جمہوریت ہی پاکستان کی ترقی کی ضامن ہے

ایڈیٹوریل  اتوار 11 نومبر 2012
جمہوری ادارے، عدلیہ، میڈیا، فوج اور سول ادارے مضبوط ہوں گے تو ہم پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنا سکیں گے . فوٹو: فائل

جمہوری ادارے، عدلیہ، میڈیا، فوج اور سول ادارے مضبوط ہوں گے تو ہم پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنا سکیں گے . فوٹو: فائل

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ہفتے کو ایبٹ آباد میں ہائیکورٹ بار کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب ملک میں طاقت کے مراکز تبدیل نہیں ہوں گے۔

عدلیہ اور پارلیمنٹ آئین کے تابع ہیں، اب کوئی بھی ماورائے آئین اقدام نہیں ہوگا۔ عدلیہ اپنے فرض کی ادائیگی سے ذرا بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔ اعلیٰ عدلیہ خاص طور پر سپریم کورٹ آئین کی طرف سے تفویض شدہ ذمے داری سے پوری طرح آگاہ ہے۔ جج اپنی تربیت اور حلف کے تحت پابند ہیں کہ وہ آئین کو تحفظ فراہم کریں۔ آئین کے سوا ہمارا کسی چیز پر یقین نہیں۔ جب آرٹیکل 5 پڑھ لیا جاتا ہے تو اس پر عمل لازمی ہو جاتا ہے۔

پارلیمنٹ کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ آج کی پارلیمنٹ میں پہلے سے بہت فرق ہے، موجودہ پارلیمنٹ کو سلام پیش کرتا ہوں جس نے18ویں ترمیم سے8 ویں اور 17 ویں ترمیم کو ختم کر دیا۔ ملک میں58 ٹو بی کے ذریعے4 حکومتیں ختم کی گئیں۔ اسی طرح کل کی عدلیہ اور آج کی عدلیہ میں بھی بہت فرق ہے، 3 نومبر2007 کو عدلیہ پر شب خون مارا گیا تھا۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں کیا کچھ نہیں ہوتا۔ تہلکہ کیس سامنے آنے کے بعد بھی حکومت ختم نہیں ہوئی۔ پارلیمنٹ جمہوری حکومت کے5 سال پورے کرنے والی ہے جو نیک شگون ہے۔

ادھر وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے بھی ہفتے کو کراچی میں مختلف تقاریب سے خطاب کیا اور واضح کیا کہ ملک میں اداروں کے ساتھ کسی کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، قومی اداروں میں اختلاف رائے ہوسکتا ہے مگر ان میں کوئی ٹکرائو نہیں ہے، تمام ادارے اپنی آئینی حدود میں کام کر رہے ہیں، ان کے درمیان اختلافات کے بارے میں تاثر غلط ہے۔

اختلاف رائے اور ٹکرائو ہونا الگ الگ باتیں ہیں۔ جمہوری ادارے، عدلیہ، میڈیا، فوج اور سول ادارے مضبوط ہوں گے تو ہم پاکستان کو عظیم سے عظیم تر بنا سکیں گے، یہ تب ہی ممکن ہے جب جمہوریت کا تسلسل جاری رہے۔ 2013 عام انتخابات کا سال ہے، ان انتخابات سے نہ صرف جمہوریت کو فروغ حاصل ہو گا بلکہ ایک پائیدار سیاسی نظام کی بنیاد پڑ جائے گی۔

چیف جسٹس اور وزیراعظم نے مختلف مقامات پر خطاب کیے ہیں لیکن غور سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دونوں کا مقصد ایک ہی نظر آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ملک کے مستقبل کا دار ومدار آئین وقانون کی بالادستی تسلیم کرنے میں ہی مضمر ہے۔ عدلیہ اور حکومت کے درمیان تناؤ کی باتیں تو خاصے عرصے سے ہو رہی ہیں تاہم اب عدلیہ اور فوج کے درمیان اختلافات کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ وزیراعظم نے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ ملک میں اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی قیاس آرائیاں بالکل غلط ہیں۔

انھوں نے درست کہا ہے کہ اختلافات اور ٹکراؤ میں فرق ہوتا ہے۔ اختلاف ہونا بری بات نہیں، جمہوری نظام میں ایسا ہونا معمول ہوتا ہے۔ بلاشبہ حالیہ برسوں میں عدلیہ نے بے مثال جرأت کا مظاہرہ کیا ہے، اعلیٰ عدلیہ کے بعض فیصلوں نے ملکی سیاست میں ارتعاش پیدا کیا، کچھ لوگوں کو ان فیصلوں سے اختلاف بھی پیدا ہوا لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ فتح بالآخر آئین وقانون کی ہو ئی ، وہی ہوا جو آئین اور قانون چاہتا تھا۔یہاں تک کہ ایک وزیراعظم کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی وجہ سے عہدہ چھوڑنا پڑا۔ ایسا ماضی میں کبھی نہیں ہوا۔ تمام تر اختلافی معاملات کے باوجود کسی ادارے نے اپنی حدود سے تجاوز کیا نہ آئین وقانون سے انحراف کیا۔

آئین اور قانون کی بالادستی کی جانب یہ ایک بڑا قدم ہے۔اب ایک بار پھر ملک میں قیاس آرائیوں اور افواہوں کا زور ہے حالانکہ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے گزشتہ دنوں جو گفتگو کی اس میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ تمام ادارے آئین میں دیے گئے مینڈیٹ کی حدود میں رہیں تو سسٹم مضبوط ہو گا۔ ان کی ساری باتوں کا لب لباب یہی تھا۔ ادھر چیف جسٹس آف پاکستان کا منشا بھی یہی ہے۔ انھوں نے ایک بار نہیں متعدد موقعوں پر یہی بات کی ہے۔ حکومت بھی یہی کہتی ہے۔

ایسی صورت میں اداروں کے درمیان ٹکراؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ اس کے باوجو ملک میں ایسی فضا پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ شاید کچھ ہونے والا ہے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے ہفتے کو اپنے خطاب کے دوران پارلیمنٹ کو سلام پیش کر کے ثابت کر دیا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ان کا یہ کہنا درست ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ ماضی کی پارلیمنٹ سے مختلف ہے۔ اسی طرح موجودہ سپریم کورٹ بھی ماضی کی عدالت عظمیٰ سے مختلف ہے۔ ماضی میں پارلیمنٹ توڑی جاتی رہی اور عدالت اسے آئینی جواز فراہم کرتی رہی۔ اسی وجہ سے پاکستان میں آمریت کا اقتدار مستحکم ہوا۔

موجودہ پارلیمنٹ نے آئین میں موجود وہ اختیارات ختم کیے جو فرد واحد کے اقتدار کو مضبوط اور مستحکم کرتے تھے۔ 58-2B کا اختیار سب سے اہم تھا۔ جنرل مشرف نے آئین میں جو ترامیم متعارف کروائی تھیں وہ بھی درحقیقت شخصی اقتدار کو ہی مستحکم کرتی تھیں۔ موجودہ پارلیمنٹ نے اسے ختم کر کے جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط کیا ہے۔ اب آئین میں ایسا کوئی آرٹیکل نہیں جسے بنیاد بنا کر کوئی شخص حکومت کو چلتا کرے۔ پارلیمنٹ کے اسی کردار نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے اصل دائرہ اختیار کو بحال کیا۔آج پاکستان میں پارلیمنٹ کا ادارہ بھی قائم ہے، عدالت عظمیٰ بھی پوری طرح فعال ہے اور مسلح افواج بھی پوری طرح اپنے آئینی فرائض ادا کر رہی ہیں۔ اسی بنیاد پر چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ اب طاقت کے مراکز تبدیل نہیں ہوں گے۔ یہ ایک مثبت عمل ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ادارے وہی کچھ کریں گے جس کی اجازت انھیں آئین پاکستان دیتا ہے۔ آئینی حدود میں رہنے کا مطلب بھی یہی ہے اور آئین کی سربلندی بھی یہیں سے جنم لیتی ہے۔ وزیراعظم پاکستان راجہ پرویز اشرف نے بھی کہا ہے کہ 2013 عام انتخابات کا سال ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں کسی غیرآئینی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔ موجودہ حکومت کی آئینی مدت مکمل ہو گی اور نگران حکومت قائم ہو جائے گی۔ جو اس ملک میں عام انتخابات کرا دے گی۔ یوں پرامن انتقال اقتدار کے ذریعے نئی جمہوری حکومت قائم ہو جائے گی۔ موجودہ دور میں جس طرح پاکستان کے اداروں اور سیاست دانوں نے ہوش مندی اور فہم وفراست کا مظاہرہ کیا ہے، یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل جاری وساری ہے اور اب اس عمل میں رکاوٹ پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔