جنرل پیٹریاس کو عشق اورسیاست میں آنے کا شوق لے ڈوبا

بی بی سی / اے ایف پی  اتوار 11 نومبر 2012
سی آئی اے کے مستعفی سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس اور صحافی پائلہ بروڈول کی ایک فائل فوٹو۔ فوٹو : اے ایف پی

سی آئی اے کے مستعفی سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس اور صحافی پائلہ بروڈول کی ایک فائل فوٹو۔ فوٹو : اے ایف پی

واشنگٹن: سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس جس خاتون کے عشق میں گرفتار ہوکر مستعفی ہوئے وہ ان کی سوانح عمری لکھنے والی صحافی پائلہ بروڈول ہے ۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ان روابط کا انکشاف ایف بی آئی نے اس وقت لگایا جب انھوں نے جنرل پٹریاس کے ای میل اکائونٹ کی نگرانی شروع کی تاکہ یہ پتہ چلا سکیں کہ کیا کسی اور شخص کو اس اکائونٹ تک رسائی حاصل تو نہیں ۔ پائلہ بروڈول ہاورڈ یونیورسٹی میں تحقیقی ایسوسی ایٹ ہیں اور لندن میں کنگز کالج میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں ۔ امریکی میڈیا نے جنرل پیٹریاس کے استعفے کی ایک اور وجہ سیاست میں دلچسپی بتائی ہے ، اس سال کے شروع میں خبریں آئی تھیں کہ جنرل پیٹریاس، ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی الیکشن لڑنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں انہوں نے صدارتی امیدواروں کے بحث مباحثہ کیلئے مشہور سینٹ انسالم کالج آف نیو ہمپاشائر کا دورہ بھی کیا تھا، جنرل پیٹریاس ، اگرچہ سیاست میں دلچسپی کی تردید کرتے رہے ہیں۔

تاہم میڈیا کا اصرار ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں ری پبلکن کے بہترین صدارتی امیدوار ہوسکتے ہیں، ایک امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ پیٹریاس کو لیبیا میں امریکی قونصلیٹ پر حملے میں امریکی سفیر کی ہلاکت پر تنقید کا سامنا بھی تھا۔ امریکی فوج میں37سال کی سروس کے دوران پیٹریاس نے دوبار موت کو بہت قریب سے دیکھا ، پہلی بار1991میں ان کی چھاتی پر غلطی سے گولی اس وقت لگی جب مشقوں کے دوران ایک فوجی لڑکھڑا کر گرگیا اور اس کی بندوق چل گئی ۔ ان کی پانچ گھنٹے سرجری جاری رہی ۔ دوسری بار انہوں نے موت کو اس وقت قریب سے دیکھا جب 1999میں مشقوں ہی کے دوران ان کا پیراشوٹ ساٹھ فٹ کی بلندی پر پھٹ گیا تھا ۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اوباما کو جمعرات کی صبح شائبہ تک نہ تھا کہ سی آئی اے چیف استعفیٰ دینے والے ہیں ۔ صدر اوباما نے پیٹریاس کا استعفیٰ فوری منظور کرنے سے انکارکر دیا اور کہا کہ وہ رات کو اس کے بارے میں سوچیں گے تاہم اوباما اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ پیٹریاس پر دبائو نہیں ڈال سکتے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔