دہشت گردی کا خاتمہعالمی کوششوں کی ضرورت

حملوں کے بعد امریکا اور یورپ بھر میں سیکیورٹی انتظامات انتہائی سخت کر دیے گئے ہیں


Editorial March 24, 2016
وقت آ گیا ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرے، فوٹو : اے ایف پی

ISLAMABAD: برسلز میں ہونے والے دھماکوں کی ذمے داری داعش نے قبول کر لی ہے۔بیلجیئم کے وزیراعظم نے دھماکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ دن ملکی تاریخ کا افسوسناک دن ہے' وہ قوم سے یکجہتی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بیلجیئم کے وزیر داخلہ نے تین روزہ سوگ کا اعلان کرتے ہوئے ہائی لیول کا ٹیرر الرٹ جاری کر دیا۔

حملوں کے بعد امریکا اور یورپ بھر میں سیکیورٹی انتظامات انتہائی سخت کر دیے گئے ہیں۔ بیلجیئم حکام نے تین دہشت گردوں کی تصاویر جاری کر دی ہیں جو سی سی ٹی وی کیمرے سے لی گئیں۔ پاکستان' امریکا' برطانیہ' فرانس' جرمنی' ڈنمارک' سویڈن اور دیگر ممالک نے حملوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردی کسی ایک قوم یا ملک کے لیے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے خطرہ ہے' آیندہ نسلوں کے محفوظ مستقبل کے لیے دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنا ہو گا۔

بیلجیئم کے دارالحکومت برسلز میں ایئر پورٹ پر تین اور میٹرو اسٹیشن پر چار دھماکے ہوئے جن میں 37 افراد ہلاک اور 180 زخمی ہو گئے۔ برسلز یورپی یونین اور نیٹو کا ہیڈ کوارٹر ہونے کی حیثیت سے پورے یورپ میں اہمیت کا حامل شہر سمجھا جاتا ہے' یہاں پر عالمی کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد معمول کی بات ہے جس میں دنیا بھر سے بڑے بڑے رہنما شرکت کرتے ہیں' اسی اہمیت کے پیش نظر اس شہر میں حفاظتی انتظامات بھی معمول سے بڑھ کر کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں داعش کے جنگجوؤں کی موجودگی' دھماکوں کی منصوبہ بندی اور ان پر عمل درآمد کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

آخر اتنے سخت حفاظتی انتظامات کے باوجود دہشت گرد دھماکے کرنے میں کیسے کامیاب ہو گئے اس سے یورپ کے حفاظتی نظام اور انٹیلی جنس سسٹم کی کمزوریاں بھی سامنے آتی ہیں جن پر قابو نہ پایا گیا تو اس خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ دہشت گرد آیندہ بھی ایسی کارروائیاں کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ چند ماہ قبل پیرس میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کے بعد برسلز میں فرانسیسی فورسز بھی دہشت گردوں کا سراغ لگانے کے لیے موجود ہیں' انھوں ہی نے چند روز قبل داعش کے ایک اہم جنگجو صالح عبدالسلام کو گرفتار کیا تھا جس سے اہم معلومات حاصل ہوئیں۔ 7جولائی 2005ء کو دہشت گردوں کی جانب سے لندن میں زیرزمین ٹرینز اور ڈبل ڈیکر بس پر حملہ کیا گیا جس میں 52 افراد مارے اور 700 سے زائد زخمی ہو گئے۔

اسی طرح پیرس میں بھی دہشت گردوں کے حملے ہو چکے ہیں۔ ان حملوں کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ دہشت گرد پورے یورپ میں پھیل رہے ہیں اور وہ کسی بھی وقت وہاں کوئی بھی کارروائی کر کے افراتفری مچا سکتے ہیں۔ اگرچہ تمام یورپی ممالک اپنے جدید ترین سیکیورٹی اور انٹیلی جنس نظام کے ذریعے دہشت گردوں کا سراغ لگانے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے اور اس سلسلے میں انھیں کچھ کامیابیاں بھی حاصل ہوئی ہیں لیکن دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ مشکل امر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک طویل المدت عمل بھی ہے۔

ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں بھی گزشتہ دنوں دہشت گردوں نے حملے کر کے تباہی مچائی' ان حملوں کی ذمے داری کردوں نے قبول کی۔ اسی طرح سعودی عرب میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئیں جن کی ذمے داری داعش قبول کر چکی ہے۔ دہشت گردی سے جنم لینے والے حالات کا گہری نظر سے تجزیہ کیا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ یورپ اور ترکی میں ہونے والے حالیہ حملوں کے ڈانڈے عراق' شام اور یمن سے جا ملتے ہیں۔

اس وقت عراق' شام اور یمن میں خانہ جنگی کی کیفیت ہے اور یہی ممالک داعش کا مضبوط گڑھ بھی ہیں جو ایک بڑے رقبے پر قابض ہے۔ صدیوں سے ان ممالک کے باشندوں کے تجارتی مفادات اور سیاحتی تعلقات مغربی یورپ اور شمالی افریقہ سے وابستہ رہے ہیں' یہی وجہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ممالک میں جنم لینے والے بحران کے منفی اثرات مغربی یورپ اور شمالی افریقہ پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ مبصرین کے مطابق یورپ میں ہونے والی حالیہ کارروائیوں کے پیچھے انتقامی جذبات بھی کارفرما ہو سکتے ہیں کیونکہ مشرق وسطیٰ کے باشندے اپنے ممالک میں پیدا ہونے والے خانہ جنگی بحران کا ذمے دار امریکا اور یورپی ممالک کی قیادت کو قرار دے رہے ہیں۔ شمالی افریقہ کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی حالات ابتری کا شکار ہیں۔

مصر کے سیاسی حالات عدم استحکام سے دوچار ہیں۔ لیبیا' مراکش اور الجزائر میں بھی صورت حال بہتر نہیں' ان ممالک کے باشندوں میں فرانس' اسپین اور اٹلی کے خلاف انتقامی جذبات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ فرانس میں ہونے والی دہشت گردی کے ملزموں کا تعلق بھی شمالی افریقہ ہی سے نکلا تھا۔ الجزائری مسلمان فرانس اور بیلجیئم میں بڑی تعداد میں آباد ہیں' ان کی موجودہ اکثریت پیدا تو یورپ میں ہوئی ہے لیکن وہ محسوس کرتی ہے کہ اس کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں سا امتیازی سلوک برتا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ مسلمان انتقام لینے کی خاطر داعش اور دیگر انتہا پسند تنظیموں میں بڑی تعداد میں شرکت کر رہے ہیں۔

اس حقیقت سے بھی صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ یورپ اور امریکا میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کی حالیہ لہر کے پیچھے ان ممالک کی اپنی سامراجی پالیسیوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے' دہشت گردی کی ہر واردات کے بعد امریکا اور یورپ میں پالیسیاں مزید سخت سے سخت تر ہوتی چلی جاتی ہیں جس کا زیادہ تر نشانہ مسلمان ہی بنتے ہیں۔

امریکا اور یورپ پاکستان سے بارہا یہ مطالبہ کرتے رہتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔ دہشت گردی کی کارروائیوں کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ مسئلہ کسی ایک قوم یا ملک کا نہیں رہا بلکہ عالمی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ طور پر لڑنا ہو گا۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو وہ انفرادی طور پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کر رہا ہے جس میں اسے بڑے پیمانے پر کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں حالانکہ اس کے پاس یورپی ممالک کی نسبت وسائل انتہائی کم ہیں لیکن اس کے باوجود پاک فوج نے بڑی جرات اور مہارت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ختم کیا ہے' اس کامیابی میں پاکستان انٹیلی جنس ایجنسیوں کا کردار یورپی ایجنسیوں سے کہیں بہتر معلوم ہوتا ہے جو اب تک یورپی ممالک میں دہشت گردوں کا بڑے پیمانے پر سراغ نہیں لگا سکیں۔ وقت آ گیا ہے کہ امریکا اور یورپی ممالک اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے مشترکہ کوششیں کرے تب ہی اس عالمی عفریت کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔

مقبول خبریں