جب خسارے قہقہے لگائیں گے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 26 مارچ 2016

البرٹ آئن اسٹائن نے کہا ہے کہ ’’ہم درپیش اہم مسائل کا حل سوچ کی اسی سطح پر رہ کر نہیں کرسکتے جس پر ہم اس وقت تھے جب ہم نے اپنے ان مسائل کو پیدا کیا تھا‘‘۔ جیسے جیسے ہم اپنے اردگرد اور اپنے اندر جھانک کر مسائل کا تجزیہ کرتے ہیں، ویسے ویسے ہمیں اندازہ ہونے لگتا ہے کہ یہ انتہائی گہرے اور بنیادی مسائل ہیں اور انھیں اس معیار پر رہتے ہوئے حل نہیں کیا جاسکتا، جس درجے پر رہتے ہوئے انھیں پیدا کیا گیا تھا، بلکہ ان مسائل کے حل کے لیے سوچ کی ایک نئی اور گہری سطح درکار ہوگی۔

دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ہم مسائل کی دلدل سے جتنا باہر نکلنے کی کوشش کرتے ہیں، اتنا ہی اس میں اور دھنستے جارہے ہیں، کیونکہ بظاہر جو مسائل کے خاتمے کی باتیں کررہے ہیں، ان کی نیت مسائل کے خاتمے کی نہیں بلکہ صرف اور صرف اپنے آپ کو فائدہ پہنچانے کی ہے۔ آئیں ہم اپنے مشکل کشاؤں کے کرداروں کاجائزہ لیتے ہیں۔

دو صدیاں قبل دنیا بھر میں کردار کی اخلاقیات (Character Ethic) کا شور تھا، دنیا بھر کے ادیب، شاعر، نفسیات دان، فلسفی اس بات پر متفق نظر آتے تھے کہ سماجی مسائل، سیاسی مسائل، معاشی مسائل کا حل اخلاقی اقدار میں چھپا ہوا ہے اور اسے ہی کامیابی کی بنیاد مانتے تھے۔ وہ کردار کی اخلاقیات سے مراد راست بازی، عاجزی، فرض شناسی، اعتدال، جرأت، انصاف، جفاکشی، سادگی اور کسر نفسی لیتے تھے۔

وہ کہتے تھے کہ اخلاقی اقدار کی تعلیم یہ ہے کہ پراثر زندگی گزارنے کے لیے کچھ اصول ہیں اور لوگ حقیقی کامیابی اور جاوداں مسرت تب ہی حاصل کرسکتے ہیں جب وہ ان اصولوں کو اپنے بنیادی کردار میں ڈھالنا سیکھ لیں۔ لیکن پہلی جنگ عظیم کے فوراً بعد کامیابی کے بنیادی تصور کا رخ اخلاقی اقدار سے شخصی اخلاقیات (Personality Ethic) کی طرف مڑگیا اور کامیابی کا تصور شخصیت، شہرت، رویے، طرزعمل اور فن و ہنر کے ساتھ نتھی ہوگیا اور یہ ہی چیزیں کامیابی کا موجب سمجھی جانے لگیں۔

شخصی اخلاقیات نے بنیادی طور پر دو رائے اختیار کیں، ایک تعلقات عامہ کو بہتر بنانے کی تکنیک اور دوسری مثبت ذہنی رویہ۔ جیسے کہ تمہارا رویہ ہی تمہاری بلند پروازی کا تعین کرتا ہے اور انسان کا کچھ حاصل کرنا اس کی سوچ اوراس کے یقین پر منحصر ہے۔ شخصی اخلاقیات کے طرز فکر کے دوسرے پہلو واضح طورپر چالاکی اور دھوکا دہی پر مبنی تھے۔

یہ لوگوں کو ایسی تکنیک استعمال کرنے پر ابھارتے تھے جن کے ذریعے لوگ دوسروں کے منظور نظر بن سکیں یا دوسروں کے مشاغل میں نقلی دلچسپی لیں تاکہ ان سے اپنا مقصد حاصل کرسکیں یا دوسروں کو ڈرا دھمکا کر زندگی میں اپنا فائدہ حاصل کرسکیں۔ اگر آپ کردار اور شخصی اخلاقیات کے مابین فرق کو گہرائی کے ساتھ سوچنا اور سمجھنا شروع کریں تو آپ کو احساس ہوجائے گا کہ ان میں اصل فرق یہ ہے کہ ایک میں آپ اچھا بننے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے میں آپ اچھا نظر آنے کی کوشش کررہے ہوتے ہیں۔

پہلے میں آپ اپنی ذات سے دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی کو شش کررہے ہوتے ہیں اور دوسرے میں آپ اچھا نظر آنے کو اپنے معاشرتی فائدوں کے لیے استعمال کررہے ہوتے ہیں۔ آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ ہمارے مشکل کشا اچھا بننے کی کوشش کررہے ہیں یا اچھا نظر آنے کی ایکٹنگ میں مصروف ہیں؟ کیا ہمارے یہ سارے کردار اچھائی سے خالی نہیں ہیں۔

یاد رکھو کردار خود بولتے ہیں، ہمارے کردار جو کچھ ہیں اس ہونے کا شور ہمارے کانوں میں اس قدر زیادہ ہے کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ ہمیں سنائی نہیں دیتا۔ ہمارے تمام کے تمام مسائل نے اچھا نظر آنے کی کوکھ سے ہی جنم لیا ہے اور ہمارے مشکل کشاؤں نے انھیں جوان اور توانا کیا ہے۔ انھیں بچوں کی طرح پالاپوسا ہے۔

یاد رکھو تم سب ایک جھوٹی اور مصنوعی زندگی گزار رہے ہو، تم کسی اور کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہے ہو، جلد یا بدیر تمہیں اس بات کا احساس ہوہی جانا ہے، تم وقتی فائدہ تو حاصل کرہی لو گے، لیکن بہت جلد جب خسارے اور نقصان تمہارے چاروں طرف کھڑے قہقہے لگارہے ہوں گے، تو تم اپنے کیے پر رو رہے ہوگے۔ یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کرلو کہ جو قدرت کے قانون ہیں، ان کو توڑا نہیں جاسکتا ہے، جس طرح سیل بی ڈی مائیل اپنی شہرہ آفاق فلم Ten Commandments میں کسی کردار کی زبانی کہتا ہے کہ ہمارے لیے ناممکن ہے کہ ہم قانون کو توڑ سکیں، ہم قانون کے سامنے صرف اپنے آپ کو توڑ سکتے ہیں۔

داغستان کی ایک مشہور حکایت جسے رسول حمزہ توف نے اپنی معروف کتاب میں نقل کیا ہے ’’ایک دن کسی ناکام شاعر نے بحیرہ کیسپین سے ایک سنہری مچھلی پکڑی۔ شاعر، شاعر مجھے سمندر میں واپس ڈال دو۔ سنہری مچھلی نے التجا کی۔ تم اس کا صلہ کیا دوگی؟ شاعر نے پوچھا۔ تمہاری ساری دلی خواہشیں پوری کردوں گی۔

مچھلی نے جواب دیا۔ شاعر بہت خوش ہوا، اس نے سنہری مچھلی کو سمندر میں چھوڑ دیا، پھر یکے بعد دیگرے نت نئی کامیابیاں اس کے قدم چومنے لگیں، اس کے مجموعے دھڑادھڑ بازار میں آنے لگے، اسے شہر میں مکان اور دیہی علاقہ میں ایک بنگلہ مل گیا، اپنے شعری کارناموں کی وجہ سے شاعر کے سینے پر اعزازات اور تمغے ابھر آئے، شہرت حاصل ہوئی اور اس قدر کہ ہر شخص اس کے گیت گانے لگا، اس نے اعلیٰ عہدے حاصل کیے اور اب دنیا اس کے لیے یوں تھی گویا گرما گرم کباب سے بھری طشتری سامنے رکھی ہو، اچھی طرح پکے ہوئے کباب، پیاز کٹے ہوئے، لیموں کا رس نچوڑا ہوا، بس ہاتھ بڑھاؤ اور اس کے مزے لو۔ بہت دنوں بعد جب وہ شخص سوویت اکادمی اور پارلیمنٹ کا ممبر بن چکا تھا حکومت کی جانب سے اسے خطاب مل چکا تھا۔

ایک دن اس کی بیوی نے معصومیت کے ساتھ اس سے سوال کیا تمہیں اتنا موقع ملا تھا تو سنہری مچھلی سے تھوڑی سی صلاحیت کیوں نہ مانگ لی۔ اچانک شاعر کو احساس ہوا کہ اس کی زندگی میں کوئی کمی رہ گئی، وہ بھاگتا ہوا سمندر کے کنارے پہنچا اور کہنے لگا سنہری مچھلی مجھے تھوڑی سے صلاحیت دے دو۔ مچھلی نے سن کر جواب دیا، میں نے اب تک تمہاری ساری فرمائشیں پوری کی ہیں۔

آیندہ بھی جو مانگو گے دوں گی، لیکن صلاحیت ایسی چیز ہے جو میں نہیں دے سکتی، بات یہ ہے کہ یہ میرے پاس بھی نہیں‘‘۔ اس نے اس حکایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا کہ سنہری مچھلی نے ہمارے شاعر پر احسان کیا لیکن تھوڑے عرصے میں اسے یوں محسوس ہونے لگا جیسے وہ ہے تو پہاڑی کوا لیکن پر مور کے لگائے ہیں۔

دیکھتے ہی دیکھتے اس کے مانگے پروں کا خوش نما رنگ اڑنے لگا، اس کے اپنے پر بھی زمانے کے ساتھ جھڑنے لگے اور وہ روز بروز بدصورت ہوتا گیا۔ میرے مشکل کشاؤں اپنے آپ کو غور سے دیکھو، اچھا نظر آنے کی کوشش میں تم بھی روز بروز بدصورت ہوتے جارہے ہو، اب جتنی بھی اور کوشش کرو گے بدصورتی اور بڑھتی جائے گی۔ یاد رکھو خوبصورتی اچھا بننے میں چھپی ہوئی ہے، نہ کہ نظر آنے میں۔ یہ بات تم جتنی جلدی سمجھ لو گے تمہارے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔