سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی دبئی روانگی

نسیم انجم  اتوار 27 مارچ 2016
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

مصحفی نے کیا خوب کہا ہے:

بلبل نے آشیانہ چمن سے اٹھالیا
پھر اس چمن میں بوم بسے یا ہما رہے

سابق صدر پرویزمشرف چلے گئے، لیکن انھوں نے اس شہر کے برعکس اپنے وطن سے بیگانگی کا ثبوت نہیں دیا، وہ صاف لفظوں میں کہہ گئے کہ وہ ڈاکٹروں کی اجازت سے طبیعت بہتر ہونے کے بعد اپنے پیارے وطن پاکستان ضرور آئیں گے، ان کا خیال ہے کہ وہ کردار کے غازی ہیں انھوں نے ملک کو کسی قسم کا نقصان ہرگز نہیں پہنچایا ہے لہٰذا انھیں غدار نہیں کہا جاسکتا ہے، غلطیاں مجھ سے بھی ہوئی ہیں، اس طرح کے بیانات وہ بارہا دیتے رہے ہیں، انھوں نے جو کچھ کہا درست ہے۔

انھوں نے این آر او جیسے قانون بنانے پر شرمندگی کا بھی اظہارکیا اس کے ساتھ کچھ غلطیوں کو انھوں نے سرے سے تسلیم کرنے سے ہی انکارکردیا، میڈیا کی بے جا آزادی بھی ان ہی کی مرہون منت ہے، جسے انھوں نے روشن پاکستان بنانے سے تعبیرکیا تھا اور بھی غلطیاں یا مصلحت پسندی کے ثمرات یا نقصانات ان کے کھاتے میں ڈالے گئے، سالہا سال اسپتال میں علاج کروانے اور وقت گزارنے کے بعد آخر وہ بغرض علاج دبئی سدھارگئے، ان کے جانے کے بعد اپوزیشن جماعتوں اور ان کے مخالفین کی الزام تراشیاں اور آہ و زاری مختلف شکلوں میں سامنے آتی رہیں۔ لیکن بقول اقبال کے کسی نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت گوارا نہ کی۔

تجھے کیوں فکر ہے‘ اے گل دلِ صد چاک بلبل کی
تُو اپنے پیراہن کے چاک تو پہلے رفوکرلے

بات تو ٹھیک ہی ہے، ہر دورکا ہر حکمران کسی نہ کسی کرپشن میں ضرور مبتلا رہا ہے اور پھر سب سے بڑا سانحہ تو پاکستان کا دولخت ہوجانا یہ داغ بھی سابقہ حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشی اور ہوس اقتدار کی ہی بدولت ملا، ظالموں نے پاکستان کا ایک بازو ہی کاٹ ڈالا۔ جنرل یحییٰ خان کے کارنامے کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں، اسی طرح سابقہ و موجودہ حکومتوں میں بھی مفاد پرستی، دولت کی ہوس اور تعیشات زندگی عروج پر رہی ہے۔ قومی املاک کی تباہی و بربادی، اداروں کی نجکاری اور قرضوں کی بہتات نے پاکستان کو کمزور ترین کردیا ہے اور ملک کا وقار مجروح ہوا ہے۔

اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ روپے پیسے کے حصول اور دولت کی طمع نے صاحب اقتدار سے وہ کام بھی کروادیا جو چھوٹے چوروں کا ہوتا ہے وہ گلی محلے سے بجلی کے تار، مین ہول کے ڈھکن ، سرکاری نلوں کی ٹوٹیاں، پائپ بڑی آسانی سے چرا لیتے ہیں،گلی کوچوں، سڑکوں، راستوں اور بازاروں میں گھس کر چھوٹی موٹی واردات کرتے رہتے ہیں پکڑے جاتے ہیں اور چھوٹ جاتے ہیں لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے کہ شہرکراچی کے بجلی کے تاروں کو اتار کر المونیم یا سلور کے تار لگوا دیے گئے، کوپر کے تاروں سے پیسے کھرے کرلیے۔ یقینی بات ہے کروڑوں کا مال بنالیا، تو یہ ہمارے ملک کے صاحب اقتدار اپنے اخبارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے چھوٹی حرکت کرنے سے بھی باز نہیں آتے ہیں۔

اسی حکومت کے سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو ایف آئی اے نے نوٹس جاری کیا تھا کہ وہ ترک خاتون اول کا چرایا ہوا ہار واپس کریں۔ ترک خاتون اول نے اپنے گلے کا ہار سیلاب متاثرین کو امداد کے طور پر دیا تھا، وہی ہار جب مسزگیلانی کی گردن میں چمکتا نظر آتا ہے تب وہ بھی خاموشی اختیار نہیں کرتی ہیں بلکہ حکمت عملی کے تحت اپنا ہار واپس مانگ لیتی ہیں، تاکہ امانت میں خیانت کرنے والوں کو شرم آئے، لیکن صاحب شرم نہیں آتی۔ توکیا ان جرائم کی کوئی سزا نہیں ہے؟

اس ملک کے حکمران قومی خزانے کو اپنا ذاتی مال سمجھ کر بیرون ملک کے دوروں پر دورے کرتے ہیں، عوام کی ناتواں جانوں پر ٹیکس کا بھاری بوجھ ڈال دیتے ہیں۔ بے شمار معصوم لوگوں کا محض اقتدار کو بچانے کے لیے خون کردیتے ہیں۔ اس جرم کی کوئی سزا نہیں ۔ بڑے بڑے مجرموں کی پشت پناہی آج بھی جاری ہے بے شمار لوگ ملک سے فرار ہوچکے ہیں اور انصاف کی دھجیاں اس طرح بکھیری جاتی ہیں، جس طرح گلاب پاشی کی جاتی ہے، قدآور شخصیات کے استقبال پر پھولوں کی پتیاں نچھاورکی جاتی ہیں، بالکل اسی طرح قانون شکنی کرنے والوں کو عزت ومرتبے سے نوازا جاتا ہے۔ ان کی کوئی پکڑ نہیں۔

بے شک تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے کبھی کوئی جلا وطن ہوتا ہے یا اپنے ملک سے اپنے تحفظ کے لیے کوچ کرجاتا ہے توکبھی دوسرے پر ایسا برا وقت بھی آتا ہے، جب اپنے وطن کی قدر کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ شاید اسی موقعے کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے شاعر نے یہ اشعار تخلیق کیے :

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے

فیض نے ایسے ہی حالات کے تحت شاید یہ شعرکہا ہوگا۔ یہ بات اہل ادب اچھی طرح جانتے ہیں کہ فیض کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور قیدوبند کی صعوبتیں جھیلنا پڑی تھیں۔

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

پرویز مشرف کے دور حکومت کے کارنامے بھی زیادہ اور نمایاں ہیں بہ نسبت دوسرے حکمرانوں کی بدعنوانی اور ملک میں انارکی پھیلانے کے حوالے سے ۔

سابق صدر پرویز مشرف نے اپنے ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے ہمیشہ مثبت اقدام کیے، آگرہ مذاکرات کو ہی لے لیجیے کہ ان کی کوششوں اور دانش مندی کے نتیجے میں مذاکرات کی ابتدا ہوئی اور اس کی انتہا بھی کامیابی کی ہی صورت میں ہوتی لیکن جب بھارت اپنے قول و فعل سے مکرتا نہیں اور بی جے پی آئی کے مشوروں یا دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتا تو شاید آج صورتحال کچھ اور ہوتی۔

12 جنوری 2002 کا دن بھی پرویز مشرف کے حوالے سے اہم ہے چونکہ بھارت کی سازش اور امریکا کی اپنے آپ کو برتر ثابت کرنے کی کوشش 11 ستمبر 2011 کا ہی پیش خیمہ تھی جب امریکا نے دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا۔ اس طرح بھارت کو ایک موقع ہاتھ آگیا کہ بھارتی پارلیمنٹ پر حملے کا الزام پاکستان پر لگا کر اعلان جنگ کردے اور اپنی فوجیں سرحد پر لے آئے ان سنگین حالات میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کھٹمنڈو میں ہونے والی سارک کانفرنس پہنچے اور انھوں نے بیس دنوں پر مشتمل بھارتی جنگی جنون کو اپنی ایک تقریر اور بھارتی وزیر اعظم سے مصافحہ کرکے روک دیا۔

غرض اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں بخل اور تنگ نظری سے کام لینا عقلمندی نہیں ہے۔ جب پرویز مشرف وزیر اعظم نواز شریف کے معاملے میں لچک دکھا سکتے ہیں تو مصلحت پسندی کے تقاضے کے تحت حکومت بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرنے میں آزاد ہے۔ پاکستان کے حق میں یہی بہتر تھا، ہر موقعے پر ہٹ دھرمی دکھانا مناسب نہیں، چونکہ کوئی بھی ذمے دار شخص مخلص اور محب وطن نہیں ہے بہت کم لوگ ہیں جو وطن سے محبت کرتے ہیں اور اس کی سالمیت کے لیے کام کرتے ہیں ۔ ٹیکسوں کی بھرمار اور مہنگائی کے جن نے پاکستانی عوام کو زندہ سلامت نگل لیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔