انکار کے اسیر

مہ ناز رحمن  اتوار 11 نومبر 2012
مہ ناز رحمٰن

مہ ناز رحمٰن

حالیہ عرصے میں پیش آنیوالے واقعات کے بارے میں لوگوں کا ردعمل دیکھیے تو لگتا ہے کہ بحیثیت قوم ہم انکار کی کیفیت کے اسیر ہوگئے ہیں۔ ماہرین نفسیات کیفیت کو انسان کا بہترین دفاعی میکانزم قرار دیتے ہیں۔ اس سے مراد وہ صورتحال ہے جس میں لوگ کسی سچائی یا حقیقت کا سامنا کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ انکار یاDENIAL کا مطلب ہے کہ آپ یہ تسلیم کرنے سے انکارکردیں کہ کوئی واقعہ رونما ہوچکا ہے یا ہورہا ہے۔ منشیات کے عادی اور شرابی افراد اکثر یہ ماننے سے انکار کردیتے ہیں کہ وہ کسی مسئلے کا شکار ہیں۔ اسی طرح کسی خوف ناک واقعہ کا شکار ہونے والا شخص کبھی کبھار اس واقعے کی صحت سے انکار کرسکتا ہے۔

اب آپ ملالہ کے واقعے کو ہی لے لیجیے۔ طالبان نے اسے گولی ماری طالبان کے ترجمان نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کی مگر ہمارے کچھ سیاسی رہنما، میڈیا کے کچھ حضرات یہ بات تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ طالبان نے یہ ذمے داری قبول کی ہے۔ اسی پر بس نہیں عوام کو گم راہ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر جعلی تصاویر ڈالی جارہی ہیں اورطالبان کو معصوم ثابت کرنے کے لیے اس واقعے کی صحت سے ہی انکار کیا جارہا ہے۔ جب کہ طالبان کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ یہ کارنامہ انھوں نے ہی انجام دیا ہے۔ لیکن شاید انھیں بھی اندازہ نہیں تھا کہ اس واقعے پر نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں اتنا شدید ردعمل ہوگا اور اس قدرغم و غصہ کا اظہار کیا جائے گا کیوں کہ وہ تو اس سے پہلے بھی بارہا پاکستان کے معصوم شہریوں اور فوجیوں پر ایسے حملے کرچکے ہیں۔

بقول رضا رومی ’’پاکستانی مملکت اور اس کی فوج ان کا بنیادی ہدف ہے‘‘ لیکن یہ تو کسی نے نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک معصوم بچی کو بھی نہیں بخشیں گے جس کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے۔ مسلمانوں کو تو علم حاصل کرنے کے لیے چین تک جانے کو کہاگیا ہے وہ بے چاری تو سوات میں اپنے اسکول جارہی تھی جب ایک نقاب پوش درندے نے اسکول وین کو روکا، دوسرا کود کر وین میں داخل ہوا اور پوچھا ’’ملالہ کون ہے؟‘‘ ڈرائیور نے خطرہ محسوس کرتے ہوئے گاڑی کو بھگا لے جانے کی کوشش کی لیکن جب تک وہ درندہ پھول جیسی معصوم ملالہ کو گولی مارکے وین سے کود کر فرار ہوچکا تھا۔ اس بے رحم کی گولی ملالہ کے روشن دماغ کو چھوتی ہوئی گزرگئی تھی ایک گولی کندھے پر بھی لگی تھی جسے دس اکتوبر کو پشاور میں ڈاکٹروں نے کامیابی سے نکال لیا۔ اگلے روز اسے ہیلی کاپٹر کے ذریعے راولپنڈی کے فوجی اسپتال پہنچایاگیا۔

ملالہ کو دنیا بھر میں امن اورعلم کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سوات پر طالبان کے قبضے کے دوران گل مکئی کے قلمی نام سے اس نے بی بی سی کے لیے جو ڈائری لکھی اس کی بدولت وہ سب کے لیے ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئی تھی۔ وہ اسپتال میں تھی اور پوری قوم اس کے لیے دعا گو تھی۔ ہر صاحب اولاد اس کے والدین کا دکھ محسوس کررہا تھا۔ ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ اگلے 36تا48 گھنٹے اس کے لیے نازک ہیں مگر انھیں امید تھی کہ وہ خطرے سے نکل آئے گی دو برطانوی ڈاکٹر جو ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے پاکستان آئے ہوئے تھے وہ بھی پاکستانی ڈاکٹروں کے ساتھ ملالہ کی جان بچانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

13اکتوبر کو ملالہ کی حالت سنبھلنے لگی اور اس روز پولیس نے اکبر پورہ کے ترخا گائوں سے قاری انعام اﷲ، عبداﷲ اور عبدالحئی کو گرفتار کیا۔ پولیس کیمطابق ان تینوں بھائیوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان سے تھا اور یہ مولانا فضل اﷲ کے پیروکار تھے۔ ان کے علاوہ تب تک ایک سو بیس مشتبہ افراد کو گرفتار کیا جاچکا تھا۔14اکتوبر کو جمعیت العمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا بیان اخبارات میں شایع ہوا کہ سوات میں ملالہ یوسف زئی پر حملے کی مذمت کی جانی چاہیے لیکن اس معاملے پر شور مچانے والوں کو مدرسوں اور مساجد پر بمباری کی بھی مذمت کرنی چاہیے۔ اسی روز ایم کیو ایم کی میٹنگز کی خبر بھی شایع ہوئی جو انھوں نے ملالہ سے اظہار یکجہتی کے لیے کی تھی۔ یہ میٹنگز پاکستان بھر میں 38جگہوں پر منعقد کی گئیں جن میں ایم کیو ایم کے کارکنوں ، حمایتیوں، عورتوں اور بچوں نے شرکت کی۔

سب سے بڑا جلسہ کراچی میں ہوا جس میں اسٹیج کو ملالہ کی تصویروں سے سجایاگیا تھا اور اس روز ملالہ کو وینٹی لیٹر سے ہٹالیا گیا اور اگلے روز اسے برطانیہ کے برمنگھم اسپتال پہنچایا جاچکا تھا۔ برطانوی ڈاکٹروں نے اس کی جلد صحت یابی کی نوید سنائی۔ سیاسی سطح پر تو یہ سب کچھ چل رہا تھا لیکن عوامی سطح پر طالبان کے خلاف رائے عامہ کا سیلاب امڈ پڑا تھا جس نے طالبان اور ان کے حامیوں کو پریشان کردیا اور حملے کے فوراً بعد طالبان کے ترجمان کی جانب سے حملے کی ذمے داری قبول کرنے کے باوجود انھوں نے کالپرلیسی تھیوریز گھڑنا شروع کردیں اور رائے عامہ کو کنفیوژ کرنے کے لیے سوشل میڈیا پر یہ مہم چلادی کہ ملالہ پر حملہ ایک ڈراما ہے اور اس کا مقصد شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا راستہ ہموار کرنا ہے۔

ملالہ پر حملے کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ایک طوفان کھڑا ہوگیا جس کا راستا روکنے کے لیے بعض لوگوں نے سوشل میڈیا پر ہالبروک کے ساتھ اس کی ملاقات کی تصویر ڈال کر اسے سی آئی اے کا ایجنٹ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ بعض جگہ پر اس ویڈیو کی ریکارڈنگ ڈال کر بھی یہ پراپیگنڈہ کیاگیا حالاں کہ اس وقت ملالہ کی عمر صرف بارہ سال تھی اور اس نے صرف یہ کہا تھا ’’میری عمر بارہ سال ہے، میں آپ سے اور سفیر محترم سے درخواست کرتی ہوں کہ اگر آپ ہماری تعلیم میں ہماری مدد کرسکتے ہیں تو ضرور کریں۔‘‘

جس علاقے میں طالبان نے لڑکیوں کے اسکول بم سے اڑا دیے ہوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی ہو کیا اس علاقے کی لڑکی کو یہ درخواست کرنے کا حق بھی نہیں؟ اس میٹنگ کا اہتمام 2009ء میں یونیسف نے کیا تھا اور اس میں بہت سے سماجی کارکنوں نے شرکت کی تھی۔

اس پراپیگنڈہ مہم میں ملالہ اور عافیہ صدیقی کا تقابل بھی کیاگیا اور ہمیشہ کی طرح لوگوں کے جذبات کو ابھارنے کے لیے مذہب کو استعمال کیاگیا اور کہاگیا کہ ملالہ تو بے نظیر بھٹو اور صدر اوباما کو پسند کرتی ہے جب کہ عافیہ صدیقی کا آئیڈیل اسلام ہے۔ ان لوگوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ملالہ کی ڈائری کا غلط ترجمہ کرکے سوشل میڈیا پر ڈالا اور لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ۔

برمنگھم کے اسپتال میں روبصحت ہونے والی ملالہ کی تصویر جب دوستوں نے فیس بک پر ڈالی تو ’’انکار کے اسیر‘‘ افراد نے کہا۔ ملالہ پر کبھی حملہ ہوا ہی نہیں تھا۔ یہ سب ڈراما تھا۔ یہ افراد بڑی آسانی سے یہ بات بھلا بیٹھے کہ ملالہ کے ساتھ اس کی دو سہیلیاں شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوئی تھیں۔ سوات کے بہت سے لوگ ان کے زخمی ہونے کے چشم دید گواہ ہیں۔ یہ لوگ بھول کر بھی اس بات کا ذکر نہیں کرتے کہ تحریک طالبان اس حملے کی ذمے داری قبول کرچکی ہے اور انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ بچ گئی تو اس پر دوبارہ حملہ کریں گے لیکن طالبان کے ہمدرد مسلسل سوشل میڈیا پر جعلی تصویریں ڈال کے لوگوں کو گمراہ کرنے اور ملالہ کے لیے میڈیا اور عوام کی ہمدردیاں ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں مگر پاکستان کے عوام کی ہمدردیاں کل بھی ملالہ کے ساتھ تھیں اور آج بھی ملالہ کے ساتھ ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے اس کے حق میں مظاہروں اور vigils میں شرکت کی اور لاکھوں نے اس کی صحت یابی کے لیے دعائیں کیں ایک معصوم بچی پر طالبان کے سنگ دلانہ حملے کے بعد سوات میں ایک گورنمنٹ کالج کا نام ملالہ کے نام پر رکھاگیا ہے۔

پاکستانی عوام نے اور دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے حامی لوگوں نے ملالہ پر طالبان کے حملے پر غم و غصہ کا اظہار اس لیے کیا کہ ملالہ علم کا روشن استعارہ اور امن کی علامت بن چکی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کیمطابق صرف اس سال 196 اسکولوں کو نقصان پہنچایاگیا یا تباہ کیاگیا۔ گزشتہ سال 152اسکولوں کو نشانہ بنایاگیا تھا۔ یہ عسکریت پسند اسکول بسوں، اساتذہ، ہیڈ ماسٹروں یہاں تک کہ ایک صوبائی وزیر تعلیم کو بھی نشانہ بناچکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق کم از کم چھ لاکھ طلبہ کا ایک یا ایک سے زیادہ تعلیمی سالوں کا نقصان ہوچکا ہے ایک غیر سرکاری تنظیم اسپارک کیمطابق جب ایک اسکول پر بم باری ہوتی ہے تو گردو نواح کے علاقوں کے دیگر اسکولوں میں بھی لوگ اپنے بچوں کو بھیجنا بند کردیتے ہیں اور طالبان یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان کی نئی نسل کو علم کی روشنی سے محروم رکھیں اور پاکستان کو جہالت کے اندھیروں میں دھکیل دیں۔ سردار حسین بابک جو خیبر پختوں خواہ کے وزیر تعلیم ہیں کے بقول طالبان ہمیں پتھر کے دور میں بھیجنا چاہتے ہیں۔

ملالہ اور اس جیسے بہت سے معصوم طلبہ پر حملے کرنے اور ان میں سے بہت سوں کو ہلاک کرنیوالے طالبان کے جرائم پر پردہ ڈالنے والے ’’انکار کے اسیر‘‘ لوگوں سے قوم کا ایک ہی سوال ہے۔

’’آخر ان معصوم بچوں اور شہریوں کا کیا قصور ہے؟‘‘

ہمیں معلوم ہے طالبان ہمارے سوال کا جواب نہیں دیں گے لیکن شارق علی نے ملالہ کی زبانی کچھ یوں انھیں جواب دیا ہے۔

’’دیکھ زندہ ہوں میں ۔ حملہ آور میرے ۔ دیکھ زندہ ہوں میں!! میرے رب کی رضا۔ وقت کا فیصلہ۔ دیکھ زندہ ہوں میں۔ اک تیری سوچ ہے۔ تیرگی کی مکین ۔ کوڑھ میں مبتلا۔ ہاتھ میں اسلحہ ۔ منہ چھپائے ہوئے۔ بے گناہوں پہ تو چھپ کے حملہ کرے۔ یہ تیرا حوصلہ۔ دیکھ زندہ ہوں میں!!‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔