اور مرد عورتوں پر ظلم کررہے ہیں۔ ہم نے ساس اور بہو کی جنگ کو بھی عورت پر مرد کے ظلم سے نتھی کردیا ہے۔

بہرکیف اس کے بعد میں نے طلبا سے کہا کہ خواتین کے اس بل کی حمایت کرنے والے اپنے ہاتھ کھڑے کریں۔ ہاتھ کھڑا کرنے والی طالبات کی اکثریت کا یہ کہنا تھا کہ یہ بل اچھا ہے، اس کو ضرور اس ملک میں ہونا چاہیے۔ اس رائے کے فوراً بعد ایک طالبہ نے چند حیرت انگیز سوالات اٹھائے، جس سے صورتحال یکسر تبدیل ہوگئی۔ اس طالبہ نے کہا کہ سر جو طلبا اس بل کی حمایت میں ہیں مجھے ان سے چند سوالوں کے جوابات چاہئیں، اس کے بعد ان کی مرضی جو چاہیں اپنی رائے قائم کریں، چنانچہ اس طالبہ نے کلاس میں موجود بل کی حمایت کرنے والوں سے سوالات کیے۔

(1) اگر آپ کے والدین میں جھگڑا یہاں تک پہنچ جائے کہ اس قانون کے تحت مرد کو تھانے کی سیر کرائی جائے تو کیا آپ اپنی والدہ کو زور دیں گے کہ وہ آپ کے والد کو حوالات تک پہنچائے؟

(2) اگر آپ کے والد کے ہاتھ میں کڑا پہنا دیا جائے تو آپ اپنے دوستوں کو بھی اس بات سے آگاہ کریں گے اور یہ مشورہ دیں گے کہ وہ بھی اپنی والدہ کی ہمت بڑھائیں اور ضرورت پڑنے پر والد کے ہاتھوں میں کڑا لگوا دیں؟

(3) یا آپ اپنے والدین کے جھگڑے کی بات کو باہر والوں مثلاً رشتے داروں اور دوستوں سے چھپائیں گے؟

طالبہ کے ان سوالات پر خواتین کے بل کی حمایت کرنے والے یکدم سکتے کی حالت میں آکر خاموش تھے اور سب کی رائے یہ تھی کہ ہم اپنے والدین کے درمیان صلح کرانے کی پوری کوشش کریں گے اور کسی اور کو اس کی اطلاع نہ ہونے دیں گے۔

میں اس طالبہ کی ذہانت پر حیران تھا کہ کس دانشمندی سے اس نے خواتین کے بل کے بعد آنے والے مسائل کو یوں بیان بھی کردیا اور رائے عامہ کو بھی لمحے بھر میں بدل کر رکھ دیا۔ ان سوالات کے بعد اب پوری کلاس میں صرف ایک طالبہ تھی جو اس بل کی حمایت کر رہی تھی وہ بھی مسکراتے ہوئے، اور اس کی مسکراہٹ ایسی معنی خیز تھی کہ جیسے اس کے قول و فعل میں تضاد ہو۔

اس بل پر دینی جماعتوں کا نقطہ نظر جو بھی ہو اور خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خواتین تنظیموں کا خیال جو بھی ہو، بحثیت ایک کالم نگار اور ایک شہری کے مجھے جو کچھ نظر آتا ہے اس کے مطابق یہ بل ہمارے معاشرے میں کامیاب نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہمارے معاشرے اور انصاف کے اداروں کی حالت انتہائی خراب ہے۔

مثلاً انصاف فراہم کرنے والوں، قانون کا تحفظ فراہم کرنے والوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، یہاں کوئی مظلوم ایک ایف آئی آر تک درج کرانے میں کامیاب نہیں ہوسکتا، خود مجھ جیسے کالم نگار اور پڑھے لکھے کو جب بھی ضرورت پڑی کسی نہ کسی سے سفارش کرانے کے بعد ہی ایف آئی آر درج ہوسکی۔ ذرا غور کیجیے جس ملک میں ایک شریف آدمی تھانے جانے سے گھبراتا ہو وہاں کسی مظلوم اور کمزور عورت کو کیسے انصاف اور عزت مل سکتی ہے؟

جس ملک کے کم و بیش تمام اداروں کی کارکردگی خراب ہو، جہاں دارالامان جیسے اداروں کے بارے میں بھی ذرایع ابلاغ پر اچھی خبریں نہ آتی ہوں، وہاں کوئی شیلٹر ہوم کسی مظلوم عورت کو کس حد تک کسی گھر کی زندگی سے بہتر ماحول فراہم کرسکتا ہے؟ پھر یہ سوال بھی اپنی جگہ قابل غور ہے کہ ہمارے معاشرے کے کتنے گھرانے ایسے ہوں گے جو اپنی گھر کی باتوں کو تھانہ کچہری تک لے جانا پسند کریں گے؟

ہمارا کلچر تو یہ ہے کہ اگر کسی کو یہ پتہ چل جائے کہ جس لڑکے کا رشتہ ہورہا ہے وہ کبھی حوالات میں بھی بند ہوا ہے تو وہ اپنی بیٹی کا رشتہ دینے سے ہی انکار کردے گا۔ اور کسی لڑکی کے بارے میں یہ شک بھی ہوجائے کہ وہ شوہر کے خلاف قانونی مدد لینے کا سوچ بھی سکتی ہے تو اس کو بھی کوئی قبول نہ کرے۔

کتنی غلط بات ہے کہ بل بنانے والے یہ تاثر دے رہے ہیں کے یہ بل ان مردوں کے خلاف ہے کہ جو مرد عورت کو برداشت نہیں کرتے اور ذرا سے بات پر بھی عورت پر ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر یہ سوال بھی ابھرتا ہے کہ جو مرد اپنی عورت کی چھوٹی سی بات برداشت نہ کرسکتا ہو اور تشدد پر اتر آتا ہے وہ بھلا عورت کا جوابی عمل کس طرح برداشت کرسکتا ہے کہ بیوی اس کو حوالات میں بند کرا دے اور وہ خاموشی سے ہاتھوں میں کڑا بھی پہن لے۔ سیدھی سے بات ہے کہ ایسا مرد طلاق تو دے سکتا ہے، جھک نہیں سکتا، ظاہر ہے کہ ایسی صورتحال میں طلاق کی شرح بڑھ سکتی ہے۔

راقم کا خیال ہے کہ اصل مسئلہ اس ملک میں قانون کی حکمرانی اور انصاف کی فراہمی ہے، جب یہی نہ ہو تو معاشرے میں صورتحال ابتر تو ہوسکتی ہے، بہتر نہیں ہوسکتی۔ قانون اور انصاف وہ ہوتا ہے جو کمزوروں کو انصاف فراہم کرے، یہی کمزوروں کی طاقت ہوتی ہے اور اس طاقت کی ضرورت اس ملک میں سب کو ہے، چاہے وہ خواتین ہوں یا مرد۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔