افغانستان مستقبل میں پاکستان پر حملہ کریگا. الطاف حسین

ایکسپریس اردو  جمعـء 20 جولائی 2012
امریکی بیڑے بحیرہ عرب پہنچ چکے، سلامتی پر خطرات منڈلا رہے ہیں، سیاستدان اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ فوٹو/ایکسپریس

امریکی بیڑے بحیرہ عرب پہنچ چکے، سلامتی پر خطرات منڈلا رہے ہیں، سیاستدان اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔ فوٹو/ایکسپریس

لندن: متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے کہاہے کہ پاکستان کی سلامتی وبقاء پر خطرات منڈلارہے ہیں، پاکستان کا وجود، اس کی سالمیت اور خودمختاری داؤ پر لگی ہوئی ہے لیکن بدقسمتی سے اس نازک وقت میں بھی ہمارے سیاستداں، پاکستان کی بقاء کی فکر کرنے کے بجائے اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف ہیں۔

ان خیالات کا اظہار انھوں نے ایم کیوایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ میںانتہائی فکرانگیز لیکچر دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ارکان، منتخب نمائندے اور انٹرنیشنل سیکریٹریٹ کے ارکان بھی موجود تھے ۔ اپنے لیکچر میں الطاف حسین نے پاکستان کی جیوپولیٹیکل صورتحال سے پاکستان کی سلامتی وبقاء پر پڑنے والے اثرات ،سرحدوں پر منڈلاتے خطرات، ہمسایہ ممالک سے پاکستان کے تعلقات اور ملک وقوم کو درپیش اندرونی وبیرونی چیلنجز پر اپنے تفصیلی خیالات کا اظہار کیا۔

انھوں نے اس حوالے سے شرکاء کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔ اپنے لیکچر میں الطاف حسین نے کہاکہ امریکا اور روس کے درمیان سرد جنگ کے زمانے میں پاکستان کی ساؤتھ ایشیا ریجن میں بڑی اہمیت تھی کیونکہ ساؤتھ ایشیا ریجن میں چائنا ا ور بھارت کو ایک بڑی قوت تصورکیا جاتا تھا جن کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب تھا، اسی طرح افغانستان کی ہمدردیاں بھی روس کے ساتھ تھیں اورجھکاؤ انڈیا کی جانب تھاجبکہ اس وقت ایران پر شاہ ایران کی حکومت تھی جن کا جھکاؤ امریکا کی جانب تھا۔

اس وقت پاکستان کے پالیسی ساز اداروں نے امریکا کا ساتھ دیا اورپاکستان خطے میں امریکا کا بڑا اتحادی ملک بن کر سامنے آیا۔ روس اور امریکا کی سرد جنگ میں ہمارے پالیسی ساز ادارے، دوررس نتائج کے حامل فیصلے کرنے کے بجائے امریکا کی خوشنودی اور ڈالرز کے عوض روس کو شکست دینے کیلیے اس طرح سرگرم ہوگئے جیسا کہ یہ جنگ پاکستان اور روس کے مابین ہو، انھوںنے عسکری تنظیمیں بنائیں، انھیں سپورٹ کیااور تربیت دی۔ ہمارے سابقہ حکمرانوں ، سینئر بیوروکریٹس ، فوج اور پالیسی ساز اداروں نے اس وقت جو غلط اور ہولناک فیصلے کیے اس کے اثرات آج تک پاکستان پر پڑ رہے ہیں۔

انھوں نے اس وقت جو عسکری تنظیمیں بنائیں آج وہی تنظیمیں فرنکسٹائن مونسٹر بن کر ہمارے ہی فوجی افسروں، جوانوں اور عوام کو کھارہے ہیں۔ انھوں نے کہاکہ حال ہی میں امریکی کانگریس اور سینیٹ نے ایک عسکری تنظیم کو دہشت گرد تنظیم قراردیکر اس کے خلاف پاکستان سے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے، اگر خدانخواستہ اس تنظیم کا کوئی رہنما پاکستان سے باہر کسی قسم کی منفی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا یا غیرملکی قوتوں کو اسامہ بن لادن کی طرح پاکستان سے برآمد ہوا تو اس کی بنیاد پرامریکا کی جانب سے پاکستان کو دہشت گرد ملک قراردیا جاسکتا ہے اوراگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کے مستقبل کیلیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔

الطاف حسین نے کہاکہ بدقسمتی سے پاکستان کے سیاستدانوں، دانشوروں، اینکرپرسن اور کالم نگاروں کی جانب سے عوام کو ان حقائق سے آگاہ نہیں کیاجارہا ہے کہ پاکستان کس نازک دور سے گزررہا ہے۔ جو سیاستداں صدر، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بننے کی خواہش رکھتے ہیں وہ نہ تو ملک کی بقاء وسلامتی اور بہتری کیلیے سوچ سکتے ہیں اورنہ ہی اتنی جراتمندانہ باتیں کرسکتے ہیں۔الطاف حسین نے کہاکہ کل کے تمام عالمی رسائل وجرائد میں یہ خبر ہے کہ پاکستان کی سمندری حدود کے قریب بحیرہ عرب میں متعدد امریکی بحری بیڑے پہنچ چکے ہیںجن پر جدید میزائل اور توپوں سے لیس جنگی جہاز موجود ہیں ۔

میں اس سے قبل بھی اپنے خطابات میں اشارہ دے چکا ہوں کہ بلوچستان کے ساحل پر امریکی بحریہ کے بیڑے پہنچ چکے ہیں مگرکسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ انھوں نے عالمی رسائل وجرائد میں آنے والے دفاعی تجزیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ مستقبل میں خطے میںجنگ کا آغاز افغانستان سے ہوگا اور افغانستان، پاکستان پر حملہ کرے گا جہاں نیٹو افواج پہلے ہی موجود ہیں۔

اس نازک صورتحال سے نمٹنے اور پاکستان کو بچانے کیلیے ضروری ہے کہ ملک وقوم کو اندرونی طورپر مضبوط ومستحکم کیا جائے ، حکومت، عدلیہ، عسکری اداروں اوراپوزیشن کے مابین محاذ آرائی کا خاتمہ کیا جائے ، پاکستان کی سلامتی وبقاء کو یقینی بنانے کیلئے گول میز کانفرنس طلب کی جائے اور اس کانفرنس میں عسکری قیادت ، سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنماؤں اور دانشوروں کو مدعو کیا جائے اورموجودہ حالات کے تناظر میں اس کانفرنس میں ٹھوس فیصلے کیے جائیں ۔

انھوں نے کہاکہ پاکستان کو بیرونی جارحیت کے ساتھ ساتھ اندرونی خطرات کا بھی سامنا ہے ، ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہیں ، نوٹ چھاپ کر ملک چلایا جارہا ہے ، امن وامان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے ، ملک میں بجلی وگیس کی لوڈشیڈنگ سے عوام کی زندگی اجیرن بن چکی ہے ، ملک میں بے روزگاری اورفاقہ کشی ہے،

ان حالات میں سیاستدانوں کا ایک دوسری کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل قطعی غیرمناسب ہے ۔جناب الطاف حسین نے کہاکہ موجودہ حالات ایک ایک پاکستانی کو دعوت فکر دے رہے ہیں کہ وہ ذاتیات اور پارٹی مفادات سے بالاتر ہوکر پاکستان کی سلامتی وبقاء اور بہتری کیلیے سوچیں ۔شرکاء کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے جناب الطاف حسین نے کہاکہ موجودہ نازک ترین حالات میں پاکستان کو بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے چاہئیں اوربھارت کو بھی چاہئے کہ وہ خطے میں قیام امن اورخطے کے تمام ممالک کے درمیان دوستی کی راہ ہموار کرنے میں مثبت کردار ادا کرے ۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے بلوچ عوام کوان کے حقوق دینا ہونگے اوراگران کی بعض کڑی شرائط ماننے سے پاکستان کی سلامتی یقینی بنائی جاسکے تو ان شرائط کو مان لینا چاہئے کیونکہ قومی سلامتی کویقینی بنانے کیلئے بسااوقات کڑوے گھونٹ بھی پئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فرقہ واریت ،ہمارے اتحاد کو مزید کمزورکرنے اورانتشارکا سبب بن رہا ہے ، فرقہ واریت کی ٹکڑیوں میں بٹی ہوئی قوم کسی بھی دشمن کا مقابلہ نہیں کرسکتی لہٰذا پاکستانی قوم کو فرقہ واریت کے بجائے مثالی اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔

جناب الطاف حسین نے ایم کیوایم کے تمام رہنماؤں ، منتخب نمائندوں اور مختلف شعبوں کے عہدیداروں کو تلقین کی کہ وہ ملک اور بیرون ملک جہاں جہاں جائیں ،پاکستانی عوام میں شعوری بیداری پھیلائیں اور انہیں آگاہ کریں کہ وطن عزیز کن نازک دور سے گزررہا ہے ۔انھوںنے کہاکہ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو درپیش اندرونی وبیرونی بحرانوں سے نکالے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔