نیب کے پر کاٹنے سے بہتر ہے اسے ختم ہی کر دیا جائے  (4)

رحمت علی رازی  اتوار 27 مارچ 2016

اس وطنِ کشادہ گنج میں جن کے ہاتھ میں زمامِ اقتدار آئی انھوں نے پشتوں کی بھوک مٹانے  کے لیے قومی خزانے کو خرابے کا دفینہ سمجھ کر لوٹا اور قارون کی صف میں جا کھڑے ہوئے۔ اس لٹی پٹی قوم نے ان اقتدار نشینوں سے جب حساب مانگا تو کہنے لگے کہ حساب تو فقط یومِ حساب ہی کو ہو گا‘ قبل ازیں احتساب و محاسبہ کی باتیں خرقہ پوش عوام کو زیب نہیں دیتیں‘ اور یہ جو نیب کا ادارہ ہے یہ تو سیاسی مخالفین کے عوارض کی شدت کم کرنے کے لیے وضع کیا گیا تھا‘ نہ کہ حکمران جتھے کی کانٹ چھانٹ کے لیے۔

یہ بات حق ہے کہ نیب سترہ برس سے لاوارث ہونے کی وجہ سے پاکستانی عوام کی لوٹی ہوئی دولت مخنث مافیہ سے واپس وصول نہیں کر پایا۔ کچھ غیر سنجیدہ حلقے یہ چہ مگوئیاں بھی کرتے رہے ہیں کہ نیب کے افسران لٹیروں سے ساز باز کر لیتے ہیںمگر ہم نے جب اس کی تحقیق کی تو نتیجہ بالکل اس کے برعکس نکلا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پلی بارگین کی آڑ میں نیب کے سر ’’مک مکا‘‘ کرنے کا الزام سراسر بے بنیاد ہے۔ انھیں علم ہونا چاہیے کہ نیب آرڈیننس کی شق 25(b) کے تحت پلی بارگین صرف اور صرف100 فیصد حاصل شدہ مالی فوائد واپس جمع کروانے سے ہی ہو سکتی ہے اور وہ بھی تب ممکن ہے کہ احتساب عدالت کا سینئر سیشن جج مکمل جانچ پڑتال اور ریکارڈ ملاحظہ کرنے کے بعد اس بات کی توثیق کر دے کہ حاصل شدہ فوائد کا سارا حصہ ہی نیب وصول کر رہی ہے۔

حال ہی میں سید معصوم شاہ سابقہ مشیر وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کی پلی بارگین کی خطیر رقم کو جج احتساب عدالت پشاور نے رَد کر دیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیب کا عملہ اگر کہیں ملزم سے ذاتی مفاد کی غرض سے ملی بھگت کر بھی لے اور پلی بارگین میں ہڑپ کی ہوئی رقم کا عشرِ عشیر واپس کرنے پر رضامندی بھی ظاہرکرے تو احتساب عدالت ایسے مشکوک اقرارنامے کو ہر حال میں مسترد کر دیتی ہے اور ملزم کو تسلیم شدہ کرپشن کے قریب قریب رقم جمع کروانے کا حکم صادر کرتی ہے۔ یہاں یہ وضاحت کر دیں کہ پلی ’موقف‘ کو کہتے ہیں جب کہ بارگین کا مطلب ہے ’بدل‘ کرنا۔ پلی بارگین میں ملزم اس بدل کے ذریعے اپنی قید کو ’تمام فوائد کی واپسی‘ کے تحت ختم کروا لیتا ہے۔

پلی بارگین میں متاثرہ عوام کا یہ فائدہ ہو جاتا ہے کہ ان کو اپنی رقوم واپس مل جاتی ہیں۔ اگر پلی بارگین کا قانون نہ ہو تو ملزم کو رہائی اور آزادی کا کوئی راستہ نظر نہیں آئیگا اور وہ نیب کو کبھی نہیں بتائے گا کہ اس نے… زنیدہ …رقم کس ملک میں اور کہاں چھپا رکھی ہے۔ یہ تو طے ہے کہ معزز نما عادی مجرموں سے بغیر تشدد کے نیب کچھ بھی اُگلوا نہیں سکتی اور تشدد قانون میں جائز نہیں ہے‘ اسلیے زیادہ تر مجرم بڑے آرام سے 14 سال کی قید قبول کر لینگے جو دن رات  شامل کر کے 7 سال رہ جائے گی اور عید، شب برات، حفظِ قرآن اور اچھے کردار کی دعائیں لے لے کر 4 سال بعد جیل سے باہر آئینگے اور تازہ دَم ہو کر دوبارہ اپنے پسندیدہ دھندے میں جُٹ جائینگے‘ اپنے پہلے سے چھپائے ہوئے کروڑوں، اربوں روپوں پر دادِ عیش بھی سمیٹیں گے‘ لہٰذا بصد احترام گزارش ہے کہ سیاستدانوں کو پلی بارگین کیخلاف ناطقہ اب بند کر دینا چاہیے۔

نیب کی ایک اور بے سروپا کردار کشی یہ بھی کی جا رہی ہے کہ پلی بارگین کے تحت واپس ہونے والی رقوم میں سے ایک حصہ نیب کے افسران کو انعام کے طور پر دیا جاتا ہے۔ یہ بات کلی طور پر درست اسلیے نہیں ہے کہ نیب کے زیادہ تر افسران کی مالی حالت اچھی نہیں ہے حالانکہ انھوں نے اربوں روپے کی ریکوریاں بھی کروائی ہیں۔ نیب پلی بارگین کی رقوم پر جو پندرہ فیصد اضافی وصول کرتی ہے وہ براہِ راست فنانس ڈویژن کے اکاؤنٹ میں جاتا ہے‘ نہ کہ نیب کے خود کے پاس رہتا ہے۔ بعینہٖ قومی احتساب بیورو جو رقم ’نیب شیئر‘ کے نام پر اپنے پاس رکھتا ہے، اس سے نیب کے فنکشنز اور تدارک و آگہی کے کام فنانس کیے جاتے ہیں اور ادارے میںرکھے گئے ماہرین کے مشاہرہ کی ادائیگی کی جاتی ہے‘ یہ شیئر نیب کے افسران میں انعام کے طور پر قطعی طور پر تقسیم نہیں کیا جاتا۔

یہ ماجرا فی الحقیقت کچھ یوں ہے کہ تمام محکمہ جات بشمول ڈائریکٹر جنرل، اکاؤنٹینٹ جنرل ایف بی آر اور صوبائی محکمہ جات اپنے ملازمین کو ’اعزازیہ‘ کے نام پر سالانہ چند بنیادی تنخواہیں عطا کرتے ہیں جن کو پاکستان کی وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں باقاعدہ ایک ’ہیڈ‘ کے تحت مختص کیا جاتا ہے۔ نیب بھی اپنے افسران کو اس نوع کا ایک سالانہ اعزازیہ ہی دیتا ہے‘ علاوہ ازیں کچھ نہیں۔ ہر سال کی طرح امسال بھی نیب نے اپنے افسران میں سے ٹاپ افسران کا اعلان کیاجنہیں صدارتی دفتر میں صدرِ پاکستان کے بدست اعزازی سرٹیفکیٹ دیے گئے۔ ہمیں بھی بطورِ مہمان مدعو کیا گیا تھا‘ ہم بھی یہ دیکھ سُن کر بڑے ہی حیران ہوئے کہ نیب نے اپنے چند بہترین گردانے ہوئے افسران کو بھی ایک ٹکا انعام میں نہیں دیا۔

یہ ساری صورتحال نظر میں رکھتے ہوئے سیاستدانوں کو یہی مخلصانہ مشورہ دیا جا سکتا ہے کہ وہ نیب افسران کیخلاف اپنی دروغ گوئی اور التزام پسندی کا سلسلہ بند ہی کر دیں تو ان کے لیے مناسب ہو گا۔ اس معاملہ فہمی کے ساتھ ساتھ اس غلط فہمی کو بھی کافور کیا جائے کہ نیب افسران اکثر غلط کیس بنا دیتے ہیں اور عدالتیں ملزمان کو بَری کر دیتی ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس مفروضے میں بھی کوئی صداقت نہیں ہے۔ بالفرضِ محال اگر کبھی ایسا ہو بھی جائے تو چیئرمین نیب متعلقہ افسران کی انکوائری لگا کر محکمہ جاتی کارروائی کرتے ہیںجسکے بعد اگر کہیں ثابت ہو جائے کہ نیب ملازمین کسی غیر قانونی عمل میں ملوث ہیں تو انہیں نہ صرف ملازمت سے جبری سبکدوش کیا جاتا ہے بلکہ واجب التادیب کارروائی سے بھی گزارا جاتا ہے۔

ناقد حلقوں کی جانب سے اب یہ جھوٹ بھی ترک کر دیا جانا چاہیے کہ نیب ایک نا کام ادارہ ہے اور یہ 17 سالوں سے سیاستدانوں کیخلاف کھلے ہوئے کرپشن کیسز کی تفتیش تک مکمل نہیں کر سکا جس کی بنا پر انہیں سزا دلوا سکے۔ سالہا سال کے بعد بھی احتساب بیورو تفتیشی عمل مکمل کرنے میں کیوں ناکام ہے اور بااثر اور طاقتور ملزمان نامزد ہونے کے باوصف بھی قانون کے شکنجے سے کیونکر بچ نکلتے ہیں، اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ قا نون بنا نے والوں نے یہ فرض کر کے چیئر مین نیب کے لیے ا ما نتاً یہ اختیارات مختص کیے تھے اور ذہن نشین کر لیا تھا کہ چیئرمین نیب ایک خدا ترس اور غیرجانبدار شخص ہو گا۔

وہ یہ فراموش کر بیٹھے کہ چیئرمین در اصل ایک ایسا عام العموم انسا ن ہو گا جو خوفِ خدا سے زیادہ اپنے مقرر کنندہ کا تا بع فرمان رہیگا اور اس کے اشاروں پر صرف چلے گا ہی نہیں نا چے گا بھی۔ اس کا آقا جب حکم کریگا کہ فلاں سیاستدان کا کوئی نہ کوئی کیس تیار کرو، تفتیشی افسران کا علم و ہنربرو ئے کار لا کر اس کیخلاف دستا ویزی شواہد اکٹھے کرو اور اسے وہ شواہد د کھاکر بلیک میل کرو اور پھر سعودی حکومت کے ذریعے اسے جدہ بھیج کر کیسز تاخیرکا شکارکر نے کی ڈیل کر واؤ‘ بہ ایں ہمہ اس کے حواریوں پر کرپشن کے مقدمات بناؤ اور ان کو بھی ثبوت دکھا دکھا کر ق لیگ میں شامل ہونے پر مجبور کرو‘ جب ایسا ہو جائے تو ان کے کیسز کو التوا میں ڈال دو۔

اس ضمن میں ایک مثال انور علی چیمہ کی دی جا سکتی ہے جو سر گر دھا سے با رہا ایم این اے منتخب ہوئے‘ انھوں نے ضد کی کہ سرگودہا کی ضلع نا ظمی پر میرٹ کے حساب سے ان کا حق بنتا ہے‘ نہ کہ احسان پراچہ کا، جو مفادات کی تکمیل کے لیے پرویز مشرف کے دست ِ راست بن گئے تھے۔ اس پر انور علی چیمہ کو نیب کے دفتر بلوا کر ان کی کر پشن کی فائل دکھا ئی گئی کہ آپ نے قصرِ سلطان نامی محل سرگودھا شہر میںکیسے بنایا اور بیوریج فیکٹری کیسے قائم کی وغیرہ وغیرہ۔ یہ فائل دکھا کر ان سے ضلع ناظمی سے دستبردار ہونے کا کہا گیا، اس پر ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ عزت کی خاطر چپ سادھنے پر مجبور ہو گئے۔

یہ تو نیب کے تفتیشی افسر کا کمالِ فن تھا کہ اس نے دستاویزی شواہد اکٹھے کر لیے لیکن چیئرمین نے اپنے محسن و آقا کے اشاروں پر وہ شواہد فروخت کر کے اور التواء کے احکامات جاری کر کے تفتیشی افسر کی ساری محنت اَکارت کر دی‘ چنانچہ اس بات میں کماحقہ‘ کوئی حقیقت نہیں کہ یہ نیب یا اس کے تفتیشی افسران کا قصور ہے بلکہ یہ دوش تو مطلقاً اُس چیئرمین کا ہے جو قوم کا مقرر کردہ امانت کنندہ ہے مگر وہ اپنے تئیں اللہ کے احکامات کا غلام نہیں بلکہ اپنے مجازی آقا کا غلام بنا بیٹھا ہے۔

نیب کے بیشمار مقدمات ایسے بھی ہیں جن میں چیئرمین کی ملی بھگت یا صوابدید کے بغیر بھی مدعی اور مدعاعلیہ آپس میں خفیہ ڈیل کر لیتے ہیں جس سے نیب لاکھ کوششوں کے باوجود کچھ ثابت کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ جس طرح میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے زیادہ تر کیسز کے شکایت کنندہ اے رحمان ملک ہیں جنھوں نے کافی محنت کے بعد شواہد اکٹھے کیے اور نیب میں ان کیخلاف شکایت کنندہ بھی بنے تاہم بعدازاں سیاسی مصلحتوں کے تحت دونوں فریقین میں ڈیل ہو گئی۔ جب وقار حیدر ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور تعینات تھے اور اے رحمان ملک وزیرداخلہ تھے تو انھوں نے شریفوں کے عمر رسیدہ ذاتی اکاؤنٹینٹ کو اٹھوا لیا تھا اور ان سے کافی گہرے راز اُگلوانے کی کوشش کی تھی۔

ماضی میں نیب کے اعلیٰ افسران کی طرف سے بااثر ملزمان کی اعانت و پردہ پوشی بھی عام سی بات رہی ہے۔ ایک بہت ہی قابلِ ذکر اور معروف واقعہ تو ہر پاکستانی کی یادداشتوں میں محفوظ ہے کہ یوکے میں متعین پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن اور اس وقت کے نیب کے پراسیکیوٹر جنرل ڈاکٹر دانشور ملک صدر آصف علی زرداری کے خلاف دستاویزی شواہد سے بھرے 21 کارٹن ایک گاڑی میں لوڈ کرواتے ہوئے پائے گئے تھے اور یہ سارا منظر کسی خفیہ کیمرے کی آنکھ نے فلم بند کر لیا تھا جو بعد ازاں پاکستانی الیکٹرانک میڈیا پر بھی چل گیا اور کئی دنوں بلکہ ہفتوں تک اس موضوع پر تبصرے زبان زدِ عام رہے‘ وہ شواہد آج تک دوبارہ منظرعام پر نہیں آئے‘ نہ ہی نواز حکومت نے ان کی کوئی انکوائری کروائی ہے۔

ابھی حال ہی میں ’جمہوریت کی خاطر‘ اور ’سیاسی مفاہمت‘ بلکہ سیاسی منافقت کے تحت احتساب عدالت راولپنڈی نے آصف زرداری کے خلاف زیرسماعت ریفرنس میں اوریجنل ریکارڈ کی عدم دستیابی کو جواز بنا کر بریت کا فیصلہ تو جاری کر دیا لیکن نہ ہی احتساب عدالت نے یہ حکم جاری کیا کہ اوریجنل ریکارڈ ڈھونڈ کر پیش کیا جائے اور نہ ملنے کی صورت میں ریکارڈ ضایع یا چوری کرنیوالے کے خلاف پرچہ درج کیا جائے یا پھر پی پی سی یا نیب آرڈیننس کے تحت تفتیش میں رکاوٹ ڈالنے کے الزام میں کارروائی عمل میں لائی جائے اور ریفرنس حاصل کیا جائے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس بابت نہ ہی چیئرمین نیب نے کوئی کارروائی کی اور نہ ہی حکومت کی طرف سے کسی کارروائی کے احکامات صادر کیے گئے۔

یہ بات اب اظہر من الشمس ہو چکی ہے کہ حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے مابین مفاہمت و مک مکا جاری ہے لیکن قصوروار نیب کو ٹھہرایا جا رہا ہے کہ نیب نااہل ہے‘ شاید اسی لیے نیب کو کوتاہ پرواز قرار دیکر اس کے پرکاٹنے کی بات بھی کی گئی ہے۔ یہاں حاکم کوئی بھی ہو اندازِ حاکمیت سب کا ایک جیسا ہے‘ زرداری دور ِحکومت میں اُنکی بریت کے جو دو فیصلے احتساب عدالت کے دو مختلف ججز کی طرف سے جاری ہوئے تھے، وہ احتساب عدالت کے باہر کسی نے لکھ کر اُن بیچارے ججز سے دستخط کروا لیے تھے۔ بات پکڑی اس طرح سے گئی کہ اہلِ نظر نے دیکھا کہ دونوں مختلف کیسز کے فیصلوں میں الفاظ بالکل ایک جیسے تھے۔

اس معاملے کی بھِنک میڈیا کو بھی پڑ گئی تھی اور ہائیکورٹ نے انکوائری بھی لگا دی تھی تاہم یہ معاملہ دبا دیا گیا۔ یہ عقدہ وا ہونے میں اب کونسی کسر چھوٹ گئی ہے کہ جمہوریت ہی سب سے بڑا انتقام ہے‘ اور یہ انتقام ہمارے عوامی نمائندے مل جل کر ہم عوام ہی سے لے رہے ہیں۔ عدالتیں ہمہ وقت یہی نکتۂ اعتراض اٹھاتی ہیں کہ ثبوت ناکافی ہونے کے سبب وہ اس وضع و مقام میں نہیں ہیں کہ مقدمات کا قابلِ رسا فیصلہ کر سکیں۔ سرے محل اور ہیروں والے ہار کی ملکیت سے آصف زرداری کا تحریری انکار اور بعدازاں ان کا مالک ہونے کا سندی اقرار‘ اس کے ہمدوش ان سے حاصل ہونیوالے پانچ چھ ارب روپے کا فائدہ کنندہ ہونے کا ان کے خلاف دستاویزی ثبوت، کیا ان کے بداطوار ہونے کا ثبوت نہیں ہے؟

یوسف رضا گیلانی نے وزارتِ عظمیٰ کے عہدہ پر ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کے احکامات کی صریحاً خلاف ورزی کی اور سوئس حکام کو کارروائی دوبارہ کھولنے سے متعلق خط نہ لکھ کر یہ ثابت کر دیا کہ اپنے مخدوم کی بے جا نمک حلالی ہی ان کا شیوئہ منصبی تھا۔ ان سب مضحک رویوں پر قانون اس لیے خاموش رہا کہ قانون کو تو تمام ثبوت ویڈیو بند چاہئیں‘ ورنہ جمہوریت مجروح ہونے کا اندیشہ ہے۔ سیاست کے ناخدائوں نے جمہوریت کو بلٹ پروف جیکٹ میں تبدیل کر لیا ہے۔ یہ سیاسی گینگ وار بن کر بے دھڑک کرپشن کرتے ہیں‘ کرپشن کو فروغ اور تحفظ دیتے ہیںاور بڑے دھڑلے سے کہتے ہیں ہم اکیلے کرپٹ نہیں ہیں‘ ججز اور جرنیل بھی تو کرپشن کرتے ہیں‘ لیکن جب مارشل لاء لگ جائے تو ٹسوے بہا کر کہتے ہیں کہ دیکھیں جی ایک منتخب جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی۔

اگر یہ کرپشن نہ کریں اور عوام خوشحال ہوں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ فوج ایک سویلین حکومت پر شب خون مارے اور عوام رُوٹھ کر اسے واپس بیرکوں میں نہ بھیج دیں۔ مارشل لاء لگ جانے کے بعد عدم اہلیت سے لتھڑے فسق و فاسد سیاستدانوں سے نالاںعوام سکھ کا سانس بھی لیتے ہیں اور مٹھائیاں بھی بانٹتے ہیں۔ یہ جمہوریت کے رکھوالے جب اقتدار سے باہر ہوتے ہیں تو عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے کڑے احتساب کا نظام لاگو کرنے کے بلندوبانگ دعوے کرتے ہیں۔

وہ شہباز شریف جو ہر جگہ ہر تقریر میں زرداری کو علی بابا چالیس چور کہتا رہا اور اسے سڑکوں پر گھسیٹ کر اس کے پیٹ سے لوٹ مار کا مال برآمد کرنے کی قسمیں کھاتا رہا، جب اقتدار میں آیا تو اسی علی بابا کو رائیونڈ محل میں بلا کر انواع و اقسام کے کھانوں سے اس کی تواضع کی اور نہ صرف زرداری سے بہ نفسِ نفیس معذرت خواہی کی کہ جوش خطابت میں ایسا کہتا رہا ہوں بلکہ ان کی عدم موجودگی میں بھی کئی دفعہ صحافیوں کو کہا کہ بھئی میں زرداری صاحب سے معافی مانگ چکا ہوں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اُدھر اے رحمان ملک نے بھی شریف برادران کی کرپشن کی فائلیں تیار کی ہوئی ہیں۔ اِسے کہتے ہیں کائونٹر پولیٹکس! یہ آئیڈیالوجی صرف جمہوریت کی دین ہے‘ اور کیوں نہ ہو جب جمہوریت سب سے بہترین انتقام ٹھہری۔

اس جمہوریت کے بل پر ان دونوں جماعتوں نے ہی باری باری اقتدار کے مزے لوٹے ہیں اور جم کر مال بنایا ہے‘ اب بھی یہ دونوں ہی اقتدار و اختلاف میں ہیں۔ کیا تعجب ہے کہ چیئرمین نیب بھی ان دونوں پارٹیوں ہی نے باہم متعین کرنا ہے جن کے سابقہ ادوار کا احتساب اسی کے ہاتھوں ہونا ہے‘ تو ظاہر ہے وہ دونوں مشترکہ مشاورت سے ایک ایسے متفقہ امیدوار کو اس سے ڈیل کر کے لگائیں گے جو دونوں جماعتوں کے مصاحبین کے کیسز کو یہی لکھ کر قالین کے نیچے دبا دیگا کہ ’’سیاسی مقدمہ ہونے کی بناء پر اسے زیر التوا رکھا گیا ہے‘‘۔ کیا سیاستدان قانون سے مبرا ہیں؟ کہاں لکھا ہے کہ سیاستدانوں کے کیسز ملتوی کر دیے جائینگے؟ آخر کس قانون کے تحت یہ کیسز ملتوی کیے جاتے رہے ہیں؟

ہمیں تو کم ازکم قانون کی ایسی کوئی شِق نظر نہیں آئی۔ اب وقت ہے کہ سپریم کورٹ اس معاملے کا از خود نوٹس لے اور نیب ایگزیکٹو بورڈ اور چیئرمین نیب کے دستخط شدہ ایسے تمام فیصلے عدالت ِعظمیٰ میں منگوا کر ذمے داران کے خلاف کریمنل ایف آئی آر، امانت میں خیانت، اختیارت کا ناجائز استعمال اور بددیانتی کے پرچے کٹوائے اور ان سے دریافت کرے کہ آپ انکوائری اور تفتیش کی منظوری دینے کے بعد نیب آرڈیننس کی کِس شِق کے تحت التوائیت کے یہ احکامات جاری کرنے کے مجاز تھے؟ اگر نہیں تو آپ کے خلاف نیب قانون کی شِق 9(a)(vi) کی رُو سے دانستہ ناکام ہونے کے الزامات کے تحت نیب تفتیش کی کارروائی کیوں نہ شروع کی جائے؟

دراصل چیئرمین صاحبان کا ’’پینڈ اِٹ‘‘ لکھنا ہی جرم ہے اور یہ ان ہی کی بدیانتی اور تساہلِ مجرمانہ ہے۔ بحیثیت ِمجموعی اسے نیب کے ادارے اور اس کے سسٹم کی ناکامی ہرگزقرار نہیں دیا جا سکتا، جیسا کہ سیاستدان حضرات تاثر دینے کی کوشش میں غرقاب ہیں۔ یہ کہنا بدگمانی نہ ہو گی کہ قومی احتساب بیورو کا قیام عمل میں لایا ہی صرف سیاسی انتقام کے لیے گیا تھا۔ کہنا پڑیگا کہ جس کام کی نیت ہی تخریبی انتقاد پر ہو وہ اصلاحِ احوال کا کردار کیسے بن سکتا ہے۔ نیب کے خالق پرویزمشرف نے میرٹ کے بجائے ایک سیاسی ڈیل کے تحت شریف برادران اینڈ کمپنی کے خلاف جاری نیب کیسز ملتوی کروا دیے تھے۔ بعدازاں ق لیگ میں شامل کیے گئے سیاستدانوں کے کیسز پر بھی اسی طرح نیب کے تفتیشی افسران کی محنت ِ شاقہ اور علم و ہنر استعمال کر کے سیاسی ڈیل کر لی۔

مشرف نے یہی روش بینظیر اور اس کی پارٹی کے سیاستدانوں کے ساتھ بھی اختیار کی اور کرپشن کے کیسز تیار کروا کر ان سب کو شواہد سے ڈرایا اور بالآخر اقتدار کے لالچ میں بدنامِ زمانہ این آر او کا حتمی تیر چلایا جو بقول اس کے اس کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ بالکل اسی طرح آصف زرداری نے بھی مونس الٰہی سے متعلقہ ایک بینک اکائونٹ میںپہنچی ہوئی کرپشن ثمرات کی رقوم کا ثبوت لہرا لہرا کر اپنے خاندانی دشمن چوہدری پرویز الٰہی اینڈ پارٹی کو اپنی حکومت میں زبردستی اگر شامل کیا تھا تو اس کی وجہ بھی نیب قیادت کی بدنیتی تھی جس سے کرپشن کے شواہد حاصل کر کے چوہدری برادران پر بلیک میلنگ کے تحت بارگین کر لی گئی۔

گزشتہ ادوار میں جو ہوا اس سے پوری کہانی واضح ہے کہ نیب کو ہمیشہ برسرِ اقتدار جماعت نے اپنے سیاسی حریفوں کے خلاف ’بلیک میلنگ ٹول‘ کے طور پر استعمال کیا مگر آج دو بڑی پارٹیاں ملکر نیب کا کانٹا ہی اپنی راہ سے صاف کرنے کے درپے نظر آتی ہیں۔ ن لیگ اور پی پی پی نے چارٹر آف ڈیموکریسی کے تحت مفاہمت کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے حالانکہ اپوزیشن کا کام تنقید کرنا اور مخالفت کرنا ہی ہوتا ہے تا کہ جمہوری نظام چلتا رہے‘ جب اپوزیشن ہی حکومت سے مفاہمت کرنے لگ جائے تو پھر وہ جمہوریت بدترین جمہوریت بن جاتی ہے جو ملکوں کا بیڑہ غرق کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔

کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات میں بھی ایک بدترین جمہوریت پاکستان پر مسلط ہے اور بڑے اعلیٰ طریقہ سے ملک کا بیڑہ غرق کیا جا رہا ہے۔ شریف برادران اور ان کے رفقائے کار کے بے بنیاد پروپیگنڈہ کے برعکس احتساب میں ناکامی کے ذمے دار نیب، اس کا نظام اور اس کے تفتیشی افسران نہیں بلکہ خودغرض، بے ایمان اور مصلحت کوش حکمرانوں کے مقررکردہ وہ خوشامدی، مطیع اور حکم بردار چیئرمین نیب صاحبان ہیں جو اپنے ماہرِ فن آجروں کے لیے شاہی گودی کے غلام رہے ہیں۔ ایسا نہیں کہ نیب کے جملہ صدر نشین ہی حاکمین کے اطاعت شعار بنے رہے، جنرل امجد اور جنرل شاہد عزیز نیب کے وہ چیئرمین گزرے ہیں جنھوں نے اُصولوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔

جنرل شاہد عزیز نے پی پی پی کے کرپشن کیسز پر ہاتھ ہلکا رکھنے کے مطالبے پر استعفیٰ دیدیا تھا۔ یہ بات خاصی توجہ طلب ہے کہ ملک میں اگر ان ہی دو سیاسی پارٹیوں نے اقتدار پر قابض رہنا ہے‘ انھوں نے ہی کرپشن کرنی ہے‘ ان ہی کا ہی احتساب ہونا ہے اور انھوں نے ہی چیئرمین نیب کا انتخاب کرنا ہے تو یہ سب سے بڑا قانونی، سیاسی اور فکری تضاد ہے۔ ہمارے خیال میں جب تک ان کے مفادات مشترکہ رہیں گے‘ احتساب کا فقدان اور نظامِ احتساب دِگرگوںہی رہیگا جب کہ یہ دونوں فریقین احتساب کے نظام کی غیرمؤثریت اور ناکامیوں کا جھوٹا پروپیگنڈہ کرتے اور ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچاتے رہیں گے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ملک کی دو طاقتور حقیقتیں ’سپریم کورٹ کا فل بنچ‘ اور ’کورکمانڈرز کا اجلاس‘ باہمی طور پر ملک کے تجربہ کار اور جہاندیدہ و آزمودہ ججوں، جرنیلوں اور بیوروکریٹوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر متفقہ طور پر چیئرمین نیب کا تعین کر کے اسے مکمل توثیق اور حمایت وتائید فراہم نہیں کریں گے، احتساب کا ادارہ اپنے پیروں پر جم کر کھڑا نہیں ہو پائیگا۔ پاکستان میں وہی چیئرمین نیب کڑے احتساب کا نظام کامیاب بنا سکتا ہے جو اللہ کا بندہ، نبی کریمﷺ کا غلام اور خلفائے راشدینؓ کا سچا پیروکار ہو۔ ہماری فہم کے مطابق ایک غیرجانبدار اور دیانتدار چیئرمین کی زندگی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اس لیے اسے تاحیات اضافی مراعات اور بلٹ پروف گاڑی ملنی چاہیے اور اس کی سکیورٹی ایک سینئر کورکمانڈر کی سکیورٹی کے برابر ہونی چاہیے۔

موجودہ چیئرمین نیب اگرچہ بڑے دبنگ اور قابل بیوروکریٹ ہیں لیکن پھر بھی جن دو پارٹیوں نے ان کو مشاورت سے چیئرمین نیب مقرر کیا، چند ماہ پہلے تک وہ انہیں خوش کرنے کے لیے ان ہی کے اشاروں پر ناچ رہے تھے اور حسبِ حال اپنے سابقہ پیش رئووں کی طرح ہی سیاسی مقدمات کو ’سیاسی‘ قرار دیکر ملتوی کیے ہوئے ڈنگ ٹپائو پالیسی پر عمل پیرا تھے کہ اچانک ایک صحافی اسد کھرل اٹھ کر میدانِ عمل میں آ گیا جس نے نیب کی بے حسی پر سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو سپریم کورٹ نے نیب سے اُن میگا کرپشن کیسز کی فہرست مانگ لی جن کی میعادیں، انکوائریاں اور تفتیشیں منظور کرنے کی تاریخیں دیکھ کر عدل گستری کے اوسان خطا ہو گئے کہ بھئی یہ کیا مذاق ہے کہ اتنے اتنے سالوں سے کیسز ہنوز زیرتکمیل اور زیرتفتیش پڑے ہیں۔

اس پر سیاستدانوں نے یہ کہنے کے بجائے کہ ’یہ سب تو ہم سب نے باہمی سازباز سے تاخیری حربے آزما کر سردخانے میں ڈلوا رکھے ہیں، اُلٹا یہ کہنا شروع کر دیا کہ جناب دیکھیں‘ یہ تونیب کی نااہلی ہے۔ پھرجب سپریم کورٹ نے ان کیسز کی تکمیل کرنے کے احکامات جاری کر دیے تو چیئرمین نیب قمرزمان چوہدری کو ان کیسز کی انکوائری و تفتیش کروانا پڑ گئی جس پر حکمرانوں نے انہیں دُشمنِ جاں تصور کر لیا اور ان کے خلاف صریحاً غداری کا فتویٰ صادر کر دیا اور نیب کے بارے میں وسیع پیمانے پر اپنی پسند کا پروپیگنڈہ بھی شروع کر دیا جو تاحال جاری ہے۔

سپریم کورٹ کی اسی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کا سب سے بڑا معاشی چھل کپٹ ’ایم سی بی پرائیویٹائزیشن فراڈ کیس‘ بھی منظرعام پر آ گیا‘ جو کہ بادی النظر میں 100 بلین روپے کا فراڈ ہے۔ ایم سی بی کے حصص اتفاق سے موجودہ گورنمنٹ نے ہی پرائیویٹائزیشن کی آڑ میں اونے پونے داموں میں فروخت کر دیے تھے۔ اتنے بڑے بینک کو ایک بینکار خریدار نے ایک دھیلا لگائے بغیر بینک کے سرمائے سے ہی خرید لیا تھا۔ توکل گروپ کی بولی سب سے زیادہ تھی مگر سرکاری اتحاد و تعاون سے اس کی بولی کو میرٹ کے برعکس رَد کروا دیا گیا۔

خریدار بینکار نے ساز باز کر کے بینک گارنٹیاں بھی جعلی دیدیں جن کے فراڈ کے دستاویزی شواہد بھی دستیاب ہیں۔ صرف ایم سی بی کی بلڈنگ اور پلاٹ کی قیمت بھی لگائی جائے تو صرف ان کے دسویں حصے میں وہ بینک بیچ دیا گیا اور وہ بھی ادھار پر۔ اس سازباز اور اعانت ِجرم کے سرکار کی جانب سے جو کلیدی حصہ دار تھے وہی اب بھی مسند ِحکومت پر بڑے طمطراق سے براجمان ہیں۔ اس معاملہ پر سپریم کورٹ کے حکم کے تحت آزادانہ تفتیش ہو جانے سے حکمران طبقہ کے راز و نیاز طشت ازبام ہو جانے کا قوی احتمال ہے اس لیے نیب کی راہ میں روڑے اَٹکا کر اس کی پرواز معطل کرنے کی سعیِ لاحاصل کی جا رہی ہے۔
(جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔