کچی شراب کا سانحہ

جاوید قاضی  ہفتہ 26 مارچ 2016
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

غالب کو ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا۔ مگر مجھے اس وقت حال ہی میں میرے ٹنڈو محمد خان کے رہائشی لوگوں کی بات کرنی ہے جو زہریلی شراب کہیے یا کچی شراب پینے کی وجہ سے مارے گئے۔ ایسی خبریں اکا دکا ہمارے اخباروں کی زینت بنتی رہی ہیں، مگر اتنی انسانی جانوں کا نقصان ٹنڈومحمد خان کے اندر یا سندھ بھر میں اس انتظامی بدحالی کو بیان کرتا ہے یا پھر اس اقربا پروری کو جو ایکسائز وزارت و پولیس کی نگہبانی میں ہوتا ہے۔ اور یہ بھی کہ آپ مانیں نہ مانیں لوگ شراب پیتے ہیں۔ امیر ہوں یا غریب۔ مگر غریب کپی شراب پیتے ہیں اور پھر یوں بھی ہے کہ جب شراب پر پابندی ہے تو لوگ چرس، گانجا وغیرہ پر بھی زیادہ انحصار کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں ہر چیز جو ہے وہ غریبوں کے لیے نہیں۔ انصاف ہو یا اسکول ہوں، صاف پینے کا پانی ہو یا بجلی ہو، اسپتال ہوں، گلیاں، نالیاں، گٹر، سب پریشان حال، ان غریبوں کی قبا بھی عجیب ہوتی ہے جس پر گہری غربت کی وجہ سے ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں۔

غریب ہونا جیسے کوئی گالی ہو،وہ کوئی انسان ہی نہ ہو۔ ہر کوئی یہاں غریب کا ماس کھاتا ہے، یہ کوئی بل گیٹ کی طرح سافٹ ویئر بیچ کے امیر نہیں ہوئے، بلکہ غریبوں کے لیے مختص ترقیاتی فنڈ کھا کے ، سندھ کو ملے این ایف سی فنڈ کے پیسے کھا کے امیر ہوئے ہیں۔ یہ سب غریبوں کے مستقبل کی نیلامیاں ہیں، آیندہ کی نسلوں کے لیے تاریکیاں ہیں اور تجوریاں اگر کل کسی اور جگہ بھر رہی تھیں تو آج کل یہ دبئی میں بھر رہی ہیں۔

وہ تو میرے پٹیارو کے پرانے دوست اور اب آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ ہی بتائیں گے، جو دیانتداری میں اپنا ایک نام رکھتے ہیں، اور یہ بھی دل پر ہاتھ رکھ کر کہ جو پولیس افسر جس علاقے میں تعینات ہوتا ہے اس کو پہلے بھتہ پہنچانے والے ہی منشیات کا کاروبار کرنے والے ہوتے ہیں اور ایسے اور بھی بہت سارے غلط کام کرنے والے ہوتے ہیں جو ان قانون کے نگہبانوں کو بھتہ دیتے ہیں اور یہ قانون کے نگہبان پھر اپنی آنکھیں بند کرلیتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوہی نہیں رہا اور اچانک پھر ہمیں ایسی خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں جس سے سیکڑوں گھر اجڑ گئے، بچے یتیم ہوگئے۔

ایک ایسی ریاست میں، جہاں ریاست بھی نہیں کہ ان اجڑے گھروں کو سیکیورٹی دے سکے، مفت تعلیم و صحت کی سیکیورٹی، نوکری کی سیکیورٹی، بھوک میں نہ مرنے کی سیکیورٹی، آج کل کیا، ہمیشہ، مگر آج کل کچھ زیادہ۔ یہاں پر شراب کا کاروبار وزیروں کی نگرانی میں ہوتا ہے۔ اونچی شراب جو دبئی میں جس ریٹ پر ملتی ہے اس سے دگنی کراچی میں ملتی ہے اور اس کا بھی پتا نہیں کہ وہ اصلی ہے یا نقلی۔ اور اس شراب کے نقلی ہونے کا علم ایکسائز والوں کو ہوتا ہے، ان کے وزیروں کو ہوتا ہے اور مجھے یہ بھی پتا ہے کہ ایسے وزیر کو جو اس کاروبار سے ملتا ہے اس کا کچھ حصہ وہ پارٹی فنڈ کے نام پر بھجوا دیتے ہیں۔

مگر یہ سارا کاروبار ہواؤں میں ہے۔ بھٹو صاحب کو ملاؤں نے تنگ کیا آپ جمعہ کو عام تعطیلات اور شراب پر پابندی لگا بیٹھے۔ اقتدار میں آنے کے پہلے زمانوں میں یہ عالم تھا کہ کھلے جلسے میں یہ بھی کہہ دیا، جب مولوی حضرات نے ان پر الزامات لگانا شروع کردیے، کہ ’’ہاں میں شراب پیتا ہوں۔‘‘ ہم نے تو بڑے اقدار کی بات کرنے والوں کو جو آج کل ٹاک شو میں بہت نظر آتے ہیں، رند بادہ خوار دیکھا ہے۔ ہم ان کو اچھا یا برا نہیں کہتے، وہ ان کا ذاتی فعل ہے اور پھر مہذب ریاست کہتی ہے کہ شراب اس حد تک نہ پیو جہاں سے بندہ قابو سے باہر چلا جائے۔ع

جہاں پگڑی اچھلتی ہے اسے میخانہ کہتے ہیں

مگر ہم نے اس کو دبا دیا، وہ دبا نہیں بلکہ لاوا بن کے ابھر رہا ہے۔ غریبوں کو کچی شراب پینے پر مجبور کررہا ہے، اس دام پر، سب دام پر، ان کو ایک صحت مند شراب مل سکتی ہے۔ مگر پابندی کی وجہ سے وہ ایسے منشیات فروشوں، سرکاری محکمے کے اندر بیٹھی کالی بھیڑوں اور پولیس کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔

آپ جب ان کو اسکول نہیں دے سکتے، اسپتالیں نہیں دے سکتے، انصاف نہیں دے سکتے تو پھر آپ ان پر اقداری شقیں کیوں مسلط کرتے ہیں اور ٹنڈو محمد خان میں کچی شراب پینے والوں کی بہت سی امواتیں اس لیے بھی ہوتی ہوں گی کہ اسپتال میں ایسی ایمرجنسی پر قابو پانے کے لیے انتظامات نہیں ہوں گے۔ یہ سسٹم پھیلتا جارہا ہے، کیوں کہ زرداری صاحب کا پورا دور اس پوری بیورو کریسی کے نظام کو تباہ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ ہر ایک کے ذہن میں کرسی پانے کی قیمت تھی۔

میونسپلٹی افسر ہو یا تھانیدار، یا تعلیم کے افسران، ہر جگہ کرسی کی نیلامی تھی اور یہی ہے جاگیرداری، جو ترقی پا کے جدید جاگیردارانہ تقاضوں پر چھلانگ لگا کر پہنچ گئی۔ لوگ کچی شراب یا گندہ و آلودہ پانی پینے کی وجہ سے مر رہے ہیں۔ ڈائیریا، یرقان، ہیضہ یہ وہ بیماریاں ہیں جس کی بنیادی وجہ بری حکمرانی ہے اور اس بری حکمرانی کا اصل شکار غریب ہے۔ کیوں کہ امیروں و جاگیرداروں کو اچھی حکمرانی سے کوئی سروکار نہیں، ان کے بچے سرکاری اسکولوں میں نہیں جاتے، نہ سرکاری اسپتالوں میں اور نہ وہ کچی شراب پیتے ہیں۔

ہمارے گورباچوف کو بھی خیال آیا کہ روسیوں کی ووڈکا بند کردے، وہ ووڈکا بہت زیادہ پیتے ہیں۔ سوویت یونین کا پورا زمانہ وہ ووڈکا پیتے رہے، اپنی ذات میں محو، اتنی ووڈکا کہ جس کی حد نہیں، روسیوں جتنی شراب شاید ہی کوئی دنیا میں پیتا ہو۔ روس گورباچوف کے خلاف چلا اٹھا اور بالآخر گورباچوف کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

میں کیا، یہاں کسی نے شراب پینا کم نہیں کی، اسی لیے شراب مہنگی ہوگئی اور لوگوں نے چرس، بھنگ، گانجا ، ہیروئن، تریاک ، کرسٹل وغیرہ کی طرف رجوع کیا۔ کچی شراب پینا شروع کی، کیا کرتے غربت نے ان میں بیگانیت جو بھر دی تھی۔وہ تو ذلت کے مارے ہوئے لوگ سمجھے جاتے ہیں۔

اور اس طرح منشیات فروشوں کی چاندی لگ گئی۔ یہ وہ ملک ہے جہاں پہ مومن گدھے کا گوشت گائے کا گوشت بتا کے بیچتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں۔ایٹمی ملک ہے ، شہری بجلی سے دس دس گھنٹے محروم۔

اس لیے فغان درویش ہے کہ پارساؤ شراب سے پابندی ہٹا لیجیے، اس پالیسی نے الٹا ہم کو نقصان پہنچایا ہے، ذرا اب کے دیکھیے کہ کون جاتا ہے، جو اقلیت کے لیے وائن شاپ ہیں، اتنی ساری شراب ان سے کون لیتا ہے۔ یہ سارے آپ کے مسلمان بھائی ہیں جو مانگتے ہیں، آپ مانیں یا نہ مانیں۔جان ِجہاں اختیار ہے۔

شراب پینا بری بات اس کے لیے اس سے خدا حساب کرے گا، ریاست کا کام ہے شرابی حد سے نہ گزر جائے، اس حد تک جہاں وہ نقصان دہ عمل کرے، سگریٹ پینا ہو یا شراب پینا، دونوں بری باتیں، مگر آپ اس کو دبائیے نہیں، کیونکہ دبانے سے نیوٹن کا قانون حرکت میں آتا ہے، بس اس کو regulate کیجیے۔ اس طرح کرنے سے منشیات فروشی کم ہوگی، پولیس و ایکسائز کا بھتہ کم ہوگا اور شراب سے ملنے والے پیسے پارٹی فنڈ کے بہانے دبئی کو نہیں جائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔