نواز شریف کا دورۂ امریکا اور نیوکلیئر سمّٹ

تنویر قیصر شاہد  جمعرات 24 مارچ 2016
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

دنیا بھر کے ایٹمی ہتھیاروں، ایٹمی پاور پلانٹس اور جوہری بھٹیوں پر نظر رکھنے والے ادارے، عالمی جوہری توانائی ایجنسی، یعنی IAEA کی طرف سے بیس مارچ 2016ء کو یہ اعلان ہوا ہے: ’’پاکستان (اپنے) ایٹمی ہتھیاروں کا تحفظ بخوبی کر رہا ہے۔‘‘ یہ اطمینان بخش اور خوش کُن خبر اس وقت آئی ہے جب وزیراعظم محمد نواز شریف 31 مارچ 2016ء کو واشنگٹن میں ہونے والی اہم ترین ’’نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ‘‘ میں شرکت کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ واشنگٹن میں ہونے والی جوہری سلامتی کی اس سربراہ  کانفرنس میں نریندر مودی بھی شریک ہو رہے ہیں۔

امید کی جا رہی ہے کہ امریکی دارالحکومت میں نریندر، نواز ملاقات بھی ہو گی۔ ممکن ہے اس ملاقات سے پاک، بھارت سیکریٹری خارجہ کے معطل شدہ مذاکرات کے دروازے پھر سے کھُل جائیں۔ بھارت میں پٹھانکوٹ ائیربیس پر مبینہ طور پر دہشت گردوں کے حملے سے مذاکرات کے لیے کھلتا ہوا دروازہ پھر سے بند ہو گیا تھا۔ ہماری تو یہی دعا ہے کہ ہمارے وزیراعظم اپنے بھارتی ہم منصب سے بھی کامیاب معانقہ کریں اور نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ (NSS) میں بھی کامیابیاں سمیٹ کر واپس آئیں کہ امریکی صدر اوباما کی طرف سے اٹھائے گئے اس ’’قدم‘‘ کی یہ آخری کانفرنس ہے۔

امریکی صدر کی حتمی کوشش ہو گی کہ ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے وہ پاکستان سے اپنے مرضی کے فیصلے کروا سکیں لیکن وزیراعظم نواز شریف کی قیادت و امامت میں پاکستان اتنی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے ہے کہ امریکی صدر کے غچّے میں آ جائے۔ جناب نواز شریف سے زیادہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی افادیت و اہمیت سے اور کون آگاہ ہو گا کہ یہ نواز شریف ہیں جنہوں نے مئی 1998ء میں امریکا کی طرف سے بہت سے شدید دباؤ اور متنوع مالی ترغیبات کی پروانہ کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان کو باقاعدہ عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی مملکت بنا دیا تھا۔

واشنگٹن میں ’’نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ‘‘ میں شرکت سے قبل جناب نواز شریف کے لیے ایک اور خبر بھی اطمینان بخش ہونی چاہیے۔ امریکی حکومت کی سوچوں کے برعکس، امریکا کے ایک ممتاز اور آزاد فکر تھنک ٹینک ’’ہاورڈ کینیڈی اسکول‘‘ نے پاکستان اور بھارت کے ایٹمی ہتھیاروں اور ایٹمی تنصیبات کے بارے میں ایک تحقیقی اور تقابلی رپورٹ شایع کی ہے۔

چند روز قبل ہی شایع ہونے والی اس تازہ ترین رپورٹ (جو Preventing  Nuclear  Terrorism کے عنوان سے منظر عام پر آئی ہے) میں صاف کہا گیا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات نہایت محفوظ ہیں جب کہ بھارتی ایٹمی تنصیبات قدرے غیر محفوظ بھی ہیں اور بھارتی ایٹمی پروگراموں میں کرپشن کے واقعات و حادثات بھی جنم لے رہے ہیں۔ یہ رپورٹ واشنگٹن میں وزیراعظم جناب نواز شریف کے ہاتھ مضبوط کرنے اور انھیں مودی کے مقابلے میں زیادہ بہتر اعتماد مہیا کرنے کا باعث بن سکتی ہے بشرطیکہ ہمارے متعلقہ ادارے اس رپورٹ کو احسن انداز میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کریں۔

امریکا کی حتمی کوشش ہو گی کہ کسی طرح پاکستان کو اپنے جوہری اثاثوں میں کمی کرنے پر راضی کر سکے لیکن یہ کمی یک طرفہ ہو سکتی ہے نہ ہونی چاہیے۔ صدرِ امریکا، اوباما، کے آٹھ سالہ دورِ حکومت کے دوران امریکا نے امتیازی سلوک کا عملی ثبوت دیتے ہوئے ہمیشہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی ہے۔ مثال کے طور پر بھارت کو اُس کی منشا کے عین مطابق ایٹمی سپلائرز گروپ کا حصہ بنانا، تمام جوہری سہولتیں فراہم کرنا اور اسی سلسلے میں امریکا کی طرف سے پاکستان کو انکار کرنا۔ صدرِ امریکا، جناب بارک اوباما، کی انتہائی کوشش ہو گی کہ وہ ’’نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ‘‘ کو کامیابی سے ہمکنار کریں۔

اس ضمن میں گرشتہ ایک برس سے مسلسل تیاریاں جاری رہیں۔ اپنے طے شدہ مقاصد کے حصول کے لیے امریکا نے اس ’’جوہری سلامتی کانفرنس‘‘ کے لیے مادام لارا ہولگیٹ ایسی ماہرِ جوہریات کا ایک سال پہلے ہی تقرر کر دیا تھا۔ وہ گزشتہ چھ برس سے انتہائی حساس نوعیت کی یہ ڈیوٹی نبھاتی آ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان نازک حالات میں (اور خصوصاً واشنگٹن میں منعقد ہونے والی اس نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ میں اٹھنے والے سوالات کا مقابلہ کرنے کے لیے) پاکستان گزشتہ ایک برس سے کیا خصوصی تیاریاں کرتا رہا ہے؟

کہا جا سکتا ہے کہ 24 فروری 2016ء کو راولپنڈی میں این سی اے (نیشنل کمانڈر اتھارٹی) کا جو اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا تھا، وہ اسی تیاری کے سلسلے کی ایک کڑی تو تھی۔ یہ اجلاس وزیراعظم جناب نواز شریف کی زیرِصدارت ہوا اور اس میں سپہ سالارِ پاکستان جنرل راحیل شریف بھی شریک تھے اور وزیرِ دفاع خواجہ آصف بھی۔ وزیرِداخلہ چوہدری نثار بھی وہاں موجود تھے اور مشیرِ امورِ خارجہ سرتاج عزیز بھی۔

ایس پی ڈی کے سربراہ نے بھی شرکت کی اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی نے بھی۔ وزیرِخزانہ بھی وہیں مدعو تھے۔ ظاہر ہے اس حساس ترین اجلاس کی جزئیات اور تفصیلات میڈیا میں تو نہیں آ سکتی تھیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہوا ہے کہ عسکری اور متعلقہ ذمے دار قیادت کی طرف سے جناب وزیراعظم کو واشنگٹن میں ہونے والی ’’نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ‘‘ کے حوالے سے بھرپور بریفنگ دی گئی۔

وہائٹ ہاؤس میں آٹھ سال گزارنے کے بعد، رخصت ہونے سے قبل صدرِ امریکا، اوباما، کی کوشش ہے کہ وہ 31مارچ 2016ء کو واشنگٹن میں منعقد ہونے والی اس ’’نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ‘‘ کے بہانے دنیا کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک تو نہیں کر سکتے، کم از کم ان میں کمی تو کرواتے جائیں۔ ایسا مگر ممکن ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ روس تو غالباً اس بار اس عالمی سربراہی کانفرنس میں شریک ہی نہیں ہو رہا۔ روسی وزارتِ خارجہ اس سلسلے میں کئی ماہ قبل کہہ چکی ہے کہ ہم اکتیس مارچ کی سمٹ میں شرکت نہیں کریں گے کیونکہ بارک اوباما نیوکلیئر سیکیورٹی سمٹ کے پردے میں ایک نئے انداز سے امریکی چودھراہٹ قائم کرنے کا پروگرام بنا رہا ہے۔

روسیوں کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں کبھی ایٹمی ہتھیاروں کے سلسلے میں کوئی نیا فیصلہ کرنا بھی ہوگا تو ہم ’’انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی‘‘ (IAEA) کے تسلیم شدہ عالمی ادارے کے پلیٹ فارم سے فیصلہ کریں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ این ایس ایس کے حوالے سے امریکیوں کے خواب پورے نہیں ہونے جا رہے۔ تو کیا امریکی دارالحکومت میں منعقد ہونے والی یہ چوٹی کی ’’عالمی بیٹھک‘‘ محض نشستند، گفتند اور برخواستند کے مترادف ہو گی؟

امریکا ’’بہادر‘‘ کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی کہ پاکستان ایٹمی طاقت نہ بننے پائے۔ اب جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان باقاعدہ اور اعلانیہ جوہری قوت بن چکا ہے، امریکا ہمیشہ کوشش کرتا رہتا ہے کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کے تمام راز حاصل کر سکے یا دباؤ سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو اتنا محدود کر دے کہ یہ بھارت کے مقابل نہ رہ سکے۔ وطنِ عزیز کی حساس اور ذمے دار شخصیات نے اس ضمن میں امریکا سے متصادم ہوئے بغیر اپنے ایٹمی اثاثوں کی ہمیشہ سنجیدگی اور متانت سے حفاظت کی ہے اور ’’کسی‘‘ کو اس کی ہوا تک نہیں لگنے دی۔ اس سلسلے میں پاکستان کے نامور سفارتکار جناب جمشید مارکر، جو امریکا میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ہیں، نے اپنی تازہ کتاب (COVER  POINT) میں دلچسپ اور انکشاف خیز کہانی لکھی ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو بطور وزیراعظم امریکا گئیں تو صدرِ امریکا جارج بُش، نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جنرل برینٹ سکوکرافٹ اور سی آئی اے کے سربراہ سے ملاقاتوں کے دوران سب نے پاکستان کو اس کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے دھمکیاں دیں۔

یہ دھمکیاں تو برداشت کر لی گئیں لیکن پاکستان نے اپنے ایٹمی معاملات پر کسی قسم کا سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔‘‘ امریکی وزیرِ خارجہ، جان کیری، نے بھی پاکستان کو اپنے ڈھب پر لانے کے لیے محبت کا ایک پتّا چند ہفتے قبل پھینکا تھا، یہ کہہ کر کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثوں میں کمی کرنی چاہیے۔

عالمی امن کی خاطر اصولی طور پر تو یہ بہت مستحسن عمل ہو گا لیکن پاکستان کا موقف بھی اصولی ہے کہ پاکستان ایٹمی ہتھیاروں میں کمی کا یہ اعلان یک طرفہ نہیں کر سکتا، جب تک پاکستان کا روایتی حریف، بھارت بھی اپنے ایٹم بموں میں کمی کا عملی قدم نہ اٹھالے۔ پاکستان کا یہ موقف اس لیے بھی مبنی برانصاف ہے کہ یہ بھارت ہے جس نے جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ کا آغاز کیا تھا۔ اب ہتھیاروں میں کمی کا پہلا اعلان بھی بھارت کی طرف ہی سے کیا جانا چاہیے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ بھارت تو (پاکستان کی سلامتی کے خلاف) ایٹمی ہتھیاروں کے ڈھیر لگاتا جائے اور پاکستان، کسی کی خوشنودی کی خاطر اپنے ایٹمی اثاثوں میں کمی کا اعلان کر دے!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔