متحدہ میں ٹارگیٹ کلنگ کا نظام بیرون ملک سے چلتا ہے

دورنظامت میں ترقیاتی کاموں کے لیے الطاف حسین نے کبھی گائیڈلائن نہیں دی ۔  فوٹو : فائل

دورنظامت میں ترقیاتی کاموں کے لیے الطاف حسین نے کبھی گائیڈلائن نہیں دی ۔ فوٹو : فائل

پاکستانی سیاست کی سطح پر ہر کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی لہر بہ ظاہر خاموش دکھائی دینے والی سطح پر ہل چل پیدا کر دیتی ہے، لیکن رواں ماہ کراچی کی سیاست کے گہرے سمندر میں ایک طوفانی لہر نے سب کچھ اتھل پتھل کر کے رکھ دیا، جس کا سبب متحدہ قومی موومنٹ کے سابق سینیٹر اور ناظم کراچی سید مصطفیٰ کمال ہیں، جن کی کرشماتی شخصیت بیتے پلوں پر یوں اثرانداز ہوتی ہے کہ وہ اپنی رفتار کھو دیتے ہیں، اور طویل ملاقات بھی مختصر معلوم ہوتی ہے۔

رواں لہجہ اور اعتماد کا شعلہ سامع پر فرحت بخش اثرات مرتب کرتا ہے، اور وہ بہتی توانائی کا حصہ بن جاتا ہے۔ سید مصطفیٰ کمال نے 27 دسمبر 1971 کو کراچی کے ایک متوسط گھرانے میں آنکھ کھولی۔ والدین یوپی سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ والد ’’کے ڈی اے‘‘ میں ملازم تھے۔ مصطفیٰ کمال کے مطابق والد سخت مزاج آدمی تھے، اور غلطیوں پر سزا بھی ملا کرتی تھی۔ البتہ والدہ کا معاملہ مختلف تھا، اور زیادہ رابطہ اُنھی سے رہتا۔ بچپن میں وہ خاصے شرمیلے، سنجیدہ اور خاموش طبع تھے۔

کبھی کوئی ایسی شرارت نہیں کی، جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ نارتھ کراچی سیکٹر کے ایک کارکن کی حیثیت سے سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ سید مصطفیٰ کمال کی تین برسوں تک سیاست سے کنارہ کشی اور پھر اچانک واپس آکر اپنے ہی سابق قائد کے خلاف سخت بیانات کا پس منظر جاننے کے لیے اُن سے ایک خصوصی ملاقات کا اہتمام کیا گیا، جسے قارئین کی د ل چسپی کے لیے یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

ایکسپریس: ایم کیو ایم میں کب شامل ہوئے، کن کن تنظیمی عہدوں پر فائز ہوئے؟
سیدمصطفیٰ کمال: ساتویں یا آٹھویں جماعت میں ہی ایم کیو ایم سے متاثر ہوگیا تھا۔ نوجوانی کا دور تھا ہم یہی سمجھتے تھے کہ یہی وہ واحد جماعت ہے جو ہمارے حق کی بات کرتی ہے، کیوں کہ اس زمانے میں اردو بولنے والوں کی کوئی نمائندگی نہیں تھی۔ 1987میں اپنے علاقے سے ایم کیوایم کا باقاعدہ رکن بنا۔ پارٹی میں آخر تک ایک کارکن کی حیثیت سے ہی کام کیا۔

ایکسپریس: کس کس راہ نما سے قربت رہی؟
سیدمصطفیٰ کمال: سلام دعا، میل ملاقات سب سے رہی لیکن کسی راہ نما سے بہت قریبی تعلق کبھی نہیں رہا۔

ایکسپریس: الطاف حسین سے پہلی ملاقات کب ہوئی، کیا تاثر ملا، کیا باتیں ہوئیں۔
سیدمصطفیٰ کمال: الطاف حسین سے پہلی ملاقات عباسی شہید ہسپتال میں ہوئی تھی۔ اُس وقت تمام کارکن لائن میں لگ کر اُن سے ہاتھ ملاتے تھے تو میں نے بھی پہلی بار ایک عام کارکن کی حیثیت سے اُن سے مصافحہ کیا تھا۔

ایکسپریس: بارہ مئی کو کیا ہوا تھا، اس سانحے میں ایم کیوایم کس حد تک ملوث یا ذمے دار ہے؟ کیا پارٹی کی سطح پر معزول چیف جسٹس (ر) کو کراچی آمد سے روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا؟
سیدمصطفیٰ کمال: بارہ مئی 2007کو میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے امریکا جا رہا تھا۔ دوران سفر ہی مجھے اس سانحے کی اطلاع ملی تھی۔ یقیناً یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا جس میں اسلحے سے لیس ہر جماعت کے رکن نے اپنی طاقت کا اظہار کیا۔ اس میں ان تمام جماعتوں کا بھی جانی نقصان ہوا۔ جہاں تک افتخار محمد چوہدری کو کراچی آمد سے روکنے کی بات ہے میرے علم میں ایسی کوئی بات نہیں کہ جس میں فیصلہ کیا گیا ہو کہ چیف جسٹس کو کراچی آنے سے روکنا ہے۔

ہاں اگر کسی اور جگہ اس بات کا فیصلہ کیا گیا تو کم از کم یہ بات میرے علم میں نہیں تھی۔ کنٹینر کس نے لگائے راستے کس نے بند کیے یہ آپ تحقیقاتی اداروں سے پوچھیں یہ رکاوٹیں سٹی ناظم سے پوچھ کر نہیں کی لگائی گئی تھیں، کیوں کہ اُس وقت میرے پاس اس نوعیت کے اختیارات نہیں تھے۔ یہ سوال تو اُس وقت کے وزارت داخلہ کے حکام سے پوچھنا چاہیے کہ سڑکیں کنٹینر لگا کر کیوں بند کی گئی تھی۔ اُس دن ہر جماعت اسلحہ لے کر سڑک پر موجود تھی۔ کوئی بھی پھول لے کر سڑک پر نہیں آیا تھا۔ سب اسلحے سمیت موجود تھے۔ ساری ہلاکتیں گولیوں سے ہوئیں کسی نے ان لوگوں کو پتھروں سے نہیں مارا تھا۔ اس سانحے میں ہم صرف کسی ایک جماعت کو موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے۔

ایکسپریس: بلدیہ ٹاؤن کی فیکٹری میں آتش زدگی کا معاملہ کیا تھا، کیا یہ الزام درست ہے کہ یہ سب بھتا نہ ملنے پر کیا گیا؟
سیدمصطفیٰ کمال: سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر میں اپنا تفصیلی بیان دے چکا ہو۔ کس نے کیا اس کے پیچھے کیا محرکات تھے یہ تو میں نہیں جانتا، مجھے متحدہ اور دوسرے لوگوں کا تو نہیں پتا لیکن میں دو لوگوں کو جانتا ہوں حماد صدیقی (کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق انچارج) اور انیس قائم خانی، اور میں واضح طور پر کہہ چکا ہوں کہ انیس بھائی کا تو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں نام ہی نہیں ہے۔ میں نے ببانگ دہل کہا ہے کہ اگر انیس بھائی پر یہ الزام درست ثابت ہو تو سب سے پہلے مجھے پھانسی دیں اور جہاں تک بات ہے حماد صدیقی کی تو اسے بلاوجہ ملوث کیا جارہا ہے۔

چائنا کٹنگ میں الطاف حسین صاحب نے خود کو بچانے کے لیے اپنا سارا کچرا حماد صدیقی پر ڈال دیا۔ 2013 سے پہلے حماد صدیقی کو کون جانتا تھا؟ انہوں نے ہی اپنی تقریر میں پہلی بار ’چائنا کٹنگ‘ کی اصلاح استعمال کی۔ ٹی وی پر چائنا کٹنگ کا نام ہی ان کی وجہ سے آیا۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ حماد صدیقی سے پہلے کراچی تنظیمی کمیٹی کا انچارج کون تھا؟ حماد صدیقی کے بعد والے انچارج کا نام پتا ہے؟ آپ کو بھی نہیں پتا ہوگا۔ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ حماد صدیقی کا نام کب مشہور ہوا۔ آپ (الطاف حسین) 2008 سے 2013تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رومانس کرتے رہے ، پانچ بار اقتدار میں آئے پانچ بار باہر گئے، اپنا مذاق خود بنا لیا۔ اسی بات پر کراچی کے ساڑھے آٹھ لاکھ شہریوں نے الطاف حسین کی نفرت میں اپنے ووٹ پاکستان تحریک انصاف کو ڈال دیے۔

انتخابات کے بعد ایک ہفتے تک الطاف حسین کا غصہ عروج پر رہا۔ کراچی سے لندن تک اٹھا پٹخ کی۔ اگر کوئی بڑا آدمی ہوتا، ظرف والا آدمی ہوتا تو کہتا کہ ہاں میری پالیسیوں کی وجہ سے یہ سب ہوا ہے۔ انہیں تو پتا تھا کہ یہ سب کیوں ہوا۔ ایک رات کہتے تھے کہ پریس کانفرنس کرو حکومت سے باہر آنا ہے، اگلی رات کہتے پھولوں کی پتیاں جمع کرو پیپلزپارٹی پر نچھاور کرو، مجھے دوبارہ حکومت میں جانا ہے۔ یہ ڈراما ہم سب کے لیے ہی باعث شرمندگی تھا۔ انہوں (الطاف حسین) نے تنظیمی کمیٹی اور رابطہ کمیٹی پر پانچ سالوں کا گند ڈال کر اپنی خفت مٹائی۔ ایک عام سا لڑکا جس نے اتنی بری کارکردگی کے باوجود ساری سیٹیں نکال کردیں۔

آپ نے سارے الزام اسی پر تھوپ دیے۔ میری حماد صدیقی سے کوئی رشتے داری نہیں ہے لیکن کردار کی بات ہے، میں نے اگر یہ سب نہ دیکھا ہوتو کوئی بات نہیں، لیکن اگر سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی میں حق بات نہ کروں تو پھر مجھ سے بڑا ظالم کوئی نہیں ہوگا۔ الطاف حسین نے حماد صدیقی کو قربانی کا بکرا بنایا۔ زمینوں پر قبضے صرف ایم کیو ایم نے نہیں کیے سب ملوث ہیں لیکن اس بات کو ابھی چھوڑیں وقت آنے پر سب بتادوں گا۔ جو لوگ مجھ پر کرپشن یا ملائیشیا میں جائیداد بنانے کے الزام لگاتے ہیں میں تو ان سے کہتا ہوں کہ بھائی مجھے اس کا ایڈریس تو دو، میں وہیں کھڑا ہوکر پریس کانفرنس میں اعلان کروں گا کہ جی یہ میری پراپرٹی ہے۔ میں بلاوجہ مارا مارا پھر رہا ہوں۔ بحریہ ٹاؤن میں ملازمت کر رہا ہوں۔

ایکسپریس: الطاف حسین کو پیر صاحب کہنے اور پتوں پتھروں پر ان کی تصاویر آنے کا سلسلہ کیسے شروع ہوا، یہ کس کا آئیڈیا تھا؟
سیدمصطفیٰ کمال: میرے بھائی آپ 25سال پرانی بات کر رہے ہیں۔ اُس دور میں الطاف حسین کو فالو کرنے کا رجحان اپنے عروج پر تھا۔ میں پہلے دن ہی تو رابطہ کمیٹی میں نہیں چلا گیا تھا کہ مجھے یہ سب پتا ہو کہ یہ آئیڈیا کس کا تھا۔ اس وقت تو ہم بہت نچلے درجے کے کارکن تھے۔ بیس سالوں کے بعد رابطہ کمیٹی میں پہنچا تو اس وقت میں یہ تھوڑی پوچھتا پھرتا کہ بھئی بیس سال پہلے جو پتوں پر تصویر نظر آئی تھی اس کی حقیقت کیا ہے۔ وہ حقیقت تھی یا ڈراما؟

ایکسپریس: الطاف حسین نے سب سے پہلے آصف زرداری کو صدر نام زد کرنے کی بات کی تھی، اس کے پیچھے کیا حقائق ہیں؟
سیدمصطفیٰ کمال: آصف علی زرداری کو صدر نام زد کرنے کا فیصلہ سو فی صد اُن کا (الطاف حسین) ذاتی فیصلہ تھا۔ اور ہم سے اس سلسلے میں کسی قسم کی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔ اب اس کے پیچھے کیا ڈیل ہوئی تھی یا نہیں ہوئی تھی مجھے اس کا علم نہیں ہے۔

ایکسپریس: آفاق احمد اور عامر خان پارٹی سے کیوں الگ ہوئے؟
سیدمصطفیٰ کمال: جب ایم کیو ایم حقیقی بنی اُس وقت بھی میں یونٹ لیول کا کارکن تھا۔ اُس وقت ہمیں یہی پتا تھا کہ عامر خان اور آفاق احمد دونوں کے الطاف حسین کے ساتھ کچھ اختلاف ہیں۔ ہمیں بس اتنا بتایا گیا کہ وہ (عامرخان، آفاق احمد) غدار ہیں۔

ایکسپریس: ایم کیوایم پر اپنے لوگوں، مخالفین اور پولیس اہل کاروں کے قتل کا الزام ہے۔ ان الزامات میں کہاں تک صداقت ہے۔ کیا آپ کے سامنے کسی ایسے قتل کا حکم دیا گیا۔
سیدمصطفیٰ کمال: یہ بات تو اب سب ہی کو پتا ہے کہ متحدہ میں ان کاموں کے لیے ایک متوازی نظام چلتا ہے۔ گرفتار افراد خود ٹی وی پر بتاتے ہیں کہ انہوں نے کہاں سے تربیت حاصل کی یا ٹارگیٹ کلنگ کی وارداتیں کس کے کہنے پر کیں۔ یہ ایک نہ دکھائی دینے والا نظام ہے جسے بیرون ملک سے چلایا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والوں کی جے آئی رپورٹس سے سب پتا چل جاتا ہے انہیں کون چلا رہا ہے تربیت کہاں اور کس ملک میں ہوتی ہے۔ ایم کیو ایم کے تنظیمی سسٹم کو اس متوازی نظام کا نہیں پتا ہوتا۔ یہ سسٹم پارٹی کے دفاتر میں ڈیل بھی نہیں ہوتا۔

ایکسپریس: ملک ریاض نے الطاف حسین کے نام پر یونی ورسٹی بنانے کا اعلان کیا، اس کے پیچھے کیا حقائق ہیں؟
سیدمصطفیٰ کمال: مجھے اس بات کے پس پردہ عوامل کا نہیں پتا، اس سوال کا جواب تو ملک ریاض ہی دے سکتے ہیں کہ الطاف حسین کے نام پر یونیورسٹی بنانے کے پیچھے حقائق کیا ہیں۔ جہاں تک بحریہ ٹاؤن میں ملازمت کی بات ہے تو وہاں میرا کام اُن کے ذاتی معاملات نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کو دیکھنا تھا۔

ایکسپریس: آپ نے اپنی پریس کانفرنس میں الطاف حسین کی تقاریر پر تنقید کی۔ ایسی تقاریر سُن کر بھی لوگ بددل کیوں نہیں ہوتے، ایم کیوایم کی مقبولیت کیوں برقرار ہے؟
سیدمصطفیٰ کمال: ایسا نہیں ہے کہ لوگ بد دل نہیں ہورہے آپ نئے اور پُرانے اعداد و شمار کا موازنہ کریں خود پتا چل جائے گا کہ متحدہ قومی موومنٹ کتنی سکڑ گئی ہے۔ ماضی میں صرف خواتین کے جلسے میں ہی دس دس لاکھ خواتین شرکت کرتی تھی۔ اب یہ تعداد سکڑ کر نائن زیرو کے اطراف کی چند گلیوں میں آ گئی ہے۔ اتنے بڑے شہر میں دو چار ہزار لوگ تو مل ہی جاتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ پہلے لوگوں کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ کوئی اس شہر کو اون نہیں کرتا تھا۔ کوئی سیاسی جماعت کراچی کو اون نہیں کرتی تھی۔ غلط یا صحیح لوگ ایم کیو ایم پر ہی منحصر تھے۔

لیکن اب لوگوں کے پاس دوسرے آپشنز موجود ہیں۔ لوگ آہستہ آہستہ ہمارے پاس بھی آرہے ہیں۔ نہ صرف متحدہ قومی موومنٹ کے کارکنان، عہدے داران بل کہ عام لوگ بھی ہم سے رابطہ کر رہے ہیں۔ ہمارا ٹارگیٹ ایم این اے ، ایم پی اے نہیں عام لوگ ہیں۔ بہت سارے لوگوں نے پارٹٰی میں شمولیت کا عندیہ دیا ہے لیکن ہم نے خود سے کسی کو اپنی پارٹی میں شامل ہونے کے لیے فون نہیں کیا ہے۔

ایکسپریس: لندن سیکریٹریٹ کے ماہانہ اخراجات کیا ہیں۔ اس کے لیے رقم کہاں سے آتی ہے؟
سیدمصطفیٰ کمال: لندن سیکریٹریٹ کا خرچہ فطرہ زکوۃ اور کھالوں کی فروخت سے ہونے والی رقم سے چلتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی فنڈنگ کہاں سے ہوتی ہے تو یہ بات بھی اب سب کے علم میں ہے۔ میڈیا سب کچھ دکھا رہا ہے۔ طارق میر کا بیان بھی ریکارڈ پر ہے کہ را سمیت کہاں کہاں سے پیسے ملتے تھے۔

ایکسپریس: بہ طور سٹی ناظم کیا آپ کو ترقیاتی کاموں کے سلسلے میں الطاف حسین سے گائیڈ لائن ملتی تھی یا یہ آپ کا وژن تھا۔
سیدمصطفیٰ کمال: دور نظامت میں الطاف حسین کی جانب سے کراچی میں ترقیاتی کاموں کے لیے مجھے کبھی بھی کسی قسم کی گائیڈ لائن نہیں دی گئی۔ وہ کراچی میں ترقیاتی کاموں کا سہرا خود لینا چاہتے ہیں تو میں اس کا سارا کریڈٹ سود کے ساتھ انہیں دینا چاہتا ہوں کہ ہاں جی یہ سب کام آپ کی بدولت ہوئے۔ لیکن مجھے کسی ایک بھی پروجیکٹ پر راہ نمائی فراہم نہیں کی گئی۔ اُس وقت بھی میں نے سارا کریڈٹ انہی کو دیا کیوں کہ پارٹی میں ہمیشہ سے ایک ماحول تھا کہ ان کو خوش کرنا ہے۔ ہر چیز کا کریڈٹ انہیں دینا ہے ان کی خواہش بھی یہی ہوتی تھی کہ ہر وقت اُن کی مدح سرائی کی جائے۔

ایکسپریس: معتوب کارکنوں اور راہ نماؤں کو کس طرح کی سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
سیدمصطفیٰ کمال: متحدہ قومی موومنٹ میں معتوب کارکنوں، راہ نماؤں کو بہت ساری سزاؤں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور 2013کے عام انتخابات کے بعد رابطہ کمیٹی کے ساتھ ہونے والا رویہ سب کے سامنے ہے۔ الطاف حسین صاحب جب دل چاہے کسی کو بھی نکال دیتے ہیں ، سوشل بائیکاٹ کرنے کے احکامات جاری کردیتے ہیں۔

ایکسپریس: الطاف حسین کی متنازعہ تقاریر کی وضاحت رابطہ کمیٹی کے ارکان کرتے ہیں، ایسے میں ان کا آف دی ریکارڈ ردعمل کیا ہوتا ہے، ایسا کوئی واقعہ سنائیں۔
سیدمصطفیٰ کمال: الطاف حسین کا آف دی ریکارڈ طرزعمل بھی وہی ہوتا ہے جو آن دی ریکارڈ ہوتا ہے۔ انہوں نے کبھی اپنی غلطی نہیں مانی اور نہ کبھی مانیں گے کیوں کہ غلطی تسلیم کرنا ان کے ڈی این اے میں ہی شامل نہیں ہے ۔ ہاں اُن کے بیانات، تقریر کی وضاحتیں کرنے والے افراد کا آف دی ریکارڈ رد عمل یکسر مختلف ہوتا ہے۔

وہ اس سے بھی زیادہ کُھلی باتیں کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ اُن کی ہر تقریر، پریس کانفرنس کو دیکھ لیں، کوئی وضاحتی بیان بھی الطاف حسین کی مرضی کے بغیر نہیں دیا جاتا۔ جہاں تک اُن کے نشے میں تقریر کرنے کی بات ہے تو اس بات کی گواہی تو گھروں میں اُن کی تقاریر سننے والی خواتین بھی دے سکتی ہیں۔ مرد تو دور کی بات گھریلو خواتین ہی بتا دیں گی کہ وہ کس حالت میں تقریر کرتے ہیں۔ آپ میری بات چھوڑیں، مصطفیٰ کمال کو جو کہنا تھا کہہ دیا مجھ سے زیادہ کھلی ڈلی بات تو کسی نے نہیں کی ہوگی۔ کوئی بھی ایک آدمی لادیں جسے اس بات پر شک ہو اور اگر کسی کو یقین ہے کہ وہ ہوش و حواس میں تقریر کرتے ہیں تو پھر اُس بندے کی دماغی حالت یقیناً ٹھیک نہیں ہے۔

متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ الطاف حسین ٹی وی پر لائیو جانا چاہ رہے ہوتے تھے، ہم انہیں یہ تو نہیں کہتے تھے کہ بھائی آپ نشے میں ہیں تقریر نہ کریں لیکن ٹی وی چینلز کے نیوز ڈائریکڑز کو فون کر کر کے منع کرتے تھے کہ خدرا انہیں لائیو نہیں لینا۔ ان کے آگے ہاتھ جوڑتے تھے کہ لائیو نہ لیں، کبھی ہم کوئی خرابی کردیتے تھے، تار کھینچ لیتے تھے۔ وہ اس کنڈیشن میں نہیں ہوتے تھے کہ ہماری بات کو سنیں سمجھیں۔ اگر وہ کہنے سننے والی کنڈیشن میں ہوتے تو یہ نوبت ہی نہیں آتی۔

ایکسپریس: آپ کا عمران فاروق سے براہ راست تعلق رہا، انھیں آپ نے کیسا پایا، کیا عمران فاروق الگ پارٹی بنا رہے تھے؟
سیدمصطفیٰ کمال: جب تک وہ پارٹی میں تھے تو جب بھی لندن جاتا اُن سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ اُن سے آخری ملاقات لندن سیکریٹریٹ کی ایک تقریب میں ہوئی جس میں انہیں مہمان کی حیثیت سے مدعو کیا گیا تھا، کیوں کہ وہ پارٹی سے میں غیر فعال تھے، جہاں تک اُن کا الگ گروپ یا پارٹی بنانے کی بات ہے تو مجھے اس بات کا علم نہیں ہے میں نے بھی بس سنا ہی ہے۔

ایکسپریس: مہاجر صوبے کا نعرہ بار بار لگایا جاتا ہے اور پھر یہ نعرہ پُراسرار طور پر غائب ہوجاتا ہے۔ یہ نعرہ لگنے اور اس کے غائب ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
سیدمصطفیٰ کمال: مہا جر صوبے کا نعرہ قومیت کے نام پر لوگوں کو مروانے بے وقوف بنانے کا طریقہ ہے۔ آپ کے پاس کوئی ایجنڈا نہیں ہے ۔ یہ نعرہ مہاجروں کی توجہ اپنی طرف مرکوز کروانے، ان کے جذبات سے کھیلنے کا ہتھکنڈا ہے۔ آپ مہاجر صوبے کی بات کرتے ہیں پہلے اپنے شہر کی ایڈمنسٹریشن کو تو ٹھیک کرلیتے، کچرا تو اٹھوالیتے، آٹھ سالوں میں پورے شہر کو کچرے کا ڈھیر بنادیا۔ انہیں (ایم کیو ایم) کو ہمیشہ اس وقت یہ نعرہ یاد آتا ہے جب الیکشن ہو رہے ہوں، انہیں شراکت اقتدار کرنا ہو، پیپلز پارٹی کو بلیک میل کرنا ہو۔

ایکسپریس: آپ نے مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ایم کیو ایم کے کارکنوں کے لیے بلوچستان کی طرز پر عام معافی دینے کا اعلان کیا اس کی وجوہات؟
سیدمصطفیٰ کمال: ہم نے پہلی پریس کانفرنس میں ہی اسیر کارکنان کے لیے ایک پالیسی بنانے کا اعلان کیا، یہ پالیسی ہمارے لیے پارٹی کے منشور سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ میں حکومتِ پاکستان سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ یہ نوجوان جنہیں ہم دہشت گرد کہہ رہے ہیں، یہ ماں کے پیٹ سے دہشت گرد یا انڈیا کے ایجنٹ بن کر نہیں آئے تھے، ان کے پاس آپشن نہیں تھا۔ اب ہمیں انہیں اسی طرح ری ہیبلیٹیٹ کرنا چاہیے، جس طرح بلوچستان میں پاکستانی فوج سے لڑنے والوں کو معاشرے کا شہری بنا نے کی کوشش کی گئی، اسی طرح ان نوجوانوں کے لیے ایسی پالیسی بنانی چاہیے۔ انہیں راہ راست پر آنے کا ایک موقع دیا جانا چاہیے۔

اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ان کو پکڑنے سے، مارنے سے الطاف حسین کو دُکھ یا پریشانی ہوگی تو یہ بلکل غلط ہے۔ وہ تو چاہتے ہیں کہ لوگ، کارکنان مارے جائیں، پکڑے جائیں، کیوں کہ جتنے زیادہ لوگ پریشانی میں ہوں گے، اُن کے گھر والوں، دوست احباب کی پارٹی سے قربت بڑھے گی، یہ ان کے دوراقتدار کو دوام بخشیں گے۔ آپ عام کارکنان کو ان (الطاف حسین) کے اقتدار کا ایندھن نہ بنائیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں کو جتنے زیادہ دُکھ ہوں گے۔

لوگ اتنے زیادہ ان کے قریب آئیں گے، لوگوں کی توجہ اُن کی ذات پر نہیں جائے گی۔ انہیں اپنی ذہنی تسکین اور سیاسی مفادات دونوں کے لیے لاشوں کی ضرورت رہتی ہے۔ کارکنان کی برین واشنگ کرکے اپنے غلط مقاصد میں استعمال کیا جاتا ہے۔ عام کارکن کو دہشت گرد، را کا ایجنٹ بنانے والوں سے حکومت مذاکرات کر رہی ہے۔ اگر یہ دہشت گرد ، را کے ایجنٹ ہیں تو پھر ان کی پارٹی چل کیسے رہی ہے۔ ہم ان نوجوانوں کے حق میں بات اس لیے نہیں کر رہے کہ کہ ہمیں انہیں اپنی جماعت میں لینا ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ یہ لوگ میرے پاس آئیں میں چاہتا ہوں کہ یہ معاشرے کا حصہ بنیں، اپنے گھر والوں، ماں باپ، بہن بھائی، بیوی بچوں کے پاس جائیں۔ اﷲ کا شکر ہے کہ ہمارے پاس لوگوں کی کمی نہیں ہے۔

میں پاکستان کے لیے یہ بات کر رہا ہوں۔ ان لوگوں کو ایک موقع دینا پاکستان کے حق میں بہتر ہے۔ جہاں تک بات ہے سزا یافتہ لوگوں کو اپنی جماعت میں شامل کرنے کی، تو میں یہ ہی کہوں گا، ہمیں تو بُرے لوگوں کو بھی گلے لگانا چاہیے۔ انہیں گلے لگا کر برائی ختم کرنی ہے۔ تنظیم ایسی ہونی چاہیے کہ غلط آدمی کو بھی اپنے ساتھ ملا کر اچھا بنا دے۔

ایکسپریس: ایم کیوایم کے کون کون سے ایسے راہ نما ہیں جنھیں آپ کسی صورت اپنی پارٹی میں نہیں لیں گے، یا آپ کی نظر میں کوئی ایسا راہ نما نہیں؟
سیدمصطفیٰ کمال: جی ہاں ہمارے دماغ میں متحدہ کے ایسے راہ نماؤں کی فہرست موجود ہے جنہیں ہم کسی حال میں اپنی پارٹی میں شامل نہیں کریں گے۔ لیکن وہ نام ابھی میں آپ کو نہیں بتا سکتا، کیوں کہ جب نام بتاؤں گا تو پھر انہیں نہ لینے کی وجوہات بھی بتانا پڑیں گی۔ یہ ہم مناسب وقت پر بتائیں گے اور انہیں اپنی جماعت میں شامل نہ کرنے کی وجوہات بھی ہم اُس وقت ہی بتائیں گے۔

ایکسپریس: ذوالفقار مرزا نے الطاف حسین اور ایم کیوایم پر جو الزامات لگائے ان میں کہاں تک صداقت ہے؟
سیدمصطفیٰ کمال: میں ذوالفقار مرزا پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا۔
ایکسپریس: الطاف حسین سے آپ کی ملاقاتیں ہوتی رہی ہیں، ان کا موضوع گفتگو کیا ہوتا تھا؟
سیدمصطفیٰ کمال: الطاف حسین سے آخری ملاقات 2013 میں ہوئی تھی۔ اُن دنوں تو ان کے کیسز کے حوالے ہی سے زیادہ باتیں ہوتی تھیں کہ لائحہ عمل کیا ہے، وکیل کون سا کرنا ہے۔ پارٹی چھوڑ کر جانے کے بعد بھی پارٹی راہ نما مجھے ای میل کرتے رہتے تھے کہ آپ رابطے کا کوئی نمبر دے دیں، لیکن میں نے ان ای میلز کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ایکسپریس: نظامت سے ہٹنے کے بعد ایسا محسوس ہوا کا آپ کو پس منظر میں لے جایا جارہا ہے۔ کیا الطاف حسین آپ کی عوام میں مقبولیت کو اپنے لیے خطرہ سمجھنے لگے تھے؟
سیدمصطفیٰ کمال: وہ میری مقبولیت کو اپنے لیے خطرہ سمجھ رہے تھے یا نہیں میں کچھ نہیں کہہ سکتا، لیکن ہماری تو یہی کوشش ہوتی تھی کہ کوئی ہماری زیادہ تعریف نہ کردے۔ وہ مجھے کیا پس منظر میں لے جاتے ۔ نظامت سے ہٹنے کے بعد میں سینیٹر بن گیا۔

ایکسپریس: محمد اسلم، ڈاکٹرنشاط، مصطفی کمال رضی کے قتل ایک راز ہیں۔ آپ کے خیال میں اس کے کیا محرکات تھے؟
سیدمصطفیٰ کمال: یہ تو قانون ناٖفذ کرنے والے اداروں کا کام ہے کہ وہ ان افراد کے قتل کی تفتیش کرے کہ کس نے مارا اور کیوں مارا۔ پارٹی کے منحرف راہ نماؤں کے بارے میں اگر کوئی بات ہوتی بھی ہوگی تو وہ رابطہ کمیٹی کے سامنے نہیں بل کہ دوسرے متوازی نظام میں ہوتی ہوگی، کیوں کہ دوسرے نظام کا کام کرنے کا طریقہ ہی یکسر مختلف ہے۔ اس نظام کو باہر سے ہی ڈیل کیا جاتا ہے۔

ایکسپریس: ڈاکٹرعشرت العباد اور الطاف حسین کے درمیان معاملات کب خراب ہوئے؟
سیدمصطفیٰ کمال: میں تین سال سے ملک سے باہر تھا۔ اس دورانیے میں ان دونوں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ اس سے پہلے ان کے تعلقات ٹھیک تھے۔ جہاں تک گورنر سندھ اور الطاف حسین کے تعلقات خراب ہونے کی بات ہے ان سے معاملات خراب ہونے یا درست ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ رات میں وہ کسی بات ناراض ہوجاتے ہیں تو صبح اُن کا موڈ ٹھیک ہوجاتا ہے۔

ایکسپریس: الطاف حسین کے سارے بہن بھائی کیا بیرون ملک مقیم ہیں؟
سیدمصطفیٰ کمال: صرف ایک بہن کو چھوڑ کر الطاف حسین کے سب گھر والے بیرون ملک مقیم ہیں۔

ایکسپریس: الطاف حسین کے حوالے سے کوئی دل چسپ واقعہ۔
سیدمصطفیٰ کمال: اُن کے بیانات سے لے کر تقاریر تک ساری باتیں ہی دل چسپ ہیں۔

ایکسپریس: لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال ہے کہ الطاف حسین نے بھارت میں کی گئی اپنی تقریر میں کہا برصغیر کی تقسیم بہت بڑی غلطی تھی، ٹھوک دو والی تقریر ہوئی، فوج پر تنقید کی گئی، اقوام متحدہ سے مدد مانگی گئی، لیکن اس سب کے باوجود آپ ایم کیوایم سے وابستہ اور الطاف حسین کا دفاع کرتے رہے۔ آپ کا ضمیر اتنی دیر میں کیوں جاگا؟
سیدمصطفیٰ کمال: میرے بھائی میں اگست 2013میں سینیٹر شپ چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ میں یہ سب کیوں چھوڑ کر گیا تھا۔ یہ تقاریر اسی دور کی ہیں۔ مجھے سینیٹر بنے ہوئے پانچ چھے مہینے ہوئے تھے میں 2018تک کے لیے سینیٹر منتخب ہوا تھا۔ ابھی بھی دو سال اور سینیٹر رہتا۔ آپ مجھے کسی بھی پارٹی کا کوئی ایک بھی ایسا بندہ بتا دیں جس نے سینیٹر شپ کیا کونسلر کی نشست بھی چھوڑی ہو۔ میں رابطہ کمیٹی کی رکنیت، اپنا گھر بار، شہر ملک چھوڑ کر گیا تھا۔ اس کی مثال آج تک کسی پارٹی میں نہیں ملتی۔ انیس قائم خانی بھی سب چھوڑ کر چلے گئے۔ کیا یہ سب اس بات کا اشارہ نہیں کرتے۔ تین سالوں تک پارٹی راہ نما اور الطاف حسین خود ہمیں بلاتے رہے ۔ الطاف حسین نے تو ٹی وی پر نام لے کر واپس بلایا۔ یہ ساری باتیں ریکارڈ پر ہیں۔

لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ ہم اچانک آگئے۔ تو لوگوں کو میں یہ تو نہیں کہہ سکتا تھا کہ رات میں نے کیا سوچا، صبح اٹھ کر کیا سوچا۔ یہ سب اچانک نہیں ہوا اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔ ہم باہر گئے تین سال خاموشی سے گزار کر واپس آئے ہیں۔ سینیٹر شپ اور اپنے وطن کی پُر آسائش زندگی چھوڑ کر باہر چلے جانا اتنا آسان نہیں ہوتا۔ مجھ سمیت اُس وقت کی رابطہ کمیٹی الطاف حسین کی پالیسیوں ، تقاریر پر جتنی آواز اٹھا سکتی تھی اٹھائی، ہم نے ممکنہ حد تک پارٹی میں ڈیمیجز کو روکا۔ ایسے بہت سارے واقعات ہیں جو ہماری وجہ سے رکے، لیکن میں یہاں اُن کا ذکر نہیں کرنا چاہتا۔

ایکسپریس:ایم کیو ایم پر بھتا لینے اور ڈکیتیوں کے الزام میں کہاں تک حقیقت ہے؟
سیدمصطفیٰ کمال: میں ایمان داری سے بتاؤں کہ بھتا لینا یا ڈکیتیاں کروانا پارٹی لائن نہیں تھی میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ بلا وجہ الزام لگاؤں۔ رابطہ کمیٹی اور کراچی تنظیمی کمیٹی کی سطح پر کبھی بھی کسی کارکن سے اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا نہیں کہا گیا۔

ایکسپریس: عمران خان اور الطاف حسین میں لاکھ فرق اور اختلاف سہی، لیکن ان کی نجی زندگی کے المیے مشترک ہیں۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
سیدمصطفیٰ کمال: میں عمران خان اور الطاف حسین صاحب کا موازنہ کیوں کروں۔ اُن کی زندگی کے شب و روز میں بتا چکا ہوں۔ اب بار بار یہ سب کہنا اچھا نہیں لگتا۔ ہم یہاں ایک مقصد ، لوگوں کی بہتری کے لیے آئے ہیں۔ ہمیں لوگوں کو صرف یہ نہیں بتانا کہ الطاف حسین صاحب کیا کرتے رہے ہیں یا وہ کتنے برے ہیں، ہمیں لوگوں کو بہتر مستقبل کے لیے پیکیج دینا ہے۔

کمال کا بنگلہ


سڑکیں خالی ملیں تو لیاری، ملیر یا نیوکراچی سے ڈیفنس سوسائٹی تک زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹے کا سفر ہے، مگر یہاں تک ’’پہنچنے‘‘ کے خواب کی مسافرت پوری زندگی سے بھی طویل ہے۔ یہ علاقہ اور باقی کا کراچی دو الگ دنیائیں ہیں۔ پورے شہر کی گہماگہمی اور ہنگاموں سے اس بستی کی کشادہ گلیوں کے سناٹے کا کوئی تعلق نہیں بنتا، مگر اب یہاں کی ایک گلی کی چہل پہل دیکھنے کے قابل ہے، اور یہ سب بس ایک بنگلے کی رونق کے دم سے ہے، جس نے پورے شہر کی سیاست میں ہلچل مچارکھی ہے، کمال کا بنگلہ ہے بھئی۔ تین سبز ہلالی پرچم لہرا رہے ہیں، جن کے سائے میں مصطفیٰ کمال کی قدآدم تصویر آٓویزاں ہے۔ گلی میں مختلف چینلز کی ڈی ایس این جی عملے سمیت کھڑی ہیں۔

ہم دیے گئے وقت کے مطابق ٹھیک تین بجے دروازے پر کھڑے تھے۔ در وا ہوا تو ہمارا سامنا گھونگریالے بالوں والے ایک سانولے سلونے بلوچ سے تھا، پتا نہیں ملازم تھا یا کارکن۔ اسی نے تلاشی لی۔ ہمیں گیلری میں لگی کرسیوں پر بیٹھنے کو کہا گیا۔ نیلی وردی میں نجی سیکیوریٹی کمپنی کے کچھ اسلحہ بردار محافظ اندر موجود ہیں۔ ایک قدآور نوجوان نے آکر ہمارا تعارف لیا، نام اور نمبر نوٹ کیے اور ’’مصطفی کمال بھائی‘‘ کی مصروفیت کا بتا کر انتظار کرنے کو کہا۔ یہ انتظار کوئی پندرہ بیس منٹ کھنچا۔ اندرونی دروازے میں داخل ہونے سے پہلے باہر بنے کاؤنٹر پر ہمارے کوائف تحریر کیے گئے، پھر ہم پر دوسرا در کُھلا۔

اندر بڑے سے ہال میں آگے پیچھے رکھی کُرسیاں کسی کلینک کا منظر پیش کر رہی تھیں، ہمیں اس سے ملحق کمرے میں لے جایا گیا، جہاں ابتدا رضا ہارون کے ساتھ مکالمے سے ہوئی۔ ’’مصطفیٰ بھائی سے آپ اسیر کارکنوں کی رہائی کے حوالے سے سوال ضرور کیجیے گا‘‘ مکالمے کے خاتمے پر رضاہارون نے ہمیں بڑے اصرار سے ’’مشورہ‘‘ دیا۔ کوئی پندرہ منٹ بعد مصطفیٰ کمال مسکراتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور پھر سوال جواب کا وہ سلسلہ جُڑا جو اس انٹرویو کی صورت میں آپ کے لیے پیش ہے۔

آج کے الطاف حسین آٹھ سال پہلے کے الطاف حسین سے یکسر مختلف ہیں: رضا ہارونرا سے فنڈنگ کی رپورٹ کو کبھی چیلنج نہیں کیا گیا
رابطہ کمیٹی کے ساتھ روا کیے گئے برے برتاؤ نے متحدہ سے بدظن کیا
رضاہارون 1987کے بلدیاتی انتخابات کے دوران ایم کیو ایم میں شامل ہوئے۔ انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ کے تقریباً ہر راہ نما کے ساتھ تنظیمی فرائض سرانجام دیے۔ وہ 2008کے عام انتخابات میں پی ایس 115سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ کمپیوٹر سائنس میں گریجویٹ رضا ہارون نے انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے صوبائی وزیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دیں۔ مئی 2013میں رابطہ کمیٹی کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک نے انہیں متحدہ قومی موومنٹ سے بدظن کردیا اور وہ بیرون ملک چلے گئے۔ رواں ماہ مارچ میں منحرف لیڈر مصطفیٰ کمال کی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔

متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ طویل رفاقت کے خاتمے پر کس بات نے مجبور کیا اس بابت ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین سال سے دل و دماغ میں ایک جنگ جاری تھی ، بہت سارے واقعات ایسے ہوئے، بہت سارے لمحات ایسے تھے جنہوں نے انہیں اتنے بڑے فیصلے پر مجبور کیا۔ پھر اخبارات، ٹیلی ویژن اور دیگر ذرایع کی جانب سے غیرملکی فنڈنگ کے الزامات نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ دل کہتا تھا کہ یہ سب ٹھیک ہے دماغ اس بات کو درست ماننے سے انکاری تھا۔

دماغ تعلق ختم کرنے پر مجبور کرتا تو دل اتنے سالوں کی رفاقت ختم کرنے سے انکار کردیتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ 2013کے عام انتخابات کے بعد نائن زیرو پر رابطہ کمیٹی سے کیے جانے والے برتاؤ نے میری علیحدہ ہونے کی سوچ کو جلا بخشی۔ ہم نے اتنے سال اپنی ذات کی نفی کرکے تنظیم کے لیے بے لوث خدمات سرانجام دیں۔ یہ بات فون پر بھی کہی جاسکتی تھی کہ بھئی اب آپ کی خدمات کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسری بات یہ کہ آج سے سات آٹھ سال پہلے کے الطاف حسین اور آج کے الطاف حسین میں بہت فرق آگیا تھا۔ پہلے ان کا کا رویہ ملنا جلنا، بات چیت کرنا مختلف تھا۔ اور آج کا ان طرزعمل بالکل مختلف ہے۔ مجھے کل کے الطاف حسین اور اس الطاف حسین میں بڑا واضح فرق نظر آتا ہے۔ آپ ان کی گذشتہ چند سالوں میں کی گئی تقاریر دیکھیں۔ آپ سیاسی راہ نماؤں کی برائی سے شروع ہوئے بعد معافی مانگ لی، رات میں عدلیہ اور ریاستی اداروں کو برا بھلا کہا صبح معافی مانگ لی۔ کبھی آپ را سے مدد مانگتے ہیں کبھی نیٹو اور اتحادی افواج سے۔ مجھے تو یاد بھی نہیں کہ الطاف حسین صاحب نے کتنی بار استعفی دیا اور کتنی بار واپس لیا۔

آپ مہاجر قوم کے راہ نما ہیں، ایک ایسی قوم کے جو پاکستان کی پڑھی لکھی قوم کہلاتی ہے۔ ہمارے گھروں میں انداز گفت گو، انداز و اطوار، نشست و برخاست کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اور آ پ ایک مہذب قوم کے لیڈ ر ہوتے ہوئے پبلک کے سامنے ایسی باتیں کرتے ہیں جن کا میں یہاں تذکرہ بھی نہیں کر سکتا۔ کون سا طبقہ ایسا رہ گیا تھا جس کے خلاف سخت زبان استعمال کرنے کے بعد آپ نے معافی نہ مانگی ہو۔ بی بی سی اپنی دستاویزی فلم میں آپ پر را سے پیسے لینے کا الزام عائد کرتا ہے۔ آپ اس رپورٹ کو سازش تو قرار دیتے ہیں لیکن عدالت میں چیلینج نہیں کرتے۔ لندن پولیس کا ایک خط عوام کے سامنے آتا ہے جس میں آپ پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں لیکن آپ اسے بھی چیلینج نہیں کرتے۔ اگر آپ سچے تھے تو آپ اس رپورٹ کے خلاف عدالت میں جاتے۔ طارق میر کا اعترافی بیان میڈیا میں آتا ہے اسے بھی کہیں چیلینج نہیں کیا جاتا۔ اگر آپ سچے تھے تو ان تمام الزامات کی بھرپور تردید کرنی چاہیے تھی، ان تمام بیانات اور رپورٹس میں آپ پر کوئی بکری چوری یا موبائل چھیننے کے الزامات نہیں لگائے گئے۔

آپ پر دشمن ملک سے پیسے لینے اور ملک دشمنی جیسے سنگین الزامات عائد کیے گئے۔ آپ ان تمام الزامات کو صرف سازش قرار دیتے رہے۔ ان تمام باتوں نے ایم کیو ایم سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور کیا۔ عمران فاروق کی بابت پوچھے گئے سوال پر رضا ہارون کا کہنا تھا کہ عمران فاروق سے لندن سیکریٹریٹ میں ہونے والی تقریبات میں ملاقات ہوتی تھی۔ اُن کی تربیتی نشستوں میں بھی شرکت کی۔ آخری ملاقات اُن کی موت سے قبل لندن سیکریٹریٹ میں ہونے والی عید ملن پارٹی میں ہوئی تھی، جس وہ غیر فعال ہونے کی وجہ سے مہمان کے طور پر مدعو تھے۔ ایم کیو ایم کے انویسٹی گیشن سیل کی جانب سے عمران فاروق کے الگ گروپ بنانے کی خبروں کی تفتیش بھی کی گئی تھی۔ لیکن انفرادی طور پر مجھے کبھی ایسا نہیں لگا کہ وہ گروپ بندی کر رہے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی مجھے اس بات کا کوئی اشارہ دیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔