اسلام, حصولِ رزق حلال کی تاکید

علامہ محمد الیاس عطار قادری  جمعـء 25 مارچ 2016
انسان کے طور طریقے اچھی یا بری صحبت اور عادات کے مرہون منت ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان کے طور طریقے اچھی یا بری صحبت اور عادات کے مرہون منت ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان کے طور طریقے اچھی یا بری صحبت اور عادات کے مرہون منت ہیں۔ پرامن اور خوش گوار ماحول میں مثبت جب کہ صحیح تربیت اور اچھا ماحول میسر نہ ہونے کے باعث ہمارا طرزِعمل غیر مہذب ہوجاتا ہے۔

حلال کمانے کا تعلق بھی اچھے ماحول اور اچھی تربیت سے ہے۔ چوں کہ کسی کا بھی کسب معاش کے بغیر چارہ نہیں لہٰذا کسب حلال سے اپنے آپ کو خود کفیل کرنا اور اپنی عیال کو دوسروں کی محتاجی سے بچانا مقصود شریعت ہے۔ رسول پاکؐ کے اُمّتی کے لیے مقام فخر ہے کہ اپنے ہاتھ سے کما کر کھائے، کیوں کہ اسلامی حدود کے مطابق رزق کمانا انسان کو دین و دنیا میں سرخ رو کرتا ہے۔ اﷲ تعالی قران مجید میں ارشاد فرماتا ہے

’’ اے ایمان والو! حرام نہ ٹھہراؤ وہ ستھری چیزیں کہ اﷲ نے تمہارے لیے حلال کیں اور حد سے نہ بڑھو، بے شک حد سے بڑھنے والے اﷲ کو ناپسند ہیں، اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اﷲ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اﷲ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔‘‘

اسی طرح رزق حلال کی اَہمیت کو اجاگر کرنے والی احادیث میں سے ہے کہ

٭ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی یہ پروا نہیں کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے وہ حرام ہے یا حلال۔

٭ مسلمان کے لیے فرائضِ خداوندی یعنی نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ کے بعد رزق حلال کے لیے کوشش کرنا بھی فرض ہے۔

٭ بندہ جو حرام مال کمائے گا، اگر اُس کو صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہوگا اور اگر خرچ کرے گا تو اُس میں برکت نہ ہوگی اور اگر اُس کو اپنی پیٹھ کے پیچھے چھوڑ کر مرجائے گا تو وہ اُس کے لیے جہنم کا توشہ بنے گا۔

٭ وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہوگا جو حرام غذا سے بنا ہوگا اور ہر وہ گوشت جو حرام غذا سے بنا ہو جہنم اس کا زیادہ حق دار ہے۔

رزق حلال کی ترغیب اور مال حرام سے تہدید پر مشتمل یہ چند احادیث پڑھنے کے بعد ہر مومن کو چاہیے کہ وہ عزم کرے کہ ہمیشہ مال حلال ہی کمائے گا اور لقمۂ حرام کے سائے سے بھی دور رہے گا۔

لیکن اس شیطانی وسوسے کا علاج کیا نکالیں کہ مال حلال کمانے کے ذرایع کم یاب معلوم ہو تے ہیں۔ خصوصاً دور حاضر میں تو شریعت کے تمام اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے حلال کمانا یا جائز ذرایع اپناکر حلال کمانا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اس طرح کے وسوسوں کا شکار افراد یا رزق حلال کے جائز ذرایع اپنانے سے جن کو شرم محسوس ہو تی ہو، وہ انبیاء کرام علیہم السلام و بزرگان دین علیہم رحمۃ اﷲ المبین کے ذرایع آمدنی کا بہ غور مطالعہ فرمائیں گے تو یقینا تمام وساوس ختم ہوجائیں گے اور کسب معاش کی خاطر ہر جائز ذریعہ اپنانے میں کو ئی عار محسوس نہ ہوگی۔

چناں چہ حضرت داؤدؑ کے متعلق روایتوں سے ثابت ہے کہ آپؑ رزق حلال کے لیے بکریاں چَرایا کرتے تھے اور پھر جب اﷲ تعالیٰ نے ان کو بادشاہ بنادیا تو انہوں نے اپنا ذریعہ معاش زرہ یعنی لو ہے کا لباس بنانے کے پیشے کو بنالیا۔

اسی طرح کھیتی باڑی کرنا حضرت آدمؑ کی سنت، لباس تیا ر کر نا یعنی سینا حضرت ادریسؑ کی سنت، بکریوں کا کاروبار کرنا حضرت شعیبؑ کی سنت، کشتی تیا ر کرنا اور بڑھئی کا کام کرنا حضرت نوحؑ کی سنت، حضرت ابراہیم اور حضرت زکریا علیہما السلام بزازی (کپڑا بیچنا ) کر تے تھے۔ حضرت شیثؑ خود کپڑا بنا کر فروخت کرتے، حضرت اسماعیلؑ تیر بناتے تھے، حضرت صالحؑ تھیلیوں کی تجارت کر تے تھے۔ حضرت یحییؑ جو تے سیتے اور ان کی تجارت کرتے تھے۔ جب کہ اعلان نبوت سے قبل اکتیس برس حضور سید الانبیاء محمد مصطفی ﷺ بھی تجارت کرتے تھے۔

انبیاء کرام علیہم السلام کی طرح صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین نے بھی کسب معاش میں ذرا تامل نہ فرمایا۔ ان کے روزگار کا زیادہ تر دار و مدار تجارت پر تھا، مگر صحابہؓ زراعت کے ساتھ صنعت و حرفت میں بھی دل چسپی رکھتے تھے۔ کتب احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے حضرت ابوبکر صدیق، حضرت طلحہ، حضرت سوید بن قیس رضی اﷲ تعالی عنہم زیادہ تر بزازی (کپڑا فروخت کرنے) کا کام کرتے تھے۔ حضرت عثمان غنیؓ بھی کپڑے اور کھجوروں کی تجارت کرتے تھے۔

حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ روغنیات کے ساتھ کپڑے کی تجارت اعلی پیمانے پر کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروقؓ زراعت کا کام کر تے تھے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ، عبداﷲ ابن زبیرؓ اجناس (اشیائے خورد و نوش) کی خرید و فروخت کا کام کر تے۔ حضرت خبابؓ لوہار کا کام کرتے تھے۔ حضرت زید بن ارقم اور حضرت براء رضی اﷲ تعالی عنہما صراف ( سُنار) کا کام کر تے تھے۔

حضرت عثمان بن طلحہ ؓ درزی کا کام کر تے۔ حضرت حاطب بن ابیؓ طباخی (کھانے پکانے) کا کام کر تے تھے اور مدینہ طیبہ میں آپ کا ہوٹل بھی تھا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبد اﷲ بن عمر بن عاص، حضرت عبد اﷲ بن مسعود اور حضرت علی رضوان اﷲ تعالی علیہم اجمعین کاشت کا ری کرتے تھے۔ حضرت سلمان فارسیؓ چٹائیاں بنایا کرتے تھے، جب کہ بعض صحابہ کرامؓ چمڑہ سازی اور حمّال (بوجھ اٹھانے) کا کام بھی کرتے تھے۔

وہ لوگ جو اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی بجائے نوکری یا ملک سے باہر جاکر مال و دولت اکٹھا کرنے کی خاطر دھکے کھاتے رہتے ہیں، ان کے لیے اس میں درس ہے کہ مسلمان اپنے عروج کے زمانے میں قبائے خلافت اوڑھے ہوئے سر پر کپڑے کی گانٹھیں اٹھا ئے یا گورنر ہو تے ہو ئے بھی چٹائیاں بنانے میں ذلت محسوس نہ کرتے تھے۔ بل کہ کسب حلال کے لیے باورچی، درزی، مزدوری، کاشت کاری کو اختیار کر نے میں آج کل کی طرح عار سمجھنے کی بجائے فخر محسوس کر تے تھے اور اپنے پیشوں کو نفرت کی نگاہ سے نہ دیکھتے تھے۔

لہذا آج کے بے روزگار حضرات کو انبیائے عظام علیہم السلام ا ور صحابہ کرامؓ کی مبارک سیرت سے انداز زیست سیکھنا چاہیے اور گھروں میں بیٹھ کر اچھی و من پسند نوکری کا انتظار کرنے کی بجا ئے جو بھی کام یعنی جائز روزگار ملے، بہ خوشی اختیار کرلینا چاہیے۔ کیوں کہ رزق حلال طلب کرنے کے لیے کوئی بھی جائز پیشہ اختیار کرنا انبیاء و مرسلین اور صالحین کا مقدس طریقہ ہے۔ لہٰذا ہرگز پیشہ ور مسلمان کو حقیر و ذلیل شمار نہیں کرنا چاہیے بل کہ حقیقت تو یہ ہے کہ پیشہ ور مسلمان ان لوگوں سے ہزار درجے بہتر ہے جو رشوت اور دھوکا دہی کے ذریعے رقوم حاصل کرکے اپنا پیٹ پالتے اور اپنے شریف ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ حالاںکہ شرعاً اس سے زیادہ ذلیل کون ہوگا جس کی کمائی حلال نہ ہو یا مشتبہ ہو۔

اﷲ تعالی ہمیں حلال کمانے کی توفیق اور پھر اس پر استقامت عطا فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔