نیپال بدل گیا

شبینہ فراز  اتوار 27 مارچ 2016
بھارت سے پیٹرولیم کے تنازعے کے بعد ہندوستانی کی جگہ نیپالی مصنوعات چھاگئیں  ۔  فوٹو : فائل

بھارت سے پیٹرولیم کے تنازعے کے بعد ہندوستانی کی جگہ نیپالی مصنوعات چھاگئیں ۔ فوٹو : فائل

قطرایئر لائن کا طیارہ کھٹمنڈو کے ایئرپورٹ پر اترنے کے لیے پر تول رہا تھا۔ نیچے نیلگوں آسماں اور بلند و بالا پہاڑوں کا سلسلہ نظر آرہا تھا۔ یہ ہمالیائی پہاڑی سلسلہ تھا۔ فروری کا مہینہ تھا اور برف کا دوشالہ پہنے ان ہی میں سے کوئی چوٹی ایورسٹ کی بھی تھی جسے دنیا کی بلند ترین چوٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

جہاز میں سوار ہر مسافر کھڑکی سے باہر پہاڑوں کو دیکھنے اور ان میں ماؤنٹ ایورسٹ کو ڈھونڈنے میں مصروف تھا کہ اچانک پائلٹ کی جانب سے کیے جانے والے اعلان نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی۔ اعلان تھا کہ چوںکہ نیپال کے وزیراعظم ہندوستان کے دورے پر روانہ ہورہے ہیں۔

اس لیے وی آئی پی موومنٹ کی وجہ سے ہمارا طیارہ مزید بیس منٹ ان ہی فضاؤں میں بلند رہے گا۔ لیجیے جناب! وی آئی پی موومنٹ کا عذاب یہاں بھی بھگتنا تھا۔ شاید ایشیائی ممالک کے مسائل اور وسائل کے ساتھ ساتھ سماجی رویے بھی یکساں ہیں۔ بیس منٹ کا ایک اور اعلان، پھر مزید دس منٹ، گویا طیار ہ مزید پچاس منٹ محو پرواز رہنے کے بعد زمین پر اترنے میں کام یاب ہوا۔ کھٹمنڈو کے چھوٹے سے تری بھون ایئرپورٹ پر مسافروں کا جم غفیر یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ ہم ہی نہیں دیگر طیارے بھی فضاء میں روک دیے گئے تھے۔

امیگریشن کی طویل قطار اور سامان کے حصول کے مراحل سے گزر کر ہم باہر نکلے اور  ہوٹل ’’سمیٹ‘‘(Summit) کی گاڑی میں بیٹھے جہاں انڈیا ، اور مقبوضہ کشمیر سے آنے والے دیگر صحافی بھی موجود تھے اور سب مل کر وی آئی پی موومنٹ پر تبصرہ کررہے تھے کہ یہ ہم سب کا سانجھا مسئلہ تھا۔

راستے میں سڑکوں کے کنارے موٹر سائیکل سواروں کی لمبی لمبی قطاریں نظر آئیں جو پیٹرول کے حصول کے لیے لگی ہوئی تھیں۔ ہمیں پاکستان میں سی جی این جی کھلنے کے بعد پمپ پر گاڑیوں کی قطاریں یاد آگئیں۔ فضا میں خاصی آلودگی تھی۔ کھٹمنڈو شہر ایک پیالہ نما وادی ہے، جس میں سے دھواں اور دیگر آلودگی اتنی آسانی سے نہیں نکلتی۔ آلودگی سے بچنے کے لیے خاصی تعداد میں لوگ ماسک لگائے نظر آئے۔ یہاں لڑکیوں کا بائیک چلانا عام بات ہے۔ اکثر بائیک پر لڑکے یا مرد حضرات پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔

پچھلے سال اکتوبر سے یہاں پیٹرول ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے، کیوںکہ پچھلے سال ہندوستان نے نیپال کو پیٹرول کی سپلائی بند کردی تھی۔ یہ اقدام بہار میں ہونے والے انتخابات میں شکست کے بعد مودی سرکار نے سزا کے طور پر کیا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ اس کی شکست میں نیپالیوں کا بڑا ہاتھ ہے۔

بہرحال خشکی میں گھری ہمسایہ ملک نیپال کو بھارت کی جانب سے ایک ماہ سے بھی زیادہ پٹرولیم مصنوعات کی بندش کے بعد چین نے نیپال کو تیل کی فراہمی شروع کردی تھی۔ چین نیپال کو ایک ہزار میٹرک ٹن تیل بھیج رہا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نیپال کی حکومت نے تیل کی درآمد کے لیے نجی کمپنیوں کو بھی این او سی دیا ہے۔ اس سے پہلے تیل کی درآمد پر نیپال آئل کارپوریشن کی اجارہ داری تھیی جو صرف انڈین آئل کارپوریشن سے تیل خریدتی تھی۔

راستے میں جگہ جگہ بیرون ملک تعلیم کے حصول کے لیے قائم اداروں کے بورڈ نظر آرہے تھے جن میں واضح طور پر بیرون ملک تعلیم کے لیے لازمی ٹیسٹ IELET پاس کروانے کے دعوے کیے جارہے تھے۔ شاید ایشیائی ممالک کے خواب بھی یکساں ہیں!

کھٹمنڈو میں ہم دس صحافی مدعو تھے، جن کا تعلق چین، ہندوستان، افغانستان اور پاکستان سے تھا۔ یہ سب ماحول اور آبی وسائل پر لکھنے کے حوالے سے وسیع تجربے کے حامل تھے۔ افغانستان سے محمد جواد بیات اور آصف غفورے، ہندوستان سے جوئے دیپ گپتا، امیتابھ سنہا، وشوا موہن، مقبوضہ کشمیر سے شاداب بشیر، اطہر پرویز، چین سے لی چوئی، جین چوئی، لیو ہونگیو شریک تھے۔ پاکستان سے ہمارے علاوہ رعنا سعید، زوفین ابراہیم تھیں۔ زوفین اور جوئے دیپ گپتا اور نیپال سے رمیش دی تھرڈ پول ادارے کی نمائندگی کررہے تھے۔

اس کے علاوہ جنوبی ایشیا کے مشترکہ آبی وسائل کے حوالے سے کام کرنے والے تمام اداروں  World Bank, ICIMOD ,Earth Journalism Network, China Dialogue  International Water Management Institute (IWMI)  کے نمائندے بھی موجود تھے۔ اس میڈیا ڈائیلاگ میں دریائے سندھ موضوع گفتگو تھا کہ یہ چین، ہندوستان ، افغانستان اور پاکستان کا مشترکہ وسیلۂ آب ہے۔ یہ دریا چاروں ممالک کی زمینوں کو سیراب کرتا ہے، لیکن جیسا عشق اس دریا سے پاکستان میں کیا جاتا ہے کسی اور ملک میں نہیں کیا جاتا۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ ہمارے ملک کا واحد وسیلۂ آب ہے۔  اسے دنیا ہماری شہہ رگ بھی کہہ سکتی ہے۔

دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کا نظام قدرت کا وہ عظیم تحفہ ہے جو اس نے فراخ دلی سے ہمیں بخشا ہے۔ دریائے سندھ کی قدامت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اس دریا کے کناروں پر دنیا کی قدیم ترین تہذیب نے جنم لیا اور یہیں ارتقا کے مراحل طے کیے۔ اسی دریا نے اپنی مٹی سمندر کے قدموں میں بچھا کر دنیا کے زرخیز ترین ڈیلٹا کو جنم دیا اور انسانیت کی ایک اور خدمت کی۔ محقق ثابت کرچکے ہیں کہ دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں (مصر، با بل، چین اور سندھ) میں سے ایک وادی سندھ کی تہذیب اس دریا کے کنارے پروان چڑھی اور پھولی پھلی۔ واضح رہے کہ یہاںوادی سندھ سے مراد صرف صوبہ سندھ نہیں ہے، کیوںکہ ہزاروں برس پر محیط اس تہذیب کے نشانات سندھ کے علاوہ پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختون خوا میں بھی پائے گئے ہیں۔

دنیا کی قدیم ترین کتاب رگ وید بھی دریائے سندھ کے کناروں پر لکھی گئی۔ اس میں بھی سات دریاؤں کا ذکر ملتا ہے جن میں دریائے سندھ شامل ہے۔ دوسری کتاب رامائن ہے، جس میں کوروؤں اور پانڈوں کے ساتھ ساتھ سندھ کے راجا جیدراتھ کا ذکر بھی بڑی تفصیل سے ملتا ہے۔ پارسیوں کی مقدس کتاب ’’زندہ وستا‘‘ میں بھی مہران ندی کا ذکر موجود ہے، جو دراصل سندھودریا ہے۔ پارسی شاعری میں بھی دریائے سندھ کا ذکر ملتا ہے۔

دیو مالائی اہمیت کے حامل دریائے سندھ کی لمبائی 2,900کلو میٹر ہے، جو تبت میں جھیل مانسرور سے 30 میل دور کیلاش کے برفانی پانیوں سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں سے بہتا ہوا یہ عظیم دریا ایک چھوٹے سے مقام ’’دم چک‘‘ سے لداخ میں داخل ہوجاتا ہے۔ لداخ میں اسے ’’سنگھے کھب‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ سنگھے کا مطلب ہے شیر اور کھب کا مطلب ہے منہ یعنی شیر کا دہانہ۔ پاکستان بھر میں اس شیر کے دہانے والے دریا کے مختلف نام ہیں۔ یہ جن جن بستیوں کو سیراب کرتا اور ان کے دامن میں خوش حالی انڈیلتا گزرتا ہے وہاں کے رہنے والے اسے محبت اور شکر گزاری کے تحت مختلف نام دیتے ہیں۔ مثلاً پشتو میں اسے ’’ابا سین‘‘ یعنی دریاؤں کا باپ، سندھ میں اسے ’’مہران‘‘ اور سندھو ندی بھی کہا جاتا ہے۔ سندھو سنسکرت کا لفظ ہے جس کی بنیاد ’’سیند‘‘ پر ہے، جس کے معنی بہنے کے ہیں۔

دریائے سندھ کا طاس یا بیسن 1.12msq/kmہے۔ اس کا 47 فی صد پاکستان میں، 39 فی صد ہندوستان میں ، 8 فی صد چین میں اور 6 فی صد افغانستان میں ہے۔ پاکستان میں اس طاس کا 63% پانی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں کھٹمنڈو میں اسی عظیم دریائے سندھ کے آبی وسائل کو پائے دار بنیاد پر استعمال کرنے کے طریقوں پر تبادلۂ خیال کیا جارہا تھا اور یہ بھی کہ کس طرح ایک صحافی قلم کے ذریعے مسائل کو اجاگر کرسکتا ہے اور صحافی کو ہر حالت میں ذمے دارانہ کردار ادا کرنا چاہیے، کیوںکہ پاکستان اور ہندوستان کے مابین یہ موضوع کتنا حساس ہے اسے سب ہی جانتے ہیں۔

نیپال کی معیشت میں سیاحت کو خصوصی مقام حاصل ہے۔ یہاں تیس سال تک خانہ جنگی جاری رہی جو2006 میں اپنے منطقی انجام کو پہنچی، جس کے بعد یہ ملک سیاحوں کے لیے مزید پُرکشش ہوچکا ہے۔

نیپال کی سیاحت کی صنعت میں میں کوہ پیمائی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہاں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ واقع ہے، جس کی کشش سیاحوں خصوصا کوہ پیماؤں کو یہاں کھینچ لاتی ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ کی اونچائی  29029فٹ یا  8848 میٹر ہے۔ ہر سال یہاں کوہ پیمائی کی 30 مہمات جاتی ہیں۔ ان مہمات سے حاصل ہونے والی فیس نیپال میں سیاحت سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ کا اہم حصہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ماؤنٹ ایورسٹ پر مہم جوئی پر کم از کم ایک لاکھ ڈالر مجموعی طور پر خرچ آتا ہے۔ سیاحوں کے لیے ایک اور کشش یہاں کا دریا ’’بھوٹے کوشی‘‘ ہے، جو چین کے علاقے تبت سے نکلتا اور پھر اپنی پوری طاقت کے ساتھ ہمالیہ کے پہاڑوں میں سے اپنا راستہ بناتے ہوئے نیپال میں داخل ہوتا ہے۔

بھوٹے کوشی دریا نیپال کے سفید پانیوں والے اور کشتیوں کی مہم جوئی (رافٹنگ) کے لیے مشہور سات دریاؤں میں سے ایک ہے۔ اس دریا کا بپھرا ہوا پانی پوری دنیا کے مہم جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتا ہے جو ربر کی کشتیوں پر بیٹھ کر پانی کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ نیچے اترتے ہیں۔ اگرچہ ان کے ہاتھوں میں چپو بھی ہوتے ہیں مگر دراصل وہ پوری طرح دریا کی لہروں کے رحم وکرم پر ہوتے ہیں۔ یہ کھیل ان کی ہمت اور حوصلے کی کڑی آزمائش ثابت ہوتا ہے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے وہ دل کھول کر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ اس دریا کا ماخذ ہمالیہ پہاڑی سلسلے کی پگھلتی برف ہے، اسی لیے اس کا پانی انتہائی صاف اور شفاف ہے۔ پہاڑوں سے نکلتا اور شور مچاتے دریا کا جھاگ اڑاتا پانی بلاشبہہ مہم جو سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کا باعث ہے۔

نیپال کا ایک بڑا مسئلہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہے ۔ یہاں16, 16 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ان دنوں بھی جاری تھی۔ نیپالیوں کا خیال ہے کہ پوری قوت سے نیچے اترنے والے دریا بھوٹے کوشی کے پانیوں سے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جو کھیل سے زیادہ صنعت کے لیے کارآمد ہوگی۔  نیپال میں اب دریاؤں پر ہائڈرو پاور منصوبوں کے بارے میں سوچ بچار جاری ہے۔  یہ بھی بتاتے چلیں کہ ماہرین کا اندازہ ہے کہ نیپال کے دریائی نظام میں 83 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش موجود ہے، جب کہ ہائیڈرو پاور کی مد میں محض 692 میگا واٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔

اس صورت حال کے باعث ملکی صنعت مفلوج ہورکر رہ گئی ہے۔ اقتصادی ڈھانچے کی تعمیروترقی کا کام تقریباً رک گیا ہے اور غیرملکی سرمایہ کار بھی نیپال کا رخ نہیں کررہے۔ نیپال کے بجلی کی پیداوار سے منسلک اداروں کی تنظیم کے مطابق اس وقت نیپال میں 23  ہائیڈرو پاور پلانٹس کام کررہے ہیں۔ تاہم 36 مزید پلانٹس یا تو زیرتعمیر ہیں یا پھر ان کی تعمیر کے منصوبے تیار کیے جاچکے ہیں۔ نیپال کی سیاحتی صنعت کا حجم ایک ارب ڈالر بنتا ہے۔ وائٹ واٹر ریفٹنگ یا ربر کی کشتیوں میں دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ اوپر سے نیچے آنے  کے لیے ہر سال ایک لاکھ سے زیادہ سیاح  نیپال آتے ہیں۔

یاد رہے کہ نیپال کی معیشت یا نیپال زلزلے کی بعد سنبھلنے اور اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کی کوشش کررہا ہے ۔ پچھلے سال کے تباہ کن زلزلے نے جہاں ایک طرف ہزاروں لوگوں کی جانیں لیں وہیں سیکڑوں برسوں پر محیط نیپال کے ثقافتی ورثے کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ تباہ ہونے والی عمارتوں میں کچھ انتہائی قدیم تھیںاور سیاحوں میں بہت مقبول تھیں۔ وادی کھٹمنڈو کے سات میں سے کم ازکم چار مقامات ایسے ہیں جنہیں یونیسکو نے عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ بنایا تھا۔ اس میں تاریخی چوک ’’دربار اسکوائر‘‘ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ لیکن اس زلزلے اور پھر ہندوستان سے پیٹرولیم کے تنازعے نے نیپالیوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ ہم 2013 میں پہلی بار نیپال گئے تھے۔ اُس نیپال اور آج کے نیپال میں بہت فرق نظر آیا۔

پہلے کاروبار پر ہندوستانی مصنوعات اور ہندوستان چھایا ہوا تھا، لیکن اب نیپالی مصنوعات کا دوردورہ تھا۔ دکان دار بھی زیادہ تر نیپالی ہی تھے۔ تھامل مارکیٹ کے ایک دکان دار کا کہنا تھا کہ اب ہماری آنکھیں کھل چکی ہیں۔ انڈیا نے ہمارا بہت نقصان کیا ہے۔ ہمیں اپنے ملک کے لیے خود ہی سب کچھ کرنا ہوگا۔ یہ بھی قابل تعریف بات ہے کہ نیپال نے زلزلے کے بعد بھی بہت کم بیرونی امداد قبول کی تھی۔ وہ اپنے ہی وسائل سے دوبارہ تعمیر کا کام کررہے ہیں۔ زلزلے نے انہیں بہت کچھ سکھا دیا ہے اور بچاؤ کے طور پر اب وہ گھروں کی تعمیر میں بانسوں کا استعمال زیادہ سے زیادہ کررہے ہیں۔

پہاڑوں کے مسائل پر کام کرنے والے عالمی ادارے ICIMOD  کے مطابق تقریباً 300,000 نیپالی بے گھر ہیں اور730,000 تعمیرات کو مکمل یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔ مستقبل میں زلزلے سے محفوظ رہنے کے لیے عمارات میں بانسوں کا استعمال کیا جارہا ہے۔ اس طرح نیپال  کے 63,000 ہیکٹرز رقبے پر موجود بانس کے جنگلات کی مقامی سطح پر کھپت بڑھ جائے گی اور مقامی افراد کو روزگار بھی ملے گا۔ بیرون ممالک سے تعمیراتی اشیا کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی ہوگی اور یہ بھی ہے کہ بانس کنکریٹ سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے ، اس میں زلزلے کے جھٹکے برداشت کرنے کی لچک موجود ہوتی ہے۔

نیپال جیسے چھوٹے سے ملک کو اپنے وسائل اور محنت پر بھروسا کرتے دیکھ کر خوشی بھی ہوئی اور یہ افسوس کہ کیا ہم نیپال سے بھی گئے گزرے ہیں جو ہماری حکومت ہمہ وقت ہاتھ میں کشکول لیے آئی ایم ایف کے دروازے پر کھڑی ہوتی ہے!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔