پانی بس آنکھوں ہی میں نہ رہ جائے

ندیم سبحان  منگل 22 مارچ 2016
پانی کی مسلسل بڑھتی ضرورت کے پیش نظر بھی ذخائر آب کی تعمیر ناگزیر ہے۔  فوٹو : فائل

پانی کی مسلسل بڑھتی ضرورت کے پیش نظر بھی ذخائر آب کی تعمیر ناگزیر ہے۔ فوٹو : فائل

پانی۔۔۔۔۔۔ روئے زمین پر بقائے حیات کے لیے ضروری بنیادی عناصر میں سے ایک، اور قدرت کی بیش بہا نعمت۔۔۔۔۔۔ جس سے دنیا بہ تدریج محروم ہورہی ہے۔ یوں تو کرۂ ارض کا دو تہائی پانی پر مشتمل ہے مگر میٹھے یا تازہ پانی، جو جسم و روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہے، کے ذخائر اس دو تہائی کا محض ایک فی صد ہیں۔

باقی سمندری پانی ہے جسے نہ تو پیا جاسکتا ہے، اور نہ ہی گھریلو ، صنعتی و زرعی مقاصد سے کام میں لایا جاسکتا ہے۔ مختلف عوامل کے سبب پانی کی طلب مستقل بڑھ رہی ہے مگر رسد محدود ہوتی جارہی ہے۔ یوں یہ جنس نایاب کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ورلڈ واٹر کونسل کے مطابق ہر بیس سال کے بعد پانی طلب دگنی ہوجاتی ہے مگر آبی ذخائر میں بجائے اضافے کے کمی واقع ہورہی ہے۔ طلب و رسد میں اسی فرق کے باعث قلت آب سنگین عالمی مسئلے کی صورت اختیار کر گئی ہے۔

قلت آب سے مراد ضرورت کے مطابق پانی کی عدم دست یابی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کی رپورٹ کے مطابق دو ارب اسّی کروڑ انسان قلت آب کا شکار ہیں۔ ان میں سے ایک ارب بیس کروڑ کو پیاس بجھانے کے لیے صاف پانی میسر نہیں۔ عالمی ادارہ صحت کی پیش گوئی ہے کہ اگر موجودہ صورت حال برقرار رہی تو 2050ء تک چار ارب نفوس کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پانی دستیاب نہیں ہوگا۔

دنیا کی آبادی سات ارب چالیس کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ رواں صدی کے اختتام تک دنیا کی آبادی گیارہ ارب بیس کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ تاہم صدی کے اختتام سے قبل ہی پانی کی دستیابی کے حوالے سے صورت حال ہولناک رُخ اختیار کرچکی ہوگی۔ اس کا اندازہ ورلڈ واٹر کونسل کی اس رپورٹ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ 2025ء تک تازہ پانی کی طلب56 فی صد بڑھ جائے گی۔

اقوام متحدہ کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق کرۂ ارض پر 1.4ارب مکعب کلو میٹر پانی موجود ہے۔ اس میں سے انسانی استعمال کے لیے دستیاب تازہ پانی کے ذخائر محض دو لاکھ مکعب کلو میٹر ہیں۔ ہر چھے میں سے ایک انسان کو قلت آب کا سامنا ہے یعنی اسے اپنی ضروریات کی تکمیل اور پینے کے لیے پانی دستیاب نہیں ۔ دنیا میں 1.1ارب نفوس کو پینے کا پانی میسر نہیں اور یہ تمام انسان ترقی پذیر دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔

عالمی ادارے کے مطابق ایک خطے یا ملک کو اس وقت قلت آب کا شکار سمجھا جاتا ہے جب وہاں پانی کی سالانہ رسد 1700مکعب لیٹر فی کس سے کم ہو۔ ترقی پذیر دنیا کے علاوہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی بعض علاقوں میں پانی کی دستیابی اس پیمانے سے کم ہے۔ قلت آب کا شکار دنیا کی بیشتر آبادی دریاؤں کے طاس کے علاقے میں رہتی ہے جہاں آبی وسائل کا استعمال بے تحاشا ہوتا ہے جب کہ ان کی بحالی کی رفتار کم ہوتی ہے۔

جب کسی خطے کی آبادی کو پینے کے لیے پانی میسر نہ ہو تو پھر پانی کا بحران پیدا ہونا لازمی امر ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی اداروں کے مطابق بیشتر خطے حقیقتاً آبی بحران کا شکار ہیں جب کہ کچھ علاقوں میں ضرورت کے لیے پانی موجود ہونے کے باوجود بحرانی صورت حال درپیش ہے۔ اس کی وجہ پانی کی ترسیل و تقسیم کا موثر نظام نہ ہونا ہے۔

کئی عوامل سے ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا آبی بحران کا شکار ہوچکی ہے۔ ایک ارب انسانوں کو پینے کے لیے صاف پانی میسر نہیں۔ ڈھائی ارب انسان کو صحت گاری اور کچرے اور گندے پانی کی نکاسی کی سہولیات دستیاب نہیں۔ ان کی عدم دستیابی اکثر اوقات پانی کو آلودہ کرنے کا سبب بنتی ہے۔ زیرزمین پانی کا کثرت سے اور بلاوقفہ استعمال زرعی پیداوار میں کمی کا سبب بن رہا ہے۔

پانی کا کثرت سے استعمال اور آبی ذرائع کی آلودگی حیتاتی تنوع کو متاثر کررہی ہے۔ صحت گاری اور نکاسی آب کی مناسب سہولیات کا نہ ہونا اموات میں اضافے کا اہم سبب ہے۔ بالخصوص شیر خوار بچوں کی شرح اموات کی وجہ آلودہ پانی سے پھیلنے والی بیماریاں ہیں۔ ورلڈ بینک کے مطابق آلودہ پانی سے پھیلنے والے 88 فی صد امراض غیر محفوظ پینے کے پانی صحت گاری اور نکاسی آب ناکافی سہولتوں کے باعث پھیلتے ہیں۔

قلت آب کے باعث کئی ممالک جو گندم کی پیداوار میں خود کفیل تھے اب یہ جنس درآمد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ بالخصوص چھوٹے ممالک پر عوام کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے گندم اور دوسر غذائی اجناس درآمد کرنے کا بوجھ بڑھتا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مستقبل قریب میں چین اور بھارت جیسے بڑے ممالک بھی گندم درآمد کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔

چین، امریکا، بھارت، ایران، پاکستان اور میکسیکو سمیت کئی ممالک میں ٹیوب ویلز کے وسیع پیمانے پر استعمال کی وجہ سے زیرزمین سطح آب گرتی جارہی ہے۔ اس کا نتیجہ اناج کی پیداوار میں کمی اور اس کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں برآمد ہوگا۔ دوسری جانب عالمی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بالخصوص ترقی پذیر ممالک میں آبادی میں اضافے کی شرح بلند ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق 2050ء تک کرۂ ارض پر تین ارب نفوس جنم لیں گے۔ ان میں سے پیشتر ترقی پذیر اور غریب ممالک میں پیدا ہوں گے۔ جب تک آبادی میں اضافے پر قابو نہیں پا جاتا اس وقت تک عالمی قلت آب کا پرامن یا انسانی حل تلاش کرنا ممکن نہیں۔

طبعی اور معاشی قلت آب:
عالمی آبادی کا پانچوں حصہ پانی کی طبعی قلت کا شکار ہے یعنی ان ممالک میں رہائش پذیر ہے جہاں آبی وسائل ان کی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں۔ صحرائی علاقے مستقلاً قلت آب کا شکار رہتے ہیں مگر وہ علاقے بھی پانی کی قلت سے دوچار ہوتے ہیں جہاں زراعت کے لیے ہائیڈولک انفرا اسٹریکچر جیسے ٹیوب ویل کثرت سے استعمال کیے جاتے ہوں۔

معاشی قلت آب سے مراد دریاؤں، جھیلوں اور دیگر آبی ذخائر سے پانی حاصل کرنے کے لیے انفرا اسٹریکچر یا ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کا نہ ہونا ہے۔ بہ الفاظ دیگر پانی موجود ہے مگر اسے استعمال میں نہیں لایا جارہا۔ عالمی آبادی کا ایک چوتھائی معاشی قلت آب کا شکار ہے۔ خاص طور پر براعظم افریقہ میں یہ صورت حال درپیش ہے یہاں انفرا اسٹریکچر تعمیر کرنے سے قلت آب پر خاص حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

قلت آب اور غربت:
پانی کی عدم یا جزوی دستیابی غربت میں اضافے کا اہم سبب ہے۔ ایک عام مشاہدہ ہے ترقی یافتہ مالک میں پانی کی دستیابی کی صورت حال غریب ملکوں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ افریقہ سمیت کئی خطے ایسے ہیں جہاں لوگوں کی بڑی تعداد محض اس لیے عسرت زدہ حالت میں جینے پر مجبور ہے کہ وہاں زراعت کے لیے پانی موجود نہیں ہے۔ اگر ان علاقوں میں پانی میسر آجائے تو زمین پر فصلیں لہلہا اٹھیں گی۔ نتیجتاً روزگار میسر آئے گا اور لوگوں کی معاشی حالت بہتر ہوگی۔

قلت آب کے ماحول پر اثرات:
قلت آب دریاؤں، جھیلوں اور تازہ پانی کے حصول کے دوسرے ذرائع سمیت ماحول پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔ پانی کا کثرت سے استعمال یا ضیاع جو قلت آب کا سبب بنتا ہے، ماحول کو کئی طرح سے متاثر کرتا ہے۔

اس کی وجہ سے زیر زمین نمکیات کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کے نتیجے میں زمین کاشت کے قابل نہیں رہتی پچھلے سو سال کے دوران سطح زمین سے نصف سے زائد دلدلی علاقے غائب ہوگئے ہیں یا پھر تباہ ہوگئے ہیں۔ یہ دلدلی علاقے نہ صرف مختلف جانوروں ، پرندوں اور آبی حیات کا مسکن ہونے کی وجہ سے اہمیت رکھتے ہیں۔ بلکہ یہ چاول اور دیگر غذائی اجناس کی کاشت کو بھی سہارا دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں طوفان اور سیلابوں سے بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

قلت آب نے تازہ پانی کی جھیلوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ مثلاً وسطی ایشیا میں واقع بحیرہ ارال دنیا میں میٹھے پانی کی چوتھی بڑی جھیل تھی تین عشروں کے دوران اس کا 58000مربع کلو میٹر سے زائد رقبہ تھورزدہ زمین میں تبدیل ہوچکا ہے۔

زیر زمین پانی:
حالیہ تاریخ میں زیر زمین پانی کا بہت زیادہ استعمال نہیں کیاگیا تھا۔ 1960ء کے عشرے میں زیرزمین پانی کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جانے لگا۔ بتدریج علم و آگہی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری بڑھنے سے سطحی آبی وسائل سے زیادہ زیر زمین پانی سے فائدہ اٹھانے کا رحجان زور پکڑتا چلاگیا۔ اس تبدیلی نے معاشرے میں زرعی ترقی کو مہمیز کیا۔

زیر زمین پانی کے استعمال کی وجہ سے زیر کاشت رقبے میں اضافہ ہوا اور پیداوار بھی بڑھی۔ دنیا میں جس قدر پانی پیا جاتا ہے اس کا نصف زیرزمین آبی ذخائر سے حاصل ہوتا ہے۔ زیرزمین آبی ذخائر میں موجود پانی خشک سالی اور بارشیں معمول سے کم ہونے کی صورت میں استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔ یوں زیرزمین آبی ذخائر ان خطوں کے باسیوں کے لیے بے حد اہمیت رکھتے ہیں جو پانی کی طلب پوری کرنے کے لیے صرف بارش یا بالائے زمین پانی پر انحصار نہیں کرسکتے۔

2010ء تک دنیا بھر میں زیر زمین پانی کا استعمال 1000 مکعب کلو میٹر سالانہ تک پہنچ چکا تھا۔ اس پانی کا 67فی صد کاشت کاری، 22 فی صد گھریلو مقاصد اور 11فی صد صنعتوں میں استعمال ہورہا تھا۔ زمین کے سینے سے نکالے گئے پانی کے سب سے بڑے 10صارفین میں بھارت، چین، امریکا، پاکستان، ایران، بنگلادیش، سعودی عرب، میکسیکو، انڈونیشیا اور اٹلی شامل ہیں۔ زمین سے نکالے گئے پانی کا 72فی صد یہ ممالک استعمال کرتے ہیں۔ زیرزمین آبی ذخائر افریقا اور ایشیا کے غریب علاقوں کے باشندوں کی گزر بسر اور غذائی تحفظ کے لیے کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

قلت آب سے نمٹنے کے لیے اقدامات:
زیر زمین پانی کے ممکنہ حد تک محدود استعمال اور ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر میں بہ ظاہر اس عالمی مسئلے کا حل دکھائی دیتا ہے۔ تاہم گہرائی میں جانے پر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ حل بھی اتنے سادہ اور آسان نہیں۔ ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی تعمیر کثیر لاگتی ہے جس کی وجہ سے یہ ٹیکنالوجی صرف چند خطوں تک محدود ہے۔ تاہم قلت آب سے نمٹنے میں سب سے بڑی اور ناقابل عبور رکاوٹ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ بیشتر ممالک بالخصوص تیسری دنیا میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے جس پرقابو پانے کی تمام کوششیں ناکام ہوچکی ہیں۔ علاوہ ازیں ان پلانٹس کو چلانے پر بھی کثیر رقم خرچ ہوتی ہے۔

زیر زمین پانی کا استعمال محدود کرنا بھی ممکن نہیں۔ اگر ایسی کوئی کوشش کی بھی جائے تو اسے سیاسی ایشو بننے میں دیر نہیں لگے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر کسانوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ ایک مخصوص سے زائد وقت تک ٹیوب ویل نہیں چلائیں گے تو حکومتوں کے خلاف ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوجائے گا۔ اگر ہنگامہ نہ بھی جو تو بھی اس اقدام سے فصلوں کی پیداوار میں بھی منفی اثر پڑے گا اور ایسی صورت حال میں جبکہ دنیا کو افراط آبادی کے باعث غذائی قلت کا بھی سامنا ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی قحط اور سیاسی عدم استحکام کو جنم دے گی۔

قلت آب پر قابو پانے یا اسے محدود کرنے کے لیے ترقی یافتہ اور تیسری دنیا کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے اور دنیا اس سے مشترکہ طور پر ہی نمٹ سکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کو چاہیے کہ حقیقت پسندانہ سوچ اپناتے ہوئے پرائمری یا ابتدائی ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ سسٹم نصب کریں۔ ترقی یافتہ ممالک اس سلسلے میں مدد کرتے ہوئے انھیں ٹیکنالوجی منتقل کرسکتے ہیں۔

حکومتوں کے علاوہ عوام الناس کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ قتل آب پر قابو پانے میں کردار ادا کریں۔ درحقیقت حکومتوں کے مقابلے میں عام لوگ اس سلسلے میں زیادہ موثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ پانی کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے اس کے ضیاع سے ممکنہ حد تک بچیں۔ جہاں تک ہوسکے کم سے کم پانی استعمال کریں۔ اس سلسلے میں خود بھی باشعور ہونے کا ثبوت دیں اور اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو بھی آگاہی دیں۔ عوام الناس قلت آب اور تحفظ آب سے متعلق شعور بیدار کرنے کے لیے حکومتیں بھرپور مہمات چلائیں۔

قلت آب اور ڈی سیلینیشن:
ازالہ نمک یا ڈی یلینشین وہ طریقہ ہے جس میں سمندری پانی سے نمکیات علیحدہ کرکے اسے میٹھا پانی بنالیا جاتا ہے ۔ یہ عمل دو مرکزی تیکنیکوں کے ذریعے انجام دیا جاتا ہے جو ڈسٹلیشن اور ممبرین فلٹریشن کہلاتی ہیں ان کے علاوہ ازالۂ نمک کے کئی طریقے ہیں۔ کھارے پانی کو میٹھا بنانے کا بنیادی طریقہ اگرچہ ہزاروں برس سے موجود ہے مگر یہ بڑے پیمانے پر کبھی استعمال نہیں کیاگیا علاوہ ازیں ازالۂ نمک کے بڑے پیمانے پر استعمال کے بارے میں خدشات بھی پائے جاتے ہیں۔

اس وقت 120ممالک میں بارہ ہزار سے زائد ڈی سیلینشن پلانٹ موجود ہیں مگر یہ سب مل کر تازہ پانی کی مجموعی عالمی کھپت کا صرف ایک فی صد تیار کرپاتے ہیں۔ بدقسمتی ڈی سیلینیشن کا پروسیس کئی طرح سے ماحول کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔ سمندری پانی کو تازہ پانی میں تبدیل کرنے کے بعد بچ جانے والے نمکیات اور دوسرے مواد کو دوبارہ سمندر ہی میں پھینک کر ٹھکانے لگایا جاتا ہے جس سے ماحولیاتی نظام میں بگاڑ پیدا ہونے کے علاوہ آبی حیات کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

سمندر سے بڑی مقدار میں پانی حاصل رکنے کی غرض سے قوی الجثہ موٹروں کو چلانے کے لیے بڑی مقدار میں توانائی درکار ہوتی ہے اور اگر اس توانائی کے حصول میں رکازی ایندھن استعمال کیا جارہا ہو تو پھر اس سے سبز مکانی گیسوں کا اخراج ہوگا جو گلوبل وارمنگ کو بڑھاوا دے گا۔ پچھلے دس برسوں میں ڈی سیلینشن ٹیکنالوجی میں بہتری کی بدولت توانائی کا استعمال کم ہوا ہے مگر ان پلانٹس کی نصیب اور انھیں چلانے پر آنے والی بلند لاگت اور ان کے ماحولیاتی نقصانات کے پیش نظر ان کا استعمال عام نہیں ہوسکا تاہم ڈی سیلینشن پلانٹس بالائے زمین اور زیر زمین آبی ذخائر پر دباؤ میں کمی کا سبب بن سکتے ہیں۔ بالخصوص خشک سالی میں یہ انتہائی کار آمد ثابت ہوسکتے ہیں۔

قلت آب اور موسمی تغیر:
عالمی موسم میں رونما ہونے والے تغیرات کا سبب دنیا کے درجۂ حرارت کا بڑھنا یا گلوبل وارمنگ ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق فضا میں سبزمکانی گیسوں بالخصوص کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار گلوبل وارمنگ کا باعث بن رہی ہے۔ عالمی درجۂ حرارت میں معمولی اضافہ بھی آبی چکر پر اثر انداز ہوتا ہے جس کے نتیجے میں موسمیاتی تغیرات رونما ہوتے ہیں۔ چنانچہ کہیں شدید بارشوں کے سبب سیلاب آجاتے ہیں اور کہیں خشک سالی ڈیرے ڈال لیتی ہے۔

اس موسمی تغیر کا اثر پانی کی دستیابی پر پڑتا ہے۔ اگرچہ ترقی یافتہ صنعتی اقوام گلوبل وارمنگ کی ذمہ دار ہیں مگر موسمی تغیر سے سب سے زیادہ متاثر تیسری دنیا کی غریب اقوام ہوں گی۔ عالمی درجۂ حرارت میں ایک درجہ سیلسئیس کا اضافہ پانچ کروڑ افراد کو پانی کی رسد سے محروم کردے گا کیونکہ درجۂ حرارت بڑھنے سے کوہ اینڈس کے چھوٹے گلیشیئر پگھل جائیں گے۔ دنیا کا درجہ حرارت پانچ درجہ بڑھنے پر کوہ ہمالیہ گلیشیئرز سے پاک ہوجائے گا جس کے نتیجے میں چین، بھارت اور پاکستان کے کروڑوں افراد متاثر ہوں گے جہاں قلت آب پہلے ہی سنگین صورت اختیار کرچکی ہے۔

موسمی تغیرات ترقی یافتہ ممالک کو بھی متاثر کررہے ہیں۔ مثال کے طور پر امریکی ریاست کیلے فورنیا کئی برس تک خشک سالی کا شکار رہی ہے۔ وہاں کے لوگوں کو حال ہی میں خشک سالی سے نجات ملی ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ جلد ہی پھر خشک سالی کی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ کیلے فورنیا کے تین دریاؤں کے طاس کے علاقے میں موسمی تغیرات کے باعث آنے والے برسوں میں پانی کے بہاؤ میں 8سے 14فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔

موسمی تغیر کے طویل المدتی اثرات میں برف جلد پگھل جانے کے باعث سردیوں میں سیلابوں کا آنا اور گرمیوں میں قلت آب کا سامنا شامل ہوں گے آسٹریلیا میں 1910ء کے بعد سے اب تک اوسط درجۂ حرارت 0.9 درجہ سیلسیئس بڑھ چکا ہے۔ آسٹریلیا میں کہیں شدید بارش ہوتی ہیں اور کہیں ز مین برسوں تک بوندوں کو ترستی رہتی ہے۔

اس صورت حال میں آبی وسائل کی انتظام کاری ایک چیلنج بن چکی ہے۔ برتھ سمیت کئی شہروں کو شدید قلت آب کا سامنا ہے۔ پرتھو کے متعلق ماہرین پیش گوئیاں کررہے ہیں کہ آنے والے برسوں میں یہ شہر ’’گھوسٹ سٹی‘‘ بن جائے گا کیوںکہ پانی کی قلت لوگوں کو نقل مکانی پر مجبور کردے گی۔ موسمی تغیر کا اندازہ کرنے کے لیے سائنسی بنیادوں پر اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تشکیل دیے گئے ماڈلز ظاہر کرتے ہیں کہ مستقبل میں پانی کے قدرتی ذرائع موسمیاتی تبدیلیوں سے شدید متاثر ہوں گے اور قلت آب شدید ہوجائے گی۔

پاکستان میں قلت آب کی صورت حال:
پاکستان پانی کی شدید قلت کا شکار ممالک میں شامل ہے۔ عالمی موسمی تغیرات کے ساتھ ساتھ پانی ذخیرہ کرنے میں حکومتوں کی عدم دل چسپی کے سبب پاکستان میں پانی کی رسد محدود ہوتی جارہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے ملک میں قلت آب کی تصویر کشی کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگلے پانچ سے سات برسوں میں پاکستان میں پانی کا قحط پڑسکتا ہے۔

اقوام متحدہ اور ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت عالمی اداروں کی رپورٹیں بھی پانی کے حوالے سے پاکستان کے مستقبل کی خوفناک تصویر پیش کررہی ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو شدید قلت آب سے دوچار ممالک میں شامل کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان کو باقاعدہ قلت آب کا شکار ملک قرار دے دیا جائے گا۔ قبل ازیں اقوام متحدہ کی ورلڈ واٹر ڈیولپمنٹ رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ پاکستان میں ہر فرد کے لیے دستیاب پانی کی مقدار میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے۔ 2000ء میں اوسطاً ہر شہری کو 2961 مکعب میٹر پانی دستیاب تھا۔ 2005ء میں یہ اوسط کم ہوکر 1420 مکعب میٹر ہوگئی، اور اب ایک ہزار سے بھی نیچے آچکی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں امریکا، آسٹریلیا اور چین میں ہر شہری کو بالترتیب 6000، 5500 اور 2200مکعب میٹر پانی دستیاب ہے، حالاں کہ یہ ممالک بھی قلت آب سے دوچار ہیں۔

ایشیائی ترقیاتی بینک ہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف ایک ماہ کی ملکی ضروریات کے لیے پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جب کہ پاکستان جیسے موسمی حالات کے حامل ممالک کے لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ ان کے پاس تین سال کی ضرورت کے مطابق پانی موجود ہونا چاہیے۔ گذشتہ برس اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اگلے ایک عشرے کے دوران 48 ممالک میں تین ارب افراد کو پانی کی کمیابی کا سامنا ہوگا۔

قلت آب ان ممالک کو عدم استحکام سے دوچار کردے گی اور کچھ ریاستوں کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں جن اڑتالیس ممالک کا ذکر کیا گیا ہے ان میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی قلت آب کے بنیادی اسباب میں افراط آبادی کے باعث پانی کی طلب میں اضافہ، موسمی تغیر، شہرکاری میں اضافہ اور ذخیرۂ آب تعمیر کرنے میں حکومتوں کی عدم دل چسپی ہے۔ علاوہ ازیں دستیاب پانی کی ناقص انتظام کاری بھی قلت آب میں اضافے کا سبب ہے۔

بین الحکومتی پینل برائے موسمی تغیرات کے مطابق آب و ہوا میں رونما ہونے والی تبدیلیاں شدید موسمی اثرات جیسے گرمی کی لہر، خشک سالی، بارشوں میں عدم تسلسل، اور سیلابوں کا سبب بن رہی ہیں۔ موسمی تغیرات کے باعث پانی کی انتظام کاری یقیناً ایک چیلنج ہے، تاہم دوسری جانب اس کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔

موسمی تغیرات کے باعث ہمالیہ سے نکلنے والے دریائے سندھ کے بہاؤ میں کمی واقع ہورہی ہے جو پاکستان میں تازہ پانی کے حصول کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ بہاؤ میں کمی کے باعث دریائے سندھ کا طاس بھی سکڑ رہا ہے جس کی وجہ سے پانی کھارا اور آلودہ ہورہا ہے۔ یوں یہ پانی نہ تو پینے کے قابل ہے اور نہ ہی زرعی استعمال کے لیے موزوں۔ پانی میں نمکیات کی سطح بڑھنے سے مینگروو کے جنگلات اور آبی حیات کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔

زرعی ملک ہونے کی وجہ سے پانی کی بڑھتی ہوئی قلت پاکستانی معیشت پر منفی اثرات مرتب کررہی ہے۔ ملکی جی ڈی پی میں زراؑعت کا حصہ 25 فی صد ہے جب کہ یہ شعبہ بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر آبادی کے بڑے حصے کو روزگار مہیا کرتا ہے۔ یوں قلت آب معیشت کی مشکلات میں مزید اضافہ کرے گی۔

عمومی قلت آب کے علاوہ پاکستان کے عوام پینے کے صاف پانی کی بھی کمیابی کا شکار ہیں۔ اس ضمن میں لگائے گئے تخمینے ظاہر کرتے ہیں کہ ایک چوتھائی سے ایک تہائی آبادی صاف اور محفوظ پانی پینے سے محروم ہے۔ ان میں شہری اور دیہی، دونوں طرح کی آبادی شامل ہے۔ وُڈ رو ولسن سینٹر فار انٹرنیشنل اسکالرز کی دس برس قبل کی گئی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلنے والے امراض کے باعث صرف کراچی میں سالانہ تیس ہزار اموات ہوتی ہیں۔

قلت آب سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ حکم راں سب سے پہلے اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کریں جو، اقوام متحدہ کے مطابق، آگے چل کر ملک میں انتشار اور انارکی کا سبب بن سکتا ہے۔ بعد ازاں اس مسئلے پر قابو پانے کے لیے مربوط حکمت عملی تشکیل دی جائے۔ قلت آب پر قابو پانے یا اس کی شدت میں کمی کے لیے بہ یک وقت کئی سمتوں میں کوششیں کرنی ہوں گی۔

ڈیموں کی ضرورت:
قلت آب پر قابو کے سلسلے میں سب سے اہم اقدام پانی ذخیرہ کرنے کے لیے نئے ڈیموں کی تعمیر ہے۔ پاکستان میں چھوٹے بڑے ڈیموں اور بیراج کی تعداد ڈیڑھ سو بھی نہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں چار ہزار ڈیم اور بیراج بنائے جاچکے ہیں اور ڈیڑھ سو زیرتعمیر ہیں۔ اس سے بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستانی حکمرانوں نے نہ تو ذخائرآب کی اہمیت کو محسوس کیا اور نہ ہی ان کی تعمیر پر توجہ دی۔ آج اگر پاکستان شدید قلت آب سے دوچار ہے تو اس کی بنیادی وجہ مناسب تعداد میں ڈیم تعمیر نہ ہونا ہے۔ پاکستان میں تقریباً ہر سال شدید بارشیں ہورہی ہیں۔

اس کے باوجود یہاں پانی کی قلت کا ہونا افسوس ناک ہے۔ بارش اور سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی سمندر میں چلا جاتا ہے۔ اگر اسے ذخیرہ کیا جاسکے تو قلت آب پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق پانی کے ضیاع کی وجہ سے ملکی معیشت کو سالانہ 36 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ اگر ڈیم بنالیے جائیں تو اس نقصان کے ساتھ ساتھ قلت آب سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

پانی کی مسلسل بڑھتی ضرورت کے پیش نظر بھی ذخائر آب کی تعمیر ناگزیر ہے۔ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ پانی کی طلب میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کے مطابق پاکستان کی آبادی 1.57فی صد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ 2050ء تک آبادی دُگنی ہوجائے گی۔ اس وقت تک 64 فی صد آبادی شہروں میں مقیم ہوگی۔ آبادی اور شہرکاری میں اضافے کا نتیجہ پانی کی رسد پر انتہائی دباؤ کی صورت میں ظاہر ہوگا۔

کالا باغ ڈیم جیسے بڑے ذخائر آب کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ پانی کی انتظام کاری کو بہتر بنایا جائے۔ عوام میں پانی کی اہمیت اور اس کے کفایتی استعمال کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کے لیے بھرپور مہمات چلائی جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔