اصغر خان کے بعد شاہ رخ خان کیس کا چرچا

طاہر سرور میر  اتوار 11 نومبر 2012
tahir.mir@expressnews.tv

[email protected]

اصغر خان کیس کے بعد شاہ رخ خان کیس بھی میڈیا میں ’’سپر ہٹ‘‘ ہو گیا ہے۔

اصغر خان کیس کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ1990 میں اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان جو اسٹیبلشمنٹ کے فیورٹ تھے، انھوںنے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل اسد درانی کی مشترکہ کاوشوں سے آئی جے آئی کی ’’میگا کاسٹ فلم‘‘ نمائش کے لیے پیش کی تھی۔ قومی سلامتی کے نعرہ کے ساتھ ریلیز کی گئی اس فخریہ پیشکش کو سستے زمانہ میں قوم کے 14 کروڑ روپے سے پروڈیوس کیا گیا تھا۔ لگ بھگ 22 سال بعد سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کا فیصلہ سنایا ہے جس میں بڑے، بڑے سیاسی پارساؤں کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔1990 میں چرائے گئے عوامی مینڈیٹ کے تاریخی گناہ کا کفارہ کیسے ادا کیا جائے گا، یہ بھی ایک امتحان ہے۔

مقدر کا ستم دیکھیے کہ 22 سال بعد اس مقدمے کی حقیقی مدعیہ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نوڈیرو کے قبرستان میں دفن ہیں اور ان کے ساتھ، ساتھ مرحومہ کے انکل غلام مصطفی جتوئی، جام صادق، پیر صاحب پگاڑا اور صدر غلام اسحاق خان بھی منوں مٹی تلے دفن ہیں اور اپنی بے گناہی ثابت نہیں کر سکتے۔ لگ بھگ ربع صدی بعد جب اس تاریخی واردات میں ملوث چہروں پر سے سپریم کورٹ نے پر دہ اٹھا دیا ہے تو ان کی اکثریت سائلوں کو ہی ملزم اور مجرم بنانے پر تلے دکھائی دیتے ہیں۔ اس تاریخی وقوعہ سے متعلق سوچیں تو فراز جیسی ندامت کا احساس ہوتا ہے

دست ِ قاتل سے ہوں نادم کہ لہو کو میرے
عمر لگ جائے گی ہمرِنگ حنا ہونے تک

بالی وڈ کنگ شاہ رخ خان کیس سے قبل اصغر خان کیس جیسی تمہیدِ غیر دل پذیر باندھنا ضروری کیوں ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے شاہ رخ خان کیس کی تفصیلات بھی جان لیں۔ شاہ رخ خان، ان کی اہلیہ گوری خان اور ہدایتکار کرن جوہر سمیت ان کی فلم ’’اسٹوڈنٹ آف دی ائیر‘‘ کی ٹیم میں شامل دوسرے فنکاروں پر ہندووں کی دیوی رادھا کی توہین کرنے کا مقدمہ دائر کر لیا گیا ہے۔

زیر نظر کالم لکھنے کے سلسلہ میں جب میں نے شاہ رخ خان کے وکیل وجے والیہ سے ٹیلی فون پر بات کی تو اس نے مجھے بتایا کہ شاہ رخ خان اور گوری خان کے پروڈکشن ہاوس ’’ریڈ چلی‘‘ اور کرن جوہر کے ادارہ ’’دھرما پروڈکشنز‘‘ کی مشترکہ فلم ’’اسٹوڈنٹ آف دی ائیر‘‘ کے ایک گیت RADHA ON THE DANCE FLOOR (رادھا آن دی ڈانس فلو ر) کے بارے میں اعتراض کیا گیا ہے کہ اس گیت سے دیوی رادھا کی توہین کی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر بہار کی عدالت میں درج کرائی گئی ہے جس میں درخواست گزار سدھیر کمار اوجھا نے موقف اختیار کیا ہے کہ فلم کے ایک غیر اخلاقی منظر میں رادھا کے کردار کو نہ صرف مسخ کیا گیا ہے بلکہ دیوی کے کردار میں روایتی مغربی جنسی رنگ کی آمیزش کی گئی ہے۔ مذکورہ گیت کی شاعری میں بھی یہ خیال نہیں رکھا گیا کہ ہندو عقیدہ سے جڑے کروڑوں ہندووں کی دیوی رادھا کے اس خود ساختہ روپ کو دیکھتے ہوئے ان کی سخت دل آزاری ہو گی۔

اس ضمن میں شاہ رخ، گوری خان اور کرن جوہر سمیت مذکورہ گیت میں رادھا بننے والی نئی ہیروئن عالیہ بھٹ اور ہیروز میں شامل سدھارتھ ملہوترا اور ورن کو ایف آئی آر میں ملز م نامزد کیا گیا ہے۔ شاہ رخ خان کے وکیل نے بتایا کہ مسٹر خان کی بنائی فلمیں اکثر تنازعات کا شکار ہوتی رہی ہیں مگر اس بار معاملہ سنجیدہ اور سنگین ہے مگر بھارتی فلم انڈسٹری کے معاملات اور مفادات کا تحفظ کرنے والی تنظیموں سے رابطہ کیا گیا وہ اس ایشو پر ہمارے ساتھ کھڑی ہوں گی۔

ہندووں کے عقیدے کے مطابق ان کے دیوی دیوتاؤں کی تعداد 22 کروڑ سے بھی زیادہ ہے۔ تاہم دیویوں میں رادھا سمیت درگا، پاروتی، سرسوتی، لکشمی اور سیتا دیوی کی حیثیت ممتاز ہے۔ ہندو مت کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ رادھا کا کرشن مہاراج سے رومانس تھا، دونوں کے رومان کے قصے کلاسیکی موسیقی کی استھائی اور انتروں میں بھی ملتے ہیں۔ راگ بھیروی کے خیال کی ایک استھائی اور انترہ میں رادھا اور کرشن کے مابین عشق کے رشتے کی گواہی یوں ملتی ہے کہ ۔۔۔۔ استھائی: دے جا بنسری موری رادھے پیاری رے ۔۔۔ انترہ: سونے کی ناہی رے، روپے کی ناہی رے ۔۔۔ ارے ہرے ہرے با نس کی پوری رے (کرشن رادھا سے کہتا ہے میری بانسری مجھے واپس دے دو، یہ سونے اور روپے کی نہیں صرف بانس کی پور کی ہے)۔ ہزاروں سال پہلے لکھی گئیں کتابوں اور تراشی گئی مورتیوں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو مت ہی دنیا کا واحد قدیم معاشرہ تھا جس نے جنس سے متعلق جذبات اور احساسات کو قانون، علم اور سائنس کی شکل دے کر ’’کاما سوترا ‘‘ کی شکل میں اس کی باقاعدہ CODIFICATIONS کر دی تھی۔

اس سلسلے میں جو مورخین مغربی تاریخ کے سر سہرے باندھتے ہیں وہ غلط بیانی سے کام لیتے ہیں۔ ہزاروں سال قبل دیوی رادھا اور کرشن مہاراج کے مابین رشتے اور رومانس کو بیان کرنے کے لیے مورتیوں اور شاعری کی شکل میں جو کچھ تراشا اور لکھا گیا وہ اس دور کا رواج اور فیشن تھا۔ شاہ رخ خان اور کرن جوہر ہزاروں سال بعد یعنی 2012 میں رادھا کے کردار کو صدیوں کی چادر میں کیسے لپیٹ سکتے ہیں؟ ہندو مت میں اس فطری جبلی خواہش پر کوئی پابندی اور پردہ نہیں ڈالا گیا۔ جہاں تک بھارتی فلموں میں رادھا کے کردار کو دہرائے جانے کی بات ہے تو اس پر بھی کوئی فلم میکر ہچکچاتا دکھائی نہیں دیتا۔80کی دہائی میں آنجہانی راج کپور کی فلم ’’ستیم شویم سندرم‘‘ کے لیے زینت امان کا کردار رادھا سے مستعار لیا گیا تھا۔

راج کپور نے یوں تو اپنی اس فلم میں بدن اور آتما ( روح) کو بنیاد بنا کر کہانی اور کرداروں کا تانا بانا بنا تھا مگر اس کے بصری روپ کو سجانے کے لیے اپنے دور کی ساحرہ زینت امان کی تمام تر خوبصورتیاں اور رعنائیاں کیمرہ میں نظر بند کی تھیں۔ بھارتی عدالت نے اگر مذکورہ فلم کے پروڈیوسر شاہ رخ خان جو ایک مسلمان ہے اسے مجرم ٹھہرایا تو اس کے چہرے پر پڑا سیکولر ازم کا پردہ چاک ہو جائے گا۔ عدالت کے پاس اس سوال کا کیا جواب ہو گا کہ بھارت جس کے بارے میں بھارتی ایلیٹ کا دعویٰ ہے کہ یہ ایک سیکولر ریاست ہے اس میں راج کپور اور شاہ رخ خان سے ایک جیسا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا؟ شاہ رخ خان بالی وڈ کنگ ہیں اور راج کپور بھارتی فلم انڈسٹری کے پہلے شو مین تھے لیکن شاید یہ بھی حقیقت ہے کہ شاہ رخ خان مسلمان ہیں اور آنجہانی راج کپور ایک ہندو پنڈت تھے۔

اصغر خان کیس اور شاہ رخ خان کیس میں شاید زیادہ مماثلت نہیں مگر بعض عوامل مشترک بھی ہیں۔ اصغر خان کیس نے ان کاوشوں سے پردہ اٹھایا ہے جس کے تحت قوم کو اپنے ایسے مہربانوں اور محافظوں سے تعارف ہوا ہے جو ان کی محنت کی کمائی سے انھی کا عوامی مینڈیٹ چرانے کی ’’واردات‘‘ کو قومی سلامتی کا فریضہ قرار دے رہے ہیں۔ اصغر خان کیس میں بیان کیے گئے حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کے پروڈکشن ہاوس نے ہم پر اپنے من پسند ’’سپراسٹار‘‘ مسلط کر دیے تھے۔ آج انھی سپر اسٹارز کو عدالت سمیت عوامی عدالت کا بھی سامنا ہے جب کہ شاہ رخ خان کے متعارف کرائے نئے اسٹارز کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانے والا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ پاکستانی اور بھارتی اسٹارز کو مجرم قرار دیا جاتا ہے یا وہ اس عدالتی امتحان کے بعد میگا اسٹارز بن کر ابھرتے ہیں؟؟؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔